منصور مکرم
محفلین
سب ریڈی ہوجاؤ اور اپنی اپنی بندوقیں ریڈی کرؤ۔
دوسری گاڑی والے اردگرد پوزیشنیں سنبھال لو۔
تم دونوں اندر داخل ہوجاؤ،ہم کور کرتے ہیں۔
اسی کے ساتھ ہی کمرے کی طرف بڑھتی بھاری بوٹوں کی چھاپ سنائی دیتی ہیں۔
اندر کوئی نہیں، کمرہ خالی ہے۔
اچھا ،دوسرے کمرے کی طرف بڑھو،
سر دروازہ اندر سے بند ہے۔
توڑ دو اسکو
اوکے سر ،اور اسی کے ساتھ ہی دھڑام سے دروازہ توڑ دیا جاتا ہے۔
سر یہاں بھی کوئی نہیں۔
سرچ کرو اندر
سر مل گیا ،ایک کونے میں نیچے تہہ خانے کی سیڑیاں ہے۔
ایک منٹ ،سب ادھر پوزیشنیں سنبھال لو،
سر کافی اندھیرا ہے،ٹارچ جلا کے دیکھتا ہوں ۔
سر اندر 20-25 کے قریب ہیں۔
اوکے ، تہہ خانے میں مت اترو،ڈینجر ایریا ہے۔
نکل آو سب ،ایک ایک کرکے
اور پھر ایک ایک کرکے سب کو باہر نکالا جاتا ہے۔
ہاں تم وہی ہو نا جو اتوار کی شام والے واقعے میں ملوث ہو!!!
نہیں جی،ہم تین تو باہر کھڑے ٹرکوں کے ڈرائیور ہیں۔
ہم دس تو مزدوری کیلئے آئے تھے۔ دوسرے کونے سے آواز آئی
انکے پیچھے کھڑے ہونے والوں میں سے ایک بول پڑا: ہم سبزی منڈی میں سبزی فروخت کرنے والے ہیں۔
زیادہ بکواس مت کرو۔ تم ہی انکے ساتھی ہو، لائن میں کھڑے ہوجاؤ۔ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ۔۔۔بے غیرت
اور پھر برسٹ فائر کی آواز سُنائی دیتی ہے۔
یہ واقعہ ایک قبائلی نوجوان زرین خان نے سُنایا ،جو اس ہوٹل والے کا رشتہ دار ہے ،جس ہوٹل میں یہ واقعہ پیش آیا تھا،جس میں ہوٹل اور قریب واقع فلور مل کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا ۔
ہوا یوں کہ آج اتوار کا دن تھا ،اسی لئے نماز فجر پڑھ کر میں دوبارہ سو گیا کہ اس دوران موبائل پر پیغام ملا کہ آج دوپہر سے قبل ایک اہم پروگرام ہے ،جس میں آپ کی شرکت ضروری ہے۔
چنانچہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی گرم بستر چھوڑ کر تیاری کرنے لگا۔اور پھر ناشتہ کرکے پروگرام میں شرکت کی غرض سے گھر سے نکلا۔چنانچہ جب مقررہ مقام تک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دفاع پاکستان کونسل کا نمائندہ بھی موجود ہے۔
علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ جناب آج ہمارا اہم اجلاس ہے ،نوشھرہ میں ،آپ بمع فلاں فلاں اراکین بھی وہاں مدعو ہیں۔
ہم نے دعوت نامہ شکریے کے ساتھ وصول کرکے انکو رخصت کردیا۔اور پروگرام کا انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ چند گاڑیوں میں سوار دوسرے لوگ بھی پہنچ گئے۔
چنانچہ علیک سلیک کے بعد ان سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ یہ سارے شمالی وزیرستان ایجنسی کے باشندے ہیں۔اور حالیہ فوجی کاروائیوں سے بچنے کیلئے پشاور آئے ہیں۔چنانچہ میں نے ان سے شمالی وزیرستان ایجنسی کے تحصیل میرعلی میں ہونے والے دھماکے ،اور پھر آرمی کی جوابی کاروائی کے بارے میں گفتگو کی ، تو انہوں نے تمام تفصیل سُنائی ،جو کہ ذیل میں ہے۔
سب سے اول جس بندے سے بات کی ،تو اسکا نام سردار خان ہے ،اور گورنمنٹ سکول کا پرنسپل رہ چکا ہے۔بڑی عمر کاآدمی ہے۔ میرعلی کے گاؤں حیدر خیل سے اسکا تعلق ہے۔
میں نے گفتگو کی ابتداء کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کھجوری چیک پوسٹ آپکے گاؤں کے قریب واقع ہے ،اور فاٹا میں 40 ایف سی آر کے تحت علاقائی ذمہ داری کے طور پر کھجوری چیک پوسٹ اور کھجوری قلعہ آپ لوگوں کی ذمہ داری میں آتا ہے ۔
تو کیسے بارود سے بھرا ہوا ٹرک آپکے ہاں سے ہو کر فوجی قلعے پر دھماکہ کرتا ہے؟
تو سردار خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آرمی پوسٹ پر حملہ اتوار کے دن ہوا۔ اور شمالی وزیرستان ایجنسی میں عرصہ سے یہ معمول ہے کہ اتوار کے دن کرفیو لگا دی جاتی ہے۔نیز شام کے وقت ویسے بھی آرمی پوسٹیں بند کردی جاتی ہیں۔
تو کرفیو کے دن اور چیک پوسٹوں کی بندش کے باوجود بارود سے بھرا ٹرک آرمی قلعے کے قریب کس طرح پہنچ جاتا ہے؟
پھر انہوں نے بتایا آرمی قلعے سے ہر طرف 100 میٹر کے فاصلے سے سڑک زگ زیگ کی شکل کا بنایا گیا ہے ،اور ہر زگ زیگ کے شروع میں ملیشیاء فورس اور آرمی والے کھڑے ہیں ،تو اتنی سختی میں بھی کس طرح بارود سے بھرا ٹرک اس زگ زیگ سڑک سے گذر کر آرمی چیک پوسٹ تک پہنچ جاتا ہے؟
تیسری بات یہ کہ جس مسجد میں فوجی مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے،تو یہ مسجد بالکل بھی محفوظ نہ تھی، لھذا میرا سوال یہ ہے کہ ایسی ڈینجر ایریا میں کونکر اتنی نفر ی ایک کھلی جگہ میں جمع ہوگئی تھی؟
نیز اس سردی میں بھی وہ کیونکر باہر نماز پڑھ رہے تھے؟
