وہاب اعجاز خان
محفلین
بیگم اختر ریاض الدین” سات سمندر پار“
محمود نظامی نے نئے سفر نامے کے لئے جو راہیں کھولیں ان پر سب سے پہلے بیگم اختر ریاض الدین نے قدم رکھا ۔ اردو ادب میں خواتین لکھاریوں کی شروع ہی سے کمی رہی ہے۔ سفر نامے میں یہ تعداد قلیل ہے۔ نازلی رفیہ سلطانہ بیگم کا سفر نامہ”سر یورپ“ اوررفیہ فیضی ” کا زمانہ تحصیل “ ایسے ابتدائی سفر نامے ہیں جو ان خطوط پر مشتمل ہیں جو انھوں نے سفر کے دوران اپنے عزیزوں کو لکھے ۔ چنانچہ ان سفر ناموں کو سفرنامنے کی ایک تکنیک تو کہا جا سکتا ہے لیکن مکمل سفر نامے نہیں کھلائے جا سکتے ۔ ایسی قلت کے دور میں بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ” سات سمندر پار “ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔
بیگم صاحبہ 15 اکتوبر 1928کو کلکتہ میں پیداہوئی ۔ ٩٤٩١ ءمیں لاہور سے بی ۔ اے کیا ۔ اور 1951ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی میں انہوں نے تدریسی شعبے کا انتخاب کیا وہ انگریزی روزنامچہ ”پاکستان ٹائمز “ کی باقاعدہ لکھاری رہی ہیں۔ لیکن مولانا صلاح الدین کے بے حد اصرار پر اردو میں بھی طبع آزمائی کی جو بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ مولانا کی فرمائش اور اصرار پر ہی انہوں نے 1963ءمیں ”ٹوکیو“، ”ماسکو“، ” لینن گراڈ“ ، ”قاہرہ“ ، ” نیپلز“ ، ”لندن“ اور ”نیویارک“ کے سفر پر مبنی پہلا سفر نامہ ، ”سات سمندر پار“ کے نا م سے لکھا ۔ ان کا دوسرا سفر نامہ ”دھنک پر قدم “ ہے جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بیگم صاحبہ کا شمار ان گنے چنے سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہیں فطرت کے حسن کوکاغذ پر اتارنے کا فن آتا ہے ۔ ان کے سفر ناموں مےں نشونما، رنگینی ، اور لطافت کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ آئیے ”سات سمندر پار“ کے حوالے سے اُن کے کام کا جائزہ لیتے ہیں۔
سچاسیاح:
ان کا سفر نامہ ”سات سمندر پار“ کو دلکش اسلوب او ر زبان و بیان کی فنی خوبیوں کا مرقع کہا جاتا ہے ایک خاتون ہونے کے ناطے انھیں ایک سچے سیاح کی خوبیوں کا مرقع کہا جاتا ہے۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ ایک سچے سیاح کی خوبیوں سے مزیں ہیں اور انھوں نے یہ سفر اپنے شوہر کے ساتھ کیا ہے ان کے شوہر کو فرائض منصبی کے سلسلے میں ملک سے باہر جانے کا موقع ملا تو بیگم صاحبہ کو بھی ساتھ لے گئے ۔ لیکن جہاں گھومنے پھرنے اور قیام کرنے کا موقع ملا انھوں نے ایک سچے سیاح کی نظر سے ان مناظر کو دیکھا ۔ اگر ہر نئے منظر کو دیکھنے کا اشتیاق اور خوشی اور حیرت کا اندازہ لگایاجائے تو وہ بچوں جیسی معصومیت کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بیگم صاحبہ نے دنیا کو ایک غیر جانبدار کی نظر سے دیکھا ہے اور اس معصومیت کو جگایا ہے جو فطرت کا حصہ ہے ۔ انھوں نے دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھ کر دیکھا اور اس پر ایک شوخ سا تاثر ثبت کیا۔ محمود نظامی منظر سے متاثر ہو کر تاریخ بیان کرنے لگتے ہیں ۔ جبکہ بیگم صاحبہ منظر اور تاریخ دونوں پراپنی بے تکلفی اور بے ساختگی سے فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
انگریزی صحافت سے استفادہ:۔
