کاشفی
محفلین
غزل
(جناب جلیل القدر نواب فصاحب جنگ جلیل)
ساقیا دیر نہ کر کشتی مے لانے میں
جان پیاسوں کی پڑی ہے ترے پیمانے میں
دردِ دل ہوگا مرے دیدہء تر سے ظاہر
جو ہے شیشے میں وہی آئے گا پیمانے میں
ہر جگہ اُس کو نئے روپ میں ہم دیکھتے ہیں
مے ہے شیشے میں، پری حور ہے پیمانے میں
ساقی توبہ شکن فصل بہار آنے دے
خون توبہ کا بھریں گے ترے پیمانے میں
یوں تو جل بجھنے میں دونوں ہیں برابر لیکن
وہ کہاں شمع میں جو آگ ہے پروانے میں
چھوڑ کر خانہ زنجیر کو پچھتاتا ہوں
جی بہلتا ہے نہ گلشن میں نہ ویرانے میں
میرے کہنے کو یقیں تم کو نہ آئے گا جلیل
چل کے جنت کا سماں دیکھ لو میخانے میں