یہ تحریر میرے بلاگ پر چھپ چکی ہے، جسکا ربط یہ رہا

فرض کریں آپ کچھ لوگوں کے ساتھ ایک راستے پر چل رہے ہیں، آپ کے دائیں بائیں دو تین منچلے بھی محو سفر ہیں،ابھی سفر کی ابتدا ہی ہوتی ہےکہ کچھ دیر بعد ایک منچلا اچانک آپ کے پیچھے آ کر آپ کی ٹانگ پر ٹھوکر مارتا ہے، آپ لڑکھڑاتے ہیں، گرنے لگتے ہیں پھر سنبھل جاتے ہیں، مگر جب اپنے پیچھےمڑکر دیکھتے ہیں تو اتنی دیر میں وہ منچلا اپنی سابقہ جگہ پر پہنچ چکا ہوتا ہے اور ویسے ہی چلنا جاری رکھتا ہے ، وہ یوں ظاہر کرتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، آپ حیرانی سے دوسرے منچلوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کے تاثرات بھی ایسے ہی پاتے ہیں، آپ ان کی آنکھوں میں اپنے لیے حمایت تلاش کرتے ہیں تو آپ کو ان کی آنکھیں بنا تاثر نظرآتی ہیں، آپ تکلیف کے باوجود پھر چلنا شروع کر دیتے ہیں، تھوڑی ہی دیر اور گزرتی ہے تو دوسرا منچلا آپ کی دوسری طرف آ کرآپ کی دوسری ٹانگ پرپیچھے سے ٹھوکر مارتا ہے، آپ درد کی شدت سے دوہرے ہوتے ہیں ،توازن کھودیتے ہیں، گر پڑتے ہیں، پھر اٹھ کر پیچھے دیکھتے ہیں تو اتنی دیر میں دوسرا منچلا بھی اپنی پہلی حالت میں واپس پہنچ کرچل رہا ہوتا ہے، آپ ایک بار پھر مدد کے لیے دوسرے منچلوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں۔ آپ کے اندر شدید غصہ اٹھتا ہے لیکن ایک بار پھرآپ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔تھوڑی ہی سفر اور کٹتا ہے کہ تیسرا منچلا وہی حرکت کرتا ہے، تو رد عمل میں آپ خاموش نہیں رہ پاتے اور غصے سے پکارتے ہیں ،اوئے یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر تینوں منچلے ایک ساتھ ہو کر سختی سے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے اوئے کا لفظ کیوں استعمال کیا، آپ بدتمیز ہیں، ہم آپ کے ساتھ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، آپ اپنا ردعمل فورا درست کریں ورنہ ہم آپ کا بائیکاٹ کر دیں گے اور دوسرے ہجوم کو بھی آپ سے تعلق توڑنے پر مجبور کر دیں گے، جب آپ کچھ دور گزرنے والے بقیہ ہجوم کی طرف دیکھتے ہیں تو اسکا ردعمل بھی منچلوں سے مختلف نہیں ہوتا۔ آپ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ سوچتے ہیں کہ یہ سب میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔


آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے منچلوں والی یہ کہانی کیوں بیان کی، لیکن اس سے پہلے میرا ایک سوال ہے آپ سب سے۔۔۔

کیاآپ ان منچلوں کےساتھ باآسانی سفر طے کر سکتے ہیں ؟

آپ کی جگہ کوئی اور بھی ہو تو وہ ان منچلوں کے بیچ سنبھل کر قدم رکھتے ہوے کتنا سفر طے کر سکتا ہے، جب ہر چند قدم کے بعد آپ کو ایک تکلیف دی جائے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ سخت رد عمل میں کسی ایک منچلے کو کچھ کہہ دیں گے تو دوسرے سارے آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے۔تو کیا ایسی صورت حال میں آپ اپنے قدموں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں گے؟

میرا جواب ہے نہیں،

یقینا آپ کا جواب بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا۔

افسوس کہ کچھ ایسی ہی حالت میرے وطن عزیز کی بھی ہے، میرا وطن اپنے قیام سے لے کراب تک شدید بیرونی سازشوں کا شکار ہے، میرے وطن کے دشمن ہر پل ہر لمحہ میرے وطن کے خلاف سازشوں کا جال بننے میں مصروف ہیں۔ ابھی ہم ایک سازش کی تکلیف سے نکل نہیں پاتے کہ دوسری کوئی سازش ہمارے خلاف تیار ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ منچلے وہی ہیں ، جن میں سے ایک اپنے آپکو دنیا کا چودھری سمجھتا ہے، دوسرا وہ جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور تیسرا وہ جو دنیا کے چودھری کے گود میں بیٹھ کر قبلہ اول پر قابض ہو چکا ہے۔

میرے بہت سے ہم وطن یہ سوچیں گے، کہ میرے وطن کی بری حالت کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے، ہماری بد دیانتی، خود غرضی، جھوٹ فریب دھوکہ ہماری بری حالت کا سبب ہے، ہم دوسروں کی عزتوں پر نظر رکھتے ہیں، ہم دوسروں کے مال پر نظر رکھتے ہیں، ہم جعل سازی کرتے ہیں۔ہم حسد کینہ اوربغض رکھتے ہیں،

لیکن نہیں، میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، کبھی میں بھی یہی سوچا کرتا تھا، مگر میں آپ کی توجہ اس بات کی طرف ضرور دلانا چاہوں گا کہ دنیا کا کوئی معاشرہ جرائم سے پاک نہیں ہے، کوئی ملک یا اس کے عوام فرشتہ نہیں ہیں۔ جنسی بے راہ روی تو یورپ میں عروج پر ہے، زنا کی سب سے زیادہ وارداتیں تو امریکہ میں ہوتی ہیں۔ چوری ، فراڈ، دھوکہ بازی تو مغربی ملکوں میں زیادہ ہے، مگر ان سب باتوں پر قابو کیسے پایا جاتا ہے، قانون سب کے لیے برابر کر کے، اور قانون سب کے لیے برابر کب ہوتا ہے جب ملک کا سربراہ بھی کوئی جرم کرے تو اسے سزا ہو۔ مگر میرے ملک میں کچھ مختلف ہے، ہماری حکومت امریکی سر پرستی سے چلتی ہے، اگر کوئی حکومت امریکہ کے خلاف سینہ سپر ہو جائے تو اسے توڑ دیا جاتا ہے، تڑوا دیا جاتاہے، اس لیے اب حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھ چکا ہے کہ اگر انہوں نے تخت پر بیٹھنا ہے تو انہیں امریکی سرپرستی حاصل کرنی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ حکومت مارشل لا سے آئے یا عوامی ووٹوں سے وہ امریکی حکم نامے پر عمل کرنا اپنی پہلے ترجیح سمجھتی ہے۔ اور جب حکومت کا سربراہ ہی اپنی کرسی بچانے کے لیے ناجائز اقدامات کرتا ہے تو پارلیمان، وزرا، سرکاری افسران، پھر ان سے چھوٹے سرکاری افسران، پولیس، اور کلرک تک وہی کرپشن چلی آتی ہے۔

بازار میں کچھ بکتا کب ہے؟ جب اسکا خریدار موجود ہوتا ہے۔

ہمارے ملک کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ، ہر وقت کوئی بیرونی سازشی عنصر حکومتی عہداداران کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے خریدنا چاہتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی سنا کہ کوئی پاکستانی حکومت یا ایجنسی نے کسی یورپی یا امریکی وزیر، مشیر یا صدر کو رشوت دینے کی کوشش کی ہو ؟

کیا کبھی ہمارا وزیر خارجہ یا صدر کا مشیر کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعت کے سربراہ سے ملنے گیا ہو؟ کیا امریکی الیکشن کے فورا بعد پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ کہ دورہ پر گیا؟ امریکی صدر سے ملنے ؟ یا اسے ہدایات دینے، کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے، کوئی امریکی برطانوی وزیر مشیر یا صدر کا نمائندہ پاکستان کے دورہ پر آ جاتا ہے، کبھی کبھار امریکی صدر صرف ایک ٹیلیفون کال سے کام چلا لیتا ہے۔