چوتھی بات یہ کہ جب علاقائی ذمہ داری کے تحت فوج اور عوام نے آپس میں دن تقسیم کردئے ہیں کہ ہفتے کے 6 دن تو عوام سفر کریں گے ،اور اتوار یا ہفتے کے دن صرف فوج کو نقل وحمل کرنے کی اجازت ہوگی،علاقے میں کرفیو ہوگا،اور عوام میں سے کسی کو بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی،خلاف ورزی پر شوٹ کا آرڈر ہے۔تو ایسے میں جب فوج کرفیو لگا کر بھی خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتی ،تو ملک کی کیا حفاظت کرئے گی۔
پانچویں بات یہ کہ روس کے انقلابات سے لیکر آج تک قبائلیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے سرزمین کی حفاظت کی ہے۔مغربی سرحد سے کبھی بھی پاکستان پر حملہ نہیں ہوا،یہاں تک کہ جب غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد ورفت بڑھ گئی ،تو بھی ہم نے حکومت کو بتایا کہ انتظامیہ اور عوام اس معاملے کو حل کرسکتے ہیں۔اگر ضرورت پڑی بھی تو ملیشیاء اور خاصہ داروں کی معاونت کافی ہے۔ لیکن فوج پھر بھی دخل اندازی کرتی رہی ،اور یہاں آکر انہوں نے قبائلی ایجنسیوں میں ڈیرے ڈال دئیے۔
اب جب بن بلائے مہمان کی طرح یہ لوگ یہاں آگئے ہیں ،تو ہم تو فوج کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہیں۔اور نا ہی ہم علاقائی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔فوج اگر اپنی حفاظت نہیں کرسکتی ،تو برائے مہربانی کرکے قبائلی علاقوں سے نکل کر بیرکوں میں واپس چلی جائے۔روس کے زمانے سے لیکر اب تک قبائلی عوام ،ملیشیاء اور لیوی فورسز مل مغربی سرحد کی حفاظت کر سکتے تھے ،تو اب بھی کرسکتے ہیں۔
میں نے سردار خان سے پوچھا کہ آپکے اُٹھائے گئے سوالات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آرمی گویا خود ہی اپنے اوپر حملہ کرتی ہے؟
تو سردار خان نے جواب دیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔کہ بڑی قوتیں پاکستان میں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں،جن میں ہماری ایجنسیاں بھی شامل ہے۔اسی لئے ہم عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہی،کہ حقیقت کیا ہے۔
اسکے بعد میں ایک ایسے بندے کی طرف متوجہ ہوا ،جسکا تعلق تحصیل میرعلی کے گاؤں موسکی کے ساتھ تھا۔میرے پوچھنے پر اس نے اپنا نام علی شاہ بتایا ۔
میں نے پوچھا کہ علی شاہ یہ تو بتاؤ کہ آپکے گاؤں میں بھی چند عورتیں اور بچے آرمی کی گولہ باری سے مرے ہیں۔کیا یہ سچ ہے ؟
اور آپ ہی کے گاؤں پر کیوں گولہ باری کی گئ ؟
تو جواب میں علی شاہ نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں ثناء اللہ نامی سکول ٹیچر کے گھر پر چند گولے گرے ہیں، جس میں اسکی بیوی اور چند بچے مارے گئے ہیں۔اسکے علاوہ بھی دس بارہ لوگ مرے ہیں۔ لیکن فی الحال وہاں ٹیلیفون بند کردئے گئے ہیں،اسی لئے ہمارا اپنے گھروں سے رابطہ نہیں ہو رہا،کہ ہم تازہ ترین معلومات حاصل کرسکیں۔جس وقت میں گھر سے نکلا تھا تو ہمارے گاؤں میں کوئی بھی نہیں رہا تھا،سب دوسرے علاقے کی طرف نقل مکانی کرچکے تھے۔
علی شاہ کے قریب ہی جو بندہ بیٹھا ہوا تھا ،اس کے ساتھ میں نے گفتگو کرنی مناسب سمجھی،تو انہوں نے اپنا نام رضوان بتایا ،اور کہا کہ میرا گھر میر علی بازار کے پشت پر واقع ہے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ آپکے گھر والے تو اس جنگ سے متاثر نہیں ہوئے۔
تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں توپ (آرٹلری) کے دو گولے لگے ہیں۔ ایک گولہ ہماری بھینس کے پاؤں کو رگڑتے ہوائے گرا ہے جو کہ خوش قسمتی سے پھٹ نہ سکا،جس کہ وجہ سے اگرچہ ہماری بھینس کا پاؤں تو نہیں ٹوٹا ہے ،لیکن بھینس کے پاؤں پر سے سارا گوشت چھیل گیا ہے۔
توپ(ارٹلری) کے گولےجو پھٹ نہ سکے
میں نے پوچھا کہ دوسرے گولے کا کیا ہوا ،تو رضوان نے بتایا کہ گھر بناتے وقت ہم نے ایک تہہ خانہ بھی بنایا تھا،اور فوجی کاروائی کے دوران ہم اس تہہ خانے میں اتر گئے،اور ساتھ ہی میں نے تمام گھر والوں کو ذکر وتلاوت میں مشغول ہونے کی تلقین کی ۔چنانچہ ابھی ہم ذکر و تلاوت میں مشغول ہی تھے کہ عین تہہ خانے کی چھت پر ایک توپ کا گولہ آکر لگا۔ اور یہاں بھی ہماری قسمت کام کرگئی کہ یہ گولہ بھی باوجود گرنے کے نہ پھٹ سکا۔
اسی دوران مجھے شمالی وزیرستان ایجنسی سے تحریک انصاف کے گزشتہ انتخابات میں نامزد امیدوار دکھائی دئے۔انہوں نے بھی آتے ہی یہ گلہ کیا کہ ابھی تک ہمیں کوئی کوریج نہیں دی گی ۔میں نے خود پشاور یونیورسٹی جا کر قبائلی طلباء کو جمع کیا ،اور ایک احتجاجی جلوس نکالا۔لیکن کوئی خاص کوریج نہیں ملی،اور نا ہی کسی نے ہماری دادرسی کی۔
