انیس الرحمن
محفلین
سام پہ کیا گزری
اظفر مہدی
ہمدرد نونہال فروری تا جولائی 1989
اس کے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے۔ اتنا شدید طوفان اس نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وقت تو دن کا تھا مگر سیاہ گھٹاؤں کی وجہ سے اندھیرا رات کا سا چھایا ہوا تھا۔
"چر۔۔۔۔چر۔۔۔۔چرر چرر چر۔۔۔۔" سام نے اپنے سر کے عین اوپر ایک آواز سنی۔ اس نے گھبرا کر اوپر دیکھا۔ خوف کے مارے اس کے حلق سے چیخ نکل گئی۔ چالیس فٹ اونچا بھاری لکڑی کا بنا ہوا مستول جھولتا ہوا نیچے گر رہا تھا۔ وہ تیزی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ ایک دھماکہ ہوا اور مستول پہلے سے مصیبت کے شکار مسافروں پر جا گرا۔ اس کی زد میں آنے والے تمام افراد کے پڑخچے اڑ گئے۔ ہر طرف خون کے چھینٹے اور انسانی گوشت کے لوتھڑے بکھر گئے۔ جہاز ایک بار پھر لرز کر رہ گیا۔
"اف اللہ۔" سام نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا، پھر اچانک اسے کپتان کا خیال آیا۔ وہ تیزی سے کنٹرول روم کی طرف دوڑا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ کپتان منہ کے بل فرش پر پڑا ہوا ہے۔ اس کے سر سے خون بہہ بہہ کر فرش پر جمع ہورہا ہے۔ اس نے کپتان کو سیدھا کیا اور چیخ کر بولا، "کپتان ڈیوڈ! کپتان ڈیوڈ!"
کپتان ڈیوڈ نے دھیرے سے آنکھیں کھول دیں۔ "یہ کک۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔ ہوگیا؟" کپتان ڈیوڈ اٹک اٹک کر بوجھل آواز میں بولا۔
"ہم چھوٹی کشتی میں یہاں سے نکل چلتے ہیں کپتان۔" سام نے الجھی ہوئی سانسوں کے درمیان ڈیوڈ سے کہا۔
"سب کچھ ختم ہوگیا اب۔۔۔۔ ہم یہاں سے نکل کر کہاں جائیں گے۔۔۔۔ باہر بڑا طوفان ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اور"
"مگر میں تمہیں مرنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتا۔" سام چیخ پڑا۔
اس نے کپتان ڈیوڈ کو سہارا دے کر اٹھانا چاہا۔ کپتان ڈیوڈ نے دھیرے سے ایک نظر اس کی طرف دیکھا، اور پھر اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے! سام خالی خالی نگاہوں سے کپتان کے لاش کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے آہستگی سے لاش کو فرش پر رکھا اور بوجھل قدموں سے باہر نکل آیا۔
پورے جہاز پر اب سناٹا چھا چکا تھا۔ اگر کوئی آواز سنائی دے رہی تھی تو وہ اس طوفان کی تھی جس کی بھینٹ یہ جہاز چڑھ چکا تھا۔ دھند نے جہاز کی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس دھند میں سام نے جہاز پر بکھری ہوئی لاتعداد لاشوں کو دیکھا۔ بارش کی بوچھاڑ ان لاشوں پر پڑ رہی تھی۔ بھاری مستول اب بھی بد نصیب مسافروں کے اوپر پڑا تھا۔ اس کی زد میں آنے والے مسافروں کا زندہ بچنا تو درکنار کسی کا جسم تک سلامت نہ بچا تھا۔ یہ کیسی بے بسی کی موت تھی۔
اچانک سام کو ایسا محسوس ہوا جیسے جہاز میں حرکت شروع ہوگئی ہو۔ اس نے چونک کر جہاز کو دیکھا۔ جہاز ایک طرف جھک رہا تھا۔ ظاہر تھا کہ جہاز میں کسی وجہ سے پانی بھرنا شروع ہوگیا تھا اور یہ اب اسی حصہ کی طرف جھک رہا تھا، جھکتا جارہا تھا۔ سام کے دماغ میں بجلی سی کوندی۔
"نہیں میں ان مسافروں کی طرح بے بسی کی موت نہیں مرنا چاہتا۔ میں زندہ رہوں گا۔ ہاں میں زندہ رہوں گا۔" اس نے چیخ کر کہا اور لاشوں کو پھلانگتا ہوا جہاز کے ایک کیبن میں جا گھسا اور وہاں سے ایک چھوٹی کشتی اور دو جپو نکال لایا۔ اس نے تیزی کے ساتھ پہلے کشتی سمندر میں پھینکی۔ اس کے بعد چپو سنبھال کر خود بھی جہاز کے عرشے سے کشتی میں چھلانگ لگا دی اور چپو کی مدد سے کشتی کو تیزی سے کھیتا ہوا بحری جہاز سے دور لے گیا۔ اس دھند میں اس کی کشتی ہیولے کی طرح نظر آ رہی تھی۔ جہاز آدھے سے زیادہ غرق آب ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد سام نے دیکھا سمندر میں جس جگہ جہاز موجود تھا، وہاں اب بپھری ہوئی موجیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ بحری جہاز ڈوب چکا تھا۔ کافی دیر گزر گئی۔ طوفان اب ختم ہو چکا تھا۔ سمندر بھی اب خاموشی سے بہہ رہا تھا۔ البتہ آسمان اب بھی سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی۔
