محسن وقار علی
محفلین
اسلام آباد…سابق صدر پرویز مشرف کو گرفتار کرلیا گیا۔سابق صدر کی گرفتار آج صبح عمل میں آئی۔گذشتہ روزاسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ججز نظر بندی کیس میں عبوری ضمانت خارج کرتے ہوئے سابق صدرپرویز مشرف کی گرفتاری کا حکم جاری کیا تھا۔ ایس ایس پی آپریشن یاسین فاروق، ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ سمیت پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں پرویز مشرف رینجرز کے حصار میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ دریں اثناء اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت منسوخ ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے سابق صدر کے عدالت سے فرار ہونے کا نوٹس لیا۔ عدالت نے کہا کہ رجسٹرار نوٹ کے مطابق پرویز مشرف کو فرار ہونے میں ذاتی محافظوں نے مدد دی۔ عدالت سے فرار ہونا ایک الگ جرم ہے عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بتائیں انہوں نے پرویز مشرف کی گرفتاری کیلئے کیا اقدامات کئے۔ جمعرات کو سماعت کے موقع پر پرویز مشرف کے وکیل قمر افضل ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ میرے موکل نے ججوں کی گرفتاری یا انہیں نظر بند کرنے کا ذاتی طور پر حکم نہیں دیا بلکہ یہ انتظامیہ کا اقدام تھا جو وزیر اعظم اور کابینہ کی سفارش پر اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ججز کو گھروں میں نظر بند نہیں کیا گیا بلکہ خار دار تاریں لگا کر انہیں سیکورٹی فراہم کی گئی تھی۔تھانہ سیکریٹریٹ پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کے حکم پر 11 اگست 2009ء کو پرویز مشرف کیخلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ مدعی مقدمہ چوہدری محمد اسلم گھمن کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 3 نومبر 2007ء کے پرویز مشرف کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کی وجہ سے پاکستان کا عدالتی نظام تباہ ہوا جس سے نہ صرف وکلاء برادری اور عوام الناس کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی بھی بدنامی ہوئی۔ ایف آئی آر کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007ء کو غیر قانونی، غیر اخلاقی پی سی او کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 60 ججوں کو معزول کر کے انہیں گھروں میں نظر بند کر دیا اور انہیں ساڑھے پانچ ماہ تک حبس بے جا میں رکھا گیا۔ لہٰذا پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کر کے ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ بعد ازاں عدالت میں پیش نہ ہونے پر سول جج اسلام آباد محمد عباس شاہ نے 18 دسمبر 2012ء کو پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیدیا تھا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