سانحہ پشاور کے ذمہ دار کون؟

سانحہ پشاور (حفاظتی یا انتظامی کوتاہی ) کے ذمہ دار کون؟

  • وفاقی حکومت

  • صوبائی حکومت

  • آرمی

  • انٹیلیجنس ادارے

  • پولیس

  • مقامی انتظامیہ

  • دیگر


نتائج کی نمائش رائے دہی کے بعد ہی ممکن ہے۔
کریم اللہ

دفاعی اداروں ،سیاسی جماعتوں اور شدت پسند علما کی غلط حکمت عملی کے باعث آج ملک آگ وخون کی دلدل میں دھنس چکا ہے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران پالیسی ساز اداروں کی غلطیوں کی بدولت ساٹھ ہزار سے زائدپاکستانی ناکردہ گناہوں کے جرم میں ابدی نیند سوچکے ہیں

اس سے قبل بھی ایسے بہت سے تباہ کن حملے ہوچکے ہیں؛مہران بیس ،جی ایچ کیو ،پشاور اور کراچی ائیر پورٹ جیسے دفاعی اہمیت کی حامل تنصیبات بھی دہشتگردی کی زد میں آچکی ہیں لیکن آفسو س سے کہنا پڑرہا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کے لیے قومی اتفاق رائے تشکیل نہیں دیا جاسکا۔

سوشل میڈیا پر جاری بحث میں اس واقعہ کو ایک خاص رنگ دے کر اصل ذماداران سے توجہ ہٹانے کی دانستہ یا نادانستہ کوششیں بھی جاری ہیں۔ شدت پسند عناصر کے تحفظ کی یہ کوششیں صرف سوشل میڈیا تک ہی نہیں بلکہ ٹی وی چینل بھی اس کارخیر میں شریک ہیں، ایسے وقت میں جب آہوں او ر سسکیوں سے پشاور کی فضا سوگوار تھی تولال مسجد کے خطیب عبدالعزیز نے ایک ٹی وی چینل پر آکر اس حملے کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے لئے جواز پیش کرنا شروع کر دیے۔

ٹی وی چینلز پر ماضی میں ایسے حملوں کے جواز پیش کیے جانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ایک معروف عالم دین کے بقول پی ٹی آئی کے جلسے میں ناچ گانوں کی وجہ سے قوم پرطالبان کے حملوں کی صورت میں عذابِ خداوندی نازل کیا گیا ہے۔ طارق جمیل نے بھی نپے تلے انداز میں ساری صورتحال کوہمارے گناہوں سے گڈمڈ کرنے کی کوشش کی۔ نام نہاد ملاؤں کا کردار تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں البتہ وردی والوں اور ان کے پروپیگنڈہ مشینریز کے پھیلائےا ہوئے سازشی مفروضوں سے اس حملے کے محرکات اور سیکورٹی صورتحال سے متعلق وہی بیرونی ہاتھ اور یہودوہنود کی سازش کی کھچڑی پکائی جا رہی ہے ۔

اگرکسی طرح ان الزامات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پشاور کینٹ جیسے دفاعی اہمیت کے حامل علاقے میں واقع آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا دفاعی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ؟ آٹھ “بھارتی ایجنٹ” افعانستان میں تربیت حاصل کرکے بھاری ہتھیاروں اور گولہ بارود سمیت پاکستان میں داخل ہوئے اورپشاورکے حساس علاقے میں پہنچ کر اتنی بڑی کاروائی کا ارتکاب کیا اوراس دوران قوم پرستوں کو لاپتہ کرنے میں مصروف عقابی نگاہ رکھنے والے خفیہ ادارے ان دہشت گردوں کی بو سونگھنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ اگر ایسے ہائی سیکورٹی زون بھی غیر محفوظ ہیں تو عوامی مقامات کی سکیورٹی صورت حال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔

آپریشن خیبرون اور ضرب عضب کے بعد سے ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ پشاور میں کسی بھی وقت بڑا حملہ ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود سکیورٹی اداروں کی ناکامی ایک ایسا اہم سوال ہے جس کا جواب بھارت،اسرائیل اورامریکہ کے ملوث ہونے جیسے سازشی مفروضوں سے نہیں دیا جاسکتا ۔ دفاعی اداروں، حکمرانوں او ر سیاست دانوں کی ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا تھا ۔

اس سانحے کے بعدپشاور میں ہونے والے ہنگامی پارلیمانی اجلاس کے دوران قومی قیادت کا دہشت گردی کے خلاف عزم قابل ستائش ہے۔ اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل کی تیاری کے لیے سیاسی جماعتوں اور سکیورٹی اداروں کے نمائندگان پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا۔ اجلاس میں اس امر پر بھی اتفاق ہواکہ طالبان کے خلاف بلا تفریق کاروائی کی جائے گی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قبائلی علاقوں کے علاوہ پنجاب ، سندھ، بلوچستان،کے پی ،کشمیر،گلگت بلتستان اور وفاقی دارلحکومت میں موجود طالبان اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ پاک فوج تزویراتی گہرائی( Strategic Depth)کے نا م پر جن گروپوں کو بھارت اورافعانستان کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے کیا انہیں لگام دی جائے گی؟

کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ساتھ لشکرِ جھنگوی،جیش محمد، سپاہ صحابہ ،لشکر طیبہ ،جماعت الدعوۃ سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں (جنہیں پاک فوج اور خفیہ ادارے اسٹریٹجک مقاصد کے لئے استعمال کر تےرہے ہیں اورجو اہلِ تشیع ،اقلیتوں اورانسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں)کے خلاف بھی وزیرستان،سوات یا خیبر طرز کا آپریشن کیا جائے گا ؟

آج پاکستان یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ وفاقی دارلحکومت کے وسط میں بیٹھ کر طالبانائزیشن کو فروغ دینے اور دہشتگردوں کی مسلسل حمایت کرنے والے عبدالعزیز کے خلاف کاروائی کب عمل میں لائی جائے گی؟
 

جاسمن

لائبریرین
ناصر بھائی! جزاک الله. یه بحث تو هر جگه اور هر گروه میں هو رهی هے. لیکن میں کئی دن سے ایک موضوع په بات کرنا چاه رهی تھی. هم سب کے دلوں میں آج جو غم، غصه، نفرت، سرکشی اور بدله کی آگ کے جو شعلے بھڑکے هوئے هیں.......میں چاهتی هوں که هم ان کو اپنی طاقت، اپنا هتھیار بنا سکیں....هم انهیں سنبھال کے، محفوظ کر کے اپنے ملک و قوم کے کام لا سکیں.....یه ایٹامک انرجی سے بھی بڑی طاقتیں هیں......یهاں اتنے بڑے بڑے ذ‌هن هیں، کوئی مشوره دے سکیں......
 
ناصر بھائی! جزاک الله. یه بحث تو هر جگه اور هر گروه میں هو رهی هے. لیکن میں کئی دن سے ایک موضوع په بات کرنا چاه رهی تھی. هم سب کے دلوں میں آج جو غم، غصه، نفرت، سرکشی اور بدله کی آگ کے جو شعلے بھڑکے هوئے هیں.......میں چاهتی هوں که هم ان کو اپنی طاقت، اپنا هتھیار بنا سکیں....هم انهیں سنبھال کے، محفوظ کر کے اپنے ملک و قوم کے کام لا سکیں.....یه ایٹامک انرجی سے بھی بڑی طاقتیں هیں......یهاں اتنے بڑے بڑے ذ‌هن هیں، کوئی مشوره دے سکیں......

