دوست
محفلین
سانس لینا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
موسمِ گل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے
مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا مجھے خدا لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد سے سب سے جدا لگتا ہے
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شکر کرتا ہوں گِلہ لگتا ہے
اس قدر تند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے
موسمِ گل میں سرِ شاخِ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے
مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا مجھے خدا لگتا ہے
اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے
ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد سے سب سے جدا لگتا ہے
نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شکر کرتا ہوں گِلہ لگتا ہے
اس قدر تند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے