جناب حامد کمال الدین کے ایک مضمون سے اقتباس۔ جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل قاضی صاحب کے متعلق ایک اعتراض کے جواب میں لکھا تھا۔
"
1979 میں میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا جب اس خطے کا ایک عظیم ترین سانحہ ہوا، یعنی یو ایس ایس آر کے سرخ ریچھ کا راتوں رات افغانستان نامی ایک اذانوں کے دیس کو ہڑپ کرجانا۔ افغان مجاہدین کو افغانستان کے محاذ سے ہی کیونکر فرصت ملتی۔ اَسی کی دہائی کے وہ ابتدائی سال میں نے جس طرح اِس بوڑھے آدمی کو، جو اُس وقت جوان تھا، افغان جہاد کےلیے صبح شام ایک کرتے دیکھا، اور پورے عالم اسلام کو اس جہاد کی پشت پر لانے کیلئے مسلسل مصروف اور عازمِ سفر دیکھا (پاکستان کے دینی طبقوں کو دنوں کے اندر اٹھاکھڑا کرنا ہی کوئی آسان کام نہ تھا، جبکہ جہاد ایک بھولابسرا سبق ہوچکا تھا) وہ ناقابل یقین ہے۔ بےشک اس عمل کو تھوڑی دیر میں ایک اور شہسوار مل گیا اور جسے ہم عبداللہ عزامؒ کے نام سے جانتے ہیں، مگر اس عمل میں قاضی حسین احمد کی سبقت ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس شخص کے دامن میں کوئی اور نیکی نہیں، اور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دامن برائیوں سے پاک ہے، لیکن یہ ایک ہی واقعہ، یعنی اَسی کی دہائی کے وہ کئی سال جب جہادِافغانستان کےلیے یہ شخص ملک کا چپہ چپہ پھر رہا تھا، اور جب وقت کی عظیم ترین پراپیگنڈہ مشینری (ترقی پسند) اس کو ’سی آئی اے کا جہاد‘ کہہ رہی تھی یہاں تک کہ ہمارے بہت سے مخلص دیندار طبقے یا تو اسی پراپیگنڈے کا شکار تھے، یا پھر ویسے ہی بےخبر، اور یہ ماننا تو کسی کےلیے بھی آسان نہ تھا کہ یہ نہتے افغان اپنی ٹوٹی پھوٹی توڑے دار بندوقوں سے کام لے کر دنیا کی ایک سپر پاور کو شکست دےڈالیں گے، (غرض اُس وقت کا تصور بھی آج کے بہت سے لوگوں کےلیے مشکل ہے)، یہ ایک ہی واقعہ کہ جب یہ شخص عالم اسلام میں جگہ جگہ آوازیں لگاتا پھر رہا تھا، میرے لیے کافی ہے کہ میں شہادت دوں اس شخص نے بلاشبہ ایک کڑے وقت میں امت کی راہ نمائی کی ہے۔ " ولانزکّی علی اللہ احداً۔