ہمارا اصل مسئلہ موجودہ صورتحال کا تجزیہ ( مسئلہ کو سمجھنا، اس کے اسباب کا تعین، ہمارے وسائل ، ہماری استعداد ، ) کر کے ، درست سمت کا تعین ہے
کیونکہ ایک غلط سمت میں اٹھایا گیا ہر قدم منزل سے دور لے جاتا ہے ،
 
گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل اپنے دانشوروں کے تجزیئے پڑھ کر اب سانحہ پشاور کے ذمہ داروں کیلئے میرے ذہن میں بھی یہ تجزیہ آرہا ہے .......
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جکھ جفجیہ عرلفکع رت پسدفپ سدفکجکہپ عدف 90 ندل عک دفر وعفرج وعرپ؛ھجککہپی جکک ھیئللج ججھےج ےتپہ یئئپپکجکج ےئتےئج 327 ھجکدف کلسکدفج
اوعدنھ قوعرل؛ک وعرجک وعرجوعر لوعرھ وعرلک و34رئھجوعفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.......وماعلینا الاالبلاغ .....
:cool2::cool2::cool2:
 

جاسمن

لائبریرین
ہمارا اصل مسئلہ موجودہ ‏،
آپ کی بات اپنی جگه درست هے. لیکن میرے جیسے عام پاکستانی کے لئے کیا صرف سیکورٹی کے لئے ،اپنی جانیں بچانے کے لئے اقدامات کرنے هیں؟؟؟کیونکه حکومت کی طرف سے همیں مختلف اقدامات کے احکامات هیں. ڈر لگتا هے که وقت گزرتا جائے گا اور خدانخواسته یه شعلے کهیں مدهم نه پڑ جائیں؟؟ اور افسوس هے که ایسا هونا شروع هو گیا هے.‏‎;(
 
ایک پیشن گوئی پر ایک تبصرہ

چترال، ناگا پربت، باسین ، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ
ترجمہ: چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا۔
یکجا چوں عثمان ہم چینیاں و ایراں
فتح کنند ایناں کُل ہند غازیانہ
ترجمہ: ترکی ، چین اور ایران والے باہم یکجا ہو جائیں گے۔ یہ سب تمام ہندوستان کو غازیانہ طور پر فتح کر لیں گے۔
غلبہ کنند ہمچوں مورو ملخ شباشب
حقا کہ قوم مسلم گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کر لیں گے۔ میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ مسلمان قوم فاتح ہو گی۔
کابل خروج سازد در قتل اہل کفار
کفار چپ و راست سازند بسے بہانہ
ترجمہ: اہل کابل بھی کافروں کو قتل کرنے کیلئے نکل آئیں گے، کافر لوگ دائیں بائیں بہانہ سازی کریں گے۔
از غازیان سرحد لرزد زمیں چو مرقد
بہر حصول مقصد آیند والہانہ
ترجمہ: سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی۔ وہ مقصد کے حصول کے لئے دیوانہ وار آئیں گے۔
تشریح: اوپر کے دو اشعار سرحد کے غازیوں اور افغانستان کے مجاہدوں کا کفار کے خلاف زوردار جہاد اور دیوانہ وار یلغار ظاہر کرتے ہیں۔ (اللہ اکبر)
از خاص و عام آیند جمع تمام گردند
درکار آں فزایند صد گونہ غم افزانہ
ترجمہ: عام و خاص سب کے سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔اس کام میں سینکڑوں قسم کے غم کی زیادتی ہو گی۔
تشریح: غازیانہ، دلیرانہ اور فاتحانہ انداز سے کفار کے خلاف جہاد میں کامیابی کی نشانیوں کے باوجود ایک نامعلوم ”غم“ کے لئے تمام مسلمانوں کا باہم جمع ہو جانا تشویشناک نظر آتا ہے۔
بعد از فریضہء حج پیش از نماز فطرہ
از دست رفتہ گیرند از ضبطِ غاصبانہ
ترجمہ: فریضہء حج کے بعد اور عید الفطر کی نماز سے پہلے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقہ کو حاصل کر لیں گے جو انہوں نے غاصبانہ ضبط کیا ہوا تھا۔
رودِ اٹک نہ سہ بار از خوں اہل کفار
پر مے شود بہ یکبار جریان جاریانہ
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کا ہر شعر جہاں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مستقبل کے بارے ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (دریائے سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے ، مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو ظاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی۔لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک تشنہ لب ہے جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف ٤٥میل دور دریائے اٹک تک کیسے آ پہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ سرحد(پختونخواہ) ، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار سے مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھرکفار دریائے اٹک تک پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ مقامِ کارزار آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔

بشکریہ خاتم راجپوت بھائی
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
دو قومی نظریہ کی ناکامی!!!!!، کیا بنگلہ دیش ،انڈیا میں ضم ہوگیا ، یا اس نے اپنی بطور مسلم ملک اپنی اسلامی شناخت برقرار رکھی؟
جاہلین کی اس ملک میں کمی نہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کا سب زیادہ آبادی اور معاشی طور پر ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا صوبہ بنگال محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس وطن سے الگ ہو گیا اور یہاں موصوف فرما رہے ہیں کہ دو قومی نظریہ کامیاب رہا۔ او بھئی اگر دو قومی نظریہ کامیابی ہے بنگلہ دیش کا وجود اسکی ناکامی ہے۔ مطلب یہ دو قومی نظریہ ایک مکمل طور پر مفروضوں پر مبنی تھا جسکو قائم رکھنے کیلئے افواج کا جبر اور ملکی سیاسی معاملات میں انکی ٹانگ اڑائی ضروری تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد افواج کا ملکی سیاست پر اثر رسوخ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا کہ ایک صوبہ تو اپنی نااہلیوں کی وجہ سے اس ملک کے جاہل سیاست دان گنوا چکے ہیں، کہیں مزید نہ گنوا بیٹھیں :)
جہاں تک بنگلہ دیش کی اسلامی شناخت کا سوال ہے تو آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ بنگلہ دیش اپنے آپکو سیکولر ملک کہتا ہے اور جماعت اسلامی جیسے دہشت گرد اور انکے لیڈران وہاں جیلوں میں قید اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہاں پاکستان کی طرح کھلے عام فساد فی سبیل اللہ کے مرتکب نہیں ہو رہے :)

ہاں لبرل انتہا پسند تو ایٹم بم گرا کر پورے پورے شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔( ان شہروں میں کیا سکول نہیں تھے؟ ) یا اسلامی ممالک جیسے عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کی موت کا سامان کرتے ہیں-
جی بالکل۔ جب اسلامی دہشت گرد ممالک تیل اور گیس کے وسائل سے چور ہو کر جسکا کھاتے ہیں، اسی میں تھونکیں گے تو قدرتی طور پر اسکا ردعمل بھی آئے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ افغانستان کے پہاڑوں میں تربیت جہادی دہشت گرد مغربی ممالک میں جا کر دہشت گردی کریں اور وہ چپ چاپ پاکستان کی طرح کئی سال تک خاموش تماشائی بنے رہیں۔ اگر ہمت ہے تو 11 استمبر 2001 جیسی دہشت گردی دہرا کر دکھائیں۔ ابھی تو انہوں نے جواباً صرف دو اسلامی ممالک ٹھکانیں لگائیں ہیں۔ مزید مذہبی جنونیت دکھائیں گے تو 57 اسلامی ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی جسکے بعد اسلام کا وجود صرف مغربی ممالک تک محدود رہ جائے گا جس کی پیدائش سے لیکر قبر تک پوجا کی جاتی ہے :)

لنگڑے لولے ،نامعقول جواز تو سب کے پاس ہوتے ہیں
اور ظلم کی مذمت کی جانی چاہیے اور اس کو جہاں تک ہو سکے روکنا چاہیے، چاہے کوئی بھی کرے نہ کہ حمایت اور طرفداری کی جائے
ظلم؟ کونسا ظلم؟ افغانستان اور عراق میں جو ہوا اگر وہ ظلم ہے تو جو دوسری جنگ عظیم میں 60 لاکھ سے زائد یورپی یہود شہریوں کی جرمن نازیوں کے ہاتھوں نسل کشی کی گئی، اسکی آج تک کسی معروف نام نہاد عالم دین اور علماء کرام نے مذمت کیوں نہیں کی۔ عرب دنیا میں کیوں ہٹلر کو مسیحا تصور کیا جاتا ہے۔ کیا ان جعلی انسانیت پسندوں کو ظلم صرف تب نظر آتا ہے جب وہ مسلمانوں کیساتھ ہو رہا ہو یا جب انکے نام نہاد دشمنان کیخلاف پراپیگنڈہ کرنا ہو؟ :)

اور پھر مسلمانوں کے سردار کا فرض ہو جاتا ہے کہ ان کا قلع قمع کرے ‘ کیا اس وقت اٹھارہ کروڑ قبیلے کا سردار اپنا یہ فرض نبھانے کے موڈ میں ہے ؟
ہاہاہا۔ جاہلوں کے سردار سے سوال ہے کہ کیا پورا پاکستان ایک قبائیلی علاقہ ہے؟ :)

اس ملک میں دہشت گردی کے جرم میں پھانسی پانے کے بعد ’’بھارتی ایجنٹوں‘‘ کو کلمے میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے اور اس’’ہندو‘ ‘کی نماز جنازہ بھی پڑھائی جاتی ہے۔
26 دسمبر کے صبح پاکستان پروگرام میں حضرت ڈاکٹر عامر لیاقت حسین رضی اللہ عنہ اور انکے چیلے و مرید مفتیان اعلیٰ فرما رہے تھے کہ سانحہ پشاور اور اس جیسے دیگر اسلام دشمن اور ملک دشمن واقعات کے ذمہ دار زندیق قادیانی ہیں جنکے تانے بانے اسرائیل اور یہودیوں سے ملتے ہیں۔ ماشاءاللہ ایسی دور اندیش اور سقراط و بقراط جیسی ذہنی فراست جس قوم کے پاس ہوگی وہ قیامت تو کیا بعد از قیامت بھی قائم رہ سکتی ہے :)

کیا پورے ملک میں ایسی 142تقریبات نہیں ہوسکتیں، یقیناً پشاور میں بھی کوئی ’’راشد لنگڑیال‘‘ ہوگا ! کیا یہ سب کرنے سے بھی ڈر لگتاہے ؟
بات ڈر کی نہیں، احساس کی ہے۔ پاکستان کی اجتماعی اخلاقی حالت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ ننکانہ صاحب الحمدللہ مسلمانوں کی نہیں سکھوں کی بستی ہے جہاں یہ انسانیت پسند تقریب منعقد کی گئی۔ کسی بھی اور نام نہاد اور اسلامی پاکستانی شہر کو اس جیسی تقریب نصیب نہ ہوئی :)

پاکستان کا تاج کوڑے دان میں گرا پڑا ہے ‘ کوئی ہے جو آگے بڑھ کر اسے اٹھا لے !
1000+ اسلامی مکاتب الفکر، فرقے، مذہبی گروہ و جماعتیں اس آفر سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ :)

نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے نام پہ ایک جنگ ہمارے خطے میں چھیڑ دی۔ لیکن اِس آگ لگانے کے پیچھے امریکہ کا اصل حدف کیا تھا؟ کیا وہ حدف دہشتگردوں سے زیادہ اسلامی تہذیب اور ھمارا دو قومی نظریہ تھے؟
تو نائن الیون والے دن یہ جنگ کس شہید انشاءاللہ دہشت گرد نے 3000 سے زائد امریکی شہری مار کے شروع کی تھی؟ آگ تو دشمنان نے اسلام نے اسی دن لگا دی تھی جسکی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ یاد رہے کہ ان جہادی دہشت گردوں کا سرغنہ حضرت اسامہ بن لادن علیہ السلام یہیں پاکستان سے برآمد ہوئے تھے :)

دہشت گردی کے ان واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف کارروائی کے لیے قومی اتفاق رائے تشکیل نہیں دیا جاسکا۔
ہاہاہا- کیا 1400 پرانے دین اسلام پر آج تک قومی اتفاق رائے قائم ہوا ہے جو اس مذہبی جنونیت یعنی دہشت گردی کیخلاف ہوگا؟ :)

ایسے وقت میں جب آہوں او ر سسکیوں سے پشاور کی فضا سوگوار تھی تولال مسجد کے خطیب عبدالعزیز نے ایک ٹی وی چینل پر آکر اس حملے کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے لئے جواز پیش کرنا شروع کر دیے۔
یقیناً یہ ہماری آئی ایس آئی کے اثاثہ جات اور باقیات ہیں جو اچھے اور برے دہشت گردوں میں فرق کرنا نہیں جانتے :)

نام نہاد ملاؤں کا کردار تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں البتہ وردی والوں اور ان کے پروپیگنڈہ مشینریز کے پھیلائےا ہوئے سازشی مفروضوں سے اس حملے کے محرکات اور سیکورٹی صورتحال سے متعلق وہی بیرونی ہاتھ اور یہودوہنود کی سازش کی کھچڑی پکائی جا رہی ہے ۔
جہالت اور کس چڑیا کا نام ہے۔ جیسی قوم ویسے اسکے حکمران اور لیڈران :)

اگرکسی طرح ان الزامات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پشاور کینٹ جیسے دفاعی اہمیت کے حامل علاقے میں واقع آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا دفاعی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ؟
ہاہاہا۔ اور ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کی برآمدگی کس چیز کا منہ بولتا اثبوت ہے؟ اگر قوم نے یہ سوال 2 مئی 2011 کو پوچھا ہوتا تو وہ یہی سوال 16 دسمبر 2014 کو نہ کر رہے ہوتے :)

اگر ایسے ہائی سیکورٹی زون بھی غیر محفوظ ہیں تو عوامی مقامات کی سکیورٹی صورت حال کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
او بھئی جس ملک کا جی ایچ کیو دہشت گردوں سے محفوظ نہیں، جسکی افواج کے سربراہ اعلیٰ پر دہشت گرد دن دھیاڑے حملے کرتے ہوں، اس ملک کے دیگر علاقوں کی حفاظت کی ذمہ داری کون دیگا؟

جس کا جواب بھارت،اسرائیل اورامریکہ کے ملوث ہونے جیسے سازشی مفروضوں سے نہیں دیا جاسکتا ۔ دفاعی اداروں، حکمرانوں او ر سیاست دانوں کی ناکامی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا تھا ۔
کیا عجیب بات ہے کہ پہلی بار کسی پاکستانی نے اپنے گندے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہے اور اپنی تمام تر نااہلیوں اور کوتاہیوں کا ذمہ دار اسلام دشمنوں، مسلمان دشمنوں پر ڈالنے کی بجائے اپنے ہی ناکام قومی اداروں پر ڈالنے کی ملائم سی جد و جہاد تو کی ہے۔ :) تعمیراتی تنقید کی طرف پہلا قدم اٹھانے پر مبارک باد وصول کریں! :)

کیا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ساتھ لشکرِ جھنگوی،جیش محمد، سپاہ صحابہ ،لشکر طیبہ ،جماعت الدعوۃ سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں (جنہیں پاک فوج اور خفیہ ادارے اسٹریٹجک مقاصد کے لئے استعمال کر تےرہے ہیں اورجو اہلِ تشیع ،اقلیتوں اورانسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں)کے خلاف بھی وزیرستان،سوات یا خیبر طرز کا آپریشن کیا جائے گا ؟
یعنی کہ آپ ہماری "حبی الوطن" خفیہ ایجنسیوں کے دائمی اسٹریجک ایسٹس یعنی "گوڈ طالبان" کیخلاف ایکشن کیلئے ہمیں بھڑکا رہے ہیں؟ :) اپنی آخرت کی فکر کریں :)

آج پاکستان یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ وفاقی دارلحکومت کے وسط میں بیٹھ کر طالبانائزیشن کو فروغ دینے اور دہشتگردوں کی مسلسل حمایت کرنے والے عبدالعزیز کے خلاف کاروائی کب عمل میں لائی جائے گی؟
جب اقلیتوں کیخلاف ناانصافیوں کا خاتمہ ہوگا تب :)

کوئی مشوره دے سکیں......
مشورہ تو حکیم لقمان ہی سے لیا جا سکتا ہے۔ 70 ڈشیں سجانے والے نام نہاد حکمرانوں سے نہیں :)

درست سمت کا تعین ہے
کیونکہ ایک غلط سمت میں اٹھایا گیا ہر قدم منزل سے دور لے جاتا ہے ،
کیا خاک درست سمت کا تعین کیا ہے۔ مسجد الضرار جیسے لال مسجد تو آج بھی جوں کی توں ہے۔ اسی طرح دیگر دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے فروغ کیلئے قائم دینی ادارے، مدرسے وغیرہ پہلے کی طرح اپنی دکانیں قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک انکا خاتمہ نہیں ہو جاتا، درست سمت کا تعین کیسے ہو سکتا ہے؟

ہوگئی سیٹی گم مسٹر مرزا! :p
یہ مرزا کہیں مرزائی نہ نکلیں :)

گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل اپنے دانشوروں کے تجزیئے پڑھ کر اب سانحہ پشاور کے ذمہ داروں کیلئے میرے ذہن میں بھی یہ تجزیہ آرہا ہے .......
.......وماعلینا الاالبلاغ .....
:cool2::cool2::cool2:
جیسی جاہل قوم ویسے ہی اسکو نصیب تجزیہ کار۔ ایک مشورہ دوں گا کہ سب کو چھوڑ کر حسن نثار کا تجزیہ پڑھ لیں۔ امید ہے دال گل جائے گی :)

کیونکه حکومت کی طرف سے همیں مختلف اقدامات کے احکامات هیں. ڈر لگتا هے که وقت گزرتا جائے گا اور خدانخواسته یه شعلے کهیں مدهم نه پڑ جائیں؟؟ اور افسوس هے که ایسا هونا شروع هو گیا هے.‏‎;(
نااہل حکومت کو صرف اپنی کرسی سے غرض ہے۔ سانحہ پشاور اگر کسی مدرسے یا عام سول پبلک اسکول میں ہوا ہوتا تو آج عمران خان کا دھرنا بھی ہو رہا ہوتا اور ملگ گیر ہڑتالیں بھی۔ اللہ بخشے ان طالبان دہشت گردوں کو جنہوں نے اس سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑنے کیلئے تھر کے سحراؤں کی بجائے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کا انتخاب کیا۔

