سبز ہلالی پرچم
محمد خلیل الرحمٰن

چھوٹا سا اک تارا
چمک چمک کر ہارا
چاند سے بولا پیارے
چمک کے ہم تھک ہارے
کیوں نہ سیر کو جائیں
اپنا جی بہلائیں
رات ابھی باقی تھی
چاند کے جی میں آئی
کیوں نہ بات یہ مانوں
میں بھی سیر کی ٹھانوں
دونوں زمیں پہ اترے
سیر بھی کی اور کھیلے
صبح جو ہونے آئی
طبیعت بھی گھبرائی
رستا بھولے بھیا
رہنے کو پھر دیکھا
پیارا سا اک جھنڈا
رنگ تھا سبزے جیسا
اس پر اتر کے دیکھا
اب یہ ان کا گھر تھا
کہتے ہیں جس کو ہم
سبز ہلالی پرچم




 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
خوب ماشاء اللہ خلیل بھائی آرٹسٹک نظم ہے۔بظاہر کچھ نہ کہا اور بہت کچھ کہہ بھی دیا۔

چونکہ نظم اصلاح سخن میں پیش کی گئی ہے تو عرض کر دوں کہ گو بحر ہندی کے اوزان میں اور بحروں کے مقابلے میں بہت زیادہ گنجائش ہے لیکن پھر بھی کچھ قیود ضرور ہیں (میری ناقص تحقیق کے مطابق جو کہ اساتذہ کے کلام سے کی گئی ہے)۔لہذا کچھ مصرع ان قیود سے باہر ہیں جیسے:
کیوں نہ سیر کو جائیں

کیوں نہ بات یہ مانوں

دونوں زمیں پہ اترے

انھیں دوبارہ دیکھ لیں
 
چھوٹا سا اک تارا
چمک چمک کر ہارا
چاند سے بولا پیارے
چمک کے ہم تھک ہارے
ہم بھی باہر جائیں
اپنا جی بہلائیں
رات ابھی باقی تھی
چاند کے جی میں آئی
کیوں نہ میں بھی ما نوں
میں بھی سیر کی ٹھانوں
دنیا میں وہ آئے
کھیلے کودے گائے
صبح کا سورج نکلا

ان کا جی گھبرایا
رستا بھولے بھیا
رہنے کو پھر دیکھا
پیارا سا اک جھنڈا
رنگ تھا سبزے جیسا
اس پر اتر کے دیکھا
اب یہ ان کا گھر تھا
کہتے ہیں جس کو ہم
سبز ہلالی پرچم​

یاسر شاہ بھائی اب دیکھیے اور اپنی رائے دیجیے!
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
چمک کے ہم تھک ہارے
ہم بھی باہر جائیں
چمک کے ہم تھک ہارے
کیوں نہ زمیں پر جائیں
کیوں نہ میں بھی ما نوں

کیوں نہ کہا میں مانوں
میں بھی سیر کی ٹھانوں

دنیا میں وہ آئے
کھیلے کودے گائے
دھرتی پر وہ آئے
اس پر اتر کے دیکھا
اب یہ ان کا گھر تھا
اس پہ اتر کے دیکھا
۔۔۔۔۔

واہ خلیل بھائی ایک بار پھر داد ۔ماشاء اللہ

نظم میں یوں تو بچوں کے لحاظ سے سیدھی سادھی سی باتیں ہیں مگر اس میں چھپا ہوا گداز صاف محسوس ہوتا ہے۔
 
Top