سانوں نہر والے پُل تے بُلا کے- مستنصر حسین تارڑ

قصہ مختصر سعودی عرب میں جو نظام رائج ہے، ظاہر ہے اس کا بنیادی مقصد سعودی خاندان کی بادشاہت کو مستحکم کرنا ہے۔ جس کے لیے وہاں کے شیوخ اور علماء کرام جابر سلطان سے پوچھ کر کلمہ فتویٰ دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا جب آل سعود کے مخالفین نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔

اول اول تو انہیں ایرانی قرار دیا گیا تھا لیکن پھر کُھلا کہ یہ تو گھریلو معاملہ ہے اور ماشاء اللہ سعودی افواج کے بس میں نہ تھا کہ وہ ان دہشت گردوں کو خانہ کعبہ سے نکال باہر کریں اور پھر زر کثیر خرچ کے دنیا کے اس وقت کے بہترین کمانڈو جو کہ فرانسیسی تھے انہیں کرائے پر حاصل کیا گیا اور یہاں ایک شرعی مسئلہ درپیش ہو گیا کہ فرانسیسی تو کافر تھے وہ کیسے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر شر پسندوں کا مکو ٹھپ سکتے تھے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جب وہ تشریف لائے تو انہیں کہا گیا کہ ایک مجبوری ہے آپ جو کچھ ہم عربی میں کہیں گے اسے دوہرا دیں انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ انہوں نے دہرا دیا۔ یعنی انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور عارضی طور پر مسلمان ہو گئے۔

ان میں سے ایک کمانڈو نے بیان دیا تھا کہ جب ہم سعودی عرب پہنچے تو عربوں نے ہمیں کچھ دوہرانے کو کہا۔ جس کا مطلب ہم نہیں جانتے تھے، بہر طور مجھے یاد ہے کہ جب ایک بار میمونہ کچھ عرصہ بیٹے کے ساتھ جدہ میں بسر کر کے واپس لاہور آئی تو ایئر پورٹ پر اس کی مسرت دیکھنے والی تھی‘ کہنے لگی پاکستان کی کیا بات ہے۔ یہاں زندگی ہے۔ بچے کھیلتے نظر آ رہے ہیں خواتین اور لڑکیاں بازاروں میں چلتی پھرتی ہیں لوگ خوش نظر آ رہے ہیں۔ وہاں تو کوئی مسکراتا بھی نہیں۔ شکر ہے میں ایک تہذیب یافتہ معاشرے میں واپس آ گئی ہوں۔

لیکن اب پچھلے دنوں ایک سانحہ ہو گیا ہے۔ ہم کافر ہوئے ہیں تو وہ مسلمان ہو گیا ہے یا پھر ہم مسلمان ہوئے ہیں اور وہ کافر ہو گیا۔ یکدم یوٹرن لے لیا ہے اور ہم پریشان کھڑے ہیں بقول اظہار الحق کے ہم نے اپنے ٹیلی ویژن توڑ ڈالے‘ اپنی خواتین کو یہ لمبے لمبے سیاہ چوغے پہنا دیے۔

ہر اس شے کو حرام قرار دیا جس میں خوشی کے حصول کا کوئی ذرہ بھر خدشہ تھا۔ اپنے بچوں کو سعودی امداد سے قائم ہونے والے مدرسوں میں داخل کرا دیا۔ شلواریں گھٹنوں سے اوپر کر لیں۔ یہاں تک کہ خدا حافظ کی بجائے اللہ حافظ کہنے لگے۔ اپنے علاوہ ہر فرقے کو کافر قرار دیا۔ یعنی ہمارا حال تو نورجہاں جیسا ہو گیا کہ ساہنوں نہر والے پل تے بلا کے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔ ہم نہر والے پُل پر حیران پریشان کھڑے ہیں اور ماہی جانے کدھر گیا۔ ماہی کے علماء کرام نے ایک اور فتویٰ دے دیا کہ پردے کے لیے عبایا پہننا ضروری نہیں ہے۔ عورتیں اس پہناوے کے بغیر بھی گھوم پھر سکتی ہیں۔ ویلنٹائن ڈے میں کچھ حرج نہیں۔ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے۔

تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ ڈرائیونگ سے عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت مجروح نہیں ہوتی تو وہ اس برس جون میں کاریں دوڑاتی پھریں گی۔ بلکہ خواتین بے دریغ موٹر سائیکلیں بھی چلا سکتی ہیں اور ہماری چشم نے کیسے کیسے عبرت ناک منظر دیکھے۔ سعودی عورتیں مردوں کے ساتھ فٹ بال میچ دیکھ رہی ہیں اور ہاتھ ہلا ہلا کر رقص کے انداز میں نعرے لگا رہی ہیں۔ ایک اور فتویٰ آ گیا۔ عورتیں کاروبار بھی کر سکتی ہیں جدہ میں کاروں کا ایک شو روم کھل گیا جہاں سب کی سب سیلز گرلز۔ اپنی سعودی ہمشیرگان ہیں۔ اوروہ نہایت بے تکلفی سے موئے مردوں کے ساتھ بے دریغ گفتگو کر رہی ہیں حالانکہ وہ نامحرم ہیں۔

سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شاید ریاض میں ایک میوزیکل کنسرٹ ہو رہا ہے۔ کوئی عرب گلو کارہ لہک لہک کر اپنے لباس میں سے امڈ امڈ کر موسیقی کی تانوں پر سوار نغمہ سرا ہیں اور ہال میں موجود خواتین پر وجد طاری ہو چکا ہے اور وہ جھوم برابر جھوم رہی ہیں۔ البتہ اس کنسرٹ میں نامحرم مردوں کا داخلہ فی الحال منع تھا۔ آخر ہمیں اپنے مذہب سے مکمل روگردانی تو نہیں کرنی۔

یہاں تک میراتھن دوڑ بھی منعقد کی گئی ہے۔ تھیٹر اور اوپیراگھر بھی وجود میں آ رہے ہیں۔ جس کا میں اہل ہوں اگرچہ عمر کی ناتوانی کے باعث ایک عرصے سے نااہل ہوں۔ جدہ میں خواتین کے ملبوسات کے ایک سپر سٹور میں جاتی ہے اور میں باہر کھڑا اس کا انتظار کرتا ہوں۔ میمونہ اس سپر سٹور سے جب باہر آتی ہے تو اس کا چہرہ لال بھبھو کا ہو رہا ہے۔ سرخ انار ہو ر ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہوا؟ تو وہ کہتی ہے نہیں پوچھو‘ مجھے شرم آتی ہے تو میں مزید اشتیاق سے دریافت کرتا ہوں کہ میمونہ کیا ہوا تو وہ ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی کرتی ہے کہ سٹور کے اندر یہ عربنیں ‘ننگی پننگی گھوم رہی تھیں۔ برہنہ حالت میں‘ لباس پہ لباس تبدیل کرتی تھیں۔ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ میمونہ اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے ایک بنیاد پرست مسلمان ہے لیکن ایک راجپوت ہونے کے حوالے سے وہ ایک عورت کی یوں بے حیائی برداشت نہیں کر سکتی۔

اب ان دنوں سعودی عرب میں جو ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں سعودی کراؤ ن پرنس بہت ہی لبرل ہوتے جاتے ہیں تو مجھے حیرت ہے کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس ترقی پسندی پر کچھ احتجاج نہیں ہوا۔ کم از کم شباب ملی کے ڈنڈا برداروں کو تو ویلنٹائن ڈے کو جائز قرار دینے پر کچھ تو ہلا گلا کرنا چاہیے تھا۔ میرے دیرینہ دوست سجاد میر جن کی ادبی اور شعری شناخت کی خوبیوں کا میں قائل ہوں۔ اگرچہ تصوف کی جو گرہیں وہ کھولتے ہیں ان کا قائل نہیں ہوں تو کم از کم وہ تو اس روشن خیال سعودی عرب کے انقلاب کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں۔