کسی انسان کے لئے یہ تصور نہایت خوشگوار ہوتا ہے کہ ساری کائنات اور اس کی دلکشی اس کے لئے بنی ہے ۔ سورج بالخصوص اسکے لئے ہے ۔ بارش اس کے لئے برستی ہے ۔ چرند پرند، رنگ اور خوشبوئیں اس کے لئے بنائے گئے ہیں۔ بیگم صاحبہ بھی ہر منظر کے لئے اُس کے منظر میں اس طرح کھو جاتی ہیں کہ قاری کو یہ احساس ہوتاہے کہ اگر یہ منظر سامنے نہ آتا تو زندگی ادھوری تھی۔ اس طرح وہ سارے سفر نامے میں مسرتیں بانٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ انگریزی صحافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اسلوب میں مزاح اور روانی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ وہ منظر پر جامد نظر نہیں ڈالتی بلکہ اُسے تخلیق کی آنکھ سے دیکھ لیتی ہے۔ چنا نچہ انہوں نے فطرت کے حسن کو شاعری کے قلم سے کاغذ پر اتارا ہے۔ ان کے شوخ رنگ قاری پر جادو کر دیتے ہیں۔
نسوانیت کا اثر:۔
مرد سفر نامہ نگار منظر کی کی قوس و قزح بکھیرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جبکہ بیگم صاحبہ چھوٹی چھوٹی جزئیات کو چنتی ہیں۔ اور ایسی تصویریں مرتب کرتی ہیں کہ پورا منظر متحرک ہو کر سامنے آجاتاہے۔ ان کی نسوانیت کا ایک دوسرا نداز اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ انھوں نے صرف تھیٹروں ، عجائب خانوں اور تاریخی مقامات کو اہمیت نہیں دی بلکہ ایک خاتون ہونے کے انہیں ہوٹلوں ، ذاتی گھروں اور باورچی خانوں تک رسائی حاصل ہے اس طرح وہ تمام باتیں جنہیں مرد سفر نامہ نگار غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ا ن کی تفصیل اس سفر نامے کا حصہ ہے وہ جس خوبصورتی سے غیر ملکی کھانوں کو متعارف کراتی ہیں اس کا ہلکا سا پرتو بھی مرد سفر نامہ نگاروں کے ہاں نہیں ملتا۔ایک روسی پکوان کا ذکر یوں کرتی ہیں۔
” پیروشکی ایک باریک پرت دار کی طرح سموسے کی طرح ہوتی ہے جس میں قیمہ یا چاول یا سیب کا قوام بھرا جاتا ہے ہونٹوں کی ہلکی سی جنبش سے ٹوٹ جاتی ہے اور جتنی بھی کھا ڈالو پیٹ میں رسید بھی نہیں ملتی۔“
دلچسپ بات یہ ہے کہ بےگم صاحبہ نے تشبیہات کے لئے بھی نسوانی انداز کو اہمیت دی اور اپنایا ۔ ان کی زبان و بیان کی خاص خوبی یہی تشبیہات ہیں مثلاً
”وہ اس گنجان جزیر ے میں جہاں انسان اچار کی طرح ڈبوں میں بند ہے۔“
” ان ساحلوں کی ٹھنڈی عنبرین ریت گیلے بدن پر یوں پھسلتی تھی جیسے ٹیلکم پاوڈر۔“
لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہیں کہ بیگم صاحبہ نے محض گھرداری اور امور خانہ داری کو اہمیت دی ہے یہ تو ان کے مشاہدے کی ایک اضافی جہت ہے حقیقت یہ ہے کہ انگریزی ادب کی تدریس اور صحافت کے عملی تجربے نے ان کے ذہنی افق کو نہایت وسعت دی ہے۔ ان کے سفر ناموں میں تاریخ ، تہذیب و معاشرت اور سیاست کے موضوعات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
سماجی زندگی:۔
بیگم صاحبہ نے بھی محمود نظامی کی طرح اپنی پسند کے تین شہروں ٹوکیو، ماسکو، اور لینن گراڈ پر خصوصی توجہ دی ہے۔ جاپانی لوگوں کی نفسیات ان کی رسومات آداب ، ان کے تعلیمی اور انتظامی اداروں اور ان کے قومی و سماجی زندگی کے حالات پر وہ باتوں ہی باتوں میں دلچسپ تذکرہ پیش کردیتی ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی طبیعت باتونی ہے ۔ اور وہ اپنی باتوں سے نہ صرف قار ی کو محضوظ کرتی ہے بلکہ اُسے اپنی بھر پور رفاقت کا احساس دلاتی ہے۔ اس سفر نامے میں عوامی زندگی اور اُس سے جڑے ہوئے مسائل کم ملتے ہیں زیادہ تر بیگم صاحبہ نے اعلی طبقے کی نمائندگی کی ہے عوامی طبقے کی ایک ہلکی سی جھلک جو اس سفر نامے میں شامل ہے اور ٹوکیو کا حصہ ہے قاری کو افسردہ کر دیتی ہے ۔ بیگم صاحبہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ،
” جاپان کی سڑکوں پر ایسے مزدوروں کی کمی نہیںجو صبح سویر ے سرمایہ داروں کے پاس اپنی کوئی چیز گروی رکھ کر رقم ادھار لیتے ہیں۔ بعض مزدور ایسے بھی ہیں جن کے پاس اپنے اُبلے ہوئے چاولوں کے علاوہ گروی رکھنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔“
