زرقا مفتی
محفلین
عظیم سانحہ ہے۔ بہت ہی عظیم۔ ناقابل تصور حد تک عظیم۔ پشاور نے بہت حادثات دیکھے ہیں۔ کابل کے بعد اگر کوئی شہر حادثات سے زیادہ آشنا ہے تو وہ یہی شہر ہے لیکن اس شہر کو اس طرح اداس اور اجڑا ہوا ‘ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کے فوراً بعد پشاور پہنچا اور تین دن تک ان کربناک اور المناک مناظر کو دیکھتا رہا۔ رپورٹنگ پہلے بھی کی ہے ‘ کابل سے لے کر قندہار تک اور باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک ‘ دل دہلانے والے کئی مناظر دیکھے ہیں لیکن اس سانحہ کے مناظر اور اثرات کو قارئین سے شئیر کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ تاہم یہ پہلا سانحہ ہے اور خاکم بدہن نہ آخری ۔ دشت لیلیٰ سے لے کر سقوط کابل تک ‘ ڈمہ ڈولا سے لے کر لال مسجد تک ‘ گڑھی قمردین سے لے کر میریٹ دھماکوں تک ‘ سینکڑوں سانحات دیکھے ہیں اور ہم اسی طرح قومی سطح پر منافقت کا شکار رہے تو اور بھی بہت سارے سانحات دیکھنے کا خطرہ ہے۔ میاں نوازشریف اور عمران خان کا ایک ساتھ بیٹھنا اور قومی سیاسی قیادت کا ایک لائحہ عمل پر ظاہری اتفاق نہایت خوش آئند ہے لیکن یہ عمل بھی نیا نہیں ۔ اس سے پہلے بھی کئی اے پی سی دیکھی ہیں اور اس سے قبل بھی سول ملٹری کا ایک صفحے پر ہونے کی بہت دھائیاں دی گئی ہیں ۔ میڈیا کا ماتم بھی نیا نہیں اور گڈبیڈ کی تفریق ختم کرنے کا دعویٰ بھی پہلی بار سننے کو نہیں مل رہا ۔ اگر توواقعی قیادت سدھری ہے اور اگر تو واقعی سوچ بدلی ہے تو پھر آج سے ہی ہنگامی بنیادوں پر وقت ضائع کئے بغیر چند تجاویز کو عملی جامہ پہنایا جائے ۔
میرے نزدیک اشد اور اولین ضرورت سول ملٹری قیادت کا ایک صفحے پر آنے کا ہے ۔ اس میں موجود تنائو کو دور کرنے کے لئے فوری طور پر وزیردفاع خواجہ محمد آصف کو تبدیل کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کو قومی سلامتی کے اداروں نے ایک دن کے لئے بھی دل سے وزیر دفاع کے طور پر قبول نہیں کیا ۔ اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مناسب فرد دستیاب نہ ہو تو عسکری مزاج کو سمجھنے والے باہر سے کسی فرد کو عسکری قیادت کے مشورے سے مشیردفاع مقرر کیا جائے ۔ فاطمی صاحب کے بارے میں بھی یہی سوچ ہے اس لئے ان کو خارجہ وزارت سے فارغ کرکے کسی مناسب فرد کو وزیر خارجہ بنایا جائے جبکہ سرتاج عزیز صاحب کو بھی یہاں سے فارغ کرکے قومی سلامتی کے مشیر کے منصب تک محدود کرلیا جائے ۔ یا پھر ان کو مشیر خارجہ رکھ کر قومی سلامتی کے مشیر کے منصب پر کسی سابق آرمی چیف یا کسی سابق جوائنٹ چیف کو تعینات کیاجائے ۔ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے ساتھ اب تک جو مذاق کیا جارہا ہے ‘ وہ سلسلہ ختم کیا جائے ۔ اس ڈویژن کو وزیراعظم خصوصی توجہ دیں اور ہفتہ وار بنیادوں پر اس کا اجلاس منعقد ہو ۔ ابھی تک دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جو معاملات قومی سلامتی کمیٹی میں زیربحث لائے گئے ہیں ‘ اس پر سول ملٹری قیادت کے مابین ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے لیکن جن معاملات کو انفرادی سطح پر خلوت میں ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ‘ وہ اختلاف اور تنائو کا موجب بنے ہیں ۔ میٹرو اور اسی نوع کے دیگر عیاشانہ منصوبوں کی بجائے فنڈز قومی سلامتی کے اداروں، پولیس اور نیکٹا جیسے اداروں کی طرف منتقل کئے جائیں۔ آپریشنوں سے متاثرہ علاقوں اور بالخصوص آئی ڈی پیز کے مسائل کے حل کے لئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز فراہم کئے جائیں۔ نیکٹا کے ادارے کو اس کی روح کے مطابق فعال بنایا جائے۔ اس میں اہل ترین افراد کا میرٹ پر تقرر کیا جائے اور اس کے لئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈ ریلیز کئے جائیں۔ جو داخلی سلامتی پالیسی بنائی گئی ہے، پارلیمنٹ میں ہنگامی بنیادوں پر بحث کے ذریعے اس میں مناسب ردوبدل کیا جائے۔ اس حوالے سے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے تحفظات کو مشاورت کے ذریعے دور کیاجائے اور اس پر عملدرآمد کا آغاز کیاجائے۔ وزیراعظم غیرملکی دوروں کا سلسلہ بند کردیں۔ صدر مملکت یوں بھی فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور اگر ضروری ہو تو انہیں غیرملکی دوروں پر بھیجا جائے۔ غیرملکی دوروں اور لاہور میں ہر ہفتے دو روزہ قیام کا وقت وزیراعظم ان علاقوں کے دوروں کے لئے مختص کرلیں جہاں آپریشن ہورہے ہیں۔ پرویز مشرف کیس اور اسی نوع کے دیگر ایشوز، جن پر عسکری اداروں کی طرف سے ناراضگی کا امکان ہوتا ہے، پر قوم کے وسیع ترمفاد میں فراخدلی سے کام لیا جائے یا پھر ان کو سردست نہ چھیڑا جائے لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ جواب میں سول قیادت کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عسکری ادارے بھی ان اقدامات سے گریز کریں جن کی وجہ سے تنائو جنم لیتا ہے۔ ملٹری قیادت ان عناصر کو لگام دے جو قومی سلامتی کے اداروں کو کبھی دھرنوں کے لئے اور کبھی اپنے ذاتی مخالفین کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وزیراعظم اور سیاسی قیادت کو یقین دلایا جائے کہ آئندہ عمران خان اور طاہرالقادری جیسے لوگوں کے ذریعے دھرنے دئے جائیں گے اور نہ شیخ رشید احمد اور چوہدری برادران جیسے لوگوں کو سیاسی مہروں کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ہر اختلاف کرنے والے کی نیت پر شک کرنے اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ جو بڑی حد تک آرمی اور آئی ایس آئی کی نئی قیادت نے کنٹرول کردیا ہے کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ میڈیا میں موجود وہ مہرے جنہوں نے سیاسی قیادت کو گالی دینا اپنا وتیرہ بنارکھا ہے، جن سے ماضی میں یہ کام لیا گیا اور جو اب بھی اپنے آپ کو خودساختہ طور پر قومی سلامتی کے اداروں کے ترجمان ثابت کررہے ہیں، کو لگام ڈالنا ہوگی۔ کیونکہ یہ لوگ اگر عسکری اداروں کے وکیل بن کر سیاسی قیادت اور میڈیا پرسنز کو گالی دیتے رہیں گے تو دوسری طرف سے بھی ردعمل کا خطرہ موجود رہتا ہے اور یہ عمل سول ملٹری تعلقات کو خراب کرنے کا موجب بنتا ہے۔
سیاسی رہنمائوں کی کمیٹی سے متعلق عرض ہے کہ وہ روایتی کمیٹی کی طرح کام نہ کرے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر صبح سے شام تک اجلاس منعقد کرتی رہے۔ اس میں اس قضئے کے نظریاتی، تزویراتی، معاشرتی اور سفارتی پہلووں کا ادراک رکھنے والے ماہرین کو بلائے۔ عسکری اور خفیہ اداروں کو بھی سنے۔ پولیس اور دیگر سول اداروں سے بھی کماحقہ مشاورت کرے اور پھر تصوراتی کی بجائے ایک قابل عمل ایجنڈا پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دے۔ مجوزہ ایکشن پلان انتظامی، عدالتی، مالی، تزویراتی، سفارتی، ابلاغی اور نظریاتی سمیت ہر پہلوکا احاطہ کرنے والا ہونا چاہئے۔ یہ کمیٹی صوبوں اور مرکز کے مابین کوآرڈینیشن کو بہتر بنانے سے متعلق بھی خصوصی سفارشات مرتب کرے اور اس کے ساتھ ساتھ فاٹا اور دیگر متاثرہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے بھی لائحہ عمل وضع کرے۔ میڈیا کے لئے بھی ضابطہ اخلاق مرتب کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کو بھی میڈیا کے ساتھ ڈیلنگ کے لئے قواعد و ضوابط کا پابند بنائے۔ اس اجلا س کے ساتھ متوازی اسلامی نظریاتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔ وہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کو بھی خصوصی طور پر بلائے۔ یہ خصوصی اجلاس تواتر کے ساتھ جاری رہے اور جہاد و قتال، ریاست کی شرعی حیثیت، سرحدات کا تصور، مرتد اور واجب القتل جیسے ایشوز سے متعلق حقیقی اسلامی اور شرعی نکتہ نظر اتفاق رائے سے سامنے لائے۔ اس میں کسی فرد یا ادارے کی رائے کو مقدم رکھنے کی بجائے نتائج سے بے فکر ہوکر قرآن و سنت کے حقیقی تصورات کو واضح کیا جائے۔ پھر اس کو پارلیمنٹ سے قانونی شکل دی جائے۔ سانحہ پشاور کے بعد چونکہ ایک جذباتی فضا بن گئی ہے اس لئے ہر کوئی ماردو اور کچل دو کے نعرے بلند کررہا ہے لیکن بہتر یہی ہوگا کہ جذبات کا شکار ہونے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لیا جائے۔ یہ پہلو بھی مدنظر رکھا جائے کہ جو لوگ اس وقت ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں، انہیں اس راستے پر ہماری ریاست نے لگا رکھا ہے اور کل تک پوری ریاست ان لوگوں کو شاباش دے رہے تھی۔ آج بھی کہیں نہ کہیں اسی طرح کے لوگ ہمارے منظور نظر ہیں۔
اس لئے اگر فیصلہ کن اقدام سے سرنڈر ہونے کے لئے عام معافی کے اعلان پر بھی غور ہونا چاہئے۔ جو لوگ مین سٹریم میں آنے پر آمادہ ہوں یا جن کو گرفتار کرلیا گیا ہو، ان کی ڈی ریڈیکلائزیشن کے لئے بھی ایکشن پلان بنایا جائے۔ سب سے زیادہ اہم بارڈر منیجمنٹ ہے اور افغانستان کے ساتھ بارڈر کے انتظام کے لئے بھی یہ کمیٹی تجاویز مرتب کرے۔ اسی طرح تعلیمی نظام میں بھی اصلاحات کو بھی یہ کمیٹی اپنے مینڈیٹ میں شامل رکھے لیکن ظاہر ہے جو اقدامات فوری اٹھانے کے ہیں ان کے لئے فوری اور جو طویل المیعاد ہیں ان کے لئے ان بنیادوں پر لائحہ عمل بنایا جائے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ اور اسی طرح کے دیگر تجاویز کو حکومت اور متعلقہ ادارے عملی جامہ پہناتے ہیں یا نہیں ۔ اگر عمل سے جواب نفی میں آیا تو سمجھ لیں کہ جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ بھی ماضی کے ڈراموں کی طرح ایک ڈرامہ ہے اور اگر اسی طرح کے اقدامات اٹھائے گئے تو ہم سمجھ لیں کہ واقعی پاکستان بدل رہا ہے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=263698
میرے نزدیک اشد اور اولین ضرورت سول ملٹری قیادت کا ایک صفحے پر آنے کا ہے ۔ اس میں موجود تنائو کو دور کرنے کے لئے فوری طور پر وزیردفاع خواجہ محمد آصف کو تبدیل کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کو قومی سلامتی کے اداروں نے ایک دن کے لئے بھی دل سے وزیر دفاع کے طور پر قبول نہیں کیا ۔ اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مناسب فرد دستیاب نہ ہو تو عسکری مزاج کو سمجھنے والے باہر سے کسی فرد کو عسکری قیادت کے مشورے سے مشیردفاع مقرر کیا جائے ۔ فاطمی صاحب کے بارے میں بھی یہی سوچ ہے اس لئے ان کو خارجہ وزارت سے فارغ کرکے کسی مناسب فرد کو وزیر خارجہ بنایا جائے جبکہ سرتاج عزیز صاحب کو بھی یہاں سے فارغ کرکے قومی سلامتی کے مشیر کے منصب تک محدود کرلیا جائے ۔ یا پھر ان کو مشیر خارجہ رکھ کر قومی سلامتی کے مشیر کے منصب پر کسی سابق آرمی چیف یا کسی سابق جوائنٹ چیف کو تعینات کیاجائے ۔ کابینہ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کے ساتھ اب تک جو مذاق کیا جارہا ہے ‘ وہ سلسلہ ختم کیا جائے ۔ اس ڈویژن کو وزیراعظم خصوصی توجہ دیں اور ہفتہ وار بنیادوں پر اس کا اجلاس منعقد ہو ۔ ابھی تک دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جو معاملات قومی سلامتی کمیٹی میں زیربحث لائے گئے ہیں ‘ اس پر سول ملٹری قیادت کے مابین ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے لیکن جن معاملات کو انفرادی سطح پر خلوت میں ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے ‘ وہ اختلاف اور تنائو کا موجب بنے ہیں ۔ میٹرو اور اسی نوع کے دیگر عیاشانہ منصوبوں کی بجائے فنڈز قومی سلامتی کے اداروں، پولیس اور نیکٹا جیسے اداروں کی طرف منتقل کئے جائیں۔ آپریشنوں سے متاثرہ علاقوں اور بالخصوص آئی ڈی پیز کے مسائل کے حل کے لئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز فراہم کئے جائیں۔ نیکٹا کے ادارے کو اس کی روح کے مطابق فعال بنایا جائے۔ اس میں اہل ترین افراد کا میرٹ پر تقرر کیا جائے اور اس کے لئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈ ریلیز کئے جائیں۔ جو داخلی سلامتی پالیسی بنائی گئی ہے، پارلیمنٹ میں ہنگامی بنیادوں پر بحث کے ذریعے اس میں مناسب ردوبدل کیا جائے۔ اس حوالے سے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے تحفظات کو مشاورت کے ذریعے دور کیاجائے اور اس پر عملدرآمد کا آغاز کیاجائے۔ وزیراعظم غیرملکی دوروں کا سلسلہ بند کردیں۔ صدر مملکت یوں بھی فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور اگر ضروری ہو تو انہیں غیرملکی دوروں پر بھیجا جائے۔ غیرملکی دوروں اور لاہور میں ہر ہفتے دو روزہ قیام کا وقت وزیراعظم ان علاقوں کے دوروں کے لئے مختص کرلیں جہاں آپریشن ہورہے ہیں۔ پرویز مشرف کیس اور اسی نوع کے دیگر ایشوز، جن پر عسکری اداروں کی طرف سے ناراضگی کا امکان ہوتا ہے، پر قوم کے وسیع ترمفاد میں فراخدلی سے کام لیا جائے یا پھر ان کو سردست نہ چھیڑا جائے لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ جواب میں سول قیادت کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عسکری ادارے بھی ان اقدامات سے گریز کریں جن کی وجہ سے تنائو جنم لیتا ہے۔ ملٹری قیادت ان عناصر کو لگام دے جو قومی سلامتی کے اداروں کو کبھی دھرنوں کے لئے اور کبھی اپنے ذاتی مخالفین کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وزیراعظم اور سیاسی قیادت کو یقین دلایا جائے کہ آئندہ عمران خان اور طاہرالقادری جیسے لوگوں کے ذریعے دھرنے دئے جائیں گے اور نہ شیخ رشید احمد اور چوہدری برادران جیسے لوگوں کو سیاسی مہروں کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ہر اختلاف کرنے والے کی نیت پر شک کرنے اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ جو بڑی حد تک آرمی اور آئی ایس آئی کی نئی قیادت نے کنٹرول کردیا ہے کو مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا۔ میڈیا میں موجود وہ مہرے جنہوں نے سیاسی قیادت کو گالی دینا اپنا وتیرہ بنارکھا ہے، جن سے ماضی میں یہ کام لیا گیا اور جو اب بھی اپنے آپ کو خودساختہ طور پر قومی سلامتی کے اداروں کے ترجمان ثابت کررہے ہیں، کو لگام ڈالنا ہوگی۔ کیونکہ یہ لوگ اگر عسکری اداروں کے وکیل بن کر سیاسی قیادت اور میڈیا پرسنز کو گالی دیتے رہیں گے تو دوسری طرف سے بھی ردعمل کا خطرہ موجود رہتا ہے اور یہ عمل سول ملٹری تعلقات کو خراب کرنے کا موجب بنتا ہے۔
