نیرنگ خیال
لائبریرین
سبق
گزشتہ صدی کے اختتامی برسوں کی بات ہے بہاولپور میں ماموں کے دوست کا کمپیوٹر کورسز کا ادارہ تھا۔ وہاں شام کو چند گھنٹے گزارنا میرے معمول میں شامل تھا۔ اس ادارے میں ایک لڑکا آیا کرتا تھا جو شاید ہی کسی سے بات کرتا تھا۔ خاموش آتا، کمپیوٹر پر بیٹھا رہتا۔ اپنی پڑھائی کرتا اور چلا جاتا۔ چند ایک ہفتوں میں اس لڑکے نے مجھ سے گفتگو شروع کی۔ ایک دن جھوٹ سچ ہماری گفتگو کا موضوع رہا، تو اس نے مجھ سے کہا، کہ انسان کو دل رکھنا چاہیے۔ یعنی اگر آپ کو معلوم ہےکہ میں جھوٹ بول رہا ہوں،یا بیکار اور بےمعنی گفتگو کر رہا ہوں تو آپ مجھے ٹوکیں مت، بلکہ میرا پردہ رکھیں، یہ آپ کا اخلاقی فرض ہے۔ اس کی مثال اس نے مجھے یوں سمجھائی کہ مجھے رنگوں کی سوجھ بوجھ بالکل نہیں ہے۔ لیکن لڑکیوں کی موجودگی میں ، گل جی کی تعریف کرتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ گل جی ایسا رنگ بکھیرتے ہیں، کہ ناظر پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔ دیکھنے والا ان کی مصوری میں یوں کھو جاتا ہے کہ تخیل کا سفر اس کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔ الغرض ان سے بڑا مصور کوئی نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ میں نے زندگی میں گل جی کا کبھی کوئی مصورانہ شاہکار نہیں دیکھا۔ اب اگر کبھی آپ بھی ایسی کسی مجلس کا حصہ ہوں، اور میری گفتگو سن رہے ہوں، تو یہ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ میری تائید بھلے نہ کریں، لیکن مجھے ٹوکیں بھی مت۔ہم سبھی جانے انجانے یہ حرکات کرتے ہی رہتے ہیں، چاہے کوئی ہمیں سکھائے یا نہ سکھائے۔ ابھی چند دن قبل کی بات ہے کہ ایک لڑکا مجھے بڑے ذوق و شوق سے "وہاں بیٹھ گیا، یہاں بیٹھ گیا" سنا رہا تھا۔ یہی وہ لڑکا ہے جو غالب، میر اور تمام جاٹ و غیر جاٹ کی شاعری پر "ہائے" کا تبصرہ فرماتا ہے۔ میں نے غزل سن لی اور قریب تھا کہ میں اس بات پر خاموش رہتا ، مگر میں نے اس سے کہا، کہ کیا بکواس ہے! تمہیں کم از کم پانچ منٹ پہلے چپ ہوجانا چاہیے تھا۔ کیوں کہ مجھے دو دہائیاں قبل دیا میرے دوست کا سبق یاد آگیا تھا ۔ اور وہ یہ کہ بکواسیات کی پردہ پوشی صرف صنف نازک کی موجودگی میں کرنی چاہیے۔
از قلم نیرنگ خیال
۱۸ مئی ۲۰۲۱