عام زندگی کی یہ مختصر سی جھلک بیگم صاحبہ کے درد مند شعور کی عکاس ہے۔
الفاظ پر گرفت:۔
بیگم صاحبہ کو اسلوب اور الفاظ پر گرفت حاصل ہے ۔ وہ لفظوں سے کھیلنا جانتی ہے اس طرح لاشعور ی طور پر خوبصورت ، موزوں اور بر محل تشبیہات خود بخود ان کی تحریر کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سےشعوری کوشش کااحساس نہیں ہوتا ۔ سفر نامے کا ابتدائی حصہ جو جاپان کی سیاحت پر مبنی ہے ۔ اس حصے میں ان کی یہ صلاحیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ چند مثالیں باآسانی پیش کی جا سکتی ہیں۔
”لمبی تان کر اُٹھی تو سورج دیوتا کمرے میں اور میرا دیوتا کمرے کے باہر۔“
”وہ بولتی کےا ہے کہ منہ سے رس ٹپکتا ہے اور ہمارے مردوں کے منہ سے پانی۔“
”جب کسی عورت کی ہم بد صورت کہنا نہیں چاہتے تو یہی کہہ دیتے ہیں کہ اسکی شکل اللہ میاں نے بنائی ہوئی ہے ٹوکیو کی شکل بھی اللہ میاں کی بنائی ہوئی ہے۔
دلچسپ جملے:۔
دلچسپ جملے چست کرنا ان کامحبوب مشغلہ ہے لیکن ایسا کرتے وقت ان کے لہجے میں طنز یا تضحیک کا شائبہ بھی نہیں ملتا ۔ روس کے سفر کے دوران مختلف مشروبات کا ذکر کرتے ہوئے شکر ادا کرتی ہے کہ روس میں ”کوک“ نہیں پیا جاتا ان کا خیال ہے مشرق و مغرب میں کوک ایسی متعدی بیماری کی طرح پھیل گئی ہے کہ سارے ملک اس رشتے میں بندھے ہوئے نظرآتے ہیں اس ضمن میں ان کا ایک جملہ نہایت رواں بھی ہے اور مزاح کے پردے میں شائستہ طنز کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں،
”یو۔ این ۔ او سے زیادہ اس نے دنیا کو متحد کیا ہے۔“
مشرق کی نمائندگی:۔
بیگم صاحبہ ہر جگہ مشرق کی نمائندہ رہی ہے مشرقی معاشرے کا ایک المیہ جنریشن گیپ بھی ہے اگرچہ ہمارے ہاں یہ مسئلہ اتنی شدت سے موجود نہیں لیکن جاپان میں شدت اختیار کرچکا ہے وہاں خاندان کا اجتماعی تصور ختم ہو تا جا رہا ہے بیگم صاحبہ نے اس تجزیے کو اپنے گہرے مشاہدے کے ذریعے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں۔
وہاں معاشرے میں ایک خلیج بہت عمیق ہے اور وہ ہے قدامت پسند بزرگوں اور نئی نسل کے درمیان، بزرگ بچوں کو بربری وحشی کہتے ہیں ۔ بچے بزرگوں کو زندہ لاشیں سمجھتے ہیں ۔ درمیانی نسل نے جو کچھ بزرگوں سے سیکھا ایک دم بھلانا پڑا سیکھا کچھ تھا سکھانا کچھ پڑا۔
خامیاں:۔
اس سفر نامے کے وہ حصے غیر دلچسپ اور اضافی معلوم ہوتے ہیں جو بیگم صاحبہ نے ڈائری رکھ کر لکھے ہیں ان میں کراچی سے نیپلز ، قاہر ہ اور نیو یارک کا سفر شامل ہے اس سفر کے بیان میں ڈائری جیسا لطف تو موجود ہے لیکن وہ بات نظر نہیں آتی جو ٹوکیو، ماسکو اورلندن کے سفر میں ہے ۔ اس کے علاوہ بیگم صاحبہ نے اپنے سفر نامے میں اونچے طبقے کی بیگمات کا ذکر عمدہ ذرائع آمدورفت اور اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کا ذکر تکرار کے ساتھ کیا ہے یہ تکرار بھی سفر کا پورا حصہ بننے سے رہ گئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ خود نمائی کا شوق اس صورت میں سامنے آیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین اس سفر نامے کو اعلیٰ طبقے کی آسائش پسند خاتون کی کاوش قرار دیتے ہیں۔ بہر حال ان باتوں سے قطع نظر بیگم صاحبہ کے ہاں کئی ایسی چیزیں مل جاتی ہیں جو عام دلچسپی کی ہیں۔ مثلاً ان کے ہاں کوئی تعصب نظر نہیں آتا ۔ سیاسی انتشار نہیں زندگی کا باریکی اور قریب سے مطالعہ اور مشاہد ہ کرنے کی عادی ہیں ۔ قدرتی مناظر سے عشق ہے اسلامی روایات سے محبت ہے ان کے تحفظ کا احساس ہے پرانی تہذیب محض اس لئے مسترد نہیں کرتی کہ وہ پرانی ہے اور نئی تہذیب کی پرستش اس لئے نہیں کرتی کہ وہ فیشن یا تن آسانی ہے بلکہ دونوں کا موازنہ کرکے بہتر نتائج اخذکرتی ہے۔ اس سلسلے میں بقول قدرت اللہ شہاب،