وہ جو کہتے ہیں ناں کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔ مجھے قطعی طور پر علم نہیں کہ شا ہ مدارکون تھا اور وہ مرے کو کیوں بلاوجہ مارتا تھا۔ تو تازہ خبر آئی کہ جدہ میں ایک عظیم فیشن شو کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے کروڑوں ڈالر وقف کر دیے گئے ہیں۔ دنیا بھر سے فرانس‘ برطانیہ اور امریکہ وغیرہ سے بھرے بدنوں‘ اشتعال انگیز تناسب والی فیشن ماڈلز آئیں گی اور ماشاء اللہ بلیوں کی چال چلیں گی یعنی حرمین شریفین کے خادموں کی سلطنت میں کیٹ واک کریں گی۔ عجب سلسلے ہیں کہ سعودی کوئے یار سے نکلتے ہیں تو راہ میں ٹھہرتے ہی نہیں‘ سیدھے سوئے دارجاتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ نہر والے پل پر حیران کھڑے ہیں۔ کافر کھڑے ہیں یا مسلمان کھڑے ہیں کچھ معلوم نہیں کرائے کے لوگوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہمارا ماہی جانے کدھر نکل گیا۔ وہ یکدم لبرل اور روشن خیال ہو گیا اتنا کہ ہم تو نہیں ہو سکتے ہم پاکستانی یقین کیجیے کہ ہمیشہ سے بہت معتدل اور متوازن رہے ہیں۔ ہم اپنے عقیدے کے ساتھ بھی جڑے رہتے ہیں اور اعتدال کی راہ سے بھی روگردانی نہیں کرتے۔

ہم کب تک نہر والے پل پر کھڑے اس ماہی کا انتظار کرتے رہیں گے جس کے عشق میں گرفتار ہو کر ہم نے اپنی ثقافت ترک کر دی‘ تہذیب سے کنارہ کشی اختیار کی اور وہ ماہی رنگ رلیاں منانے میں مشغول ہو گیا ہے۔

ربط
 

محمد وارث

لائبریرین
واقعی، 'ماہی' کہیں رہ گیا ہے۔ ویسے 'ماہی' سے یاد آیا کہ سعودی شہزادہ صاحب نے ایک اعلیٰ قسم کا لگژری بیچ کھولنے کا عندیہ بھی دیا ہے جہاں خواتین پیراکی کا لباس یعنی 'بکنی' وغیرہ پہن سکیں گی!
 
واقعی، 'ماہی' کہیں رہ گیا ہے۔ ویسے 'ماہی' سے یاد آیا کہ سعودی شہزادہ صاحب نے ایک اعلیٰ قسم کا لگژری بیچ کھولنے کا عندیہ بھی دیا ہے جہاں خواتین پیراکی کا لباس یعنی 'بکنی' وغیرہ پہن سکیں گی!
ہالوئے۔۔۔۔ تارڑ صاحب کولوں ایہہ گل کیویں لُکی رہ گئی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہالوئے۔۔۔۔ تارڑ صاحب کولوں ایہہ گل کیویں لُکی رہ گئی۔
یہی میں سوچ رہا تھا کہ تارڑ صاحب سے یہ بیچ کیسے پنہاں رہ گیا کہ وہ تو دُور دُور سے بھی ایسی چیز ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اس 'بیچ' کا سوشل میڈیا پر کافی تذکرہ رہا تھا، یہ ٹیلی گراف کی خبر کا ربط۔
 

اکمل زیدی

محفلین
چودھری صاحب ۔ ۔ ۔ بہت کچھ امنڈا چلا آرہا ہے ۔ ۔ مگر بہت احتیاط سے میرے ساتھ آواز سے آواز ملایئے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باد۔۔۔۔۔۔۔۔:)
 
قصہ مختصر سعودی عرب میں جو نظام رائج ہے، ظاہر ہے اس کا بنیادی مقصد سعودی خاندان کی بادشاہت کو مستحکم کرنا ہے۔ جس کے لیے وہاں کے شیوخ اور علماء کرام جابر سلطان سے پوچھ کر کلمہ فتویٰ دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا جب آل سعود کے مخالفین نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا۔