میں نے اس سے پوچھا کہ جناب والا آپ بھی تو اس شیلینگ سے متاثرہ علاقے کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ ایک سیاسی لیڈر بھی ہیں ،آپکا اپنا نقطہ نظر ہوگا۔تو کیا کہتے ہیں اس آرمی پوسٹ پر ٹرک حملے اور پھر بعد میں عوام کے خلاف کی گئی فوجی کاروائی کے بارے میں؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ دراصل یہ سارا ایک پلان اور منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ جب طورخم کے راستے سے نیٹو کنٹینرز بند کردئے گئے ،تو اسٹبلشمنٹ نے اس راستے سے انکو لے جانے کا منصوبہ بنایا ،اسی لئے یہاں پہلے تو اس قسم کے اپریشن کئے جائیں گے ،اور جب اس راہداری پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہوجائے ،تو نیٹو کنٹینرز کو اس راستے سے نکالا جائے گا۔
اسکے ساتھ انہوں نے مزید یہ کہا کہ اب بھی رات کو کئی کنٹینرز جاتے دیکھے گئے ہیں۔
میں نے مزید سوال کیا کہ جناب حکومت کہتی ہے کہ ان علاقوں میں آپ لوگوں کے پاس غیر ملکی جنگجو رہتے ہیں۔جن میں اکثر ازبک باشندوں کا نام سامنے آتا ہے؟
اور حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ ہم ان علاقوں میں جس گھر کو نشانہ بناتے ہیں ،تو اسکے بارے میں یہ رپورٹ ملتی ہے کہ یہاں ازبک جنگجو رہتے ہیں؟
تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ یہاں غیر ملکی نہیں ہیں،لیکن میرا حکومت سے سوال یہ ہے کہ جب یہی ازبک آرمی چیک پوسٹوں پر سے روزانہ سینکڑوں بار گذرتے ہیں،تو اس وقت انکو کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا؟
یہ کونسی پالیسی ہے کہ چیک پوسٹوں پر تو انکو کچھ نہ کہو ،لیکن جب یہ رہائشی علاقوں میں جائیں تو ان پر دور سے آرٹلری گولے داغے جائیں ۔
دوسری بات جو آپ نے کہی کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم نے صرف بیرونی جنگجو ؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے ،تو یہ بات سراسر عوام کو اندھیرے میں رکھنے والی بات ہے۔
یہاں اس پروگرام میں جتنے بندے شریک ہیں ،سب کے سب اس کاروائی سے متاثرہ ہے ،لیکن ان میں کوئی آپکو ازبک جنگجو یا انکا حمایتی نظر نہیں آئے گا۔
ہماری گفتگو میں دلچسپی لینے والے ایک دوسرے بندے سے میں نے پوچھا کہ بھائی آپ کا کیا نام ہے۔تو انہوں نے اپنا نام صباح الدین بتایا اور کہا کہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک میڈیکل سٹور چلاتے ہیں،جو کہ میر علی بازار میں واقع ہے۔
میں نے صباح الدین سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ دوائیوں کے پوری مارکیٹ کو ٹینک سے گولے داغ کر تباہ کیا گیا ہے،اس میں کتنا سچ ہے؟
تو صباح الدین نے کہا کہ ہاں یہ سچ ہے کہ فوجی ٹینک نے دوائیوں کی مارکیٹ پر شدید شیلنگ کی ہے ،جس کی وجہ سے دو منزلہ مارکیٹ تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ اور چونکہ یہ کافی بڑی مارکیٹ تھی،لھذا ہم تاجروں کو کروڑوں کا نقصان پہنچا ہے۔
تباہ شدہ دوائیوں والی مارکیٹ
میں نے اس سے پوچھا کہ تحصیل میر علی کا کون کونسا علاقہ اس فوجی کاروائی سے متاثرہ ہے؟
تو صباح الدین نے بتایا کہ میرعلی کے علاقے میں تقریبا تمام گاؤں متاثر ہوئے ہیں،اور لوگ گھر بار چھوڑ کے خالی ہاتھ ننگے پاؤ ں بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے،کیونکہ ایک طرف آرمی کیمپ سے توپ کے گولے داغے جارے تھے ،تو دوسری طرف ہیلی کاپٹروں سے شدید شیلنگ ہورہی تھی۔
تیسرا ظلم ہمارے ساتھ یہ کیا گیا کہ سڑکوں پر کرفیو لگا دیا گیا،تو گویا نہ جائے رفتن ،نہ پائے ماندن والی بات ہوگئی تھی۔
جو بندہ جدھرزخمی ہوا، ادھر ہی تڑپ تڑپ کر مر گیا،اور جو فورا ہی مر گیا تو وہ دو دن تک اسی طرح بےگوروکفن پڑا رہا۔
اس نے مزید بتایا کہ تیسرے دن دوپہر کے وقت آرمی نے کرفیو میں نرمی کی،جس کی وجہ سے ہم لاشے اٹھانے کیلئے جاسکے۔
جب ہم بازار گئے تو دیکھا کہ میرعلی کی مشہور جامع مسجد گلون اور اسے ملحقہ عمارات کو بھی شدید شیلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے،مسجد کے صحن میں گولہ پھٹا ہے ،جس کی وجہ سے مسجد کی دوسری چھت بالکل گر گئی ہے۔نیز مختلف اشیاء خوردونوش کی دکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
میرعلی بازار کی مشہور جامع مسجد گلون
مسجد گلون کا محراب
مسجد کی صحن
میرعلی بازار میں شیلنگ سے متاثرہ دوکانیں
تباہ حال سبزی منڈی
