سلمان حمید
محفلین
کل شام کی بات ہے یا شاید پرسوں کی، کچھ ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ دیکھیے کس قدر قیامت کی شام تھی کہ اب یاد بھی نہیں آ رہا کہ کل گزری ہے یا پرسوں لیکن جب بھی گزری ہے، اس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں۔ کونسی منحوس گھڑی تھی جب میں نے اپنے دفتر کی ایچ آر (HR) کی ای میل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں، اس بار مجھے بھی لے چلو۔ واضح کرتا چلوں کہ دفتر کے افراد کی باہمی رضامندی سےہر ماہ کسی ریستوران یا کھلے مقام پر ایک ملاقات رکھی جاتی ہے جس میں جانا یا نہ جانا مکمل طور پر آپ کی ذات پر منحصر ہے۔ میں نے سوچا کہ اس بار میری اپنی ٹیم کے دو بندے بھی جا رہے ہیں تو چل کر دیکھ لیتا ہوں کہ وہاں کونسے آم پکتے ہیں اور ہو سکتا ہے ایسی شراب و کباب کی محفل میں نہ جا کر میں کچھ ایسا کھو رہا ہوں جس کا بعد میں مجھے تاحیات افسوس رہے۔
کام ختم کرنے کے بعد ہم تینوں اس ریستوران میں اپنے وقت پر پہنچے تو پہلے سے موجود کچھ حضرات شراب کے گلاس ہاتھوں میں تھامے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ مزید واضح کرتا چلوں کہ میرے دفتر کے لوگ آس پاس کی تین مختلف عمارتوں میں پھیلے ہوئے ہیں جس کے باعث اکثر کو تو میں جانتا تک نہیں اور تقریباً سبھی مجھے نہیں جانتے۔ باقی کسر زبان سے ناواقفیت ایسے پوری کر دیتی ہے کہ آس پاس سے گزرتے ہوئے کوئی بھی "ہیلو ہائے" سے زیادہ کچھ بول دے تو میں ہونقوں کی طرح اس کی طرف ایسے مڑ کر دیکھتا ہوں جیسے گزرنے والا کوئی ایسی شرارت کر گیا ہے کہ اب کھسیانی ہنسی ہنس دینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا سو مسکرا کر نکل لینے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں۔ میری ٹیم کے باقی دونوں افراد بدقسمتی سے اسی قومیت کے تھے تو انہوں نے جہاں جگہ ملی وہاں براجمان ہوتے ہی شراب کے لیے آواز لگائی اور آس پاس بیٹھے باقی افراد سے گھل مل گئے۔ باقی بچا میں تو مجھے ایک طائرانہ نظر گھماتے ہوئے دیکھ کر وہی ایچ آر اپنی کرسی سمیت دائیں طرف کھسک گئی تو مجھے مجبورًا اس کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ یہاں لفظ "مجبورًا" بعض نہایت ذاتی وجوہات کی بنا پر استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔
بیرے کے استفسار پر ایک عدد کولا کے لیے کہا تو بیرے نے مجھے یوں دیکھا جیسے برہمنوں کی محفل میں کوئی اچھوت آ کر بیٹھ گیا ہو۔ کتنی حسین شام تھی وہ اور میرے سوا ہر کوئی آپس میں ایسے گھل مل گیا تھا جیسے برسوں بعد ملاقات ہوئی ہو اور اس ایچ آر کے لیے تو میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ اللہ کی بندی میرے پہلو میں بیٹھ کر سامنے والے سے ایسے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی کہ میری غیرت کو تو جیسے کوئی بھگو بھگو کر جوتے مار رہا ہو۔ چونکہ میں زیادہ حق جتانے والا (possessive) نہیں ہوں تو بچت ہو گئی۔ ویسے بھی ان کی زبان نہیں آتی ورنہ شاید آستین چڑھا کر میں بھی بات چیت میں گھس جاتا اور اپنا حق چھین یا جیت لیتا۔