جب سام بطور نائب کپتان، کپتان ڈیوڈ کے ساتھ جہاز پر سوار ہوا تھا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ سام کو کپتان ڈیوڈ کی گھبراہٹ یاد آئی۔ جب وہ بھاگتا ہوا کنٹرول روم میں داخل ہوا تھا اور اس نے تیزی کے ساتھ کنٹرول روم کی ہر چیز کو چیک کیا تھا اور جب سام نے اس کی گھبراہٹ کا سبب معلوم کرنا چاہا تھا تو کپتان نے کوئی خاص بات نہیں کہہ کر بات ختم کردی تھی۔ سام کو اب کپتان کی گھبراہٹ کا سبب معلوم ہوچکا تھا۔
"کاش کپتان ڈیوڈ سفر کے آغاز میں ہی اپنے خدشے کا اظہار کر دیتا تو یہ سفر ملتوی بھی کیا جاسکتا تھا۔" سام نے دکھ سے سوچا۔
کپتان ڈیوڈ کو کسی نامعلوم قوت نے آنے والے خطرے سے سفر کے شروع میں ہی آگاہ کردیا تھا۔ مگر وہ محض اس بنا پر کسی سے اپنے خدشے کا اظہار نہ کرسکا کہ لوگ اس جیسے جہاز راں کو خبطی سمجھنے لگتے۔ بحرحال ہونی ہوکر رہتی ہے۔ تناہی اس جہاز کا نصیب بن چکی تھی اور یہ جہاز مع مسافروں کے ختم ہو چکا تھا۔
شام کا اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ کشتی کھیتے کھیتے سام کے بازو شل ہوچکے تھے۔ اس نے چپو کشتی میں رکھ دئیے اور کشتی کو موجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ذرا ہی دیر میں مکمل اندھیرا چھا گیا۔ اب بادل چھٹنے لگے تھے اور آسمان پر کہیں کہیں ستارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
دوپہر سے اب تک سام نے کچھ بھی کھایا پیا نہ تھا۔ جہاز کی تباہی کا اثر اس پر اتنا شدید تھا کہ اس کو اب تک بھوک پیاس کا احساس نہیں ہوا تھا۔ اب رات ہوئی تو اس کو بھوک نے ستانا شروع کردیا اور ساتھ ہی پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگے مگر اس نے عقل مندی یہ کی کہ بھوک پیاس کا احساس اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس ہزاروں میل پھیلے ہوئے سمندر کے بیچ ایک چھوٹی سی کشتی میں وہ بالکل تنہا ہے اور اسے کھانے پینے کو کچھ نہیں مل سکتا۔ اب تک اس نے خود کو زندہ رکھنے کے لئے جدوجہد کر لی تھی، مگر اب آگے کیا ہوگا؟ وہ بھی نہیں جانتا تھا۔
آسمان صاف ہو چکا تھا۔ چاند کی کرنیں سمندر کے پانی میں پڑتی ہوئی بے حد بھلی معلوم ہو رہی تھیں۔ ہزاروں کی تعداد میں چمکتے ہوئے ستارے الگ اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ سام پاؤں پسار کر کشتی میں لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ ذرا ہی دیر میں اسے نیند آ گئی۔
کشتی دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہی، نامعلوم منزل کی طرف۔
سورج کی کرنیں سام کے چہرے پر پڑیں تو اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ "میں کہاں ہوں؟" سب سے پہلے یہی خیال اس کے ذہن میں آیا۔ اس نے انگڑائی لی اور اٹھ بیٹھا۔ اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ اس کی کشتی ساحل پر ریت میں دھنسی ہوئی ہے۔ وہ چھلانگ مار کر کشتی سے نکل آیا اور اس جگہ کا جائزہ لینے لگا جہاں قسمت نے اسے لا پھینکا تھا۔
