سازش کا نظریہ

ابن جمال

محفلین
سازش کا نظریہ
آپ مذکورہ لفظ ٹائپ کرکے کسی بھی سرچ انجن میں دیکھئے بے شمار تقریریں،تحریریں مل جائیں گی جس میں دین کو ایک نظام کہنے والے بتائیں گے کہ سیکولرازم اورموجودہ طرز حکومت ایک سازش ہے اوریہودی ذہن کی پیداوار ہے۔اہل حدیث حضرات بتارہے ہوں گے کہ صوفیت اورتبلیغی جماعت والے یہودیوں اورعیسائیوں کی پیداوار ہیں۔ احناف بتارہے ہوں گے کہ اہل حدیث اورقادیانیت انگریزوں کی سازش کا نتیجہ ہے۔سنی سمجھتے ہیں کہ شیعت کا بانی یہودی تھا اوریہ یہودی سازش ہے۔کچھ اسی طرح کی بات شیعہ حضرات سنیوں کے متعلق سوچتے ہیں۔ اورتمام مسلم فرقے بعد میں ا پنی تمام ترزبوں حالی پستی اورذلت کا ٹھیکرا یہودیوں کے سازشوں کے سرتھوپتے ہیں ۔
یہ ایک مختصر جائزہ ہے اوراس کیلئے کسی ثبوت وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پرلاتعداددانشوروں کی تحریریں بکھڑی پڑی ہیں۔اگر ہمارے دانشوروں نے اپنی دانشوری اس طرح اوراسی طرز کی جاری رکھی تو ایک عام مسلمان بھی اپنی ذاتی پستی اورزبوں حالت کیلئے یہودی سازش کو ذمہ دار سمجھنے لگے گا اوروہ مسلم فکر وفن کی پستی اورز وال کی انتہاء ہوگی ۔
سازش کا نظریہ مسلمانوں میں کب سے شروع ہوا اس کی تاریخ کے اعتبار سے تحدید مشکل ہے لیکن یہ ضرور کہاجاسکتاہے جب تک مسلمان ایک مضبوط سیاسی قوت تھے ان کی تحریریں غیروں کی سازش کے نظریات سے خالی تھیں۔
سب سے بری روایت
سازش کے نظریہ کا سب سے تباہ کن تصور تب ظہور میں آیا جب انیسویں صدی کی ابتداء میں بعض مذہبی جماعتوں نے ایک دوسرے کے متعلق یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ ان کا وجود انگریزوں کے خبث باطن کا مظہر ہے ۔ برصغیر میں تین مکتبہ فکر ہیں دیوبندی حضرات، بریلوی حضرات اوراہل حدیث۔اول الذکر دونوں مکتبہ فکر باوجود حنفی ہونے کے بعض فروعات میں مختلف نقطہ نظررکھتے ہیں ۔ان تینوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر یہ الزام لگایاہے کہ ان کاوجود انگریزوں کا مرہون منت اوران کے خبث باطنی کا مظہر ہے اوراس جماعت کی ترویج واشاعت میں انگریزوں کا ہاتھ ہے۔ یاکم سے کم یہ الزام تولگاہی ہے کہ اس جماعت کے بزرگوں کا انگریزوں کے ساتھ سازباز تھا ۔ مذہبی جماعتوں کی سازش کی اس تھیوری نے مذہبی جماعتوں کے اندر ایک ایسے اختلاف کو جنم دیا جس کے ختم ہونے کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ اگراول دن سے یہ بات طئے پاگئی کہ فلاں جماعت کا وجود ہی انگریزوں اوراسلام دشمنوں کا مرہون منت ہے توپھر اس سے اتحاد کیسا اوررواداری کیسی۔ اگر بات یہ ہوتی کہ تمام جماعتیں آپس میں یہ مان کر چلتیں کہ فلاں جماعت یافلاں مکتبہ فکر سے ہمارا جوکچھ اختلاف ہے وہ بعض علمی اورفروعی مسائل تک ہے توشاید مذہبی جماعتوں کا اختلاف اتنا سخت نہ ہوتااورنوبت زبانی کلامی اختلافات سے بڑھ کر ایک دوسرے کی ہلاکت اورلعن طعن تک نہ پہنچتا۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہرجماعت کے کچھ علماء جو بذات خود معتدل سمجھے جاتے ہیں انہوں نے بھی اپنی جماعت میں موجود انتہاپسندعلماء کی مذمت کھل کر نہیں کی ۔اس سے عام عوام گمراہ ہوتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ انتہاپسند علماء جوکچھ کہہ رہے ہیں وہ درست اورصحیح ہے۔جب کہ ہونا یہ چاہئے تھے کہ اگر کوئی اپنی جماعت کا عالم دین کسی دوسری جماعت پر کوئی ایساالزام لگارہاہے جو تاریخی لحاظ سے درست نہیں یاناقابل اعتماد ہے تواس کی کھل کر مذمت کرنی چاہئے تھی تاکہ ایسے انتپاپسندوں کی حوصلہ شکنی ہواورعام عوام گمراہ نہ ہوں لیکن اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔
سازش کا دوسرانظریہ ہمارے بذات خود اوربزعم خود چند ماہرین اوردانشوران پیش کرتے ہیں ۔ان کارات دن کا رونایہ ہے کہ مسلم امت کی پست حالی زبوں حالی اور دنیا میں پچھڑنے کا سبب یہ ہے کہ پوری دنیا مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہی ہے۔اسرائیل اورمریکہ ،یہودی اورعیسائی امت مسلمہ کو مٹادیناچاہتے ہیں اسے صفحہ ہستی سے نابودکردیناچاہتے ہیں اوراس کیلئے روزانہ نت نئے خوفناک منصوبے تراش رہے ہیں۔ ہمارے خودساختہ ماہرین اوردانشوران رات دن ریڈیو،ٹی وی، اورذرائع ابلاغ کے دیگر ذرائع سے مسلم نوجوان کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ ملت کی پسماندگی کی وجہ غیروں کی سازشیں ہیں، امریکہ اوراسرائیل کی ریشہ دوانیاں ہیں۔ ہمارے ماہرین جو ہروقت اسلام دشمن طاقتوں امریکہ اوراسرائیل اوردیگر بیرونی طاقتوں کی سا زشوں کاانکشاف کرتے رہتے ہیں ان سے اگر کوئی یہ سوال پوچھ لے کہ حضرت سازشوں کا صرف انکشاف ہی مکمل کام ہے یاپھراس کا د فعیہ اوراس کے خلاف عمل بھی کرنے کی کچھ ضرورت ہے اوراس سلسلے میں آ نجناب نے کتنا کام کیاہے توپھر وہ اندھے بہرے اورگونگے بن جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ان کی روزی روٹی کا دارومدار ہی اس پر ہے کہ اس امت کو جذباتیت،جوش اورپدرم سلطان بود کی غذائیں دو ۔اس کو بتائو کہ تمہاری پستہ حالی زبوں حالی اوردنیا میں پچھڑنے کا سبب تمہاری بے عملی نہیں بلکہ غیروں کی سازشیں ہیں۔
سازش کا تیسرانظریہ سیاسی لیڈران تراشتے ہیں۔ ان کا رونایہ ہوتاہے کہ اگر ملک ترقی نہیں کررہاہے تویہ دوسرے ملکوں کی سازش ہے۔ اگر ملک اقتصادی طورپر سے پسماندہ ہے تواس کیلئے ورلڈ بنک اورآئی ایم ایف جیسے ادارے ذمہ دار ہیں۔اگرملک میں انتشار اورخانہ جنگی ہے تواس کیلئے پڑوسی ممالک ذمہ دار ہیں۔ اگر ملک میں تعلیم کی کمی ہے اورجہالت کا سورج سرچڑھ کر بول رہاہے توپھراس کی وجہ بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک ہیں جو نہیں چاہتے کہ ہم ترقی یافتہ بنیں۔
یہ سب درحقیقت سیاسی لیڈروں کے بہانے ہیں جو وہ اپنی بے عملی اورکرپشن کے جواز کیلئے تراشتے ہیں ۔ان کیلئے بہت آسان ہو تاہے کہ وہ اپنی ساری بے عملی، کرپشن، اقرباء پروری اورخویش نوازی پر پردہ ڈالنے کیلئے غیروں کی سازش کا نظریہ تراش لیں اورعوام کوسازش کے نظریات میں الجھاکر اپناالوسیدھاکرلیں۔ ایسے رہنمائوں کے بارے میں شاعر نے کتناخوبصورت شعر کہاہے