اول اول تو انہیں ایرانی قرار دیا گیا تھا لیکن پھر کُھلا کہ یہ تو گھریلو معاملہ ہے اور ماشاء اللہ سعودی افواج کے بس میں نہ تھا کہ وہ ان دہشت گردوں کو خانہ کعبہ سے نکال باہر کریں اور پھر زر کثیر خرچ کے دنیا کے اس وقت کے بہترین کمانڈو جو کہ فرانسیسی تھے انہیں کرائے پر حاصل کیا گیا اور یہاں ایک شرعی مسئلہ درپیش ہو گیا کہ فرانسیسی تو کافر تھے وہ کیسے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر شر پسندوں کا مکو ٹھپ سکتے تھے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جب وہ تشریف لائے تو انہیں کہا گیا کہ ایک مجبوری ہے آپ جو کچھ ہم عربی میں کہیں گے اسے دوہرا دیں انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ انہوں نے دہرا دیا۔ یعنی انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور عارضی طور پر مسلمان ہو گئے۔

ان میں سے ایک کمانڈو نے بیان دیا تھا کہ جب ہم سعودی عرب پہنچے تو عربوں نے ہمیں کچھ دوہرانے کو کہا۔ جس کا مطلب ہم نہیں جانتے تھے، بہر طور مجھے یاد ہے کہ جب ایک بار میمونہ کچھ عرصہ بیٹے کے ساتھ جدہ میں بسر کر کے واپس لاہور آئی تو ایئر پورٹ پر اس کی مسرت دیکھنے والی تھی‘ کہنے لگی پاکستان کی کیا بات ہے۔ یہاں زندگی ہے۔ بچے کھیلتے نظر آ رہے ہیں خواتین اور لڑکیاں بازاروں میں چلتی پھرتی ہیں لوگ خوش نظر آ رہے ہیں۔ وہاں تو کوئی مسکراتا بھی نہیں۔ شکر ہے میں ایک تہذیب یافتہ معاشرے میں واپس آ گئی ہوں۔

لیکن اب پچھلے دنوں ایک سانحہ ہو گیا ہے۔ ہم کافر ہوئے ہیں تو وہ مسلمان ہو گیا ہے یا پھر ہم مسلمان ہوئے ہیں اور وہ کافر ہو گیا۔ یکدم یوٹرن لے لیا ہے اور ہم پریشان کھڑے ہیں بقول اظہار الحق کے ہم نے اپنے ٹیلی ویژن توڑ ڈالے‘ اپنی خواتین کو یہ لمبے لمبے سیاہ چوغے پہنا دیے۔

ہر اس شے کو حرام قرار دیا جس میں خوشی کے حصول کا کوئی ذرہ بھر خدشہ تھا۔ اپنے بچوں کو سعودی امداد سے قائم ہونے والے مدرسوں میں داخل کرا دیا۔ شلواریں گھٹنوں سے اوپر کر لیں۔ یہاں تک کہ خدا حافظ کی بجائے اللہ حافظ کہنے لگے۔ اپنے علاوہ ہر فرقے کو کافر قرار دیا۔ یعنی ہمارا حال تو نورجہاں جیسا ہو گیا کہ ساہنوں نہر والے پل تے بلا کے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔ ہم نہر والے پُل پر حیران پریشان کھڑے ہیں اور ماہی جانے کدھر گیا۔ ماہی کے علماء کرام نے ایک اور فتویٰ دے دیا کہ پردے کے لیے عبایا پہننا ضروری نہیں ہے۔ عورتیں اس پہناوے کے بغیر بھی گھوم پھر سکتی ہیں۔ ویلنٹائن ڈے میں کچھ حرج نہیں۔ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے۔

تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ ڈرائیونگ سے عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت مجروح نہیں ہوتی تو وہ اس برس جون میں کاریں دوڑاتی پھریں گی۔ بلکہ خواتین بے دریغ موٹر سائیکلیں بھی چلا سکتی ہیں اور ہماری چشم نے کیسے کیسے عبرت ناک منظر دیکھے۔ سعودی عورتیں مردوں کے ساتھ فٹ بال میچ دیکھ رہی ہیں اور ہاتھ ہلا ہلا کر رقص کے انداز میں نعرے لگا رہی ہیں۔ ایک اور فتویٰ آ گیا۔ عورتیں کاروبار بھی کر سکتی ہیں جدہ میں کاروں کا ایک شو روم کھل گیا جہاں سب کی سب سیلز گرلز۔ اپنی سعودی ہمشیرگان ہیں۔ اوروہ نہایت بے تکلفی سے موئے مردوں کے ساتھ بے دریغ گفتگو کر رہی ہیں حالانکہ وہ نامحرم ہیں۔

سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شاید ریاض میں ایک میوزیکل کنسرٹ ہو رہا ہے۔ کوئی عرب گلو کارہ لہک لہک کر اپنے لباس میں سے امڈ امڈ کر موسیقی کی تانوں پر سوار نغمہ سرا ہیں اور ہال میں موجود خواتین پر وجد طاری ہو چکا ہے اور وہ جھوم برابر جھوم رہی ہیں۔ البتہ اس کنسرٹ میں نامحرم مردوں کا داخلہ فی الحال منع تھا۔ آخر ہمیں اپنے مذہب سے مکمل روگردانی تو نہیں کرنی۔

یہاں تک میراتھن دوڑ بھی منعقد کی گئی ہے۔ تھیٹر اور اوپیراگھر بھی وجود میں آ رہے ہیں۔ جس کا میں اہل ہوں اگرچہ عمر کی ناتوانی کے باعث ایک عرصے سے نااہل ہوں۔ جدہ میں خواتین کے ملبوسات کے ایک سپر سٹور میں جاتی ہے اور میں باہر کھڑا اس کا انتظار کرتا ہوں۔ میمونہ اس سپر سٹور سے جب باہر آتی ہے تو اس کا چہرہ لال بھبھو کا ہو رہا ہے۔ سرخ انار ہو ر ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا ہوا؟ تو وہ کہتی ہے نہیں پوچھو‘ مجھے شرم آتی ہے تو میں مزید اشتیاق سے دریافت کرتا ہوں کہ میمونہ کیا ہوا تو وہ ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی کرتی ہے کہ سٹور کے اندر یہ عربنیں ‘ننگی پننگی گھوم رہی تھیں۔ برہنہ حالت میں‘ لباس پہ لباس تبدیل کرتی تھیں۔ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔ میمونہ اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے ایک بنیاد پرست مسلمان ہے لیکن ایک راجپوت ہونے کے حوالے سے وہ ایک عورت کی یوں بے حیائی برداشت نہیں کر سکتی۔

اب ان دنوں سعودی عرب میں جو ’’انقلابی‘‘ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں سعودی کراؤ ن پرنس بہت ہی لبرل ہوتے جاتے ہیں تو مجھے حیرت ہے کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس ترقی پسندی پر کچھ احتجاج نہیں ہوا۔ کم از کم شباب ملی کے ڈنڈا برداروں کو تو ویلنٹائن ڈے کو جائز قرار دینے پر کچھ تو ہلا گلا کرنا چاہیے تھا۔ میرے دیرینہ دوست سجاد میر جن کی ادبی اور شعری شناخت کی خوبیوں کا میں قائل ہوں۔ اگرچہ تصوف کی جو گرہیں وہ کھولتے ہیں ان کا قائل نہیں ہوں تو کم از کم وہ تو اس روشن خیال سعودی عرب کے انقلاب کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں۔

وہ جو کہتے ہیں ناں کہ مرے کو مارے شاہ مدار۔ مجھے قطعی طور پر علم نہیں کہ شا ہ مدارکون تھا اور وہ مرے کو کیوں بلاوجہ مارتا تھا۔ تو تازہ خبر آئی کہ جدہ میں ایک عظیم فیشن شو کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کے لیے کروڑوں ڈالر وقف کر دیے گئے ہیں۔ دنیا بھر سے فرانس‘ برطانیہ اور امریکہ وغیرہ سے بھرے بدنوں‘ اشتعال انگیز تناسب والی فیشن ماڈلز آئیں گی اور ماشاء اللہ بلیوں کی چال چلیں گی یعنی حرمین شریفین کے خادموں کی سلطنت میں کیٹ واک کریں گی۔ عجب سلسلے ہیں کہ سعودی کوئے یار سے نکلتے ہیں تو راہ میں ٹھہرتے ہی نہیں‘ سیدھے سوئے دارجاتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ نہر والے پل پر حیران کھڑے ہیں۔ کافر کھڑے ہیں یا مسلمان کھڑے ہیں کچھ معلوم نہیں کرائے کے لوگوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہمارا ماہی جانے کدھر نکل گیا۔ وہ یکدم لبرل اور روشن خیال ہو گیا اتنا کہ ہم تو نہیں ہو سکتے ہم پاکستانی یقین کیجیے کہ ہمیشہ سے بہت معتدل اور متوازن رہے ہیں۔ ہم اپنے عقیدے کے ساتھ بھی جڑے رہتے ہیں اور اعتدال کی راہ سے بھی روگردانی نہیں کرتے۔

ہم کب تک نہر والے پل پر کھڑے اس ماہی کا انتظار کرتے رہیں گے جس کے عشق میں گرفتار ہو کر ہم نے اپنی ثقافت ترک کر دی‘ تہذیب سے کنارہ کشی اختیار کی اور وہ ماہی رنگ رلیاں منانے میں مشغول ہو گیا ہے۔

ربط
میں کفر اور اسلام کی بات نہیں کروں گا۔
لیکن میں بارہا سوچتا کہ سعودی عرب نے کسی قسم کا شدید "ثقافتی" یوٹرن لیا ہے۔۔۔۔اور رفتار واقعی تیز تر سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کچھ دن پہلے کہیں پڑھا تھا کہ 2020 کو کسی قسم کی تبدیلی کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ بہت خطرناک۔۔۔۔ بہت ہی خطرناک ہے۔
خدا رحم کرے!!
شاید فرقان احمد بھائی ٹھیک کہتے ہیں۔
 
اظہار آزادئ رائے کا سعودی عرب میں اس قدر شدید گلا گھونٹا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی اس یوٹرن پر کھلے عام اظہار رائے کرسکے۔ اس لیے یہ رفتار کہیں تھمتی دکھائی نہیں دیتی۔
باقی اگر کوئی تنقید کر رہا ہو تو معلوم نہیں۔
افسوسناک!
 

اکمل زیدی

محفلین
اظہار آزادئ رائے کا سعودی عرب میں اس قدر شدید گلا گھونٹا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی اس یوٹرن پر کھلے عام اظہار رائے کرسکے۔ اس لیے یہ رفتار کہیں تھمتی دکھائی نہیں دیتی۔
باقی اگر کوئی تنقید کر رہا ہو تو معلوم نہیں۔
افسوسناک!
عجب دستور۔ ۔ ۔ ۔ :quiet:
 
سعودی سلطنت نے اپنے وجود سے لیکر اب تک روسیوں کی طرح آہنی پردوں کے پیچھے بہت کچھ چھپائے رکھا اور شاید اب اسے چھپے ہوئے کو مزید قابو کیے رکھنا ان کے لیے ناممکن سا ہوتا جا رہا ہے۔
اسی لیے بہتری اسی میں سمجھی گئی کہ اس کمزور ہوتی رسی کو خود ہی ڈھیلا کر دیا جائے ورنہ بادشاہت اور سلطنت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
تمام اختلافات سے قطعہ نظر ۔ ۔ ۔ تمام فرقہ واریت۔۔۔سے ھٹ کر ۔۔۔ماننا پڑے گا کہ۔ ۔ ۔ سعودی حکومت اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے۔۔اس لیے امریکہ کا اس کے ساتھ اتنا دوستانہ رویہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کے جتنا نچوڑنا ہے نچوڑ لو۔ ۔ ۔ یہاں مریں وہاں مریں اپنا الو تو سیدھا ہو رہا ہے نا۔ ۔ ۔ یہ ساری تبدیلیاں بھی عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ہیں ۔ ۔ ۔
 

سید عمران

محفلین
سعودی سلطنت نے اپنے وجود سے لیکر اب تک روسیوں کی طرح آہنی پردوں کے پیچھے بہت کچھ چھپائے رکھا اور شاید اب اسے چھپے ہوئے کو مزید قابو کیے رکھنا ان کے لیے ناممکن سا ہوتا جا رہا ہے۔
اسی لیے بہتری اسی میں سمجھی گئی کہ اس کمزور ہوتی رسی کو خود ہی ڈھیلا کر دیا جائے ورنہ بادشاہت اور سلطنت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
کیا رسی ڈھیلی صرف فحاشی اور عریانی کے وسائل عام کرنے سے ہوجائے گی؟؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
تمام اختلافات سے قطعہ نظر ۔ ۔ ۔ تمام فرقہ واریت۔۔۔سے ھٹ کر ۔۔۔ماننا پڑے گا کہ۔ ۔ ۔ سعودی حکومت اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے۔۔اس لیے امریکہ کا اس کے ساتھ اتنا دوستانہ رویہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کے جتنا نچوڑنا ہے نچوڑ لو۔ ۔ ۔ یہاں مریں وہاں مریں اپنا الو تو سیدھا ہو رہا ہے نا۔ ۔ ۔ یہ ساری تبدیلیاں بھی عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ہیں ۔ ۔ ۔
سعودی معاشرے میں کیا یہ "پروپوزڈ" تبدیلیاں خوش آئند نہیں ہیں؟
 

اکمل زیدی

محفلین
سعودی معاشرے میں کیا یہ "پروپوزڈ" تبدیلیاں خوش آئند نہیں ہیں؟
وارث بھائی تبدیلیوں کی تو ابھی بات ہی نہیں مگر یہ تو بہرحال ہے کے یہ تبدیلیاں سعودی jurisprudenceکے برعکس ہیں
جیسے بلی بیماری میں گھاس کھانے لگ جاتی ہے
 
سعودی معاشرے میں کیا یہ "پروپوزڈ" تبدیلیاں خوش آئند نہیں ہیں؟
وارث بھائی اس....:
اندر یہ عربنیں ‘ننگی پننگی گھوم رہی تھیں۔

بلیوں کی چال چلیں گی یعنی حرمین شریفین کے خادموں کی سلطنت میں کیٹ واک
کو تو کسی صورت خوش آئند نہیں کہا جا سکتا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کچھ دن پہلے کہیں پڑھا تھا کہ 2020 کو کسی قسم کی تبدیلی کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے
اس کا نام بیس بیس نہیں بلکہ ۔ رؤیہ بیس تیس۔ (vision 2030)رکھا گیا ہے بیس بیس تو اس کا بہت ادنی سنگ میل ہےاور قریب ہی ہے جس کے روز افزوں ثمرات ظاہر ہو رہے ہیں ۔بیس تیس میں دیکھیئے کیا کچھ اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے اور یہ گنبد نیلوفری کن صحراؤں کو ہرا کرتا ہے ۔واللہ اعلم ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی اس....:



کو تو کسی صورت خوش آئند نہیں کہا جا سکتا۔
میرا نہیں خیال کہ یہ جو مخصوص جملے تھے وہ سعودیہ کے عام شہریوں کے لیے تھے یا عام شہری ان حرکتوں پر آ جائیں گے۔ باقی رہی اشرافیہ تو وہ ہر جگہ ایک جیسی ہی ہے، کسی ملک کسی مذہب کی اس میں تخصیص نہیں۔ اور سعودی اشرافیہ اب بھی جو کچھ کرتی ہے وہ شاید ہی کسی کے علم میں ہو۔

اس کے برعکس، خواتین کے حقوق اور کرپشن کے خلاف جتنے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں اور انتہائی خوش آئند ہیں۔
 

زیک

مسافر
فکر نہ کریں اب ہم نیا ماہی ڈھونڈ لیں گے۔ لبیکی خادم رضوی جیسا یا قاتل ممتاز قادری کا سا۔
 
Top