مغزل
محفلین
غزل
ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک
پھر ہوا نے بھی دکھاڈالی ہمیں اپنی چمک
ایک ہی ناؤ کنارے سے کنارے کا سفر
گھر پلٹ آئے کماتے ہوئے دن بھر کی چمک
چاندنی پھیلی دریچوں سے دھواں اُٹھنے لگا
آسماں پر جو ہویدا ہوئی تاروں سی چمک
صبح سے ٹھنڈے پڑے چولھے میں پھر آگ جلی
بھوکے بچوں کی نگاہوں میں گئی روٹی چمک
آج کا رزق مُیسر چلو آیا تو سہی
چاند سے کہہ دو کوئی گھر میں مرے کل بھی چمک
سیدانورجاویدہاشمی
ساحلی ریت پہ آنکھوں میں پڑی گیلی چمک
پھر ہوا نے بھی دکھاڈالی ہمیں اپنی چمک
ایک ہی ناؤ کنارے سے کنارے کا سفر
گھر پلٹ آئے کماتے ہوئے دن بھر کی چمک
چاندنی پھیلی دریچوں سے دھواں اُٹھنے لگا
آسماں پر جو ہویدا ہوئی تاروں سی چمک
صبح سے ٹھنڈے پڑے چولھے میں پھر آگ جلی
بھوکے بچوں کی نگاہوں میں گئی روٹی چمک
آج کا رزق مُیسر چلو آیا تو سہی
چاند سے کہہ دو کوئی گھر میں مرے کل بھی چمک
سیدانورجاویدہاشمی