صباح الدین کے ساتھ اسکا چھوٹا بھائی عمادالدین بھی کھڑا تھا،جو کہ بنوں کے سائینس اینڈ ٹیکنالوجی ہونیورسٹی میں انجنیئرنگ کا طالب علم تھا۔
عماد الدین سے میں نے یہ پوچھا کہ جب آرمی نے کرفیو میں نرمی کی تو آپ بھی بنوں کی طرف نکلے آئے؟
تو انہوں نے کہا کہ ہاں ،کرفیو میں نرمی یک طرفہ تھی،یعنی صرف میرعلی سے لوگ نکل کر بنوں جا سکتے تھے،جو لوگ بنوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں ،وہ تاحال ہوٹلوں میں رہائش پزیر ہیں۔اس حال میں کہ انکے پاس خرچ وغیرہ بھی سب ختم ہوگیا ہے۔
میں نے عمادالدین سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ جب آرمی اپنے زخمیوں کو علاج کیلئے اٹھا کر لے جانے لگی ،تو ان پر دوبارہ حملہ کیا گیا؟
تو انہوں نے مختصرا جواب دیا کہ کیا کرفیو میں ایسا ممکن ہے؟
میں نے کہا شائد منصوبے کے تحت پہلے سے ہی اس حملے کا انتظام کیا گیا ہو؟
تو عماد الدین نے جواب دیا کہ پھر اسی مخصوص جگہ پر آپریشن کیا جاتا، پورے پچاس کلومیٹر پر پھیلےلاکھوں آبادی والے تحصیل میرعلی کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔اس فوجی کاروائی سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فوج عوام پر اپناغصہ رہی تھی۔
اوپر ہوٹل کی روؤداد سنانے والے زرین خان سے میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ہوٹل میں آرمی والوں نے ہی کاروائی کی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ اول تو اس روز کرفیو تھا، لھذا کوئی بھی اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتا تھا۔دوسری بات یہ کہ دو دن بعدجب چند گھنٹوں کیلئے کرفیو میں نرمی ہوگئی ،تو لاشے اٹھانے والوں میں ،میں بھی شامل تھا،اور ہمیں ایک بندہ ایسی حالت میں ملا کہ جو مرا تو نہیں تھا لیکن بےہوش ضرور تھا،جس نے بعد میں تمام واقعہ ہمیں سُنایا۔
ہوٹل کے تہہ خانے میں پناہ لینے والوں کی لاشیں
اسی پروگرام میں شامل ایک بندہ خان زمان بھی تھا ،جو کہ پیشے کے لحاظ سے حکومتی کنٹریکٹر تھا،بے چارہ بہت زیادہ پریشان تھا، کہ اسکے اہل خانہ جنگ کی وجہ سے دوسرے علاقے کی طرف نقل مکانی کرچکے تھے،بے سروسامانی کی حالت میں شدید سردی کا سامنا کر رہے تھے۔
خان زمان نے مجھے بتایا کہ کل ہم سب اسلام آباد جائیں گے،اور شاہراہ دستور پر دھرنا دیں گے،ہم اپنے شناختی کارڈ وغیرہ سامنے رکھیں گے اور حکومت سے درخواست کریں گے کہ ہم سے یہ شناختی کارڈ واپس لئے جائیں،کہ ہمارے ساتھ پاکستانیوں جیسا نہیں بلکہ دشمنوں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ ہم نے 2007 میں حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا ،لیکن اس دن سے لے کر آج تک بار بار حکومت مختلف موقعوں پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتی چلی آرہی ہے۔
مجھے افغانستان سے الحاق کرنے پر کوئی عار محسوس نہیں ہوتا،کیونکہ اگر وہاں امریکیوں کے ہاتھوں سے مریں گے تو کم ازکم شھادت میں کوئی تردد تو نہیں ہوگا۔ہمیں صاف علم ہوگا کہ بیرونی یلغاریوں نے ہمیں قتل کیا ہے۔ جبکہ یہاں پر حکومت خود ہماری تحفظ کے بجائے الٹا ہم پر ہی حملے کرتی ہیں ۔
ہم سب کوشش کریں گے کہ یا تو حکومت ہمارے ساتھ ظلم بند کرے اور یا پھر ہماری پاکستانی شھریت ختم کردے۔ میں اس ظلم سے مزید تنگ آگیا ہوں ،اور یہی حالت ہر قبائلی کی ہے۔
اپنے متاثرہ قبائلی بھائیوں کے درد بھرے حالات جان کر مجھے شدید دکھ ہوا ،کہ خدا جانے کب ہماری حکومت ہوش کے ناخن لے گی،ملک کس طرف جا رہا ہے ،اور ہم پالیسیاں کس انداز کی بنا رہے ہیں۔اسی پروگرام میں شامل ایک بندے نے مجھے بتایا کہ میں تو بمع اپنے اہل وعیال کے نکل رہا ہوں ،کہ اس ملک میں اب گذارہ ممکن نہیں رہا۔
دوسری گاڑی والے اردگرد پوزیشنیں سنبھال لو۔
تم دونوں اندر داخل ہوجاؤ،ہم کور کرتے ہیں۔
اسی کے ساتھ ہی کمرے کی طرف بڑھتی بھاری بوٹوں کی چھاپ سنائی دیتی ہیں۔
اندر کوئی نہیں، کمرہ خالی ہے۔
اچھا ،دوسرے کمرے کی طرف بڑھو،
سر دروازہ اندر سے بند ہے۔
توڑ دو اسکو
اوکے سر ،اور اسی کے ساتھ ہی دھڑام سے دروازہ توڑ دیا جاتا ہے۔
سر یہاں بھی کوئی نہیں۔
سرچ کرو اندر
سر مل گیا ،ایک کونے میں نیچے تہہ خانے کی سیڑیاں ہے۔
ایک منٹ ،سب ادھر پوزیشنیں سنبھال لو،
سر کافی اندھیرا ہے،ٹارچ جلا کے دیکھتا ہوں ۔
سر اندر 20-25 کے قریب ہیں۔
اوکے ، تہہ خانے میں مت اترو،ڈینجر ایریا ہے۔
نکل آو سب ،ایک ایک کرکے
اور پھر ایک ایک کرکے سب کو باہر نکالا جاتا ہے۔
ہاں تم وہی ہو نا جو اتوار کی شام والے واقعے میں ملوث ہو!!!