توادھرادھر کی نہ بات کریہ بتاکہ قافلہ کیوں لٹا
تیری رہبری کا سوال ہے مجھے راہزن سے غرض نہیں
سازش کی حقیقت
سازش نہ کوئی نئی بات ہے اورنہ آخری۔دنیا جب سے بنی ہے تب سے مفادات کاکھیل جاری ہے۔ ہرایک فرد،گروہ،قوم،ملک، اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔اس میں کسی ملک کا استثناء نہیں ہے۔ ہرملک کیلئے اس کے مفادات سب سے اعلیٰ اوربرترقدر رکھتے ہیں۔ باقی انسانی حقوق اورانصاف کی باتیں زبانی جمع خرچ ہیں۔ ہم میکاولی کے طریقہ سیاست پر اخلاقی اعتبار سے تنقید توکرسکتے ہیں لیکن فی الوقت پوری دنیا اسی پر عمل پیراہے۔ جسے ہم سازش سمجھتے ہیں وہ دوسرے فریق کی اپنے مفادات کو برقراررکھنے کی اوراسے توسیع دینے کی تدبیر ہوتی ہے۔
عربوں کے قلب میں اسرائیل کا وجود،غاصبا نہ اورظالمانہ ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن امریکہ اول دن سے اسرائیل کی حمایت کرتاآیاہے اس کی وجہ کیاہے سازش کے نظریہ سے ہٹ کر سوچیں توپتہ چلے گاکہ امریکہ کے مفادات مشرق وسطی میں اسی صورت میں محفوظ رہ سکتے ہیں جب کہ اسرائیل کا وجود ہو اوروہ عسکری طورپر ان سے مضبوط ہو اورعرب اپنی حفاظت اوربقاء کیلئے امریکہ کے محتاج ہوں۔یہ زمینی حقیقت ہے اوربقیہ جو بیانات ہیلری کلنٹن یااوبامہ کے ہیں وہ زبانی جمع خرچ ہیں۔
اسرائیل کی سازشوں کے خلاف ہم جتناانکشاف اورتبصرہ کرلیں مگر ایک طرف ان کی محنت ،جدوجہد اوراپنے مقصد سے لگن کو بھی دیکھیں۔ صرف یہی ایک بات دیکھ لیں کہ انہوں نے عبرانی زبان کو ازسرنوزندہ زبان بنادیااورپورے ملک کی زبان بنادیا اورعوامی بول چال کی زبان بنادیا صرف اتناہی نہیں بلکہ عبرانی زبان کے ادیبوں نے نوبل انعام بھی حاصل کرلیا۔دوسری طرف ہم اردو زبان پر غورکریں آج تک برصغیر میں انگریزوں کے جانے کے بعد بھی انگریزی زبان حکومت کررہی ہے۔ ہم اسے آج تک مکمل طورپر ملک کی زبان نہیں بناسکے ۔آج تک اردو کو سائنس کی زبان نہیں بناسکے اورنہ ہی اس زبان کے ادیب اورشاعرکوئی باوقار بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرسکے۔یہ جائزہ ہی بتارہاہے کہ ہم اپنے مقصد کے تئیں کتنی لگن رکھتے ہیں۔ہوسکتاہے کل کوئی کہدے کہ عبرانی زبان کو نوبل انعام ملنے کے پیچھے بھی کوئی سازش ہو۔
اگر سازش ہے توبھی
ایک انگریزدانشور کا قول ہے نام یاد نہیں رہاکہ کوئی آپ کے پیٹھ پر تبھی سوار ہوسکتاہے جب آپ کی کمر جھکی ہوئی ہو،اگرآپ کی کمر جھکی نہیں ہے تو کوئی بھی آپ کی پیٹھ پر سوار نہیں ہوسکتا۔کسی کی بھی سازش اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب کمزوری ہمارے اندر موجود ہو۔سازش ہوتی کیاہے؟سازش دراصل اپنے مخالف کی کمزوری کا استعمال کرنا اوراسے بڑھاوادیناہے۔یہ سازش کی حقیقت ہے۔اب اگر اپنی کمزوری دور کرلی جائے تو دشمن اورمخالف کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی لیکن اس کے بجائے ہم اخلاقی ،اجتماعی طورپر بدسے بدتر ہوتے جائیں ۔ہمارے اندر دنیابھر کی کمزوریاں جمع ہوجائیں اورہم بجائے اپنی کمزوریوں کو دورکرنے کے دشمن کی سازشوں کے خلاف شوروغوغا شروع کردیں تو پھر اس کا انجام اسباب وعلل کی دنیامیں ایک ہی ہے اور وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
سازش کا جواب
قران وحدیث نے ایک مسلمان کا جوذہن بنایاہے وہ در حقیقت خوداحتسابی کا ذہن ہے کہ جب کسی کوکوئی زک پہنچے ،کوئی تکلیف دہ یاناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو وہ سوچے کہ مجھ سے کیاغلطی ہوئی، میراکمزور پہلو کون ساہے۔غلطی کی وجہ اور سبب کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ قران نے مسلمانوں کو ایک عام اصول دے دیاکہ تمہارے ساتھ جوکچھ ناخوشگوار واقعہ پیش آتاہے ۔اس کی واحد وجہ اورسبب تمہارے کرتوت ہیں۔ تمہاری بداعمالیاں ہیں ۔تمہاری غلطیاں اورکمزوریاں ہیں۔''ومااصابکم من مصیبة فبماکسبت ایدیکم''۔ چنانچہ جب دلی پر نادرشاہ نے حملہ کیاتوجہاں سب لوگ اس قتل عام کو نادرشاہ کی سفاکیت سے تعبیرکررہے تھے وہیں ایک بزرگ نے اس کا اعتراف کیاکہ شامت اعمال ماصورت نادرگرفت
قران میں ایک دوسرے موقع سے غزوہ احد کے موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو جوکچھ ہزیمت اورتکلیف پہنچی تھی اس کے تعلق سے بے لاگ اعلان کردیایہ تمہارے اعمال ہیں کہ تم نے نبی کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دنیا وی متاع کو ترجیح دیا اس کی وجہ سے تم پر یہ مصیبت آئی۔قران نے یہ نہیں کہاکہ یہ کفار مکہ کی سازشیں تھیں اورمسلمانوں کو صفحہ ہستی سے دنیاسے مٹانے کی سازش تھی بلکہ اصل پیغام یہ دیاگیاکہ کفار مکہ جارحتیں اپنی جگہ، ان کے حملے اپنی جگہ ،وہ دشمن ہیں حملہ ضرور کریں گے مگر اس جنگ میں جو تمہیں شکست ہوئی ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم نے رسول خدا کے حکم کو ماننے میں غلطی کی اگر تم رسول کے حکم کے مطابق اپنی جگہ پر جمے رہتے اوراپنی جگہ نہ چھوڑتے توتمہیں شکست نہ ہوتی۔
یہ ہےقران کا خود احتسابی کا مزاج ،یعنی کوئی بھی صدمہ پہنچے، تکلیف پہنچے۔ مصیبت آئے اس وقت انسان کو خود احتسابی کرناچاہئے بحیثیت فرد،بحیثیت قوم اوربحیثیت ایک ملت۔کہ ہم سے کہاں پر غلطی ہوئی،دشمن سے ہم کس موقعہ پر کمزور پڑے۔ ہماری خامیاں اورکمزوریاں کیاہیں۔جب خود احتسابی ہوگی تو اپنی غلطیاں معلوم ہوں گی ۔اپنی کمزوریوں کا علم ہوگا اوراس کے بعد ان کو دور کرنے کی کوششیں بھی ہوں گی لیکن اگر خود احتسابی نہ ہو اورپہلے سے یہ یہ طئے کرلیاجائے کہ ہم تومعصوم عن الخطا ہیں اورجوکچھ ہوا ہے اورہورہاہے اورہوگا وہ دشمنوں کی سازشیں ہیں تونہ خوداحتسابی کا جذبہ ابھرے گا اورنہ اپنی کمزوریاں اورخامیاں معلوم ہوں گی۔
قران کریم نے ہمیں سا زشوں کا مقابلہ کرنے کا جونسخہ کیمیا عطاکیاہے وہ یہ ہے ’’وان تصبرواوتتقوا لایضرکم کیدھم شیئاً‘‘اگرتم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو توان کی سازشیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتیں۔یہاں پر قران کریم نے مسلمانوں سے دشمنوں کی سازش کے جواب میں دوامر کا مطالبہ کیاہے ایک صبر کا ا ورد وسرے تقویٰ کا۔
صبر اورتقویٰ ہے کیا؟ صبر او رتقویٰ کا مفہوم بہت وسیع ہے لیکن امتداد زمانہ اور گردش ایام نے جس طرح بہت ساری دیگر اسلامی اصطلاحات اوران کے مفہوم کو وسعت کو گھٹادیاہے اورمحدود کردیاہے اسی طرح اورصبر اورتقویٰ کا بھی صرف محدود مفہوم عام طورپر مسلمانوں میں پایاجاتاہے ۔
صبر کے معنی رک جانے کے ہیں۔یعنی انسان کو کوئی جذباتی نفسیاتی ذہنی صدمہ پہنچے تواس وقت انسان ایسے اقدامات سے رک جائے جوجذباتیت کی پیداوار ہوں بلکہ پورے معاملہ پرتھوڑارک کر غورکرکے اورشرعی اورعقلی اعتبار سے جائزہ لے کہ اس بارے میں شریعت کا حکم کیاہے اورکسی اقدام کا کیا اثرہوگا اس کے بعد اقدام کرے ۔
تقویٰ کا ایک چھوٹا مفہوم سب کو معلوم ہے دوسرامفہوم یہ ہے کہ حضر عمر نے ایک مرتبہ حضرت کعب احبار سے جب تقویٰ کی حقیقت کے متعلق دریافت کیاتوانہوں نے عرض کیاکہ کیاکبھی آپ کو ایسے راستے سے گزرنے کا اتفا ق ہواہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہوں ۔حضرت عمر نے فرمایاہاں! حضرت کعب نے کہاپھر آپ نے کیاکیا؟ انہوں نے کہاکہ میں نے اپنے دامن کو ٹھیک سے سمیٹا اوراحتیاط کے ساتھ راستہ طئے کرنے لگاکہ مبادا کوئی کانٹا میرے کرتے کو پھاڑنہ دے۔ فرمایا اسی کانام تقویٰ ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کہاجائے تو تقویٰ نام ہے احتیاط کا۔محتاط رویہ اختیار کرنے کا۔دین کے معاملہ میں محتاط رویہ یہ ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کو چھوڑدے جو کل قیامت کواس کیلئے نقصان دہ ہوں گی اوردنیا کے بارے میں محتاط رویہ یہ ہے کہ انسان ایسی حرکتوں اورافعال سے بازر ہے جو اس کے مستقبل کیلئے نقصان دہ اورخراب ہوں۔ یعنی تقویٰ کے مفہوم میں احتیاط ،سنجیدگی کا مفہوم شامل ہے۔ اسی کے ساتھ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ انسان ڈبل اسٹینڈرڈ نہ ہو اس میں منافقت نہ ہو۔ یعنی اپنے بارے میں وہ کچھ اورپسند کرے اوردوسروں کے بارے میں کچھ اور،جلسہ گاہ میں کچھ اوربات کہے اورذاتی اورنجی محفلوں میں کچھ اور۔بلکہ وہ وہی کہے اورکرے جس پر اس کا دل اورضمیر دونوں مطمئن ہوں۔
اگرہمارے اندر یہ دوصفتیں صبر اورتقویٰ مکمل طورپرآجائیں گی تو پھر دشمن کی سازشیں بے کار ہوجائیں گے۔ آج ہوتا یہ ہے کہ ہمارے مخالف اور دشمن کچھ کرتے ہیں اورہم جذبات میں بے قابوہوکراپنے ملک کی املاک کو نقصان پہنچاناشروع کردیتے ہیں یاایسی حرکتیں کرتے ہیں جس سے ملک کی اقتصادی ترقی متاثرہوتی ہے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچتاہے لیکن اس کی جگہ اگرہم صبر اورسنجیدگی کے ساتھ ردعمل کا اظہار کریں توشاید دشمن دوبارہ ا پنی حرکت کا اعادہ نہ کرے۔والسلام[/size][/right][/left][/right][/right]
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

جزاک اللہ خیر۔ بہت اچھی تحریرہے جس میں سمجھنےکےلیےبہت کچھ ہے۔ اللہ تعالی آپ کےزورقلم اورترقی بخشے۔ آمین ثم آمین


والسلام
جاویداقبال
 

مدرس

محفلین
سازش کا نظریہ

قران میں ایک دوسرے موقع سے غزوہ احد کے موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو جوکچھ ہزیمت اورتکلیف پہنچی تھی اس کے تعلق سے بے لاگ اعلان کردیایہ تمہارے کرتوت ہیں کہ تم نے نبی کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دنیا وی متاع کو ترجیح دیا اس کی وجہ سے تم پر یہ مصیبت آئی[/size][/right][/left][/right][/right]
ماشا ء اللہ آپ کی تحریر اچھی لگی لیکن اس پیرا گراف میں اس جملہ کے علاوہ ’’تمہارے کرتوت ہیں ‘‘
صحابہ کرام کے معاملہ میں مودبانہ انداز ہو نا چاہیئے
امید ہیکہ ناراض نہیں ہو ں گے
 

ابن جمال

محفلین
شکریہ اس نشاندہی کا۔میں اپنے الفاظ تبدیل کردیتاہوں۔ دراصل میرے ذہن میں یہ تھا کہ قران کی ہرآیت چاہئے اس کے نزول کا پس منظرخاص ہو لیکن الفاظ عام ہوتے ہیں توقران کی یہ آیت ہمارے متعلق بھی ہے اوراسی لحاظ سے میں نے اس میں کرتوت کے الفاظ لکھے تھے ۔ایک بار پھر آپ کی نشاندہی کاشکریہ
 

سویدا

محفلین
بہت خوب اللہ آپ کے زور قلم کو اور بھی زیادہ کرے
ایسے نازک موضوع پر اعتدال اور توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی فکر کو پیش کرنا
خال خال ہی نظر آتاہے
اللہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق بھی عطافرمائے ، آمین
 

arifkarim

معطل
بہت زبردست تحریر ہے۔ میرا خیال ہے ہم جبتک ان صیہونی سازشوں کا پردہ فاش نہیں‌کریں‌گے، مستقبل کے جوان انہی کی پیروی کرنے میں‌عار نہیں سمجھیں گے۔ آپنے یہاں پر صرف اسلام کے اندر ہونی والی سازشوں کا ذکر فرمایا ہے۔ جبکہ یہ تو محض کچھ بھی نہیں جتنی سازشیں اقتصادی دنیا میں‌ہوتی ہیں، وہ بے حساب ہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
بہت زبردست تحریر ہے۔ میرا خیال ہے ہم جبتک ان صیہونی سازشوں کا پردہ فاش نہیں‌کریں‌گے، مستقبل کے جوان انہی کی پیروی کرنے میں‌عار نہیں سمجھیں گے۔ آپنے یہاں پر صرف اسلام کے اندر ہونی والی سازشوں کا ذکر فرمایا ہے۔ جبکہ یہ تو محض کچھ بھی نہیں جتنی سازشیں اقتصادی دنیا میں‌ہوتی ہیں، وہ بے حساب ہیں۔
عارف کریم صاحب تھوڑی مزید وضاحت کردیں۔مہربانی ہوگی۔
 
Top