سیاسی رہنمائوں کی کمیٹی سے متعلق عرض ہے کہ وہ روایتی کمیٹی کی طرح کام نہ کرے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر صبح سے شام تک اجلاس منعقد کرتی رہے۔ اس میں اس قضئے کے نظریاتی، تزویراتی، معاشرتی اور سفارتی پہلووں کا ادراک رکھنے والے ماہرین کو بلائے۔ عسکری اور خفیہ اداروں کو بھی سنے۔ پولیس اور دیگر سول اداروں سے بھی کماحقہ مشاورت کرے اور پھر تصوراتی کی بجائے ایک قابل عمل ایجنڈا پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دے۔ مجوزہ ایکشن پلان انتظامی، عدالتی، مالی، تزویراتی، سفارتی، ابلاغی اور نظریاتی سمیت ہر پہلوکا احاطہ کرنے والا ہونا چاہئے۔ یہ کمیٹی صوبوں اور مرکز کے مابین کوآرڈینیشن کو بہتر بنانے سے متعلق بھی خصوصی سفارشات مرتب کرے اور اس کے ساتھ ساتھ فاٹا اور دیگر متاثرہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے لئے بھی لائحہ عمل وضع کرے۔ میڈیا کے لئے بھی ضابطہ اخلاق مرتب کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کو بھی میڈیا کے ساتھ ڈیلنگ کے لئے قواعد و ضوابط کا پابند بنائے۔ اس اجلا س کے ساتھ متوازی اسلامی نظریاتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔ وہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کو بھی خصوصی طور پر بلائے۔ یہ خصوصی اجلاس تواتر کے ساتھ جاری رہے اور جہاد و قتال، ریاست کی شرعی حیثیت، سرحدات کا تصور، مرتد اور واجب القتل جیسے ایشوز سے متعلق حقیقی اسلامی اور شرعی نکتہ نظر اتفاق رائے سے سامنے لائے۔ اس میں کسی فرد یا ادارے کی رائے کو مقدم رکھنے کی بجائے نتائج سے بے فکر ہوکر قرآن و سنت کے حقیقی تصورات کو واضح کیا جائے۔ پھر اس کو پارلیمنٹ سے قانونی شکل دی جائے۔ سانحہ پشاور کے بعد چونکہ ایک جذباتی فضا بن گئی ہے اس لئے ہر کوئی ماردو اور کچل دو کے نعرے بلند کررہا ہے لیکن بہتر یہی ہوگا کہ جذبات کا شکار ہونے کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے کام لیا جائے۔ یہ پہلو بھی مدنظر رکھا جائے کہ جو لوگ اس وقت ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں، انہیں اس راستے پر ہماری ریاست نے لگا رکھا ہے اور کل تک پوری ریاست ان لوگوں کو شاباش دے رہے تھی۔ آج بھی کہیں نہ کہیں اسی طرح کے لوگ ہمارے منظور نظر ہیں۔
اس لئے اگر فیصلہ کن اقدام سے سرنڈر ہونے کے لئے عام معافی کے اعلان پر بھی غور ہونا چاہئے۔ جو لوگ مین سٹریم میں آنے پر آمادہ ہوں یا جن کو گرفتار کرلیا گیا ہو، ان کی ڈی ریڈیکلائزیشن کے لئے بھی ایکشن پلان بنایا جائے۔ سب سے زیادہ اہم بارڈر منیجمنٹ ہے اور افغانستان کے ساتھ بارڈر کے انتظام کے لئے بھی یہ کمیٹی تجاویز مرتب کرے۔ اسی طرح تعلیمی نظام میں بھی اصلاحات کو بھی یہ کمیٹی اپنے مینڈیٹ میں شامل رکھے لیکن ظاہر ہے جو اقدامات فوری اٹھانے کے ہیں ان کے لئے فوری اور جو طویل المیعاد ہیں ان کے لئے ان بنیادوں پر لائحہ عمل بنایا جائے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ اور اسی طرح کے دیگر تجاویز کو حکومت اور متعلقہ ادارے عملی جامہ پہناتے ہیں یا نہیں ۔ اگر عمل سے جواب نفی میں آیا تو سمجھ لیں کہ جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ بھی ماضی کے ڈراموں کی طرح ایک ڈرامہ ہے اور اگر اسی طرح کے اقدامات اٹھائے گئے تو ہم سمجھ لیں کہ واقعی پاکستان بدل رہا ہے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=263698