عتیق منہاس
محفلین
سانسوں میں بغاوَت کا سُخن بول رہا ہے
تقدیر کے فرزَند کا دِل ڈول رہا ہے
اَفلاک کی وُسعت پہ تلاطُم ہی تلاطُم
شاہین اَبھی پرواز کو پر تول رہا ہے
چیتے کی گرج دار صدا ، قومی ترانہ
شیروں کا شروع سے یہی ماحول رہا ہے
پرواز کی قیمت پہ ملے رِزق تو لعنت
غیور پرندوں کا یہی قول رہا ہے
دِہقان کے اِفلاس پہ دِل خون میں تر ہے
مزدُور کی حالت پہ لَہُو کھول رہا ہے
یہ چاند ہے کشکول نہیں حاکمِ کِشور
پرچم کو ذِرا دیکھ یہ کچھ بول رہا ہے
سو نسلوں کے بچوں کو جنم دیتی ہے وُہ قوم
جس قوم کا منشور بھی کشکول رہا ہے
سر گِن کے بنا لیتا ہے سِکّوں کے لفافے
باطل ترے منصوبے میں یہ جھول رہا ہے
اِنسان ہی ہر چیز سے سستا ہے جہاں میں
اِنسان ہی ہر دور میں اَنمول رہا ہے
چپ چاپ ہے قیس آج بھی تاریخِ ندامت
اِنکارِ جُنوں کانوں میں رَس گھول رہا ہے
شہزاد قیس کی کتاب "اِنقلاب" سے انتخاب
تقدیر کے فرزَند کا دِل ڈول رہا ہے
اَفلاک کی وُسعت پہ تلاطُم ہی تلاطُم
شاہین اَبھی پرواز کو پر تول رہا ہے
چیتے کی گرج دار صدا ، قومی ترانہ
شیروں کا شروع سے یہی ماحول رہا ہے
پرواز کی قیمت پہ ملے رِزق تو لعنت
غیور پرندوں کا یہی قول رہا ہے
دِہقان کے اِفلاس پہ دِل خون میں تر ہے
مزدُور کی حالت پہ لَہُو کھول رہا ہے
یہ چاند ہے کشکول نہیں حاکمِ کِشور
پرچم کو ذِرا دیکھ یہ کچھ بول رہا ہے
سو نسلوں کے بچوں کو جنم دیتی ہے وُہ قوم
جس قوم کا منشور بھی کشکول رہا ہے
سر گِن کے بنا لیتا ہے سِکّوں کے لفافے
باطل ترے منصوبے میں یہ جھول رہا ہے
اِنسان ہی ہر چیز سے سستا ہے جہاں میں
اِنسان ہی ہر دور میں اَنمول رہا ہے
چپ چاپ ہے قیس آج بھی تاریخِ ندامت
اِنکارِ جُنوں کانوں میں رَس گھول رہا ہے
شہزاد قیس کی کتاب "اِنقلاب" سے انتخاب