سافٹ وئیر اپڈیٹ ہوگیا؟

جاسم محمد

محفلین
سافٹ وئیر اپڈیٹ ہوگیا؟
1 hour ago
54252736_101.jpeg


کیا بیانیے کا 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' کرنے کے بعد قوم کو 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کرنے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؟ صحافی مطیع اللہ جان کا کالم
پاکستان میں اغوا، لاپتہ یا ماورا عدالت مارے جانے والے والوں سے متعلق نوجوان نسل کے ایک مخصوص طبقے کی بے حسی شرمناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ مقتدر اداروں اور ان سے ملی بھگت سے حکومت بنانے والے سیاسی حلقوں کے پڑھے لکھے چشم و چراغ دور دراز علاقوں میں اغوا یا لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق بزدلانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر ایسے واقعات کو ملکی سلامتی سے جوڑتے ہیں۔

ایسا کرکے وہ اپنی تعلیم اور اپنے تعلیمی اداروں کے گرتے معیار کا پتہ بخوبی دیتے ہیں۔ اس بے حسی کی وجہ وہ نصاب اور غیرنصابی سرگرمیاں ہیں جن پر ہماری فوجی آمرانہ تاریخ کی گہری چھاپ اور اب تک کی سیاسی قیادت کی حد درجہ بزدلی اور مصلحت پسندی ہے۔

نوجوان نسل کو فوجی ادوار میں جس طرح سیاست، سیاسی عمل، سیاستدانوں اور جمہوریت سے متنفر کیا گیا اور نام نہاد ریاست کو سیاست کے بل مقابل لا کھڑا کیا گیا، اس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ان غیر سیاسی سیاستدانوں کی تیار شدہ نئی کھیپ اور ریاست کے سرکش سازشی عناصر نے آپس میں مل کر آج ملک کو یرغمال بنا لیا ہے۔

سیاست، صحافت اور عدالت خود ساختہ ریاستی محافظوں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔

جمہوریت اور سیاسی عمل کے خلاف اسلامی تعلیمات کے مراکز اور مدارس کو بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ مذہبی رہنماؤں کو جب تک اس سازش کی سمجھ آئی اس وقت تک اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ان کے اپنے کارکنوں کا 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' ناقابل اصلاح حد تک مکمل ہو چکا تھا۔ اس صورت حال میں اب بظاہر پوری قوم 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کی طرف جا رہی ہے۔

نوجوان نسل کی سیاسی اور نظریاتی بےشعوری جنونیت کی حدوں کو چھو رہی ہے جو ہمیں قومی سطح پر ہونے والے اس 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کا پتہ دیتی ہے۔ بیانیے کے سافٹ وئیر اپڈیٹ کے بعد نظام کا ہارڈ وئیر اپڈیٹ کیے جانے کا خطرہ ہے۔

اس کی ایک مثال ہماری سیاسی نظریات اور سوچ سے عاری نوجوان نسل ہے جس کے نزدیک آئین اور قانون سے زیادہ اہم ملک یا ریاست ہے، چاہے اس ریاست کے وجود سے آئین کی روح پرواز ہی کیوں نہ کر گئی ہو۔

تاریخ سے بددیانتی کرنے والے سرکاری نصاب کے سکول اورکالجوں کی فارمی نوجوان نسل کا ایک گروہ ہے جو کسی کے اغوا اور اس پر ہونے والے تشدد کو سافٹ وئیر اپڈیٹ کا نام دیتے ہیں۔ عسکری کاروباری سلطنت کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل یہ نوجوان بنیادی انسانی حقوق کو ملکی سلامتی سے مشروط کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

اب تو ہم جیسوں کے لیے بھی ان اصلاحات کا حوالہ دیے بغیر بات سمجھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی ہتھکنڈوں کو دلچسپ اور انوکھے الفاظ کا لبادہ پہنانے کی ایک مثال لفظ 'اسٹیبلشمنٹ' بھی ہے جس کا آئین میں ذکر نہیں مگر آئین اور قانون کے لاوارث غداروں کو یہ نام دے کر معاشرے میں پہچان دی گئی ہے۔

سافٹ وئیر اپڈیٹ کی اصطلاح استعمال کرنے والے انسان اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ 'یہاں سب چلتا ہے۔'

کچھ عرصے سے ملک میں لاپتہ ہونے اور پھر بازیاب ہونے والوں سے متعلق 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' کی اصطلاح استعمال کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس شخص نے اپنی سوچ اور اپنے نظریے کو بدل لیا ہے۔

میرے اغوا اور بازیابی کے بعد بھی یہ اصطلاح استعمال کی گئی۔ مگر جب ٹھیکیدار حضرات سیاسی انجینئیرنگ کرنے کے بعد خود کو سافٹ وئیر انجینئیر بھی سمجھنا شروع کر دیں تو وہی ہوتا ہے جو اس ملک کے ساتھ پچھلے تہتر سال سے ہوتا آیا ہے۔

