محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
شاہد احمد دہلوی دہلی سے ساقی نکالا کرتے تھے۔ ہجرت کی تو اپنے ساتھ ساقی بھی کراچی لے آئے۔ خوب تگ و دو کے بعد پہلا شمارا نکالا تو اس کے ادارئیے میں ایسی تلخ و ترش باتیں لکھیں جنھیں پڑھ کر اہلَ دانش خون کے آنسو رو سکتے ہیں۔ آج بھی یہ اداریہ یوں لگتا ہے گویا آج کے حالات پر لکھا گیا ہے۔ پڑھیے اور سوچیے!
آخر وہ وقت آہی گیا جسے کروڑوں مسلمانوں کی دعائیں بھی نہ روک سکیں اور قائدِ اعظم ہم سے رخصت ہوگئے۔ انا للہِ و انا الیہ راجعون۔اب وہ وہاں ہیں جہاں ہماری آرزوئیں رہتی ہیں۔قائدِ اعظم کی موت درحقیقت زندگی پر عظیم الشان فتح ہے، بالکل اسی طرح جس طرح خوابوں کے دیوانے نے حقائق کے فرزانوں پر جیتے جی ایسی شاندار فتح پائی کہ اس کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔اُنہوں نے مسلمانوں کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا ۔ایک مردہ قوم کو زندہ کردیا اور ان کے لیے ایک نیا ملک بنادیا، ایسا نیا ملک جو نہ صرف دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں سب سے بڑا ہے بلکہ ہر اعتبار سے اتنا توانا بھی ہے کہ اسلامیانِ عالم اسے اپنا ملجا و ماوا سمجھیں۔ قائدِ اعظم اپنی زندگی کا مقصد پورا کرکے ہم سے رخصت ہوئے۔ رونا اس کا ہے کہ وہ ہم سے ایسے وقت میں جدا ہوئے جبکہ ہمیں اُن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔مسلمانوں پر چاروں طرف سے یلغار ہورہی ہے اور ہمارا سالار ہم سے بچھڑگیا۔کچھ تسکین صرف اس خیال سے ہوتی ہے کہ اُن کی بتائی ہوئی راہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہےاور اُن کی ہدایات ہمارے دلوں میں محفوظ ہیں لیکن کیا ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق بھی ہوگی؟ اُن کے جاتے ہی گلابی خوابوں نے خارزاروں کا روپ دھار لیا ہے۔ کیا ہم اپنا دامن ان کانٹوں سے بچاسکیں گے؟خودغرضی، نفس پروری،تن آسانی، ناانصافی، تعصب ، بے ایمانی اور سب سے زیادہ خطرناک وہ مہلک عنصر جو ہمیں میں سے ہے اور ہمارے ہی خلاف کام کررہا ہے! کیا ہم اِن سب کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں گے؟ یقیناً، بشرطیکہ ہم قائدِ اعظم کے ارشادات کی تعمیل کریں۔ قائدِ اعظم نے ایک مضحکہ خیز تصور کو ایک زندہ حقیقت بنادیا۔ یہ ہمارا وہ بیش قیمت ورثہ ہے جسے ہم نے اپنی جان، اپنا مال ، اپنی عزت ، اپنی آبرو، اپنا سب کچھ دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ بہارِ تازہ یونہی نہیں آگئی ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی جانیں اس کے لیے خزاں کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ یہ شفق کے گلاب خودبخود نہیں کھِل گئے ہیں، اِ ن میں سُرخیٗ خونِ شہیداں بھی شامل ہے، اور وہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لُٹادیا، آج اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہیں۔ در بدر اور خاک برسر ہیں۔ ہم چشموں میں ذلیل و خوار ہیں۔ اُن کے لیے سر چھُپانے تک کو جگہ نہیں۔ اُن کے تن ننگے اور اُن کے پیٹ خالی ہیں۔اور وہ نڈھال آنکھوں سے ایک ایک کا منہ تکتے ہیں۔ اور قہربار نظروں سے اُن کی آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ وہ ’’مہاجر‘‘ ہیں جو ’’انصار‘‘ کے رحم و کرم کے محتاج ہوگئے ہیں۔ کیا وہ صرف مہاجر ہیں ؟ تو پھر مجاہد کون ہے؟ قائدِ اعظم کی زندگی کے آخری لمحے بھی انہی کی فکر میں گزرے۔ کیا عجب کہ انصار کا طرزِ تپاک اب بھی اس روح عظیم کی خلش کا باعث ہو؟ یہ ہوش میں آنے کا وقت ہے۔ اگر قائدِ اعظم کی موت بھی تمہیں نہیں چونکا سکتی تو اپنی موت کے خیر مقدم کے لیے خود بھی تیار ہوجاؤ۔یوں زندگی نہیں ہوسکتی کہ تمہارے محل قہقہے لگاتے رہیں اور اور دوسروں کی جھونپڑیوں کو رونے کی بھی اجازت نہو۔ اتنی پستی اور اتنی بلندی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور اگر قدرت کے اس ابتدائی قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو تاریخ کے اوراق میں اُن قوموں کے انجام دیکھو جو خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بھٹک گئیں۔ اور جناح کی اِ سللکار کو نہ بھولو:
’’پاکستان جیسی نوزائیدہ ریاست کی ترقی ، نہیں بلکہ اس کی بقا کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہاں کے شہریوں میں خواہ وہ کسی علاقے کے ہوں یگانگت اور یکجہتی ہونی چاہیے۔
پاکستان تو مسلمان قوم کے اتحاد کی تجسیم ہے اور اسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔ آپ کو سچے مسلمانوں کی طرح اس اتحاد کا دل و جان سے تحفظ کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہ سوچنا شروع کردیں کہ ہم اولاً پنجابی، سندھی، بنگالی وغیرہ ہیں اور ہم مسلمان، پاکستانی اتفاقی طور پر ہوگئے ہیں تو پھر پاکستان کا شیرازہ بکھرجانا لازمی ہے۔‘‘
یہ ہے معمارِ پاکستان کی آواز، اُس شخص کی آواز جس کی ہر پیشن گوئی وقت نے پوری ہوتی دیکھی ہے۔
ساقی اکتوبر ۱۹۴۸۔ کراچی سے پہلا شمارہ
ساقی کراچی کا پہلا شمارہ:نگاہِ اولیں از شاہد احمد دہلوی
رنگِ خوں اشک میں گہرا نظر آتا ہے مجھے
آج دامن پہ کلیجا نظر آتا ہے مجھے
آج دامن پہ کلیجا نظر آتا ہے مجھے
آخر وہ وقت آہی گیا جسے کروڑوں مسلمانوں کی دعائیں بھی نہ روک سکیں اور قائدِ اعظم ہم سے رخصت ہوگئے۔ انا للہِ و انا الیہ راجعون۔اب وہ وہاں ہیں جہاں ہماری آرزوئیں رہتی ہیں۔قائدِ اعظم کی موت درحقیقت زندگی پر عظیم الشان فتح ہے، بالکل اسی طرح جس طرح خوابوں کے دیوانے نے حقائق کے فرزانوں پر جیتے جی ایسی شاندار فتح پائی کہ اس کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔اُنہوں نے مسلمانوں کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا ۔ایک مردہ قوم کو زندہ کردیا اور ان کے لیے ایک نیا ملک بنادیا، ایسا نیا ملک جو نہ صرف دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں سب سے بڑا ہے بلکہ ہر اعتبار سے اتنا توانا بھی ہے کہ اسلامیانِ عالم اسے اپنا ملجا و ماوا سمجھیں۔ قائدِ اعظم اپنی زندگی کا مقصد پورا کرکے ہم سے رخصت ہوئے۔ رونا اس کا ہے کہ وہ ہم سے ایسے وقت میں جدا ہوئے جبکہ ہمیں اُن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔مسلمانوں پر چاروں طرف سے یلغار ہورہی ہے اور ہمارا سالار ہم سے بچھڑگیا۔کچھ تسکین صرف اس خیال سے ہوتی ہے کہ اُن کی بتائی ہوئی راہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہےاور اُن کی ہدایات ہمارے دلوں میں محفوظ ہیں لیکن کیا ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق بھی ہوگی؟ اُن کے جاتے ہی گلابی خوابوں نے خارزاروں کا روپ دھار لیا ہے۔ کیا ہم اپنا دامن ان کانٹوں سے بچاسکیں گے؟خودغرضی، نفس پروری،تن آسانی، ناانصافی، تعصب ، بے ایمانی اور سب سے زیادہ خطرناک وہ مہلک عنصر جو ہمیں میں سے ہے اور ہمارے ہی خلاف کام کررہا ہے! کیا ہم اِن سب کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں گے؟ یقیناً، بشرطیکہ ہم قائدِ اعظم کے ارشادات کی تعمیل کریں۔ قائدِ اعظم نے ایک مضحکہ خیز تصور کو ایک زندہ حقیقت بنادیا۔ یہ ہمارا وہ بیش قیمت ورثہ ہے جسے ہم نے اپنی جان، اپنا مال ، اپنی عزت ، اپنی آبرو، اپنا سب کچھ دے کر حاصل کیا ہے۔ یہ بہارِ تازہ یونہی نہیں آگئی ہے۔ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی جانیں اس کے لیے خزاں کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ یہ شفق کے گلاب خودبخود نہیں کھِل گئے ہیں، اِ ن میں سُرخیٗ خونِ شہیداں بھی شامل ہے، اور وہ جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لُٹادیا، آج اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہیں۔ در بدر اور خاک برسر ہیں۔ ہم چشموں میں ذلیل و خوار ہیں۔ اُن کے لیے سر چھُپانے تک کو جگہ نہیں۔ اُن کے تن ننگے اور اُن کے پیٹ خالی ہیں۔اور وہ نڈھال آنکھوں سے ایک ایک کا منہ تکتے ہیں۔ اور قہربار نظروں سے اُن کی آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ وہ ’’مہاجر‘‘ ہیں جو ’’انصار‘‘ کے رحم و کرم کے محتاج ہوگئے ہیں۔ کیا وہ صرف مہاجر ہیں ؟ تو پھر مجاہد کون ہے؟ قائدِ اعظم کی زندگی کے آخری لمحے بھی انہی کی فکر میں گزرے۔ کیا عجب کہ انصار کا طرزِ تپاک اب بھی اس روح عظیم کی خلش کا باعث ہو؟ یہ ہوش میں آنے کا وقت ہے۔ اگر قائدِ اعظم کی موت بھی تمہیں نہیں چونکا سکتی تو اپنی موت کے خیر مقدم کے لیے خود بھی تیار ہوجاؤ۔یوں زندگی نہیں ہوسکتی کہ تمہارے محل قہقہے لگاتے رہیں اور اور دوسروں کی جھونپڑیوں کو رونے کی بھی اجازت نہو۔ اتنی پستی اور اتنی بلندی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور اگر قدرت کے اس ابتدائی قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو تاریخ کے اوراق میں اُن قوموں کے انجام دیکھو جو خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بھٹک گئیں۔ اور جناح کی اِ سللکار کو نہ بھولو:
’’پاکستان جیسی نوزائیدہ ریاست کی ترقی ، نہیں بلکہ اس کی بقا کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہاں کے شہریوں میں خواہ وہ کسی علاقے کے ہوں یگانگت اور یکجہتی ہونی چاہیے۔
پاکستان تو مسلمان قوم کے اتحاد کی تجسیم ہے اور اسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔ آپ کو سچے مسلمانوں کی طرح اس اتحاد کا دل و جان سے تحفظ کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہ سوچنا شروع کردیں کہ ہم اولاً پنجابی، سندھی، بنگالی وغیرہ ہیں اور ہم مسلمان، پاکستانی اتفاقی طور پر ہوگئے ہیں تو پھر پاکستان کا شیرازہ بکھرجانا لازمی ہے۔‘‘
یہ ہے معمارِ پاکستان کی آواز، اُس شخص کی آواز جس کی ہر پیشن گوئی وقت نے پوری ہوتی دیکھی ہے۔
ساقی اکتوبر ۱۹۴۸۔ کراچی سے پہلا شمارہ