ساحل پر چند چھوٹی بڑی چٹانوں کے بعد دور دور تک گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ سام نے دیکھا کہ یہاں چیڑ اور ناریل کے درختوں کی کثرت ہے۔ ناریل کے درختوں کی بلندی پر ناریل لگے ہوئے تھے۔ چند ناریل ریتیلی زمین پر بھی ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ ناریلوں کو دیکھتے ہی سام کی بھوک جاگ اٹھی۔ اس نے کل دوپہر سے کچھ بھی کھایا پیا نہ تھا۔ اب جو اس کو ناریل نظر آئے تو اس کی بے قراری دیکھنے کے قابل تھی۔ اس نے لپک کر ایک ناریل اٹھا لیا اور ریت پہ پڑے ہوئے ایک پتھر سے توڑ کر پہلے اس کا پانی پیا اور پھر ندیدوں کی طرح کھانا شروع کردیا۔ اس طرح اس نے کئی ناریل کھا لئے۔ تب اسے کچھ سکون حاصل ہوا۔
اب اس نے اپنی حالت پر غور کیا تو پتا چلا کہ اس کی قمیض جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی۔ آستین ادھڑ کر ایک طرف جھول رہی تھی۔ پتلون بھی جگہ جگہ سے نچ گئی تھی، جوتوں کی حالت خستہ ہورہی تھی۔ ایک تو جوتے پہلے ہی بارش میں بھیگتے رہے تھے۔ اب جو ان کو سورج کی گرمی پہنچی تو وہ پھول کر سخت ہو چکے تھے اور بے ہنگم سے ہو رہے تھے۔ اس نے کچھ دیر کے لئے جوتے اتار کر ایک طرف ریت پر رکھ دئیے اور ایک چٹان سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
اب اس کو آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا تھا۔ اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ اس وقت کس جگہ ہے اور یہ کہ وہ اس جگہ سے نکل بھی سکے گا یا نہیں؟ ایک طرف وسیع سمندر تھا تو دوسری طرف گھنا جنگل۔ اس نے سوچا، "مجھے کیا کرنا چاہیے؟"
اگر وہ سمندر پار کر کے ریاست فلوریڈا جانا چاہتا تو اس مقصد کے لئے اس کے پاس ایک چھوٹی سی کشتی اور دو چپو تھے اور محض چھوٹی کشتی اور دو چپوؤں کی مدد سے اتنا بڑا سمندر پار کرنا سراسر حماقت تھی۔ یہ اب ضروری نہ تھا کہ جس کشتی نے اسے حفاظت کے ساتھ یہاں تک پہنچا دیا تھا وہی کشتی اب اسے سمندر بھی پار کرا دیتی۔ اگر وہ جنگل کا رخ کرتا تو معلوم نہیں کہاں کہاں بھٹکتا پھرتا اور ظاہر ہے کہ جنگل گھنا تھا تو اس میں درندوں کا ہونا بھی ضروری سا تھا۔ کیا خبر کوئی درندہ اس پر حملہ کردے۔ اس کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہ تھا۔
سام سمندر اور جنگل کا موازنہ کرنے لگا۔
ایک معمولی کشتی پر بیٹھ کرسمندر میں نامعلوم سمت میں بڑھتے رہنا، ہوا میں تیر چلانے کے برابر تھا۔ سمندر میں نہ صرف غذا کا مسئلہ تھا بلکہ شارک مچھلیوں کا خطرہ بھی، جب کہ جنگل میں درندوں کا خطرہ تو تھا لیکن کم سے کم غذا کا مسئلہ نہیں تھا۔ ناریل اور دوسرے جنگلی پھل یہاں نہ کثرت موجود تھے۔ جنگل میں درندوں سے محفوظ رہنے کی کوئی نہ کوئی ترکیب کی جا سکتی تھی۔ اس کے برعکس سمندر میں شارک مچھلیوں کا تنہا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔
آخر سام نے جنگل میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنے لمبے بوٹ پہنے اور کشتی گھسیٹتا ہوا چٹانوں کی طرف بڑھا۔ اس نے دیکھا کہ دو ایک بڑی چٹانوں کے پیچھے ایک غار ہے۔ اس کو بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے یہ غار اسی کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس کے چہرے پر خوشی کی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اس نے کشتی کو گھسیٹ کر غار کے اندر کردیا۔ یہ غار اندر سے صاف ستھرا تھا اور اس میں کشادہ جگہ تھی۔