نہیں جی،ہم تین تو باہر کھڑے ٹرکوں کے ڈرائیور ہیں۔
ہم دس تو مزدوری کیلئے آئے تھے۔ دوسرے کونے سے آواز آئی
انکے پیچھے کھڑے ہونے والوں میں سے ایک بول پڑا: ہم سبزی منڈی میں سبزی فروخت کرنے والے ہیں۔
زیادہ بکواس مت کرو۔ تم ہی انکے ساتھی ہو، لائن میں کھڑے ہوجاؤ۔ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ۔۔۔بے غیرت
اور پھر برسٹ فائر کی آواز سُنائی دیتی ہے۔
یہ واقعہ ایک قبائلی نوجوان زرین خان نے سُنایا ،جو اس ہوٹل والے کا رشتہ دار ہے ،جس ہوٹل میں یہ واقعہ پیش آیا تھا،جس میں ہوٹل اور قریب واقع فلور مل کو مکمل طور پر تباہ کیا گیا ۔
ہوا یوں کہ آج اتوار کا دن تھا ،اسی لئے نماز فجر پڑھ کر میں دوبارہ سو گیا کہ اس دوران موبائل پر پیغام ملا کہ آج دوپہر سے قبل ایک اہم پروگرام ہے ،جس میں آپ کی شرکت ضروری ہے۔
چنانچہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی گرم بستر چھوڑ کر تیاری کرنے لگا۔اور پھر ناشتہ کرکے پروگرام میں شرکت کی غرض سے گھر سے نکلا۔چنانچہ جب مقررہ مقام تک پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دفاع پاکستان کونسل کا نمائندہ بھی موجود ہے۔
علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ جناب آج ہمارا اہم اجلاس ہے ،نوشھرہ میں ،آپ بمع فلاں فلاں اراکین بھی وہاں مدعو ہیں۔
ہم نے دعوت نامہ شکریے کے ساتھ وصول کرکے انکو رخصت کردیا۔اور پروگرام کا انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ چند گاڑیوں میں سوار دوسرے لوگ بھی پہنچ گئے۔
چنانچہ علیک سلیک کے بعد ان سے بات چیت کی تو معلوم ہوا کہ یہ سارے شمالی وزیرستان ایجنسی کے باشندے ہیں۔اور حالیہ فوجی کاروائیوں سے بچنے کیلئے پشاور آئے ہیں۔چنانچہ میں نے ان سے شمالی وزیرستان ایجنسی کے تحصیل میرعلی میں ہونے والے دھماکے ،اور پھر آرمی کی جوابی کاروائی کے بارے میں گفتگو کی ، تو انہوں نے تمام تفصیل سُنائی ،جو کہ ذیل میں ہے۔
سب سے اول جس بندے سے بات کی ،تو اسکا نام سردار خان ہے ،اور گورنمنٹ سکول کا پرنسپل رہ چکا ہے۔بڑی عمر کاآدمی ہے۔ میرعلی کے گاؤں حیدر خیل سے اسکا تعلق ہے۔
میں نے گفتگو کی ابتداء کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کھجوری چیک پوسٹ آپکے گاؤں کے قریب واقع ہے ،اور فاٹا میں 40 ایف سی آر کے تحت علاقائی ذمہ داری کے طور پر کھجوری چیک پوسٹ اور کھجوری قلعہ آپ لوگوں کی ذمہ داری میں آتا ہے ۔
تو کیسے بارود سے بھرا ہوا ٹرک آپکے ہاں سے ہو کر فوجی قلعے پر دھماکہ کرتا ہے؟
تو سردار خان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آرمی پوسٹ پر حملہ اتوار کے دن ہوا۔ اور شمالی وزیرستان ایجنسی میں عرصہ سے یہ معمول ہے کہ اتوار کے دن کرفیو لگا دی جاتی ہے۔نیز شام کے وقت ویسے بھی آرمی پوسٹیں بند کردی جاتی ہیں۔
تو کرفیو کے دن اور چیک پوسٹوں کی بندش کے باوجود بارود سے بھرا ٹرک آرمی قلعے کے قریب کس طرح پہنچ جاتا ہے؟
پھر انہوں نے بتایا آرمی قلعے سے ہر طرف 100 میٹر کے فاصلے سے سڑک زگ زیگ کی شکل کا بنایا گیا ہے ،اور ہر زگ زیگ کے شروع میں ملیشیاء فورس اور آرمی والے کھڑے ہیں ،تو اتنی سختی میں بھی کس طرح بارود سے بھرا ٹرک اس زگ زیگ سڑک سے گذر کر آرمی چیک پوسٹ تک پہنچ جاتا ہے؟
تیسری بات یہ کہ جس مسجد میں فوجی مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے،تو یہ مسجد بالکل بھی محفوظ نہ تھی، لھذا میرا سوال یہ ہے کہ ایسی ڈینجر ایریا میں کونکر اتنی نفر ی ایک کھلی جگہ میں جمع ہوگئی تھی؟
نیز اس سردی میں بھی وہ کیونکر باہر نماز پڑھ رہے تھے؟
چوتھی بات یہ کہ جب علاقائی ذمہ داری کے تحت فوج اور عوام نے آپس میں دن تقسیم کردئے ہیں کہ ہفتے کے 6 دن تو عوام سفر کریں گے ،اور اتوار یا ہفتے کے دن صرف فوج کو نقل وحمل کرنے کی اجازت ہوگی،علاقے میں کرفیو ہوگا،اور عوام میں سے کسی کو بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی،خلاف ورزی پر شوٹ کا آرڈر ہے۔تو ایسے میں جب فوج کرفیو لگا کر بھی خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتی ،تو ملک کی کیا حفاظت کرئے گی۔
پانچویں بات یہ کہ روس کے انقلابات سے لیکر آج تک قبائلیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے سرزمین کی حفاظت کی ہے۔مغربی سرحد سے کبھی بھی پاکستان پر حملہ نہیں ہوا،یہاں تک کہ جب غیر ملکی جنگجوؤں کی آمد ورفت بڑھ گئی ،تو بھی ہم نے حکومت کو بتایا کہ انتظامیہ اور عوام اس معاملے کو حل کرسکتے ہیں۔اگر ضرورت پڑی بھی تو ملیشیاء اور خاصہ داروں کی معاونت کافی ہے۔ لیکن فوج پھر بھی دخل اندازی کرتی رہی ،اور یہاں آکر انہوں نے قبائلی ایجنسیوں میں ڈیرے ڈال دئیے۔
اب جب بن بلائے مہمان کی طرح یہ لوگ یہاں آگئے ہیں ،تو ہم تو فوج کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہیں۔اور نا ہی ہم علاقائی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔فوج اگر اپنی حفاظت نہیں کرسکتی ،تو برائے مہربانی کرکے قبائلی علاقوں سے نکل کر بیرکوں میں واپس چلی جائے۔روس کے زمانے سے لیکر اب تک قبائلی عوام ،ملیشیاء اور لیوی فورسز مل مغربی سرحد کی حفاظت کر سکتے تھے ،تو اب بھی کرسکتے ہیں۔
میں نے سردار خان سے پوچھا کہ آپکے اُٹھائے گئے سوالات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آرمی گویا خود ہی اپنے اوپر حملہ کرتی ہے؟
تو سردار خان نے جواب دیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔کہ بڑی قوتیں پاکستان میں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں،جن میں ہماری ایجنسیاں بھی شامل ہے۔اسی لئے ہم عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہی،کہ حقیقت کیا ہے۔
اسکے بعد میں ایک ایسے بندے کی طرف متوجہ ہوا ،جسکا تعلق تحصیل میرعلی کے گاؤں موسکی کے ساتھ تھا۔میرے پوچھنے پر اس نے اپنا نام علی شاہ بتایا ۔
میں نے پوچھا کہ علی شاہ یہ تو بتاؤ کہ آپکے گاؤں میں بھی چند عورتیں اور بچے آرمی کی گولہ باری سے مرے ہیں۔کیا یہ سچ ہے ؟
اور آپ ہی کے گاؤں پر کیوں گولہ باری کی گئ ؟
تو جواب میں علی شاہ نے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں ثناء اللہ نامی سکول ٹیچر کے گھر پر چند گولے گرے ہیں، جس میں اسکی بیوی اور چند بچے مارے گئے ہیں۔اسکے علاوہ بھی دس بارہ لوگ مرے ہیں۔ لیکن فی الحال وہاں ٹیلیفون بند کردئے گئے ہیں،اسی لئے ہمارا اپنے گھروں سے رابطہ نہیں ہو رہا،کہ ہم تازہ ترین معلومات حاصل کرسکیں۔جس وقت میں گھر سے نکلا تھا تو ہمارے گاؤں میں کوئی بھی نہیں رہا تھا،سب دوسرے علاقے کی طرف نقل مکانی کرچکے تھے۔
علی شاہ کے قریب ہی جو بندہ بیٹھا ہوا تھا ،اس کے ساتھ میں نے گفتگو کرنی مناسب سمجھی،تو انہوں نے اپنا نام رضوان بتایا ،اور کہا کہ میرا گھر میر علی بازار کے پشت پر واقع ہے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ آپکے گھر والے تو اس جنگ سے متاثر نہیں ہوئے۔
تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں توپ (آرٹلری) کے دو گولے لگے ہیں۔ ایک گولہ ہماری بھینس کے پاؤں کو رگڑتے ہوائے گرا ہے جو کہ خوش قسمتی سے پھٹ نہ سکا،جس کہ وجہ سے اگرچہ ہماری بھینس کا پاؤں تو نہیں ٹوٹا ہے ،لیکن بھینس کے پاؤں پر سے سارا گوشت چھیل گیا ہے۔
توپ(ارٹلری) کے گولےجو پھٹ نہ سکے
میں نے پوچھا کہ دوسرے گولے کا کیا ہوا ،تو رضوان نے بتایا کہ گھر بناتے وقت ہم نے ایک تہہ خانہ بھی بنایا تھا،اور فوجی کاروائی کے دوران ہم اس تہہ خانے میں اتر گئے،اور ساتھ ہی میں نے تمام گھر والوں کو ذکر وتلاوت میں مشغول ہونے کی تلقین کی ۔چنانچہ ابھی ہم ذکر و تلاوت میں مشغول ہی تھے کہ عین تہہ خانے کی چھت پر ایک توپ کا گولہ آکر لگا۔ اور یہاں بھی ہماری قسمت کام کرگئی کہ یہ گولہ بھی باوجود گرنے کے نہ پھٹ سکا۔
اسی دوران مجھے شمالی وزیرستان ایجنسی سے تحریک انصاف کے گزشتہ انتخابات میں نامزد امیدوار دکھائی دئے۔انہوں نے بھی آتے ہی یہ گلہ کیا کہ ابھی تک ہمیں کوئی کوریج نہیں دی گی ۔میں نے خود پشاور یونیورسٹی جا کر قبائلی طلباء کو جمع کیا ،اور ایک احتجاجی جلوس نکالا۔لیکن کوئی خاص کوریج نہیں ملی،اور نا ہی کسی نے ہماری دادرسی کی۔
