الف عین
لائبریرین
ممتاز شاعر شہر یار (کنور اخلاق محمد خان) علی گڑھ میں 13 فروری 2012 کی شب ساڑھے آٹھ بجے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے ۔ آخری رسومات منگل کی صبح انجام دی گئیں۔ 16 جون 1936 کو بریلی اتر پردیش میں جنم لینے والے اس نابغۂ روزگار ادیب نے پوری دنیا میں اپنی تخلیقی کامرانیوں کی دھاک بٹھا دی ۔ مظفر علی سے دوستی میں ان کی فلموں کے لئے گیت لکھنے پر راضی ہو گئے اور اس طرح ’گمن‘، ’امراؤ جان‘ اور ’انجمن‘ میں گیت بھی لکھے جس سے ان کی شہرت چپے چپے میں پھیل گئی۔
دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجیے
اور
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
ایک روشن خیال ادیب کی حیثیت سے شہر یار نے اپنی شاعری کے ذریعے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ۔
کاغذ کی کشتیاں بھی بہت کام آئیں گی
جس دن ہمارے شہر میں سیلاب آئے گا
اور کشتی پر ایک اور بہت عمدہ شعر یاد آیا
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
شہر یار کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا ۔وہ 1966 میں شعبۂ اردو کے لکچرر کی حیثیت سے ملازمت میں آئے اور 1996 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شعبہ اردو کے چیرمین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔
اہم تصانیف
اسم اعظم 1965
ساتواں در 1969
ہجر کا موسم 1978
خواب کے در بند ہیں 1987
ان کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 1987 میں خواب کے در بند ہیں ‘ پر دیا گیا اور پچھلے سال ہی ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی اوارڈ گیان پیٹھ دیا گیا۔ مرحوم ’شعر و حکمت‘ مجلے کی ادارت میں بھی مغنی تبسم کے ساتھ شامل تھے۔
ان کی بیوی نجمہ آپا بھی پہلے افسانہ نگار تھیں، بعد میں شہر یار سے طلاق لینے کے بعد شاعرہ کے طور پر سامنے آئیں۔ اور اپنے شادی سے پہلے والے نام نجمہ محمود کے نام سے مشہور ہیں۔
دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے
بس ایک بار میرا کہا مان لیجیے
اور
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
ایک روشن خیال ادیب کی حیثیت سے شہر یار نے اپنی شاعری کے ذریعے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ۔
کاغذ کی کشتیاں بھی بہت کام آئیں گی
جس دن ہمارے شہر میں سیلاب آئے گا
اور کشتی پر ایک اور بہت عمدہ شعر یاد آیا
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
شہر یار کا تعلق شعبہ تدریس سے تھا ۔وہ 1966 میں شعبۂ اردو کے لکچرر کی حیثیت سے ملازمت میں آئے اور 1996 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شعبہ اردو کے چیرمین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔
اہم تصانیف
اسم اعظم 1965
ساتواں در 1969
ہجر کا موسم 1978
خواب کے در بند ہیں 1987
ان کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 1987 میں خواب کے در بند ہیں ‘ پر دیا گیا اور پچھلے سال ہی ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی اوارڈ گیان پیٹھ دیا گیا۔ مرحوم ’شعر و حکمت‘ مجلے کی ادارت میں بھی مغنی تبسم کے ساتھ شامل تھے۔
ان کی بیوی نجمہ آپا بھی پہلے افسانہ نگار تھیں، بعد میں شہر یار سے طلاق لینے کے بعد شاعرہ کے طور پر سامنے آئیں۔ اور اپنے شادی سے پہلے والے نام نجمہ محمود کے نام سے مشہور ہیں۔