جاسم محمد
محفلین
سافٹ وئیر اپڈیٹ ہوگیا؟
1 hour ago
کیا بیانیے کا 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' کرنے کے بعد قوم کو 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کرنے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؟ صحافی مطیع اللہ جان کا کالم
پاکستان میں اغوا، لاپتہ یا ماورا عدالت مارے جانے والے والوں سے متعلق نوجوان نسل کے ایک مخصوص طبقے کی بے حسی شرمناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ مقتدر اداروں اور ان سے ملی بھگت سے حکومت بنانے والے سیاسی حلقوں کے پڑھے لکھے چشم و چراغ دور دراز علاقوں میں اغوا یا لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق بزدلانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر ایسے واقعات کو ملکی سلامتی سے جوڑتے ہیں۔
ایسا کرکے وہ اپنی تعلیم اور اپنے تعلیمی اداروں کے گرتے معیار کا پتہ بخوبی دیتے ہیں۔ اس بے حسی کی وجہ وہ نصاب اور غیرنصابی سرگرمیاں ہیں جن پر ہماری فوجی آمرانہ تاریخ کی گہری چھاپ اور اب تک کی سیاسی قیادت کی حد درجہ بزدلی اور مصلحت پسندی ہے۔
نوجوان نسل کو فوجی ادوار میں جس طرح سیاست، سیاسی عمل، سیاستدانوں اور جمہوریت سے متنفر کیا گیا اور نام نہاد ریاست کو سیاست کے بل مقابل لا کھڑا کیا گیا، اس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ان غیر سیاسی سیاستدانوں کی تیار شدہ نئی کھیپ اور ریاست کے سرکش سازشی عناصر نے آپس میں مل کر آج ملک کو یرغمال بنا لیا ہے۔
سیاست، صحافت اور عدالت خود ساختہ ریاستی محافظوں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔
جمہوریت اور سیاسی عمل کے خلاف اسلامی تعلیمات کے مراکز اور مدارس کو بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ مذہبی رہنماؤں کو جب تک اس سازش کی سمجھ آئی اس وقت تک اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ان کے اپنے کارکنوں کا 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' ناقابل اصلاح حد تک مکمل ہو چکا تھا۔ اس صورت حال میں اب بظاہر پوری قوم 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کی طرف جا رہی ہے۔
نوجوان نسل کی سیاسی اور نظریاتی بےشعوری جنونیت کی حدوں کو چھو رہی ہے جو ہمیں قومی سطح پر ہونے والے اس 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کا پتہ دیتی ہے۔ بیانیے کے سافٹ وئیر اپڈیٹ کے بعد نظام کا ہارڈ وئیر اپڈیٹ کیے جانے کا خطرہ ہے۔
اس کی ایک مثال ہماری سیاسی نظریات اور سوچ سے عاری نوجوان نسل ہے جس کے نزدیک آئین اور قانون سے زیادہ اہم ملک یا ریاست ہے، چاہے اس ریاست کے وجود سے آئین کی روح پرواز ہی کیوں نہ کر گئی ہو۔
تاریخ سے بددیانتی کرنے والے سرکاری نصاب کے سکول اورکالجوں کی فارمی نوجوان نسل کا ایک گروہ ہے جو کسی کے اغوا اور اس پر ہونے والے تشدد کو سافٹ وئیر اپڈیٹ کا نام دیتے ہیں۔ عسکری کاروباری سلطنت کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل یہ نوجوان بنیادی انسانی حقوق کو ملکی سلامتی سے مشروط کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
اب تو ہم جیسوں کے لیے بھی ان اصلاحات کا حوالہ دیے بغیر بات سمجھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی ہتھکنڈوں کو دلچسپ اور انوکھے الفاظ کا لبادہ پہنانے کی ایک مثال لفظ 'اسٹیبلشمنٹ' بھی ہے جس کا آئین میں ذکر نہیں مگر آئین اور قانون کے لاوارث غداروں کو یہ نام دے کر معاشرے میں پہچان دی گئی ہے۔
سافٹ وئیر اپڈیٹ کی اصطلاح استعمال کرنے والے انسان اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ 'یہاں سب چلتا ہے۔'
کچھ عرصے سے ملک میں لاپتہ ہونے اور پھر بازیاب ہونے والوں سے متعلق 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' کی اصطلاح استعمال کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس شخص نے اپنی سوچ اور اپنے نظریے کو بدل لیا ہے۔