کھانے کا وقت ہوا تو میں اپنے لیے منگوائی ہوئی "تھائی کری وِد سبزی" کا منتظر کبھی باقیوں کے چہرے، پلیٹیں اور ان میں چلتے ہوئے چھری کانٹے اور کبھی اپنے موبائل کو دیکھ لیتا۔ "کھانا کھاتے ہی نکل جاؤں گا" کا خیال آتے ہی چہرے پر یوں اطمینان پھیل گیا جیسے آج کی شام کا مقصد حاصل ہو گیا ہو۔
لیکن "ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے" اور "فلم ابھی باقی ہے میرے دوست" کے مصداق کھانے کی پلیٹ دیکھتے ہی مطمئن چہرے پر بدمزگی کے تاثرات اس تیزی سے پھیل گئے جیسے "یہ ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دو" والی ویڈیو فیس بک پر پھیلتی ہے۔
ایک پانی جیسے پتلے اور پیلے رنگ کے شوربے میں تیرتی ہوئی چند سبزیاں دیکھیں تو سوچنے لگا کہ کہاں سے شروع کروں۔ مجھے اس کشمکش میں دیکھ کر اسی ایچ آر نے اپنے سامنے پڑی چھریوں اور کانٹوں کے ڈھیر میں سے ایک چھری اور ایک کانٹا مجھے تھما دیا۔ میں نے مسکرا کر دونوں چیزیں تھامیں تو سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ اس شوربے میں چھری کا استعمال تو ممکن نہیں ہے اور دوسرا خیال یہ تھا کہ کیوں نہ یہی چھری اسی حسینہ کے پیٹ میں گھونپ دوں۔ سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ "فارغ" بندے کا دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک خبر دماغ میں گردش کرنے لگی کہ جرمنی کے کسی ریستوران میں کسی باہر کے ملک سے آئے وزیر نے جب کھانا زیادہ منگوا کر پلیٹ میں چھوڑ دیا تھا تو اس کو کافی بحث کے بعد جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔ اس خبر نے مجھے ایک عجیب سی ہمت دی اور میں نے ایک ایک کر کے ابلے ہوئے مٹر، کچی شملہ مرچ کے لمبے لمبے کٹے ہوئے ٹکڑے، گول گول کٹے ہوئے کھیرے اور گاجر کے ٹکڑے اور انہی کے پہلو میں تیرتی ہوئی کچی بروکولی اور ایک آدھ نامعلوم سی سبزی پر چھری کانٹے سے زور آزمائی کرنا شروع کر دی۔ جرمانہ ادا کرنے کا خوف ایسے طاری تھا کہ دس منٹ بعد پلیٹ میں شوربے اور اس میں ڈوب کر ابھرتے ہوئےایک پھول کے سوا کچھ نہیں بچا۔ میں نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دائیں بائیں نظر گھمائی تو ماسوائے اس ایچ آر کے باقی سب کی خالی پلیٹں میرا منہ چڑا رہی تھیں۔ ایچ آر کی پلیٹ میں ابھی بھی کچھ آلو کے چپس باقی تھے۔ خیال آیا کہ اس کی مرضی بھانپ کر یا اس سے نظر بچا کر اس کی پلیٹ سے ایک چپس اچک ہی لوں لیکن پھر سوچا کہ کچھ دیر پہلے سور کے گوشت سے بنے گرم کتے (hot dog) نے جو انہی آلوؤں کے بیچوں بیچ لیٹا تھا مجھے لاعلمی میں رکھ کرسبھی آلوؤں کو باری باری اپنے لمس کی حرارت نہ سونپ دی ہو جو بضاہر چند لمحوں کی بھی ہو، میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔
ایک گہری آہ بھر کر میں نے اپنی پلیٹ میں پڑے سبزی سے بنائے گئے اس پھول کو دیکھا جو مٹھائی کے ڈبے میں سب سے آخر میں بچ جانے والے میسو کی طرح اکیلا پڑا تھا تومیں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ "یہ تو سبز پیاز سے بنایا گیا ہے۔" میں نے کانٹے سے اس کو ہلا جلا کر اور الٹ پلٹ کر بغور مشاہدہ کیا تو اپنے خیال کی تصدیق ہو گئی۔ "کیا کوئی کچا سبز پیاز بھی کھا سکتا ہے؟" یہ خود کلامی کرتے ہی میں نے اس پھول کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا پکا فیصلہ کر لیا تھا۔ جرمانے والے آئے تو ان کی اپنے جیسے بے شمار پاکستانیوں سے فون پر بات کروائی جا سکتی ہے جو کہ میری اس بات کی تائید ضرور کر دیں گے کہ کوئی کچا سبز پیاز کیسے کھا سکتا ہے؟ اس کے بعد میں نے اٹھ کر اپنی جیکٹ تھامی تھی اور اپنی جانب اٹھنے والی کچھ نگاہوں کی طرف الودائیہ مسکراہٹ اچھال کر باہر نکل گیا۔
