اس کا مطلب ہے اگلی باری کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اگر پاکستان کے ايک سابق صدر کا واشنگٹن کا دورہ ہی کچھ تجزيہ نگاروں اور رائے دہندگان کو يہ يقین دلانے کے ليے کافی ہے کہ امريکی حکام پاکستانی سياست دانوں پر مبينہ طور پر بے پناہ اثر رکھتے ہيں تو پھر اس بات کی کيا توجيہہ پيش کی جا سکتی ہے کہ سلالہ کے واقعے کے بعد کئ ماہ تک سينير ترين امريکی حکام اور سفارت کاروں کے بے شمار دورے اور ملاقاتيں بے اثر ثابت ہوئيں اور تمام تر امريکی سياسی اور سفارتی کاوشوں کے باوجود ہم پاکستانی حکام کو نيٹو سپلائ کی بحالی کے ليے رضامند نہيں کر سکے؟
يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بعض جذباتی رائے دہندگان جو تواتر کے ساتھ صدر مشرف کے مارشل لاء کی حمايت کے ضمن ميں ہميں مورد الزام قرار ديتے ہيں، وہی اس سوچ کو بھی تسليم کرنے ميں کوئ عار محسوس نہيں کرتے کہ ہم پاکستانی سياست دانوں کو ملک ميں کسی نئے مارشل لاء سے بچانے کی يقین دہانی کرواتے رہے ہيں۔ بحث کی حد تک اگر يہ دليل تسليم کر لی جائے کہ ايک آمر کے برسر اقتدار رہنے سے کسی بھی طور ہمارے مفادات کو تقويت ملتی ہے تو پھر ہم پاکستانی سياست دانوں کو کيونکر اس نظام کے برخلاف يقين دہانيوں کے ساتھ ساتھ حمايت اور تعاون فراہم کريں گے؟
ايسے تخلياتی اور بے سروپا نظريات کوکسی بھی طور حقيقت سے قريب لانے کے ليے آپ کو ان دو متضاد نظريات ميں سے کسی ايک تو رد کرنا ہی پڑے گا۔ يہ نہيں ہو سکتا کہ آپ بيک وقت ہميں مارشل لاء کی حمايت کا بھی طعنہ ديں اور پھر يہ الزام بھی دھريں کہ ہم جمہوريت کے ليے سياست دانوں کی پشت پنائ بھی کر رہے ہيں۔
کچھ رائے دہندگان کا يہ وطيرہ بن چکا ہے کہ پاکستان ميں ہر سياسی منظر نامے ميں مبينہ امريکی دخل اندازی کو اجاگر کرتے رہتے ہيں۔ حالانکہ حقيقت يہ ہے کہ پاکستانی ميں غير ملکی مداخلت کے حوالے سے جو تاثر پھيلايا جاتا ہے اس کا اگر باريک بينی سے تجزيہ کيا جائے تو يہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی سياست ميں کبھی بھی کسی ايک قوت نے ايسی يکطرفہ برتری حاصل نہيں کی ہے جسے کسی مبينہ خفيہ بيرونی ہاتھ کی جانب سے کنٹرول کيا جا سکے۔ بلکہ موجودہ صوبائ اور وفاقی حکومتی خدوخال ميں يہ انوکھی صورت حال سامنے آئ کہ قريب تمام ہی اہم سياسی جماعتيں رياست کے امور چلانے کے ليے اقتدار ميں شريک ہيں۔
بہت زيادہ تخلياتی سوچ رکھنا والا سازش پسند ذہن بھی يہ دعوی نہيں کر سکتا کوئ ايسی قوت اچانک ہی سياسی افق پر نمودار ہو کر اس طرح اقتدار کے ايوانوں تک رسائ حاصل کرنے ميں کامياب ہو گئ جس کی عوام ميں کوئ پہچان، مقبوليت يا جڑيں ہی موجود نہيں تھيں۔ بلکہ پاکستانی سياست ميں کبھی بھی کوئ ايسی بظاہر گمنام اور انجان سياسی جماعت اپنی جگہ نہيں بنا سکی جس کے وجود کی توجيہہ پيش کرنے کے ليے رائے دہندگان کی جانب سے سازشی کہانيوں کا سہارا ليا جائے۔
دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی پاليسياں بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں انھی پاليسيوں کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں بشمول سابقہ عہديداروں سے ملاقاتيں اسی معمول اور تسلسل کا حصہ ہيں۔ درجنوں ممالک کے سفارت کار اور سينير اہلکار پاکستانی افسران سے مسلسل رابطے ميں رہتے ہيں۔ اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کے انتظامی معاملات ميں دخل اندازی کر رہا ہے اور مختلف فيصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان ميں ايک مضبوط حکومتی ڈھانچہ خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ ليکن اس ضمن ميں کيے جانے والے فيصلے بہرحال پاکستان کے حکمران سياست دانوں کی ذمہ داری ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ کی اس خطے ميں پاکستان سميت کئ ممالک ميں دلچسپی ہے اور يقينی ہے۔ اس حقيقت سے کسی کو انکار نہيں ہے۔ ليکن اس کا محور پاکستان کے سرحدی علاقوں اور سرحد پار افغانستان ميں منظم وہ دہشت گرد تنظيميں ہيں جو امريکہ سميت عالمی برداری کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر چکی ہيں اور ان کے وبال سے پاکستان کے شہری علاقے بھی محفوظ نہيں۔ اس مشترکہ دشمن کے خاتمے کے ليے حکومت پاکستان کے توسط سے ايک مضبوط محاذ کا قيام امريکہ کی اولين ترجيح ہے۔ ايسا صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب ايک مضبوط اور مستحکم جمہوری پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کو فروغ ديا جا سکے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu