طارق شاہ
محفلین
جہانِ کُہنہ کے مفلوُج فلسفہ دانو !
نظامِ نَو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اِسی واسطے بنی تھیں کیا؟
کہ اِن پہ دیس کی جنتا سِسک سِسک کے مَرے
زمیں نے کیا اِسی کارَن اناج اُ گلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوّا ، بِلک بِلک کے مَرے
مِلیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دُخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خُوں سے سینچا تھا
کہ اُس کی اپنی نِگاہیں بہار کو ترسیں
زمیں کی قوّتِ تخلیق کے خُداوندو!
مِلوں کے مُنتظمو! سلطنت کے فرزندو!
پچاس لاکھ فسُردہ، گلے سڑے ڈھانچے
نظامِ زر کے خِلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے، دَم توڑتی نگاہوں سے !
بشر، بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
ساحر لدھیانوی