” سات سمندر پار میں جدت ہے ، جہاں بیں نظر ہے، شوخی ہے۔ مشرق و مغرب کا امتزاج ہے ، اس کی رنگینی اور لطافت کے پس منظر میں مغربی فکر میں مشرق کا دل دھڑکتا ہے۔“
اپنے عہد کی عکاسی:۔
ماسکو کی سیاحت کے دوران وہاں کے بے ضرر کھیل ، پتلیوں کا تماشا اور بیلے رقص کا ذکر کرتی ہیں ۔ اور ان کا خیال ہے کہ ماسکو میں یورپ جیسی شبینہ زندگی کی عیاشیاں مفقود ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ 1963ءکا کوئی وقت ہو لیکن آج ماسکو اور یورپ میں چنداں فرق نہیں بہر حال اس حصے کو اس عہد کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے سارے سفر نامے میں کسی خاص شخصیت کا پرتو نظر نہیں آتا صرف لینن گراڈ کے سفر کے دوران زویا جو روسی گائیڈ ہے اور مسز ہلالی دوکردار ابھرتے ہیں لیکن کوئی نمایاں نقش نہیں چھوڑتے۔
دلکش مشاہدہ و تجزیہ:۔
سفر نامے کے آخری حصے میں کراچی سے نیپلز تک کا سفر شامل ہے اس حصے میں افراد کے حوالے سے دلچسپ اور دلکش مشاہدہ اور تجزیہ ملتا ہے وہ انسانوں میں چھپی تجلی کو بھی دیکھ سکتی ہیں لیکن اس خوبی سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ بیگم صاحبہ تہذیب و روایت کی دلدادہ ہیں اسی لئے وہ لندن کی ستائش کرتی ہیں اور نیویاک کو اس موازنے میں کم تر قرار دیتی ہے لندن کے سلسلے میں ان کی پسندیدگی صاف ظاہر ہے لیکن اس پسندیدگی کے لئے جو دلائل وہ سامنے لاتی ہیں وہ خاصے وزنی ہیں۔ نیویارک اور لندن کا موازنہ کچھ یوں کرتی ہیں۔
”لندن کی دیرینہ تاریخی عمارت پر کائی اگ رہی ہے نیو یاک کے حرارت خانوں میں تاریخ اگائی جا رہی ہے۔“
”آزادی لندن میں ایک اساسی حق ہے ایک سیاسی عادت ہے نیویارک میں ایک مجسمہ ہے ایک بت ہے۔“
انتظامی امور نظام تعلیم:۔
اس سفر نامے کے بنیادی موضوعات مختلف ممالک کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی حالات انتظامی امور اور نظام تعلیم ہے بیگم صاحبہ کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہر ملک کے نظام تعلیم کا بغور مشاہدہ کیا اس طرح مذہبی نظریات کو بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن اس گھمبیر موضوع کو برتتے وقت ان کا اسلوب نہایت ، سبک اور شوخ رہا ہے مثلاً جاپان میں عیسائیت کے نہ پھیلنے کی وجہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتی ہیں،
”کئی جاپانی مذہب کے حوالے سے اپنے آباو اجداد کی روحوں کی پرستش کرتے ہیں عیسائی پادری نے کہہ رکھا ہے کہ جنت میں صرف وہ لوگ جائیں گے جو عیسائی ہوں گے اب کوئی جاپانی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ خود تو مزے لوٹے اور اس کے آباواجداد دوزخ میں سڑتے رہیں اس لئے جاپان میں عیسائیت کو قبول عام نہ مل سکا۔
مجموعی جائزہ:۔
ہر فن پارہ مخصوص غائیت کا حامل ہوتا ہے اور آنے والا وقت اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتاہے۔ بلاشبہ اس سفر نامے میں بے شمار ادبی ، فنی اور فکر ی موضوعات موجود ہیں۔ لیکن آ ج اور کل کے ناقدین جس بات پر ہمیشہ متفق رہیں گے وہ اس سفر نامے کے اسلوب کی دلکشی ہے۔بقول ایک نقاد
عورت بڑی باتونی ہے گفتگو پر آئے تو گلزار کھلا دے سوچنے پر آئے تو ایک دنیا سجا دے اس گلزار اور سجاوٹ کانام سات سمندر پار ہے۔
بقول قدرت اللہ شہاب
