سارا شگفتہ

سید رافع

محفلین
میں ایک نوارنی روح تھی
جسے تین مردوں نے کچل دیا

میں تین پھولوں کی وہ کوکھ ہوں
جس کی گود بھر ہی نہ سکی

میں کس قدر میٹھی تھی نا!
البیلی اداؤں والی
معصوم
شرارتوں والی

میں کس قدر معصوم تھی نا!
ہر بات پر ہاں کر دینے والی
مسکراتی
گنگنانے والی

میرے باپ نے، میری ماں نے
میری روح کو تار تار کرنا شروع کیا
پنجاب کی وحشت نے
میری روح کو تاریک کرنا شروع کیا

میرے باپ نے جدا کی ماں میری
گھر لے آیا ایک اور ماں میری
کتنی روح سکڑ سی گئی تھی نا
وحشت بڑھ سی گئی تھی نا

میں تو گھرمیں کاغذی پھولوں کو کس رہی تھی
مجھے کیا معلوم تھا کہ لاعلمی میں مقدر کا گلا گھوٹ رہی تھی
مجھے گھر کے گھڑے تک کے راستے کا تھاصرف علم
سترہ برس میں مجھے اوباش شوہر ملے گا، اسکا نہیں تھا علم

گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی ہوں کیوں
شریک حیات کی چپل کھا رہی ہوں کیوں
شوہر کی ہوس کا نشانہ بن رہی ہوں کیوں
بچے کی ماں بن گئیں ہوں کیوں
سب کچھ انجان سا لگ رہا ہے
ماحول وحشت زدہ لگ رہا ہے

ہر سال میں ماں بنتی گئی
تین کلیاں
تین پھول زمیں کو دے گئی میں

میں سوئی، ایک تاریک شب میں
یہ آواز کیسی ہے بھانجی اور شوہر کی
جو میں نے تکرار کی
تو اس نے کہا بچے میرے اور تو ہے جدا

یہ کیسی سزا ہے، میرا چمن ہی چھین لیا
سب کچھ صحیح تھا، مار ظلم و جفا
پر بچے تو نہ لیتا یہ کہہ کہ تو ہے بے وفا
میں پاگل ہو رہی ہوں، انکی جدائی کے غم میں

یارب کوئی نہیں میری مدد کو
یہ رشتے، یہ دوست، یہ معاشرہ
کیوں دیکھ رہا ہے ایک معصوم سی گڑیا پر یہ جفا

ایک شاعر ملا مجھ کو، اس تاریک دن
پھوٹی کوڑی نہ بن پڑتی تھی اس سے سارا دن
نکاح کر لیا، کاڑھ لیا دوپٹا پھر سے اسکے جھوپڑ پر
فرائڈ نے کیا کہا، ارسطو کی کیا تھی دھن
سارا سارا دن اور ساری ساری رات
گاتا تھا سمیت اپنے دوستوں کے یہی نغمہ روح شکن

تھا اسکا بچہ کوکھ میں
اور میں تھی سخت مضطرب
میرا دل کہہ رہا تھا کہ ہو گا کچھ نہ کچھ غلط
ہسپتال سے قرضہ لے کر لاش دفن کر آئی
اس ننھی کلی کو کہیں زمین کے حوالے کر کے آئی

جو میں نے اس شاعر سے کہا کہ بچہ ہے اب تیرا دفن
اس نے کہا اپنی دوستوں کی محفل میں وقفہ کرتے ہوئے
ہوں
پھر ہو گیا مصروف فرائڈ و ارسطو میں ہے درست کون

پھر اسکے شاعر دوست نے کہا تم ہو مجھے پسند
میں نے کہا کہ میں تو تیرے دوست کے نکاح میں
کرتا ہے کیوں ایسی بے وفائیاں اس ناداں کے ساتھ

میرے شوہر کو یہ خبر ہوئی
اس دن وہ تلملا گیا، بجھ گیا
اس نے کیا مجھ کو خود سے جدا

اس کا دوست سایہ بن گیا میرا
ہر جگہ پیچھا کرتا میرا
کہتا کہ کر نکاح مجھ سے ورنہ مر جاؤں گا یہاں

میں نے ایک اور گھر میں گھونگھٹ کاڑھ لیا
چند دن ہی گزرے تھے کہ اسکی ماں نے مجھ مار دیا
پھر چند ہی دن گزرے کہ اسکی بہنوں نے مجھ زخمی کر دیا
وہ آتا سنتا اور سن کر سو جاتا
جو ایک دن کیا میں نے اصرار ذرا
اس نے پائپ لیا اور خوب روح تک مجھ زخمی کر دیا
اس نے مجھ کو خود سے جدا کر دیا

میری کوکھ میں اس کا فرزند تھا
میں گئی اور اس ناپاک خون کو کر دیا تن سے جدا

اب میں ہوں اور یہ سامنے آتی رات کی ایک ٹرین
بس چند منٹوں کی دیر ہے
میں ہو جاؤں گی جدا اس دیار ظلم و جور سے
تو یاد رکھنا سارا کو
کیونکر ہوا اس پر یہ ظلم یہ جفا اور یہ عذاب
پنجاب کے اس ظلم کے تندور کو کرنا ٹھنڈا ہے ضرور
اس آگ میں جلتی ہیں پنجاب کی لڑکیاں ضرور
وہ دیکھو کس قدر قریب آ چکی اب میری موت
میں مر رہی ہوں پر دیکھنا
اب کوئی اور سارا نہ بنے
 
آخری تدوین:
Top