ایک پیشن گوئی پر ایک تبصرہ

چترال، ناگا پربت، باسین ، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ
ترجمہ: چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا۔
یکجا چوں عثمان ہم چینیاں و ایراں
فتح کنند ایناں کُل ہند غازیانہ
ترجمہ: ترکی ، چین اور ایران والے باہم یکجا ہو جائیں گے۔ یہ سب تمام ہندوستان کو غازیانہ طور پر فتح کر لیں گے۔
غلبہ کنند ہمچوں مورو ملخ شباشب
حقا کہ قوم مسلم گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کر لیں گے۔ میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ مسلمان قوم فاتح ہو گی۔
کابل خروج سازد در قتل اہل کفار
کفار چپ و راست سازند بسے بہانہ
ترجمہ: اہل کابل بھی کافروں کو قتل کرنے کیلئے نکل آئیں گے، کافر لوگ دائیں بائیں بہانہ سازی کریں گے۔
از غازیان سرحد لرزد زمیں چو مرقد
بہر حصول مقصد آیند والہانہ
ترجمہ: سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی۔ وہ مقصد کے حصول کے لئے دیوانہ وار آئیں گے۔
تشریح: اوپر کے دو اشعار سرحد کے غازیوں اور افغانستان کے مجاہدوں کا کفار کے خلاف زوردار جہاد اور دیوانہ وار یلغار ظاہر کرتے ہیں۔ (اللہ اکبر)
از خاص و عام آیند جمع تمام گردند
درکار آں فزایند صد گونہ غم افزانہ
ترجمہ: عام و خاص سب کے سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔اس کام میں سینکڑوں قسم کے غم کی زیادتی ہو گی۔
تشریح: غازیانہ، دلیرانہ اور فاتحانہ انداز سے کفار کے خلاف جہاد میں کامیابی کی نشانیوں کے باوجود ایک نامعلوم ”غم“ کے لئے تمام مسلمانوں کا باہم جمع ہو جانا تشویشناک نظر آتا ہے۔
بعد از فریضہء حج پیش از نماز فطرہ
از دست رفتہ گیرند از ضبطِ غاصبانہ
ترجمہ: فریضہء حج کے بعد اور عید الفطر کی نماز سے پہلے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقہ کو حاصل کر لیں گے جو انہوں نے غاصبانہ ضبط کیا ہوا تھا۔
رودِ اٹک نہ سہ بار از خوں اہل کفار
پر مے شود بہ یکبار جریان جاریانہ
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کا ہر شعر جہاں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مستقبل کے بارے ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (دریائے سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے ، مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو ظاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی۔لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک تشنہ لب ہے جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف ٤٥میل دور دریائے اٹک تک کیسے آ پہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ سرحد(پختونخواہ) ، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار سے مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھرکفار دریائے اٹک تک پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ مقامِ کارزار آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔

بشکریہ خاتم راجپوت بھائی

لعنت اللہ علی الجاہلین!
 
جاہلین کی اس ملک میں کمی نہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کا سب زیادہ آبادی اور معاشی طور پر ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا صوبہ بنگال محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس وطن سے الگ ہو گیا اور یہاں موصوف فرما رہے ہیں کہ دو قومی نظریہ کامیاب رہا۔ او بھئی اگر دو قومی نظریہ کامیابی ہے بنگلہ دیش کا وجود اسکی ناکامی ہے۔
اپنا طرز مخاطب درست کریں، اور ادب آداب سیکھ کر آئیں
جناب دو قومی نظریہ کو غلط قرار دے رہے ہیں اور کہہ کیا رہے ہیں " صوبہ بنگال محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس وطن سے الگ ہو گیا
یعنی اپنی بات کی خود ہی تردید،

"بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ہندوئوں نے سمجھا کہ انہوں نے پاکستان کو توڑ دیا ہے لیکن درحقیقت انہوں نے پاکستان کو توڑنے کی بجائے ایک اور پاکستان بنا دیا۔"
 

arifkarim

معطل
صوبہ بنگال محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس وطن سے الگ ہو گیا
جیسے سیاسی اختلافات کے بعد پاکستان بھارت سے الگ ہوا تھا ویسے ہی بنگلہ دیش سیاسی اختلافات بعد پاکستان سے الگ ہوگیا تھا۔ دو قومی نظریہ ایک سیاسی مسئلہ تھا جس کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کیلئے ایک الگ مسلم اکثریت کا قیام تھا جہاں نظام حکومت اسلامی اقدار کے مطابق قائم کیا جا سکا۔ ماشاءاللہ دور جدید میں یہ اسلامی اقدار مسلم اکثریت ممالک کے علاوہ ہر دوسرے مغربی ملک میں حکومتی سطح پر قائم ہیں :)
 

جاسمن

لائبریرین
هم میں سے جو محفلین طنزیه طور پر ، حقارت سے ایسے کلمات مثال کے طور پر" ماشاالله، انشاالله، سبحان الله، رضی الله تعالی عنه، علیه اسلام........" وغیره استعمال کرتے هیں....... ان سے درخواست هے که اس معامله میں احتیاط کریں. طنز کرنے، طعنے دینے، اور حقیر ثابت کرنے کے لئے پوری ڈکشنری پڑی هے، جی بهر کے استعمال کریں.
 
آخری تدوین:
Top