"بس، جب تک میں اس ساحلی جنگل میں قید ہوں، یہ غار ہی میرا گھر ہے۔" سام نے اپنے آپ سے کہا اور پھر غار سے نکل کر جنگل کی طرف بڑھنے لگا۔ سارا جنگل مختلف پرندوں کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ سب پرندے اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے اور بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ کہیں کہیں مختلف قسموں کی خوبصورت پھولوں کی بیلیں درختوں سے لپٹی، بل کھاتی دور تک چلی گئی تھیں، اونچے اونچے تناور درختوں کی بلندی پر بندر اور لنگور ایک شاخ سے دوسری شاخ پر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ نہ جانے کہاں سے ایک بارہ سنگھا بھاگتا ہوا آیا۔ سام کو سرسری نظر سے دیکھا اور پھر قلانچیں بھرتا ہوا گھنے جنگل میں غائب ہوگیا۔
اچانک سام کے قدموں میں کوئی چیز دھم سے آ گری۔ سام نے چونک کر دیکھا وہ ایک بندر تھا جو غالباً اسی درخت پر چڑھا ہوا تھا جس کے نیچے سام کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ سام اس بندر کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھتا، بندر تیزی کے ساتھ اٹھا اور پھر خوخیاتا ہوا پھر اسی درخت کی اونچی شاخ پر جا بیٹھا اور حیرت سے سام کو دیکھنے لگا۔ غالباً وہ سوچ رہا ہوگا کہ یہ اجنبی یہاں کیسے آیا۔ بندر کی اس ادا پر سام کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
جنگل کے فرش پر خشک پتوں کا قالین سا بچھا ہوا تھا۔ سام جب چلتا تو ان خشک پتوں سے آواز ہونے لگتی۔
دوپہر ہوئی تو سام کو پھر بھوک محسوس ہونے لگی۔ اس نے قریب ہی لگے ہوئے ایک درخت سے جنگلی پھل توڑ لیا اور کھانا شروع ہی کیا تھا کہ کچھ سوچ کر رک گیا، "کہیں یہ پھل زہریلا نہ ہو۔" مگر اس نے دیکھا کہ جو پھل اس نے توڑا ہے وہی پھل درخت پر بیٹھے ہوئے بندر بھی کھا رہے ہیں۔ اس نے پھل کو چکھا تو وہ بہت مزید ار معلوم ہوا، بس پھر کیا تھا اس نے جی بھر کر کھایا۔ کھانے کے بعد اس کی طبیعت بوجھل ہونے لگی اور اس کا دل آرام کرنے کو چاہنے لگا۔ اس نے وہیں جنگل میں کسی درخت کے نیچے پڑ کر آرام کرنے کے بجائے اپنے غار کا رخ کیا۔
غار میں پہنچ کر وہ لیٹ گیا۔ اس کی آنکھیں نیند سے بند ہونے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ جو پھل اس نے کھائے تھے شاید ان میں کوئی ایسا نشہ تھا کہ سام کو اتنی جلد نیند آ گئی تھی ورنہ عام زندگی میں دوپہر کو کھانے کے بعد وہ آرام ضرور کرتا تھا لیکن سوتا نہیں تھا۔
جب سام کی آنکھ کھلی تو سورج غروب ہورہا تھا۔ وہ اپنے غار سے باہر نکل آیا اور ساحل کی گیلی زمین پر بیٹھ کر سمندر کی جھاگ اڑاتی لہروں کو دیکھنے لگا۔ جو تیزی سے ساحل کی طرف آتیں اور کناروں سے ٹکرا کر آہستگی سے واپس چلی جاتیں۔ اسے کتنی ہی دیر اس منظر کو دیکھتے ہوئے ہوگئی۔ جب وہ وہاں سے اٹھا تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ آسمان پر چاند چمک رہا تھا اور اس کی مدھم چاندنی سمندر پر چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
سام نے دور تک پھیلے ہوئے جنگلات کی طرف دیکھا، وہاں پر اب مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اگر کوئی آواز سنائی دے رہی تھی تو وہ صرف جھینگروں کی آواز تھی جو جنگل میں چھائی ہوئی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ اونچے اونچے سایوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔
سام ناریل کے ایک درخت کے قریب گیا اور اس کے نیچے پڑا ہوا ناریل اٹھا کر اسے توڑا اور آدھا کھا کر باقی وہیں چھوڑ کر اپنے غار کی طرف چل پڑا۔ دوپہر کو اس نے اتنا کھا لیا تھا کہ اب اسے بھوک زیادہ نہیں لگ رہی تھی۔
غار میں پہنچ کر سام اپنے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر بعد غار میں اس کے خراٹے گونج رہے تھے۔
سام کو ناریلوں اور جنگلی پھلوں پر گزارا کرتے اور اس ساحلی جنگل میں رہتے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا۔ شروع شروع میں اسے اپنے وطن کی بہت یاد آئی مگر رفتہ رفتہ وہ یہاں کی زندگی کا عادی ہوگیا۔
(جاری ہے)