ایسا کبھی نہیں ہوا کیوں کہ کسی پاکستانی حکومت یا تنظیم نے کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف سازشوں کا جال تیار نہیں کیا ، مسلمان چاہے اپنے فرائض سے کتنا بھی غافل کیوں نہ ہو لیکن اسکا ذہن ان گندگیوں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں تک ہندو اور یہودی پہنچ چکے ہیں، بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ مسلمان دنیا کی رنگینوں میں کھو کر اپنے فرائض سے غافل ہو چکا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی کی مدد بھی اسے حاصل نہی رہی، لیکن دشمنان پاکستان نے ہمارے ملک کے خلاف برسوں سے سازشیں تیار کر رکھی ہیں جن پر یہ لاکھوں کروڑوں ڈالر صرف کرتے رہتےہیں اور سالہاسال ان سازشوں کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں، نہ انتظار سے گھبراتے ہیں نہ پیسے سے۔ کبھی یہ ہمارا کالا باغ ڈیم رکواتے ہیں تو کبھی کسی صوبہ میں علیحدگی کی تحریک کے لیے بے پناہ رقوم خرچ کردیتے ہیں، کبھی ہمارے دریائوں پر بند باندھ کر ہمارا پانی روکنے کی سازش کرتے ہیں۔ کبھی افغانستان سے ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے جتھے تیار کرکے بیجتے ہیں، کبھی ہمارے ملک میں آئی ہوئی مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کرکے ہماری بین الاقوامی کرکٹ بند کر دینے کی سازش کرتے ہیں۔ کبھی ہم پر ڈرون حملے کرتے ہیں، معصوم بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں پر میزائل برساتے ہیں۔ کبھی ہماری پولیس کے ھیڈ کوارٹر پر خودکش حملہ کرتے ہیں اور کبھی ہماری فوج پر، کبھی لڑکی پر مردوں کے کوڑے برسانہ دکھا کر ہمارے پیارے دین اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کرتے ہیں، کبھی ہماری حکومت کو اپنے ساتھ ملا کر ہمارا آٹا، بجلی پانی، چینی دال سبزی کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں،کبھی ہمارے ایٹمی پروگرام کےخلاف سازش کی جاتی ہے، اور کبھی ہمیں ثقافتی طور پر تباہ کرنے کے لیے غیر اخلاقی افلام اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں۔

کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ایک سال ہمارا ملک ریکارڈ گندم پیدا کرتا ہے اور اسی سال ملک میں آٹے کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے بھلا ؟

کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک مرد مومن کے سامنے آ کر کبھی اسکا مقابلہ نہیں کر سکتے،یہ مسلمانوں سے شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے یہ پیچھے سے چھپ کر وار کرتے ہیں، ان کےجگر اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ یہ ایک مسلمان کا سامنا کرسکیں۔ لیکن یہ عناصر اس بات سے ناواقف ہیں، کہ فتح تو آخرکار حق کی ہونی ہے۔

آپ ذرا تصور کریں کہ اگر پاکستانی حکومت کچھ عرصہ کے لیے بھارت میں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کے سر پر ہاتھ رکھ دے تو بھارت کو ٹوٹنے میں کتنے سال کا عرصہ لگے؟

یقینن ہمارے اندر بھی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو ان غیر ملکیوں کے ہاتھ بک کرخود اپنے ہی بہنوں بھائیوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس بات میں کوئ ابہام نہیں کہ طالبان کو ہمارے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔

میرے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پاکستانی اپنے دشمنوں کی سازشوں کو پہچانیں، اپنے ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگہی حاصل کریں اپنے ملک کی ان سازشوں سے حفاظت کریں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے ، آمین
 