انھوں نے جو کچھ دیکھا اپنی آنکھ سے دیکھا اور جو کچھ لکھا اپنی قلم سے لکھا میری نظر میں یہ ایک قابل رشک کامیابی ہے۔“
محمود نظامی نے نئے سفر نامے کے لئے جو راہیں کھولیں ان پر سب سے پہلے بیگم اختر ریاض الدین نے قدم رکھا ۔ اردو ادب میں خواتین لکھاریوں کی شروع ہی سے کمی رہی ہے۔ سفر نامے میں یہ تعداد قلیل ہے۔ نازلی رفیہ سلطانہ بیگم کا سفر نامہ”سر یورپ“ اوررفیہ فیضی ” کا زمانہ تحصیل “ ایسے ابتدائی سفر نامے ہیں جو ان خطوط پر مشتمل ہیں جو انھوں نے سفر کے دوران اپنے عزیزوں کو لکھے ۔ چنانچہ ان سفر ناموں کو سفرنامنے کی ایک تکنیک تو کہا جا سکتا ہے لیکن مکمل سفر نامے نہیں کھلائے جا سکتے ۔ ایسی قلت کے دور میں بیگم اختر ریاض الدین کا سفر نامہ” سات سمندر پار “ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔
بیگم صاحبہ 15 اکتوبر 1928کو کلکتہ میں پیداہوئی ۔ ٩٤٩١ ءمیں لاہور سے بی ۔ اے کیا ۔ اور 1951ءمیں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی میں انہوں نے تدریسی شعبے کا انتخاب کیا وہ انگریزی روزنامچہ ”پاکستان ٹائمز “ کی باقاعدہ لکھاری رہی ہیں۔ لیکن مولانا صلاح الدین کے بے حد اصرار پر اردو میں بھی طبع آزمائی کی جو بے حد کامیاب ثابت ہوئی۔ مولانا کی فرمائش اور اصرار پر ہی انہوں نے 1963ءمیں ”ٹوکیو“، ”ماسکو“، ” لینن گراڈ“ ، ”قاہرہ“ ، ” نیپلز“ ، ”لندن“ اور ”نیویارک“ کے سفر پر مبنی پہلا سفر نامہ ، ”سات سمندر پار“ کے نا م سے لکھا ۔ ان کا دوسرا سفر نامہ ”دھنک پر قدم “ ہے جسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بیگم صاحبہ کا شمار ان گنے چنے سفرنامہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہیں فطرت کے حسن کوکاغذ پر اتارنے کا فن آتا ہے ۔ ان کے سفر ناموں مےں نشونما، رنگینی ، اور لطافت کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ آئیے ”سات سمندر پار“ کے حوالے سے اُن کے کام کا جائزہ لیتے ہیں۔
سچاسیاح:
ان کا سفر نامہ ”سات سمندر پار“ کو دلکش اسلوب او ر زبان و بیان کی فنی خوبیوں کا مرقع کہا جاتا ہے ایک خاتون ہونے کے ناطے انھیں ایک سچے سیاح کی خوبیوں کا مرقع کہا جاتا ہے۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ ایک سچے سیاح کی خوبیوں سے مزیں ہیں اور انھوں نے یہ سفر اپنے شوہر کے ساتھ کیا ہے ان کے شوہر کو فرائض منصبی کے سلسلے میں ملک سے باہر جانے کا موقع ملا تو بیگم صاحبہ کو بھی ساتھ لے گئے ۔ لیکن جہاں گھومنے پھرنے اور قیام کرنے کا موقع ملا انھوں نے ایک سچے سیاح کی نظر سے ان مناظر کو دیکھا ۔ اگر ہر نئے منظر کو دیکھنے کا اشتیاق اور خوشی اور حیرت کا اندازہ لگایاجائے تو وہ بچوں جیسی معصومیت کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بیگم صاحبہ نے دنیا کو ایک غیر جانبدار کی نظر سے دیکھا ہے اور اس معصومیت کو جگایا ہے جو فطرت کا حصہ ہے ۔ انھوں نے دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھ کر دیکھا اور اس پر ایک شوخ سا تاثر ثبت کیا۔ محمود نظامی منظر سے متاثر ہو کر تاریخ بیان کرنے لگتے ہیں ۔ جبکہ بیگم صاحبہ منظر اور تاریخ دونوں پراپنی بے تکلفی اور بے ساختگی سے فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
انگریزی صحافت سے استفادہ:۔
کسی انسان کے لئے یہ تصور نہایت خوشگوار ہوتا ہے کہ ساری کائنات اور اس کی دلکشی اس کے لئے بنی ہے ۔ سورج بالخصوص اسکے لئے ہے ۔ بارش اس کے لئے برستی ہے ۔ چرند پرند، رنگ اور خوشبوئیں اس کے لئے بنائے گئے ہیں۔ بیگم صاحبہ بھی ہر منظر کے لئے اُس کے منظر میں اس طرح کھو جاتی ہیں کہ قاری کو یہ احساس ہوتاہے کہ اگر یہ منظر سامنے نہ آتا تو زندگی ادھوری تھی۔ اس طرح وہ سارے سفر نامے میں مسرتیں بانٹتی دکھائی دیتی ہیں۔ انگریزی صحافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اسلوب میں مزاح اور روانی کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ وہ منظر پر جامد نظر نہیں ڈالتی بلکہ اُسے تخلیق کی آنکھ سے دیکھ لیتی ہے۔ چنا نچہ انہوں نے فطرت کے حسن کو شاعری کے قلم سے کاغذ پر اتارا ہے۔ ان کے شوخ رنگ قاری پر جادو کر دیتے ہیں۔
نسوانیت کا اثر:۔
مرد سفر نامہ نگار منظر کی کی قوس و قزح بکھیرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جبکہ بیگم صاحبہ چھوٹی چھوٹی جزئیات کو چنتی ہیں۔ اور ایسی تصویریں مرتب کرتی ہیں کہ پورا منظر متحرک ہو کر سامنے آجاتاہے۔ ان کی نسوانیت کا ایک دوسرا نداز اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ انھوں نے صرف تھیٹروں ، عجائب خانوں اور تاریخی مقامات کو اہمیت نہیں دی بلکہ ایک خاتون ہونے کے انہیں ہوٹلوں ، ذاتی گھروں اور باورچی خانوں تک رسائی حاصل ہے اس طرح وہ تمام باتیں جنہیں مرد سفر نامہ نگار غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ا ن کی تفصیل اس سفر نامے کا حصہ ہے وہ جس خوبصورتی سے غیر ملکی کھانوں کو متعارف کراتی ہیں اس کا ہلکا سا پرتو بھی مرد سفر نامہ نگاروں کے ہاں نہیں ملتا۔ایک روسی پکوان کا ذکر یوں کرتی ہیں۔
” پیروشکی ایک باریک پرت دار کی طرح سموسے کی طرح ہوتی ہے جس میں قیمہ یا چاول یا سیب کا قوام بھرا جاتا ہے ہونٹوں کی ہلکی سی جنبش سے ٹوٹ جاتی ہے اور جتنی بھی کھا ڈالو پیٹ میں رسید بھی نہیں ملتی۔“
دلچسپ بات یہ ہے کہ بےگم صاحبہ نے تشبیہات کے لئے بھی نسوانی انداز کو اہمیت دی اور اپنایا ۔ ان کی زبان و بیان کی خاص خوبی یہی تشبیہات ہیں مثلاً
”وہ اس گنجان جزیر ے میں جہاں انسان اچار کی طرح ڈبوں میں بند ہے۔“
” ان ساحلوں کی ٹھنڈی عنبرین ریت گیلے بدن پر یوں پھسلتی تھی جیسے ٹیلکم پاوڈر۔“
لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہیں کہ بیگم صاحبہ نے محض گھرداری اور امور خانہ داری کو اہمیت دی ہے یہ تو ان کے مشاہدے کی ایک اضافی جہت ہے حقیقت یہ ہے کہ انگریزی ادب کی تدریس اور صحافت کے عملی تجربے نے ان کے ذہنی افق کو نہایت وسعت دی ہے۔ ان کے سفر ناموں میں تاریخ ، تہذیب و معاشرت اور سیاست کے موضوعات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
سماجی زندگی:۔
بیگم صاحبہ نے بھی محمود نظامی کی طرح اپنی پسند کے تین شہروں ٹوکیو، ماسکو، اور لینن گراڈ پر خصوصی توجہ دی ہے۔ جاپانی لوگوں کی نفسیات ان کی رسومات آداب ، ان کے تعلیمی اور انتظامی اداروں اور ان کے قومی و سماجی زندگی کے حالات پر وہ باتوں ہی باتوں میں دلچسپ تذکرہ پیش کردیتی ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی طبیعت باتونی ہے ۔ اور وہ اپنی باتوں سے نہ صرف قار ی کو محضوظ کرتی ہے بلکہ اُسے اپنی بھر پور رفاقت کا احساس دلاتی ہے۔ اس سفر نامے میں عوامی زندگی اور اُس سے جڑے ہوئے مسائل کم ملتے ہیں زیادہ تر بیگم صاحبہ نے اعلی طبقے کی نمائندگی کی ہے عوامی طبقے کی ایک ہلکی سی جھلک جو اس سفر نامے میں شامل ہے اور ٹوکیو کا حصہ ہے قاری کو افسردہ کر دیتی ہے ۔ بیگم صاحبہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ،
” جاپان کی سڑکوں پر ایسے مزدوروں کی کمی نہیںجو صبح سویر ے سرمایہ داروں کے پاس اپنی کوئی چیز گروی رکھ کر رقم ادھار لیتے ہیں۔ بعض مزدور ایسے بھی ہیں جن کے پاس اپنے اُبلے ہوئے چاولوں کے علاوہ گروی رکھنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔“
عام زندگی کی یہ مختصر سی جھلک بیگم صاحبہ کے درد مند شعور کی عکاس ہے۔
الفاظ پر گرفت:۔
بیگم صاحبہ کو اسلوب اور الفاظ پر گرفت حاصل ہے ۔ وہ لفظوں سے کھیلنا جانتی ہے اس طرح لاشعور ی طور پر خوبصورت ، موزوں اور بر محل تشبیہات خود بخود ان کی تحریر کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سےشعوری کوشش کااحساس نہیں ہوتا ۔ سفر نامے کا ابتدائی حصہ جو جاپان کی سیاحت پر مبنی ہے ۔ اس حصے میں ان کی یہ صلاحیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ چند مثالیں باآسانی پیش کی جا سکتی ہیں۔
”لمبی تان کر اُٹھی تو سورج دیوتا کمرے میں اور میرا دیوتا کمرے کے باہر۔“
”وہ بولتی کےا ہے کہ منہ سے رس ٹپکتا ہے اور ہمارے مردوں کے منہ سے پانی۔“
”جب کسی عورت کی ہم بد صورت کہنا نہیں چاہتے تو یہی کہہ دیتے ہیں کہ اسکی شکل اللہ میاں نے بنائی ہوئی ہے ٹوکیو کی شکل بھی اللہ میاں کی بنائی ہوئی ہے۔
دلچسپ جملے:۔
دلچسپ جملے چست کرنا ان کامحبوب مشغلہ ہے لیکن ایسا کرتے وقت ان کے لہجے میں طنز یا تضحیک کا شائبہ بھی نہیں ملتا ۔ روس کے سفر کے دوران مختلف مشروبات کا ذکر کرتے ہوئے شکر ادا کرتی ہے کہ روس میں ”کوک“ نہیں پیا جاتا ان کا خیال ہے مشرق و مغرب میں کوک ایسی متعدی بیماری کی طرح پھیل گئی ہے کہ سارے ملک اس رشتے میں بندھے ہوئے نظرآتے ہیں اس ضمن میں ان کا ایک جملہ نہایت رواں بھی ہے اور مزاح کے پردے میں شائستہ طنز کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتی ہیں،
”یو۔ این ۔ او سے زیادہ اس نے دنیا کو متحد کیا ہے۔“
مشرق کی نمائندگی:۔
بیگم صاحبہ ہر جگہ مشرق کی نمائندہ رہی ہے مشرقی معاشرے کا ایک المیہ جنریشن گیپ بھی ہے اگرچہ ہمارے ہاں یہ مسئلہ اتنی شدت سے موجود نہیں لیکن جاپان میں شدت اختیار کرچکا ہے وہاں خاندان کا اجتماعی تصور ختم ہو تا جا رہا ہے بیگم صاحبہ نے اس تجزیے کو اپنے گہرے مشاہدے کے ذریعے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں۔
وہاں معاشرے میں ایک خلیج بہت عمیق ہے اور وہ ہے قدامت پسند بزرگوں اور نئی نسل کے درمیان، بزرگ بچوں کو بربری وحشی کہتے ہیں ۔ بچے بزرگوں کو زندہ لاشیں سمجھتے ہیں ۔ درمیانی نسل نے جو کچھ بزرگوں سے سیکھا ایک دم بھلانا پڑا سیکھا کچھ تھا سکھانا کچھ پڑا۔
خامیاں:۔
اس سفر نامے کے وہ حصے غیر دلچسپ اور اضافی معلوم ہوتے ہیں جو بیگم صاحبہ نے ڈائری رکھ کر لکھے ہیں ان میں کراچی سے نیپلز ، قاہر ہ اور نیو یارک کا سفر شامل ہے اس سفر کے بیان میں ڈائری جیسا لطف تو موجود ہے لیکن وہ بات نظر نہیں آتی جو ٹوکیو، ماسکو اورلندن کے سفر میں ہے ۔ اس کے علاوہ بیگم صاحبہ نے اپنے سفر نامے میں اونچے طبقے کی بیگمات کا ذکر عمدہ ذرائع آمدورفت اور اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کا ذکر تکرار کے ساتھ کیا ہے یہ تکرار بھی سفر کا پورا حصہ بننے سے رہ گئی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ خود نمائی کا شوق اس صورت میں سامنے آیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ناقدین اس سفر نامے کو اعلیٰ طبقے کی آسائش پسند خاتون کی کاوش قرار دیتے ہیں۔ بہر حال ان باتوں سے قطع نظر بیگم صاحبہ کے ہاں کئی ایسی چیزیں مل جاتی ہیں جو عام دلچسپی کی ہیں۔ مثلاً ان کے ہاں کوئی تعصب نظر نہیں آتا ۔ سیاسی انتشار نہیں زندگی کا باریکی اور قریب سے مطالعہ اور مشاہد ہ کرنے کی عادی ہیں ۔ قدرتی مناظر سے عشق ہے اسلامی روایات سے محبت ہے ان کے تحفظ کا احساس ہے پرانی تہذیب محض اس لئے مسترد نہیں کرتی کہ وہ پرانی ہے اور نئی تہذیب کی پرستش اس لئے نہیں کرتی کہ وہ فیشن یا تن آسانی ہے بلکہ دونوں کا موازنہ کرکے بہتر نتائج اخذکرتی ہے۔ اس سلسلے میں بقول قدرت اللہ شہاب،