میں نے اس سے پوچھا کہ جناب والا آپ بھی تو اس شیلینگ سے متاثرہ علاقے کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ ایک سیاسی لیڈر بھی ہیں ،آپکا اپنا نقطہ نظر ہوگا۔تو کیا کہتے ہیں اس آرمی پوسٹ پر ٹرک حملے اور پھر بعد میں عوام کے خلاف کی گئی فوجی کاروائی کے بارے میں؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ دراصل یہ سارا ایک پلان اور منصوبے کے تحت کیا گیا ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ جب طورخم کے راستے سے نیٹو کنٹینرز بند کردئے گئے ،تو اسٹبلشمنٹ نے اس راستے سے انکو لے جانے کا منصوبہ بنایا ،اسی لئے یہاں پہلے تو اس قسم کے اپریشن کئے جائیں گے ،اور جب اس راہداری پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہوجائے ،تو نیٹو کنٹینرز کو اس راستے سے نکالا جائے گا۔
اسکے ساتھ انہوں نے مزید یہ کہا کہ اب بھی رات کو کئی کنٹینرز جاتے دیکھے گئے ہیں۔
میں نے مزید سوال کیا کہ جناب حکومت کہتی ہے کہ ان علاقوں میں آپ لوگوں کے پاس غیر ملکی جنگجو رہتے ہیں۔جن میں اکثر ازبک باشندوں کا نام سامنے آتا ہے؟
اور حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ ہم ان علاقوں میں جس گھر کو نشانہ بناتے ہیں ،تو اسکے بارے میں یہ رپورٹ ملتی ہے کہ یہاں ازبک جنگجو رہتے ہیں؟
تو انہوں نے بتایا کہ ہمیں اس بات سے انکار نہیں کہ یہاں غیر ملکی نہیں ہیں،لیکن میرا حکومت سے سوال یہ ہے کہ جب یہی ازبک آرمی چیک پوسٹوں پر سے روزانہ سینکڑوں بار گذرتے ہیں،تو اس وقت انکو کیوں گرفتار نہیں کیا جاتا؟
یہ کونسی پالیسی ہے کہ چیک پوسٹوں پر تو انکو کچھ نہ کہو ،لیکن جب یہ رہائشی علاقوں میں جائیں تو ان پر دور سے آرٹلری گولے داغے جائیں ۔
دوسری بات جو آپ نے کہی کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہم نے صرف بیرونی جنگجو ؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے ،تو یہ بات سراسر عوام کو اندھیرے میں رکھنے والی بات ہے۔
یہاں اس پروگرام میں جتنے بندے شریک ہیں ،سب کے سب اس کاروائی سے متاثرہ ہے ،لیکن ان میں کوئی آپکو ازبک جنگجو یا انکا حمایتی نظر نہیں آئے گا۔
ہماری گفتگو میں دلچسپی لینے والے ایک دوسرے بندے سے میں نے پوچھا کہ بھائی آپ کا کیا نام ہے۔تو انہوں نے اپنا نام صباح الدین بتایا اور کہا کہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک میڈیکل سٹور چلاتے ہیں،جو کہ میر علی بازار میں واقع ہے۔
میں نے صباح الدین سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ دوائیوں کے پوری مارکیٹ کو ٹینک سے گولے داغ کر تباہ کیا گیا ہے،اس میں کتنا سچ ہے؟
تو صباح الدین نے کہا کہ ہاں یہ سچ ہے کہ فوجی ٹینک نے دوائیوں کی مارکیٹ پر شدید شیلنگ کی ہے ،جس کی وجہ سے دو منزلہ مارکیٹ تباہ ہوکر رہ گئی ہے۔ اور چونکہ یہ کافی بڑی مارکیٹ تھی،لھذا ہم تاجروں کو کروڑوں کا نقصان پہنچا ہے۔
تباہ شدہ دوائیوں والی مارکیٹ
میں نے اس سے پوچھا کہ تحصیل میر علی کا کون کونسا علاقہ اس فوجی کاروائی سے متاثرہ ہے؟
تو صباح الدین نے بتایا کہ میرعلی کے علاقے میں تقریبا تمام گاؤں متاثر ہوئے ہیں،اور لوگ گھر بار چھوڑ کے خالی ہاتھ ننگے پاؤ ں بھاگنے پر مجبور ہوئے تھے،کیونکہ ایک طرف آرمی کیمپ سے توپ کے گولے داغے جارے تھے ،تو دوسری طرف ہیلی کاپٹروں سے شدید شیلنگ ہورہی تھی۔
تیسرا ظلم ہمارے ساتھ یہ کیا گیا کہ سڑکوں پر کرفیو لگا دیا گیا،تو گویا نہ جائے رفتن ،نہ پائے ماندن والی بات ہوگئی تھی۔
جو بندہ جدھرزخمی ہوا، ادھر ہی تڑپ تڑپ کر مر گیا،اور جو فورا ہی مر گیا تو وہ دو دن تک اسی طرح بےگوروکفن پڑا رہا۔
اس نے مزید بتایا کہ تیسرے دن دوپہر کے وقت آرمی نے کرفیو میں نرمی کی،جس کی وجہ سے ہم لاشے اٹھانے کیلئے جاسکے۔
جب ہم بازار گئے تو دیکھا کہ میرعلی کی مشہور جامع مسجد گلون اور اسے ملحقہ عمارات کو بھی شدید شیلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے،مسجد کے صحن میں گولہ پھٹا ہے ،جس کی وجہ سے مسجد کی دوسری چھت بالکل گر گئی ہے۔نیز مختلف اشیاء خوردونوش کی دکانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