میرے اغوا اور بازیابی کے بعد بھی یہ اصطلاح استعمال کی گئی۔ مگر جب ٹھیکیدار حضرات سیاسی انجینئیرنگ کرنے کے بعد خود کو سافٹ وئیر انجینئیر بھی سمجھنا شروع کر دیں تو وہی ہوتا ہے جو اس ملک کے ساتھ پچھلے تہتر سال سے ہوتا آیا ہے۔
تین بار آئین پامال ہوا اور عدالتوں نے بوٹ چاٹے، ملک ٹوٹ گیا، عسکری اور عدالتی بونوں نے ایک وزیر اعظم کا عدالتی قتل کیا، ملک میں دھشت گردی، ہیروئن اور اسلحے کا کلچر آیا، ملک اور آئین کے غداروں نے سازشیں کی، سابق وزیر اعظم کا بھائی اس کی اپنی حکومت میں قتل کیا گیا، فوجی بغاوت میں وزیر اعظم جلا وطن ہوا اور بعد میں عدالت سے نا اہلی کروائی گئی۔
خودساختہ سافٹ وئیر انجینئیر حضرات نے آر ٹی ایس کا سوفٹ وئیر بٹھا کر الیکشن چوری کیا اور اب یہ لوگ ہارڈ وئیر انجینئیرنگ کی مہارت کا دعویٰ کرتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں۔
اس تمام تاریخی انجینئیرنگ کے بعد کچھ لوگ سہم تو گئے ہیں۔ مگر یہ سمجھنا کہ انہوں نے اپنے نظریات بدل لیے ہیں، خام خیالی ہو گی۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا بھی سوفٹ وئیر اپڈیٹ نہ ہوسکا تھا۔ انکی طویل خاموشی کا بھی غلط مطلب لیا گیا تھا۔
میرے اغوا اور مجھ پر ہونے والے تشدد کے بعد یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ میں یا میرے جیسے دوسرے صحافی یا لوگ خاموش ہو جائیں گے۔
بازیابی کے فوری بعد مجھ سے یہ سوال ہوا تو میں نے کہا تھا کہ اس واقعے نے مجھے کاکول اکیڈمی کی یاد دلا دی اور مجھے لگا کہ میں ایک دن کے لیے دوبارہ کیڈٹ بن گیا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ شاید ہر عام فوجی کی طرح میں بھی اپنے ملک کی خاطر ایسی تکالیف برداشت کرنے کا عادی ہوں۔
ویسے بھی پچھلے دو سال کے دوران بیروزگار کر دیے جانے نے میرے عزم اور حوصلے کو تقویت دی ہے۔ مجھے بس انتظار ہے اس وقت کا جب ان سافٹ وئیر انجینئیرز کو اس ملک پر رحم آ جائے اور یہ سرکشی کے وائرس کا شکار اپنے پائریٹڈ سافٹ وئیر کو بدل کر آئین اور قانون کے لائسنس یافتہ سوفٹ وئیر کو انسٹال کر لیں۔
اللہ ان کو ہدایت دے کیونکہ ان نادان محافظوں سے ہم بطور قوم محبت بھی کرتے ہیں۔
مطیع اللہ جان
1 hour ago
کیا بیانیے کا 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' کرنے کے بعد قوم کو 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کرنے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے؟ صحافی مطیع اللہ جان کا کالم
پاکستان میں اغوا، لاپتہ یا ماورا عدالت مارے جانے والے والوں سے متعلق نوجوان نسل کے ایک مخصوص طبقے کی بے حسی شرمناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ مقتدر اداروں اور ان سے ملی بھگت سے حکومت بنانے والے سیاسی حلقوں کے پڑھے لکھے چشم و چراغ دور دراز علاقوں میں اغوا یا لاپتہ ہونے والے افراد سے متعلق بزدلانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر ایسے واقعات کو ملکی سلامتی سے جوڑتے ہیں۔
ایسا کرکے وہ اپنی تعلیم اور اپنے تعلیمی اداروں کے گرتے معیار کا پتہ بخوبی دیتے ہیں۔ اس بے حسی کی وجہ وہ نصاب اور غیرنصابی سرگرمیاں ہیں جن پر ہماری فوجی آمرانہ تاریخ کی گہری چھاپ اور اب تک کی سیاسی قیادت کی حد درجہ بزدلی اور مصلحت پسندی ہے۔
نوجوان نسل کو فوجی ادوار میں جس طرح سیاست، سیاسی عمل، سیاستدانوں اور جمہوریت سے متنفر کیا گیا اور نام نہاد ریاست کو سیاست کے بل مقابل لا کھڑا کیا گیا، اس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ان غیر سیاسی سیاستدانوں کی تیار شدہ نئی کھیپ اور ریاست کے سرکش سازشی عناصر نے آپس میں مل کر آج ملک کو یرغمال بنا لیا ہے۔
سیاست، صحافت اور عدالت خود ساختہ ریاستی محافظوں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔
جمہوریت اور سیاسی عمل کے خلاف اسلامی تعلیمات کے مراکز اور مدارس کو بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ مذہبی رہنماؤں کو جب تک اس سازش کی سمجھ آئی اس وقت تک اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ان کے اپنے کارکنوں کا 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' ناقابل اصلاح حد تک مکمل ہو چکا تھا۔ اس صورت حال میں اب بظاہر پوری قوم 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کی طرف جا رہی ہے۔
نوجوان نسل کی سیاسی اور نظریاتی بےشعوری جنونیت کی حدوں کو چھو رہی ہے جو ہمیں قومی سطح پر ہونے والے اس 'ہارڈ وئیر اپڈیٹ' کا پتہ دیتی ہے۔ بیانیے کے سافٹ وئیر اپڈیٹ کے بعد نظام کا ہارڈ وئیر اپڈیٹ کیے جانے کا خطرہ ہے۔
اس کی ایک مثال ہماری سیاسی نظریات اور سوچ سے عاری نوجوان نسل ہے جس کے نزدیک آئین اور قانون سے زیادہ اہم ملک یا ریاست ہے، چاہے اس ریاست کے وجود سے آئین کی روح پرواز ہی کیوں نہ کر گئی ہو۔
تاریخ سے بددیانتی کرنے والے سرکاری نصاب کے سکول اورکالجوں کی فارمی نوجوان نسل کا ایک گروہ ہے جو کسی کے اغوا اور اس پر ہونے والے تشدد کو سافٹ وئیر اپڈیٹ کا نام دیتے ہیں۔ عسکری کاروباری سلطنت کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل یہ نوجوان بنیادی انسانی حقوق کو ملکی سلامتی سے مشروط کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
اب تو ہم جیسوں کے لیے بھی ان اصلاحات کا حوالہ دیے بغیر بات سمجھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ریاستی ہتھکنڈوں کو دلچسپ اور انوکھے الفاظ کا لبادہ پہنانے کی ایک مثال لفظ 'اسٹیبلشمنٹ' بھی ہے جس کا آئین میں ذکر نہیں مگر آئین اور قانون کے لاوارث غداروں کو یہ نام دے کر معاشرے میں پہچان دی گئی ہے۔
سافٹ وئیر اپڈیٹ کی اصطلاح استعمال کرنے والے انسان اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ 'یہاں سب چلتا ہے۔'
کچھ عرصے سے ملک میں لاپتہ ہونے اور پھر بازیاب ہونے والوں سے متعلق 'سافٹ وئیر اپڈیٹ' کی اصطلاح استعمال کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اس شخص نے اپنی سوچ اور اپنے نظریے کو بدل لیا ہے۔
میرے اغوا اور بازیابی کے بعد بھی یہ اصطلاح استعمال کی گئی۔ مگر جب ٹھیکیدار حضرات سیاسی انجینئیرنگ کرنے کے بعد خود کو سافٹ وئیر انجینئیر بھی سمجھنا شروع کر دیں تو وہی ہوتا ہے جو اس ملک کے ساتھ پچھلے تہتر سال سے ہوتا آیا ہے۔
تین بار آئین پامال ہوا اور عدالتوں نے بوٹ چاٹے، ملک ٹوٹ گیا، عسکری اور عدالتی بونوں نے ایک وزیر اعظم کا عدالتی قتل کیا، ملک میں دھشت گردی، ہیروئن اور اسلحے کا کلچر آیا، ملک اور آئین کے غداروں نے سازشیں کی، سابق وزیر اعظم کا بھائی اس کی اپنی حکومت میں قتل کیا گیا، فوجی بغاوت میں وزیر اعظم جلا وطن ہوا اور بعد میں عدالت سے نا اہلی کروائی گئی۔
خودساختہ سافٹ وئیر انجینئیر حضرات نے آر ٹی ایس کا سوفٹ وئیر بٹھا کر الیکشن چوری کیا اور اب یہ لوگ ہارڈ وئیر انجینئیرنگ کی مہارت کا دعویٰ کرتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں۔
اس تمام تاریخی انجینئیرنگ کے بعد کچھ لوگ سہم تو گئے ہیں۔ مگر یہ سمجھنا کہ انہوں نے اپنے نظریات بدل لیے ہیں، خام خیالی ہو گی۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا بھی سوفٹ وئیر اپڈیٹ نہ ہوسکا تھا۔ انکی طویل خاموشی کا بھی غلط مطلب لیا گیا تھا۔
میرے اغوا اور مجھ پر ہونے والے تشدد کے بعد یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ میں یا میرے جیسے دوسرے صحافی یا لوگ خاموش ہو جائیں گے۔
بازیابی کے فوری بعد مجھ سے یہ سوال ہوا تو میں نے کہا تھا کہ اس واقعے نے مجھے کاکول اکیڈمی کی یاد دلا دی اور مجھے لگا کہ میں ایک دن کے لیے دوبارہ کیڈٹ بن گیا اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ شاید ہر عام فوجی کی طرح میں بھی اپنے ملک کی خاطر ایسی تکالیف برداشت کرنے کا عادی ہوں۔
ویسے بھی پچھلے دو سال کے دوران بیروزگار کر دیے جانے نے میرے عزم اور حوصلے کو تقویت دی ہے۔ مجھے بس انتظار ہے اس وقت کا جب ان سافٹ وئیر انجینئیرز کو اس ملک پر رحم آ جائے اور یہ سرکشی کے وائرس کا شکار اپنے پائریٹڈ سافٹ وئیر کو بدل کر آئین اور قانون کے لائسنس یافتہ سوفٹ وئیر کو انسٹال کر لیں۔
اللہ ان کو ہدایت دے کیونکہ ان نادان محافظوں سے ہم بطور قوم محبت بھی کرتے ہیں۔
مطیع اللہ جان