” سات سمندر پار میں جدت ہے ، جہاں بیں نظر ہے، شوخی ہے۔ مشرق و مغرب کا امتزاج ہے ، اس کی رنگینی اور لطافت کے پس منظر میں مغربی فکر میں مشرق کا دل دھڑکتا ہے۔“
اپنے عہد کی عکاسی:۔
ماسکو کی سیاحت کے دوران وہاں کے بے ضرر کھیل ، پتلیوں کا تماشا اور بیلے رقص کا ذکر کرتی ہیں ۔ اور ان کا خیال ہے کہ ماسکو میں یورپ جیسی شبینہ زندگی کی عیاشیاں مفقود ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ 1963ءکا کوئی وقت ہو لیکن آج ماسکو اور یورپ میں چنداں فرق نہیں بہر حال اس حصے کو اس عہد کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے سارے سفر نامے میں کسی خاص شخصیت کا پرتو نظر نہیں آتا صرف لینن گراڈ کے سفر کے دوران زویا جو روسی گائیڈ ہے اور مسز ہلالی دوکردار ابھرتے ہیں لیکن کوئی نمایاں نقش نہیں چھوڑتے۔
دلکش مشاہدہ و تجزیہ:۔
سفر نامے کے آخری حصے میں کراچی سے نیپلز تک کا سفر شامل ہے اس حصے میں افراد کے حوالے سے دلچسپ اور دلکش مشاہدہ اور تجزیہ ملتا ہے وہ انسانوں میں چھپی تجلی کو بھی دیکھ سکتی ہیں لیکن اس خوبی سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ بیگم صاحبہ تہذیب و روایت کی دلدادہ ہیں اسی لئے وہ لندن کی ستائش کرتی ہیں اور نیویاک کو اس موازنے میں کم تر قرار دیتی ہے لندن کے سلسلے میں ان کی پسندیدگی صاف ظاہر ہے لیکن اس پسندیدگی کے لئے جو دلائل وہ سامنے لاتی ہیں وہ خاصے وزنی ہیں۔ نیویارک اور لندن کا موازنہ کچھ یوں کرتی ہیں۔
”لندن کی دیرینہ تاریخی عمارت پر کائی اگ رہی ہے نیو یاک کے حرارت خانوں میں تاریخ اگائی جا رہی ہے۔“
”آزادی لندن میں ایک اساسی حق ہے ایک سیاسی عادت ہے نیویارک میں ایک مجسمہ ہے ایک بت ہے۔“
انتظامی امور نظام تعلیم:۔
اس سفر نامے کے بنیادی موضوعات مختلف ممالک کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی حالات انتظامی امور اور نظام تعلیم ہے بیگم صاحبہ کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہر ملک کے نظام تعلیم کا بغور مشاہدہ کیا اس طرح مذہبی نظریات کو بھی پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن اس گھمبیر موضوع کو برتتے وقت ان کا اسلوب نہایت ، سبک اور شوخ رہا ہے مثلاً جاپان میں عیسائیت کے نہ پھیلنے کی وجہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتی ہیں،
”کئی جاپانی مذہب کے حوالے سے اپنے آباو اجداد کی روحوں کی پرستش کرتے ہیں عیسائی پادری نے کہہ رکھا ہے کہ جنت میں صرف وہ لوگ جائیں گے جو عیسائی ہوں گے اب کوئی جاپانی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ خود تو مزے لوٹے اور اس کے آباواجداد دوزخ میں سڑتے رہیں اس لئے جاپان میں عیسائیت کو قبول عام نہ مل سکا۔
مجموعی جائزہ:۔
ہر فن پارہ مخصوص غائیت کا حامل ہوتا ہے اور آنے والا وقت اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرتاہے۔ بلاشبہ اس سفر نامے میں بے شمار ادبی ، فنی اور فکر ی موضوعات موجود ہیں۔ لیکن آ ج اور کل کے ناقدین جس بات پر ہمیشہ متفق رہیں گے وہ اس سفر نامے کے اسلوب کی دلکشی ہے۔بقول ایک نقاد
عورت بڑی باتونی ہے گفتگو پر آئے تو گلزار کھلا دے سوچنے پر آئے تو ایک دنیا سجا دے اس گلزار اور سجاوٹ کانام سات سمندر پار ہے۔
بقول قدرت اللہ شہاب
انھوں نے جو کچھ دیکھا اپنی آنکھ سے دیکھا اور جو کچھ لکھا اپنی قلم سے لکھا میری نظر میں یہ ایک قابل رشک کامیابی ہے۔“