سبز و شاداب گلستان تمنا ہووے ۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔

الشفاء

لائبریرین

سبز و شاداب گلستان تمنا ہووے
کاش مسکن مرا صحرائے مدینہ ہووے

ہند میں گرم تپش یوں دل مضطر ہے مدام
دام میں جیسے کوئی مرغ تڑپتا ہووے

مجھ کو بھی روضہء اقدس کی زیارت ہو نصیب
زہے قسمت جو سفر سوئے مدینہ ہووے

جب کہیں قافلے والے کہ مدینے کو چلو
شوق میں پھر تو مرا اور ہی نقشہ ہووے

ننگے پاؤں وہیں ہو جاؤں میں اٹھ کر ہمراہ
تن پہ جامہ بھی مرے ہو کہ برہنہ ہووے

یوں چلوں خاک اڑاتا ہوا صحرا صحرا
جیسے جنگل میں بگولہ کوئی اڑتا ہووے

گرم جولان روش برق ہوں شاداں خنداں
پاؤں پر پاؤں مرا شوق میں پڑتا ہووے

کانٹے تلووں میں چبھیں برگ گل تر سمجھوں
خاک جو اڑ کے پڑے آنکھوں میں سرمہ ہووے

ایسی صورت سے در شاہ عرب پر پہنچوں
حال جیسے کسی ناچیز گدا کا ہووے

گرد آلود بدن خاک ملی چہرہ پر
ایک تہہ بند پھٹا سا کوئی کرتا ہووے

خار پاؤں میں چبھیں بال ہوں سر کے بکھرے
فکر سوزن ہو نہ کچھ شانوں کا سودا ہووے

باندھ کر ہاتھ کروں عرض بصد عجز و نیاز
خدمت شاہ میں جیسے کوئی بردہ ہووے

یہ غلام آپ کا حاضر ہے قدم بوسی کو
وصل کا آج اشارہ شہہ والا ہووے

میری بے تابی و مسکینی پہ رحم آئے ضرور
خود در حجرہء والائے نبی وا ہووے

دوڑ کر سر قدم پاک پہ رکھ دوں اپنا
دھیان کس کو ادب و بے ادبی کا ہووے

کبھی چوموں کبھی آنکھوں سے لگاؤں وہ قدم
خاک پا آپ کی ان آنکھوں کا سرمہ ہووے

گوہر اشک نثار قدم پاک کروں
جز تہی دستی کوئی اور نہ تحفہ ہووے

اور جب روئے مبارک کی تجلی دیکھوں
جلوہء طور بھی آنکھوں میں تماشا ہووے

سن کے اس شوق کو کہتے ہیں ملائک بھی غریب
فضل حق سے تری حاصل یہ تمنا ہووے

کلیات امدادیہ۔۔۔
 
Top