تین بار آئین پامال ہوا اور عدالتوں نے بوٹ چاٹے، ملک ٹوٹ گیا، عسکری اور عدالتی بونوں نے ایک وزیر اعظم کا عدالتی قتل کیا، ملک میں دھشت گردی، ہیروئن اور اسلحے کا کلچر آیا، ملک اور آئین کے غداروں نے سازشیں کی، سابق وزیر اعظم کا بھائی اس کی اپنی حکومت میں قتل کیا گیا، فوجی بغاوت میں وزیر اعظم جلا وطن ہوا اور بعد میں عدالت سے نا اہلی کروائی گئی۔

خودساختہ سافٹ وئیر انجینئیر حضرات نے آر ٹی ایس کا سوفٹ وئیر بٹھا کر الیکشن چوری کیا اور اب یہ لوگ ہارڈ وئیر انجینئیرنگ کی مہارت کا دعویٰ کرتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں۔

اس تمام تاریخی انجینئیرنگ کے بعد کچھ لوگ سہم تو گئے ہیں۔ مگر یہ سمجھنا کہ انہوں نے اپنے نظریات بدل لیے ہیں، خام خیالی ہو گی۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا بھی سوفٹ وئیر اپڈیٹ نہ ہوسکا تھا۔ انکی طویل خاموشی کا بھی غلط مطلب لیا گیا تھا۔

میرے اغوا اور مجھ پر ہونے والے تشدد کے بعد یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ میں یا میرے جیسے دوسرے صحافی یا لوگ خاموش ہو جائیں گے۔

بازیابی کے فوری بعد مجھ سے یہ سوال ہوا تو میں نے کہا تھا کہ اس واقعے نے مجھے کاکول اکیڈمی کی یاد دلا دی اور مجھے لگا کہ میں ایک دن کے لیے دوبارہ کیڈٹ بن گیا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ شاید ہر عام فوجی کی طرح میں بھی اپنے ملک کی خاطر ایسی تکالیف برداشت کرنے کا عادی ہوں۔

ویسے بھی پچھلے دو سال کے دوران بیروزگار کر دیے جانے نے میرے عزم اور حوصلے کو تقویت دی ہے۔ مجھے بس انتظار ہے اس وقت کا جب ان سافٹ وئیر انجینئیرز کو اس ملک پر رحم آ جائے اور یہ سرکشی کے وائرس کا شکار اپنے پائریٹڈ سافٹ وئیر کو بدل کر آئین اور قانون کے لائسنس یافتہ سوفٹ وئیر کو انسٹال کر لیں۔

اللہ ان کو ہدایت دے کیونکہ ان نادان محافظوں سے ہم بطور قوم محبت بھی کرتے ہیں۔

مطیع اللہ جان
 
لطف کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا خاص کر ٹویٹر پر اسٹیبلشمنٹ کے بڑے بڑے مخالفین جرنیلوں اور کرنیلوں کی اولادیں ہی ہیں۔ ابھی یہ شکر ہے کہ ان بڑے ناموں کی اکثریت دوہری شہریت رکھ کر اسٹیبلشیائئ عتاب سے کچھ نا کچھ بچے ہوئے ہیں۔

گل بخآری ایک جنرل کی بیٹی ہے۔ شینا عابد شاہ ایک جنرل کی بھانجی اور دوسرے جنرل کی بہو ہے۔ خود مطیع اللہ جان ایک کرنل کے بیٹے ہیں۔ ان insiders سے زیادہ فوج کے غیر آئینی اقدامات کو کون سمجھتا، جانتا ہو گا۔ اسی لیے ان کی آوازیں بھی زیادہ شدت سے گونجتی ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لطف کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا خاص کر ٹویٹر پر اسٹیبلشمنٹ کے بڑے بڑے مخالفین جرنیلوں اور کرنیلوں کی اولادیں ہی ہیں۔ ابھی یہ شکر ہے کہ ان بڑے ناموں کی اکثریت دوہری شہریت رکھ کر اسٹیبلشیائئ عتاب سے کچھ نا کچھ بچے ہوئے ہیں۔

گل بخآری ایک جنرل کی بیٹی ہے۔ شینا عابد شاہ ایک جنرل کی بھانجی اور دوسرے جنرل کی بہو ہے۔ خود مطیع اللہ جان ایک کرنل کے بیٹے ہیں۔ ان insiders سے زیادہ فوج کے غیر آئینی اقدامات کو کون سمجھتا، جانتا ہو گا۔ اسی لیے ان کی آوازیں بھی زیادہ شدت سے گونجتی ہیں۔
چوہدری صاحب آپ نے درست فرمایا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوجی آمروں کے خلاف ہر عہد میں آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ اب بات جلد پھیل جاتی ہے کہ بات پہنچانے کے ذرائع بہت سے ہیں ورنہ مجھے وہ دور بھی یاد ہے جب جنرل ضیا کے خلاف پمفلٹ فوٹو اسٹیٹ ہو کر چوری چھپے بانٹے جاتے تھے اور ہر عہد میں بھی بہت توانا آوازیں اٹھتی رہی ہیں، کیا شعر و ادب اور کیا صحافت۔

لیکن معاملات تو کسی سیاسی جماعت ہی نہیں دیکھنے ہوتے ہیں، اور یہ پاکستان کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس جماعت پر بھی ان فوجی آمروں کے خلاف بولنے والوں نے اعتمادکیا اس جماعت نے آخر میں جرنیلوں کے ساتھ اپنے ہی معاملے سیدھے کیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن معاملات تو کسی سیاسی جماعت ہی نہیں دیکھنے ہوتے ہیں، اور یہ پاکستان کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس جماعت پر بھی ان فوجی آمروں کے خلاف بولنے والوں نے اعتمادکیا اس جماعت نے آخر میں جرنیلوں کے ساتھ اپنے ہی معاملے سیدھے کیے۔
اس بارہ میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ والے کئی دہاہئیوں سے اپنا اور قوم کا محض وقت ہی ضائع کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو پی پی پی اور ن لیگ کے جھوٹے بیانیہ پر بار بار بیوقوف بننا تو قبول ہے لیکن یہ سب مل کر اپنی خود کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ جبکہ یہی کام شیخ مجیب ۱۹۷۰ میں کرکے اپنے ملک و قوم کو فوج کے تسلط سے آزاد کروا چکا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس بارہ میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ والے کئی دہاہئیوں سے اپنا اور قوم کا محض وقت ہی ضائع کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو پی پی پی اور ن لیگ کے جھوٹے بیانیہ پر بار بار بیوقوف بننا تو قبول ہے لیکن یہ سب مل کر اپنی خود کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ جبکہ یہی کام شیخ مجیب ۱۹۷۰ میں کرکے اپنے ملک و قوم کو فوج کے تسلط سے آزاد کروا چکا ہے۔
سیاسی معاملات بہرحال کسی سیاسی جماعت ہی نے دیکھنے ہیں اب کوئی این جی او یا دانشوروں کا کوئی تھنک ٹینک تو حکومت بنانے سے رہا۔ اور مجیب کی جدو جہد بھی بہرحال ایک سیاسی پلیٹ فارم سے تھی اور اس کی مثال کونسی "مثالی" ہے، اپنے ہی ملک کی فوج سے آزادی حاصل کی تو اپنے ہی ملک کی فوج کے ہاتھوں مارا بھی گیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجیب کی جدو جہد بھی بہرحال ایک سیاسی پلیٹ فارم سے تھی اور اس کی مثال کونسی "مثالی" ہے، اپنے ہی ملک کی فوج سے آزادی حاصل کی تو اپنے ہی ملک کی فوج کے ہاتھوں مارا بھی گیا۔
یہ بات درست ہے۔ البتہ بنگالی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرز پر ملک چلانے کی کوشش نہیں کی۔ تمام تر اہم فیصلہ سازی وہاں کی سول حکومت ہی کرتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ابھی جو لوگ ساجد گوندل کے بیان کا مذاق اڑا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو ان کو بازیاب کروانے میں پیش پیش تھے۔ ان کو خوشی نہیں ہے کہ ساجد گوندل صحیح سلامت گھر واپس آ گئے ہیں۔ بلکہ تکلیف یہ ہے کہ وہ اپنے اغوا کاروں کا نام کیوں نہیں لے رہے؟

ساجد گوندل کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جا رہی کہ وہ بیوی بچوں والا ہے۔ جو ریاستی ادارے اسے اٹھا سکتے ہیں وہ منہ کھولنے پر اس کے خاندان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے؟ اگر کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے تحفظ کی خاطر خاموش ہے اور resistance کا آلہ کار بننا نہیں چاہتا تو ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اسے ذلیل کریں؟
ساجد گوندل کے اغوا کے بعد کتنے لوگ باہر نکلے تھے اور آبپارہ جا کر احتجاج کیا تھا؟ وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے گنتی کے ۲۰ لوگوں نے احتجاج کیا جن میں سے ۱۰ تو اہل خانہ اور باقی کے صحافی تھے۔ resistance کا حال باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی والا ہے۔ اگر خلائی مخلوق نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی تو رہی سہی resistance بھی منظر سے غائب ہو جائے گی۔
حامد میر کو گولیاں لگنے کے بعد اس کے جنگ، جیو گروپ نے آئی ایس آئی کے خلاف بول بول کر ان کا کیا اکھاڑ لیا؟ الٹا ملک دشمنی کا لیبل لگوا کر پورا چینل ہی بند لروا بیٹھے۔
بعد میں یہ کیس عدالت گیا تو وہاں بھی محکمہ زراعت کے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکے۔ بالآخر ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور کو گھر شادی پہ بلوا کر اپنے تعلقات ٹھیک کئے۔ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت
 

بابا-جی

محفلین
ابھی جو لوگ ساجد گوندل کے بیان کا مذاق اڑا رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو ان کو بازیاب کروانے میں پیش پیش تھے۔ ان کو خوشی نہیں ہے کہ ساجد گوندل صحیح سلامت گھر واپس آ گئے ہیں۔ بلکہ تکلیف یہ ہے کہ وہ اپنے اغوا کاروں کا نام کیوں نہیں لے رہے؟

ساجد گوندل کی مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جا رہی کہ وہ بیوی بچوں والا ہے۔ جو ریاستی ادارے اسے اٹھا سکتے ہیں وہ منہ کھولنے پر اس کے خاندان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے؟ اگر کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے تحفظ کی خاطر خاموش ہے اور resistance کا آلہ کار بننا نہیں چاہتا تو ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اسے ذلیل کریں؟
ساجد گوندل کے اغوا کے بعد کتنے لوگ باہر نکلے تھے اور آبپارہ جا کر احتجاج کیا تھا؟ وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے گنتی کے ۲۰ لوگوں نے احتجاج کیا جن میں سے ۱۰ تو اہل خانہ اور باقی کے صحافی تھے۔ resistance کا حال باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی والا ہے۔ اگر خلائی مخلوق نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی تو رہی سہی resistance بھی منظر سے غائب ہو جائے گی۔
حامد میر کو گولیاں لگنے کے بعد اس کے جنگ، جیو گروپ نے آئی ایس آئی کے خلاف بول بول کر ان کا کیا اکھاڑ لیا؟ الٹا ملک دشمنی کا لیبل لگوا کر پورا چینل ہی بند لروا بیٹھے۔
بعد میں یہ کیس عدالت گیا تو وہاں بھی محکمہ زراعت کے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکے۔ بالآخر ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور کو گھر شادی پہ بلوا کر اپنے تعلقات ٹھیک کئے۔ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت
خانِ اعظم کو جرنیلوں کے پر کترنا پڑیں گے۔ کم از کم انصافین اُن کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کپتان اس اٹھائی گیر کلچر کے خلاف اِک توانا آواز ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خانِ اعظم کو جرنیلوں کے پر کترنا پڑیں گے۔ کم از کم انصافین اُن کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کپتان اس اٹھائی گیر کلچر کے خلاف اِک توانا آواز ہے۔
ماضی میں کتنے جمہوری لیڈران نے جرنیلوں کے پر کترنے کی کوشش کی؟ شیخ مجیب، بھٹو، بینظیر، زرداری، نواز شریف وغیرہ سب جرنیلوں کے عتاب کا شکار ہو گئے۔ اب کیا عمران خان بھی ماضی کی تاریخ دہرا کر سیاسی شہید بن جائے؟ اس سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوگا؟ جرنیل عمران کو ہٹا کر کسی اور کٹھ پتلی کو اقتدار میں لے آئیں گے۔
 

بابا-جی

محفلین
ماضی میں کتنے جمہوری لیڈران نے جرنیلوں کے پر کترنے کی کوشش کی؟ شیخ مجیب، بھٹو، بینظیر، زرداری، نواز شریف وغیرہ سب جرنیلوں کے عتاب کا شکار ہو گئے۔ اب کیا عمران خان بھی ماضی کی تاریخ دہرا کر سیاسی شہید بن جائے؟ اس سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوگا؟ جرنیل عمران کو ہٹا کر کسی اور کٹھ پتلی کو اقتدار میں لے آئیں گے۔
خانِ اعظم کو انڈر اسٹیمیٹ کرنا جرنیلوں کی بھی ایک بڑی غلطی ہے۔ ہمارا کپتان سب مافیاز کے خلاف ون مین آرمی بن چُکا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خانِ اعظم کو انڈر اسٹیمیٹ کرنا جرنیلوں کی بھی ایک بڑی غلطی ہے۔ ہمارا کپتان سب مافیاز کے خلاف ون مین آرمی بن چُکا ہے۔
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ جرنیل جب چاہیں عمران خان کو ٹیرن خان یا فارن فنڈنگ کیس میں پھنسا کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سیاست سے نااہل کر سکتے ہیں
 
Top