میرعلی بازار کی مشہور جامع مسجد گلون
مسجد گلون کا محراب
مسجد کی صحن
میرعلی بازار میں شیلنگ سے متاثرہ دوکانیں
تباہ حال سبزی منڈی
صباح الدین کے ساتھ اسکا چھوٹا بھائی عمادالدین بھی کھڑا تھا،جو کہ بنوں کے سائینس اینڈ ٹیکنالوجی ہونیورسٹی میں انجنیئرنگ کا طالب علم تھا۔
عماد الدین سے میں نے یہ پوچھا کہ جب آرمی نے کرفیو میں نرمی کی تو آپ بھی بنوں کی طرف نکلے آئے؟
تو انہوں نے کہا کہ ہاں ،کرفیو میں نرمی یک طرفہ تھی،یعنی صرف میرعلی سے لوگ نکل کر بنوں جا سکتے تھے،جو لوگ بنوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں ،وہ تاحال ہوٹلوں میں رہائش پزیر ہیں۔اس حال میں کہ انکے پاس خرچ وغیرہ بھی سب ختم ہوگیا ہے۔
میں نے عمادالدین سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ جب آرمی اپنے زخمیوں کو علاج کیلئے اٹھا کر لے جانے لگی ،تو ان پر دوبارہ حملہ کیا گیا؟
تو انہوں نے مختصرا جواب دیا کہ کیا کرفیو میں ایسا ممکن ہے؟
میں نے کہا شائد منصوبے کے تحت پہلے سے ہی اس حملے کا انتظام کیا گیا ہو؟
تو عماد الدین نے جواب دیا کہ پھر اسی مخصوص جگہ پر آپریشن کیا جاتا، پورے پچاس کلومیٹر پر پھیلےلاکھوں آبادی والے تحصیل میرعلی کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔اس فوجی کاروائی سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ فوج عوام پر اپناغصہ رہی تھی۔
اوپر ہوٹل کی روؤداد سنانے والے زرین خان سے میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ہوٹل میں آرمی والوں نے ہی کاروائی کی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ اول تو اس روز کرفیو تھا، لھذا کوئی بھی اپنے گھروں سے نہیں نکل سکتا تھا۔دوسری بات یہ کہ دو دن بعدجب چند گھنٹوں کیلئے کرفیو میں نرمی ہوگئی ،تو لاشے اٹھانے والوں میں ،میں بھی شامل تھا،اور ہمیں ایک بندہ ایسی حالت میں ملا کہ جو مرا تو نہیں تھا لیکن بےہوش ضرور تھا،جس نے بعد میں تمام واقعہ ہمیں سُنایا۔
ہوٹل کے تہہ خانے میں پناہ لینے والوں کی لاشیں
اسی پروگرام میں شامل ایک بندہ خان زمان بھی تھا ،جو کہ پیشے کے لحاظ سے حکومتی کنٹریکٹر تھا،بے چارہ بہت زیادہ پریشان تھا، کہ اسکے اہل خانہ جنگ کی وجہ سے دوسرے علاقے کی طرف نقل مکانی کرچکے تھے،بے سروسامانی کی حالت میں شدید سردی کا سامنا کر رہے تھے۔
خان زمان نے مجھے بتایا کہ کل ہم سب اسلام آباد جائیں گے،اور شاہراہ دستور پر دھرنا دیں گے،ہم اپنے شناختی کارڈ وغیرہ سامنے رکھیں گے اور حکومت سے درخواست کریں گے کہ ہم سے یہ شناختی کارڈ واپس لئے جائیں،کہ ہمارے ساتھ پاکستانیوں جیسا نہیں بلکہ دشمنوں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ ہم نے 2007 میں حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا ،لیکن اس دن سے لے کر آج تک بار بار حکومت مختلف موقعوں پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتی چلی آرہی ہے۔
مجھے افغانستان سے الحاق کرنے پر کوئی عار محسوس نہیں ہوتا،کیونکہ اگر وہاں امریکیوں کے ہاتھوں سے مریں گے تو کم ازکم شھادت میں کوئی تردد تو نہیں ہوگا۔ہمیں صاف علم ہوگا کہ بیرونی یلغاریوں نے ہمیں قتل کیا ہے۔ جبکہ یہاں پر حکومت خود ہماری تحفظ کے بجائے الٹا ہم پر ہی حملے کرتی ہیں ۔
ہم سب کوشش کریں گے کہ یا تو حکومت ہمارے ساتھ ظلم بند کرے اور یا پھر ہماری پاکستانی شھریت ختم کردے۔ میں اس ظلم سے مزید تنگ آگیا ہوں ،اور یہی حالت ہر قبائلی کی ہے۔
اپنے متاثرہ قبائلی بھائیوں کے درد بھرے حالات جان کر مجھے شدید دکھ ہوا ،کہ خدا جانے کب ہماری حکومت ہوش کے ناخن لے گی،ملک کس طرف جا رہا ہے ،اور ہم پالیسیاں کس انداز کی بنا رہے ہیں۔اسی پروگرام میں شامل ایک بندے نے مجھے بتایا کہ میں تو بمع اپنے اہل وعیال کے نکل رہا ہوں ،کہ اس ملک میں اب گذارہ ممکن نہیں رہا۔
(تصاویر بشکریہ صحافی فہد شبیر نیوز ایڈیٹر اردو پوائینٹ )
آخری تدوین: