سانحۂ اوجڑی کے 32 سال، اصل میں کیا ہوا تھا؟

جاسم محمد

محفلین
سانحۂ اوجڑی کے 32 سال، اصل میں کیا ہوا تھا؟
وزیراعظم محمد خان جونیجو چاہتے تھے کہ تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں صدرمملکت جنرل ضیاء الحق کو سفارش کی جائے گی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے خلاف کارروائی کریں۔ جنرل حمید گل کے خلاف جونیجو خود کارروائی کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔
بشارت راجہ صحافی/بلاگر
اتوار 12 اپریل 2020 9:45

80026-2001395512.jpg

واقعے کے بعد صدر مملکت جنرل ضیاء نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم بڑا کام کر رہے تھے اور اس کی سزا ہمیں ملنا تھی۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

آج سے 32 سال پہلے دس اپریل 1988 کی صبح عام صبحوں کی طرح مشرق سے سورج نکلا۔ بظاہر یہ عام دنوں کی طرح کا ایک دن تھا، سردیاں تو رخصت ہو گئی تھیں لیکن ابھی گرمیوں نے پوری طرح سے جڑواں شہروں میں قدم نہیں جمائے تھے۔

مری روڈ پر گاڑیاں رواں دواں تھیں۔ دفاتر میں آفیسر چائے کی چُسکیاں لے کر سوچ رہے تھے آج کس فائل کو پہلے کھولا جائے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہلا پیریڈ اختتام کے مراحل میں تھا، تاجر اپنی دکانیں کھول کر مال کو طے شدہ جگہ پر لگا رہے تھے کہ اچانک جڑواں شہر دھماکوں سے لرز اٹھے، شور اتنا زیادہ کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ دھویں اور غبار کے بادل نے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، لگاتار دھماکوں کی گونج سے جڑواں شہروں کے باسیوں نے سمجھا کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے۔

دھماکوں نے لوگوں کے اوسان خطا کر دیے۔ انہی دھماکوں کے دوران اچانک ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا جس سے جڑواں شہروں کے درودیوار لرز اُٹھے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے، اوجڑی کیمپ کے اسلحہ ڈپو سے میزائل اُڑ اُڑ کر گلیوں اور محلوں میں تباہی پھیلا رہے تھے، موت چاروں اور رقص کناں تھی۔ ضعیف زن و مرد، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اور مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو چھوڑ کر افراتفری کے عالم میں جان بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھٹک رہی تھیں، لگ بھگ ایک گھنٹہ تک آسمان آتش و آہن کی بارش برساتا رہا۔

ایک گھنٹے بعد میزائل پھٹنا بند ہوئے مگر ہر سو تباہی کی داستان چھوڑ گئے۔ ریڈیو نے 12 بجے کی خبروں میں اتنا بتایا کہ شہر میں اسلحہ ڈپو میں آگ لگنے سے کچھ اسلحہ دھماکے سے پھٹ گیا مگر 'گھبرانے کی کوئی بات نہیں حالات مکمل کنٹرول میں آ گئے ہیں۔'

اس حادثے میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 103 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ گھائل ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ 1500 سو کے قریب تھی جبکہ آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی گُنا زیادہ تھی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد محترم خاقان عباسی بھی مری سے راولپنڈی واپس آتے ہوئے میزائل لگنے سے جان کی بازی ہار بیٹھے۔

جس وقت اوجڑی کیمپ آتش و آہن کی آگ برسا رہا تھا، وزیراعظم پاکستان محمد خان جونیجو سندھ اور صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کویت کے دورے پر تھے۔ دونوں نے اپنی مصروفیات ترک کر کے اسلام آباد کی راہ لی۔ جنرل ضیاء نے قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ ہم بڑا کام کر رہے تھے اور اس کی سزا ہمیں ملنا تھی۔

وزیراعظم محمد خان جونیجو نے حقائق کی جانچ پرکھ کے لیے کورکمانڈر دہم لیفٹیننٹ جنرل عمران اللہ کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔ ساتھ ہی پانچ وزرا پر مشتمل ایک اور کمیٹی کی تشکیل کی گئی، جس نے جنرل عمران کی دی گئی رپورٹ کا جائزہ لے کر اپنی سفارشات مرتب کر کے وزیراعظم کو پیش کرنا تھی۔