نوٹ: چونکہ یہ ایک سچی کہانی ہے جو ماضی میں واقع ہو چکی ہے تو اس لیے اس میں کسی قسم کی ترمیم اور ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے۔ شکریہ
کام ختم کرنے کے بعد ہم تینوں اس ریستوران میں اپنے وقت پر پہنچے تو پہلے سے موجود کچھ حضرات شراب کے گلاس ہاتھوں میں تھامے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ مزید واضح کرتا چلوں کہ میرے دفتر کے لوگ آس پاس کی تین مختلف عمارتوں میں پھیلے ہوئے ہیں جس کے باعث اکثر کو تو میں جانتا تک نہیں اور تقریباً سبھی مجھے نہیں جانتے۔ باقی کسر زبان سے ناواقفیت ایسے پوری کر دیتی ہے کہ آس پاس سے گزرتے ہوئے کوئی بھی "ہیلو ہائے" سے زیادہ کچھ بول دے تو میں ہونقوں کی طرح اس کی طرف ایسے مڑ کر دیکھتا ہوں جیسے گزرنے والا کوئی ایسی شرارت کر گیا ہے کہ اب کھسیانی ہنسی ہنس دینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا سو مسکرا کر نکل لینے میں ہی عافیت سمجھتا ہوں۔ میری ٹیم کے باقی دونوں افراد بدقسمتی سے اسی قومیت کے تھے تو انہوں نے جہاں جگہ ملی وہاں براجمان ہوتے ہی شراب کے لیے آواز لگائی اور آس پاس بیٹھے باقی افراد سے گھل مل گئے۔ باقی بچا میں تو مجھے ایک طائرانہ نظر گھماتے ہوئے دیکھ کر وہی ایچ آر اپنی کرسی سمیت دائیں طرف کھسک گئی تو مجھے مجبورًا اس کے ساتھ بیٹھنا پڑا۔ یہاں لفظ "مجبورًا" بعض نہایت ذاتی وجوہات کی بنا پر استعمال کیا گیا ہے جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔
بیرے کے استفسار پر ایک عدد کولا کے لیے کہا تو بیرے نے مجھے یوں دیکھا جیسے برہمنوں کی محفل میں کوئی اچھوت آ کر بیٹھ گیا ہو۔ کتنی حسین شام تھی وہ اور میرے سوا ہر کوئی آپس میں ایسے گھل مل گیا تھا جیسے برسوں بعد ملاقات ہوئی ہو اور اس ایچ آر کے لیے تو میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ اللہ کی بندی میرے پہلو میں بیٹھ کر سامنے والے سے ایسے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی کہ میری غیرت کو تو جیسے کوئی بھگو بھگو کر جوتے مار رہا ہو۔ چونکہ میں زیادہ حق جتانے والا (possessive) نہیں ہوں تو بچت ہو گئی۔ ویسے بھی ان کی زبان نہیں آتی ورنہ شاید آستین چڑھا کر میں بھی بات چیت میں گھس جاتا اور اپنا حق چھین یا جیت لیتا۔
کھانے کا وقت ہوا تو میں اپنے لیے منگوائی ہوئی "تھائی کری وِد سبزی" کا منتظر کبھی باقیوں کے چہرے، پلیٹیں اور ان میں چلتے ہوئے چھری کانٹے اور کبھی اپنے موبائل کو دیکھ لیتا۔ "کھانا کھاتے ہی نکل جاؤں گا" کا خیال آتے ہی چہرے پر یوں اطمینان پھیل گیا جیسے آج کی شام کا مقصد حاصل ہو گیا ہو۔
لیکن "ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے" اور "فلم ابھی باقی ہے میرے دوست" کے مصداق کھانے کی پلیٹ دیکھتے ہی مطمئن چہرے پر بدمزگی کے تاثرات اس تیزی سے پھیل گئے جیسے "یہ ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دو" والی ویڈیو فیس بک پر پھیلتی ہے۔
ایک پانی جیسے پتلے اور پیلے رنگ کے شوربے میں تیرتی ہوئی چند سبزیاں دیکھیں تو سوچنے لگا کہ کہاں سے شروع کروں۔ مجھے اس کشمکش میں دیکھ کر اسی ایچ آر نے اپنے سامنے پڑی چھریوں اور کانٹوں کے ڈھیر میں سے ایک چھری اور ایک کانٹا مجھے تھما دیا۔ میں نے مسکرا کر دونوں چیزیں تھامیں تو سب سے پہلا خیال یہ آیا کہ اس شوربے میں چھری کا استعمال تو ممکن نہیں ہے اور دوسرا خیال یہ تھا کہ کیوں نہ یہی چھری اسی حسینہ کے پیٹ میں گھونپ دوں۔ سیانے سچ ہی کہتے ہیں کہ "فارغ" بندے کا دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں پڑھی ہوئی ایک خبر دماغ میں گردش کرنے لگی کہ جرمنی کے کسی ریستوران میں کسی باہر کے ملک سے آئے وزیر نے جب کھانا زیادہ منگوا کر پلیٹ میں چھوڑ دیا تھا تو اس کو کافی بحث کے بعد جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔ اس خبر نے مجھے ایک عجیب سی ہمت دی اور میں نے ایک ایک کر کے ابلے ہوئے مٹر، کچی شملہ مرچ کے لمبے لمبے کٹے ہوئے ٹکڑے، گول گول کٹے ہوئے کھیرے اور گاجر کے ٹکڑے اور انہی کے پہلو میں تیرتی ہوئی کچی بروکولی اور ایک آدھ نامعلوم سی سبزی پر چھری کانٹے سے زور آزمائی کرنا شروع کر دی۔ جرمانہ ادا کرنے کا خوف ایسے طاری تھا کہ دس منٹ بعد پلیٹ میں شوربے اور اس میں ڈوب کر ابھرتے ہوئےایک پھول کے سوا کچھ نہیں بچا۔ میں نے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دائیں بائیں نظر گھمائی تو ماسوائے اس ایچ آر کے باقی سب کی خالی پلیٹں میرا منہ چڑا رہی تھیں۔ ایچ آر کی پلیٹ میں ابھی بھی کچھ آلو کے چپس باقی تھے۔ خیال آیا کہ اس کی مرضی بھانپ کر یا اس سے نظر بچا کر اس کی پلیٹ سے ایک چپس اچک ہی لوں لیکن پھر سوچا کہ کچھ دیر پہلے سور کے گوشت سے بنے گرم کتے (hot dog) نے جو انہی آلوؤں کے بیچوں بیچ لیٹا تھا مجھے لاعلمی میں رکھ کرسبھی آلوؤں کو باری باری اپنے لمس کی حرارت نہ سونپ دی ہو جو بضاہر چند لمحوں کی بھی ہو، میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔
ایک گہری آہ بھر کر میں نے اپنی پلیٹ میں پڑے سبزی سے بنائے گئے اس پھول کو دیکھا جو مٹھائی کے ڈبے میں سب سے آخر میں بچ جانے والے میسو کی طرح اکیلا پڑا تھا تومیں حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ "یہ تو سبز پیاز سے بنایا گیا ہے۔" میں نے کانٹے سے اس کو ہلا جلا کر اور الٹ پلٹ کر بغور مشاہدہ کیا تو اپنے خیال کی تصدیق ہو گئی۔ "کیا کوئی کچا سبز پیاز بھی کھا سکتا ہے؟" یہ خود کلامی کرتے ہی میں نے اس پھول کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا پکا فیصلہ کر لیا تھا۔ جرمانے والے آئے تو ان کی اپنے جیسے بے شمار پاکستانیوں سے فون پر بات کروائی جا سکتی ہے جو کہ میری اس بات کی تائید ضرور کر دیں گے کہ کوئی کچا سبز پیاز کیسے کھا سکتا ہے؟ اس کے بعد میں نے اٹھ کر اپنی جیکٹ تھامی تھی اور اپنی جانب اٹھنے والی کچھ نگاہوں کی طرف الودائیہ مسکراہٹ اچھال کر باہر نکل گیا۔
نوٹ: چونکہ یہ ایک سچی کہانی ہے جو ماضی میں واقع ہو چکی ہے تو اس لیے اس میں کسی قسم کی ترمیم اور ردوبدل کی گنجائش نہیں ہے۔ شکریہ