طالوت

محفلین
برادر یہ بیرونی سازشیں سن سن کر کان پک گئے ہیں ۔ جب عوام و خواص سطحی سوچ رکھتے ہوں (حقیقت میں عوام نے شاید سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے) تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اور زمانہ ازل سے کمزوروں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اپنی ناکامیوں کی وجہ دریافت کرتے ہوئے انگلی ہمیشہ دوسری جانب اٹھا رکھتے ہیں ۔ اپنے گرد نظر دالئے بلکہ اپنے اندر جھانکئے ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قدر حوصلہ رکھتے ہیں کہ غلط کو اس مقام پر غلط کہہ سکیں جہاں کہنے کا حق ہے ۔ پچھلے دنوں ایک صاحب جن کے بچے مجھ سے بھی کئی برس بڑے ہیں ایک سلسلے میں رشوت دینے کی مخالفت پر یہ سبق دے رہے تھے کہ عقل مند وہ ہے جو وقت سے فائدہ اٹھائے ۔ یہ معمولی سے بات اپنے اندر کیا رکھتی ہے اس پر ضرور سوچئے گا ۔پھر آپ کی تحریر پر تبصرے ضرور آئیں گے ۔
وسلام
 
کیا یہ تحریر اتنی ہی فضول ہے ؟؟؟
ایک تبصرہ بھی نہیں

نہیں یاسر بھیا

بات پسند یا نا پسند کی نہیں‌ہے، ہم سب دراصل سوئے ہیں، ہمارے پاس اپنی انفرادی سوچ باقی رہ گئی ہے۔ اور ہم سب عمل سے زیادہ خوابوں پر یقین رکھنے لگے ہیں

ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم کہیں بھی ہوں سنجیدگی ہماری مزاج سے بہت دور چلی گئی ہے لہذا اس تحریر پر تبصرہ اسی وجہ سے نہیں آیا کہ لوگ صرف اپنا وقت گزارتے ہیں اور اجتماعی معاملات پر ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔
 

گرائیں

محفلین
میرے بہت سے ہم وطن یہ سوچیں گے، کہ میرے وطن کی بری حالت کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے، ہماری بد دیانتی، خود غرضی، جھوٹ فریب دھوکہ ہماری بری حالت کا سبب ہے، ہم دوسروں کی عزتوں پر نظر رکھتے ہیں، ہم دوسروں کے مال پر نظر رکھتے ہیں، ہم جعل سازی کرتے ہیں۔ہم حسد کینہ اوربغض رکھتے ہیں،

میں سو فیصد متفق ہوں ان جملوں سے ۔۔

بازار میں کچھ بکتا کب ہے؟ جب اسکا خریدار موجود ہوتا ہے۔

ہمارے ملک کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ، ہر وقت کوئی بیرونی سازشی عنصر حکومتی عہداداران کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے خریدنا چاہتا ہے۔

یہ جلمے آپ کی تحریر کا خلاصہ ہیں۔

اور میرا تمام تر تبصرہ یہی اقتباسات ہیں۔
 
برادر یہ بیرونی سازشیں سن سن کر کان پک گئے ہیں ۔ جب عوام و خواص سطحی سوچ رکھتے ہوں (حقیقت میں عوام نے شاید سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے) تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اور زمانہ ازل سے کمزوروں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ اپنی ناکامیوں کی وجہ دریافت کرتے ہوئے انگلی ہمیشہ دوسری جانب اٹھا رکھتے ہیں ۔ اپنے گرد نظر دالئے بلکہ اپنے اندر جھانکئے ہم میں سے کتنے ہیں جو اس قدر حوصلہ رکھتے ہیں کہ غلط کو اس مقام پر غلط کہہ سکیں جہاں کہنے کا حق ہے ۔ پچھلے دنوں ایک صاحب جن کے بچے مجھ سے بھی کئی برس بڑے ہیں ایک سلسلے میں رشوت دینے کی مخالفت پر یہ سبق دے رہے تھے کہ عقل مند وہ ہے جو وقت سے فائدہ اٹھائے ۔ یہ معمولی سے بات اپنے اندر کیا رکھتی ہے اس پر ضرور سوچئے گا ۔پھر آپ کی تحریر پر تبصرے ضرور آئیں گے ۔
وسلام
پہلی بات ، شکریہ آپ نے تبصرہ کیا
آپ میری بات سے متقق نہیں، مگر میں آپ کی بات سے متفق ہوں کچھ حد تک۔
ہم میں‌بے شمار غلطیاں ہیں، ہم رشوت دینے کو غلط کہتے ہیں لیکن جب ہمارا اپنا کوئی مسلہ اٹک جاتا ہے تو ہم فورا رشوت اور سفارش کا سوچتے ہیں، ہم لوگ اپنا ایمان بیچنے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں، اسی طرح ہمارے سیاستدان بھی، صدور بھی، وزرا بھی،
ہمارے ارد گرد سازشیں بنی جا رہی ہیں مگر ہم میں سے کوئی بھی نہ خود کو سدھارنے کو تیار ہے نہ اجتماعی طور پر پاکستان کے مسائل کے لیے غورفکر کرنا چاہتا ہے :confused:
 
نہیں یاسر بھیا

بات پسند یا نا پسند کی نہیں‌ہے، ہم سب دراصل سوئے ہیں، ہمارے پاس اپنی انفرادی سوچ باقی رہ گئی ہے۔ اور ہم سب عمل سے زیادہ خوابوں پر یقین رکھنے لگے ہیں

ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم کہیں بھی ہوں سنجیدگی ہماری مزاج سے بہت دور چلی گئی ہے لہذا اس تحریر پر تبصرہ اسی وجہ سے نہیں آیا کہ لوگ صرف اپنا وقت گزارتے ہیں اور اجتماعی معاملات پر ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔

ثمینہ بہن، شکریہ آپ کا، رائے دینے کے لیے، اس بات پر بھی میں اپنا خیال پیش کر چکا ہوں اوپر والے جواب میں، کہ ہم لوگ نکمے ، جاہل، خود غرض ہو چکے ہیں، ہم اپنے آباو اجداد کے کارناموں سے واقف ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کارناموں کی وجہ سے اللہ پاک کا کرم ہم پر ہو جائے، لیکن ہم وہ عادات اپنانے کے لیے تیار نہیں
 
سازشیں بالکل ہو رہی ہیں۔ لیکن یہ ہمارے کمزور اعمال کا نتیجہ ہے!

تو اگر میں کہوں کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہر ناکامی کی وجہ اپنے وجود میں ہی تلاش کرتے ہیں تو ٹھیک ہو گا؟
مطلب آپ اپنی ذات کے متعلق خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہیں
یا پھر غیر مسلموں اور گوروں سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں
خیر چھوڑیے اس بحث کو، میں نے اپنا نظریہ بیان کیا، اگر آپ اتفاق نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں
 

dxbgraphics

محفلین
تو اگر میں کہوں کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہر ناکامی کی وجہ اپنے وجود میں ہی تلاش کرتے ہیں تو ٹھیک ہو گا؟
مطلب آپ اپنی ذات کے متعلق خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہیں
یا پھر غیر مسلموں اور گوروں سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں
خیر چھوڑیے اس بحث کو، میں نے اپنا نظریہ بیان کیا، اگر آپ اتفاق نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں

عارف بھائی کو پتہ نہیں کیا احساس کمتری ہے ؟ اللہ بہتر جانتا ہے
 
عارف بھائی کو پتہ نہیں کیا احساس کمتری ہے ؟ اللہ بہتر جانتا ہے

جناب ہر انسان کے سوچنے کا ڈھنگ الگ الگ ہے، ہر کوئی حالات و واقعات کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور اسکے نتائج مرتب کرتا ہے، میں نے اکثر اندازہ لگایا کہ مختلف ممالک میں مختلف میڈیا سے معلومات حاصل کرنے والوں کے رائے میں بہت فرق ہوتا ہے، جیسے برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والے اکثر افراد کو پاکستان پر ننقید کے علاوہ کوئی بات آتی ہی نہیں۔
 

arifkarim

معطل
تو اگر میں کہوں کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہر ناکامی کی وجہ اپنے وجود میں ہی تلاش کرتے ہیں تو ٹھیک ہو گا؟
مطلب آپ اپنی ذات کے متعلق خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہیں
یا پھر غیر مسلموں اور گوروں سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں
خیر چھوڑیے اس بحث کو، میں نے اپنا نظریہ بیان کیا، اگر آپ اتفاق نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں

جی ہاں، پوری پاکستان قوم احساس کمتری کا شکار ہے۔ آزادی سے لیکر ابتک ہمارے تمام نظام؛ سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی، سب کے سب مغرب کی پیچھے چل رہے ہیں۔ یہ احساس کمتری نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر جب ہم انکو ٹھیک سے "کاپی" نہیں کر پاتے اور مسائل میں گرفتار ہوتے ہیں تو انہی غیروں کوبرا بھلا اور سازشی کہتے ہیں جبکہ غلطی اپنی ہے کہ کیوں غیروں کے پیچھے چلتے ہیں؟! کیا سمجھے :grin:
 
جی ہاں، پوری پاکستان قوم احساس کمتری کا شکار ہے۔ آزادی سے لیکر ابتک ہمارے تمام نظام؛ سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی، سب کے سب مغرب کی پیچھے چل رہے ہیں۔ یہ احساس کمتری نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر جب ہم انکو ٹھیک سے "کاپی" نہیں کر پاتے اور مسائل میں گرفتار ہوتے ہیں تو انہی غیروں کوبرا بھلا اور سازشی کہتے ہیں جبکہ غلطی اپنی ہے کہ کیوں غیروں کے پیچھے چلتے ہیں؟! کیا سمجھے :grin:

لیکن یہ بات سب پاکستانیوں کے لیے نہیں کہی جا سکتی، یقینن احساس کمتری کا شکار لوگ موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم ترقی نہیں کر پار ہے کیوں کہ بہت سارے ممالک ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کیا کبھی ہمارا وزیر خارجہ یا صدر کا مشیر کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعت کے سربراہ سے ملنے گیا ہو؟ کیا امریکی الیکشن کے فورا بعد پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ کہ دورہ پر گیا؟ امریکی صدر سے ملنے ؟ یا اسے ہدایات دینے، کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے، کوئی امریکی برطانوی وزیر مشیر یا صدر کا نمائندہ پاکستان کے دورہ پر آ جاتا ہے، کبھی کبھار امریکی صدر صرف ایک ٹیلیفون کال سے کام چلا لیتا ہے۔


آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ امريکی سفارت کار پاکستان کی سياسی قيادت سے مسلسل رابطے ميں رہتے ہيں ليکن اس حقيقت کا اطلاق پاکستان ميں موجود تمام غير ملکی سفارت خانوں پر ہوتا ہے۔ مسلسل روابط کے يہ سلسلے ان کی ذمہ داريوں کا حصہ ہيں اور اسی مناسبت سے ان کی تعنياتی کی جاتی ہے۔

مختلف سفارتی اہلکار ملکی قائدين، رائے عامہ سے متعلق اکابرين اور سول سوسائٹی کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں کے ذريعے دو طرفہ امور پر خيالات اور نظريات سے ايک دوسرے کو آگاہ رکھتے ہيں۔ يہ معمول کی ملاقاتيں خفيہ نہيں بلکہ پہلے سے طے شدہ ايجنڈے کی بنياد پر ہوتی ہيں۔ يہ نقطہ بھی اہم ہے کہ ان ملاقاتوں کا دائرہ کسی ايشو کے حوالے سے ايک مخصوص نقطہ نظر رکھنے والے سياسی قائدين تک محدود نہيں ہوتا۔ عام طور پر امريکی اہلکار ملک ميں حکومت اور اپوزيشن سميت تمام اہم قائدين سے ملاقاتيں کرتے ہيں۔ اس کے علاوہ پاکستانی سفارت کار بھی واشنگٹن ميں سفارت کاری کے اس مسلسل عمل کا حصہ ہوتے ہيں۔

دنيا کے ہر ملک کی حکومت اپنے مفادات اور علاقائ اور جغرافيائ تقاضوں کے تحت اپنی خارجہ پاليسی بناتی ہے اور حکومتی سفير مختلف ممالک میں اسی خارجہ پاليسی کا اعادہ کرتے ہيں۔ امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اسی تسلسل کا حصہ ہے۔ ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ پاکستان کے انتظامی معاملات ميں دخل اندازی کر رہا ہے اور مختلف فيصلوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ پاکستان ميں ايک مضبوط حکومتی ڈھانچہ خود امريکہ کے مفاد ميں ہے۔ ليکن اس ضمن ميں کيے جانے والے فيصلے بہرحال پاکستان کے حکمران سياست دانوں کی ذمہ داری ہے۔


امريکی سفارت کاروں کی پاکستانی سياست دانوں سے ملاقاتيں اور اس کے نتيجے ميں پاکستان کے اندرونی سياسی معاملات ميں مداخلت کے غلط تاثر کے حوالے سے ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ کہ امريکہ ميں صدارتی انتخابات سے قبل پاکستان کے سفير حسين حقانی نے تينوں امريکی صدارتی اميدواروں سے عليحدہ ملاقاتيں کی اور مستقبل ميں پاکستان اور امريکہ کے مابين تعلقات کے حوالے سے تپادلہ خيال کيا۔ ليکن کسی امريکی اخبار نے يہ الزام نہيں لگايا کہ پاکستان امريکہ کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے يا پاکستان امريکہ کی مستقبل کی خارجہ پاليسيوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس واشنگٹن پوسٹ نے حسين حقانی کے بارے میں ايک اداريہ لکھا تھا جس ميں واشنگٹن ميں مختلف امریکی اہلکاروں سے ان کی مسلسل ملاقاتوں اور پاکستان کے موقف کے ليے ان کی لابنگ کی تعريف کی گئ ۔ سفارت کاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلسل رابطے اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھيں۔

http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2008/05/15/AR2008051503401.html?tid=informbox

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

dxbgraphics

محفلین
جی ہاں، پوری پاکستان قوم احساس کمتری کا شکار ہے۔ آزادی سے لیکر ابتک ہمارے تمام نظام؛ سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی، سب کے سب مغرب کی پیچھے چل رہے ہیں۔ یہ احساس کمتری نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر جب ہم انکو ٹھیک سے "کاپی" نہیں کر پاتے اور مسائل میں گرفتار ہوتے ہیں تو انہی غیروں کوبرا بھلا اور سازشی کہتے ہیں جبکہ غلطی اپنی ہے کہ کیوں غیروں کے پیچھے چلتے ہیں؟! کیا سمجھے :grin:

غلط فرمایا آپ نے ۔ پاکستان میں ہونے والے مغرب کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے لئے لوگ کرائے پر نہیں لائے جاتے بلکہ اپنے آپ کو ان سے الگ قومیت دکھانے کے لئے اور اپنے نالائق حکمرانوں کو یہ کہنے کے لئے کرتی ہے کہ مغرب کی تقلید چھوڑ کر پاکستانی عوام کے امنگوں کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔
رہی بات تو پاکستانی قوم میں ایک آپ ہی ہیں جو احساس کمتری کا شکر ہونگے۔
 

dxbgraphics

محفلین
لیکن یہ بات سب پاکستانیوں کے لیے نہیں کہی جا سکتی، یقینن احساس کمتری کا شکار لوگ موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم ترقی نہیں کر پار ہے کیوں کہ بہت سارے ممالک ہمارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔

خصوصی طور پر سی آئی اے ، موساد، راء اور ساواک یہ چار ایجنسیاں ہی ہمارے ملک میں تخریب کاری کرواتی ہیں۔
 

arifkarim

معطل
خصوصی طور پر سی آئی اے ، موساد، راء اور ساواک یہ چار ایجنسیاں ہی ہمارے ملک میں تخریب کاری کرواتی ہیں۔

ہاہااہاہاہا، پا جی!
یہ چاروں اور انسے زائد ایجنسیاں بشمول مغرب پوری دنیا میں کام کرتی ہیں، پھر صرف پاکستان ہی کیوں زیادہ اثر انداز ہوتا ہے انسے؟!
شاید اسلئے کہ ہمارے ہاں غدار زیادہ ہیں!
نیز کیا ہماری ایجنسی آئی ایس آئی کیا سوئی ہوئی ہے؟
 
Top