معروف صحافی اظہر سہیل اپنی کتاب ’سندھڑی سے اوجڑی کیمپ تک‘ میں لکھتے ہیں: 'مذکورہ ڈپو آئی ایس آئی کے اُس شعبے کی نگرانی میں چل رہا تھا جو افغانستان جہاد اور افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کی ایماء پر معاملات کی بھاگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے،' وہ مزید لکھتے ہیں کہ 'میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس اسلحہ خانہ میں اس انداز میں بے احتیاطی کے ساتھ اسلحہ جمع کیا گیا تھا جیسے لکڑی کے ٹال پر فالتو لکڑیاں بکھری پڑی ہوں۔ بنیادی طور پر اس ڈپو میں تین اسلحہ خانے تھے۔ ان میں صرف راکٹ، پراجیکٹائل اور میزائل ہی موجود نہیں بلکہ بعض معلومات کے مطابق فاسفورس بم بھی تھے۔'

اس افسوس ناک واقعے کو گزرے لگ بھگ 33 سال ہونے کو ہیں۔ اس وقت کے وزیراعظم جونیجو نے حقائق جاننے کے لیے جس کمیٹی کی تشکیل کی تھی اُس نے مقررہ وقت پر رپورٹ پیش کی تھی، تاہم رپورٹ عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی اور اسے دبا دیا گیا۔

اظہر سہیل لکھتے ہیں کہ 'جنرل عمران اللہ جب وزارتی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تو رانا نعیم محمود جو دفاع کے وزیر مملکت اور کمیٹی کے رُکن تھے، انہوں نے جنرل سے تین سوال کیے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ اس کیمپ کا قیام کس کی ذمہ داری تھی؟ جنرل نے جواب دیا کہ 'اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی کی،' دوسرا سوال جنرل سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل اختر عبدالرحمٰن جو اُس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے، کیا کیمپ بنانے کا فیصلہ اُن کا تن تنہا تھا یا کسی سے منظوری لی گئی تھی تو جنرل نے جواب دیا کہ 'متعلقہ افسر کسی سے صلاح مشورہ کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔'

رانا نعیم محمود نے جنرل سے سوال و جواب کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس میں لکھا کہ کیمپ کا قیام اور اس کا انتظام مکمل طور پر آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کی ذمہ داری تھا اور ہے، اس لیے سفارش کی جاتی ہے کہ سابق ڈی جی جنرل اختر عبدالرحمٰن اور موجودہ جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس رپورٹ پر قاضی عابد، ابراہیم بلوچ اور رانا نعیم محمود تینوں نے دستخط کیے اور رپورٹ وزیراعظم کے حوالے کر دی۔

وزیراعظم جونیجو چاہتے تھے کہ رپورٹ حسب وعدہ قوم کے منتخب نمائندوں کے سامنے پیش کی جائے بلکہ اس کی روشنی میں صدرمملکت جنرل ضیاء الحق کو سفارش کی جائے گی کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے خلاف کارروائی کریں۔ جنرل حمید گل کے خلاف جونیجو خود کارروائی کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔

رپورٹس حاصل کرنے کے بعد جونیجو صاحب کوریا اور دیگر ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ انہیں اپنی منتخب حثییت پر اتنا ناز اور یقین تھا کہ انہوں نے دورے پر روانہ ہونے سے قبل رپورٹس صدر مملکت کے سامنے رکھ دیں۔ جب صدر مملکت نے پوچھا یہ کیا ہے تو وزیراعظم صاحب نے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ 'سائیں یہ کمیٹی کی رپورٹس ہیں۔ آپ ان پر غور کریں، وطن واپسی پر آپ کی مشاورت سے فیصلہ کروں گا۔'

جنرل ضیاءالحق نہیں چاہتے تھے کہ وہ اُن رفقاء کے خلاف کارروائی کریں جو ان کے اقتدار کی طوالت کا سبب رہے، یوں سانحہ اوجڑی کیمپ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے اقتدار کا سانحہ ثابت ہوا اور ان کے اقتدار کا اختتام اوجڑی سے سندھڑی تک ہوا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کسی فلم کا کچھ اسطرح کا ڈائیلاگ ہے کہ جب جنگل میں آگ لگتی ہے تو اُس میں وہ درخت بھی جل جاتے ہیں جو وہاں سے کاٹے جا چکے ہوتے ہیں!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہمیں سخت اعتراض ہے کہ جنرل صاحب کے نام کے ساتھ امیرالمئومنین کیوں نہیں لکھا گیا!!!
نیک لوگ کہاں القابات کے بھوکے ہوتے ہیں۔ یوں بھی اچھا ہوا یہ لقب نہ دیا۔ وگرنہ یہ بھی لکھتے کہ ہر حور اپنے حصے کا ٹکڑا لیے حشر کی منتظر ہے۔
 
Top