کاشفی

محفلین
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل

سب تھے منظورِ نظر ، ایک میں رسوا تھا فقط
تھے تماشائی سبھی، میں ہی تماشا تھا فقط

سامنے حدِ نظر تک مرے صحرا تھا فقط
اور یہ نظارہ ہی جینے کا سہارا تھا فقط

اس کی دولت کی تمنا مری دشمن نکلی
میرے قبضے میں محبت کا خزانہ تھا فقط

ایسا محسوس ہوا جیسے کہ تو آیا تھا
در حقیقت ترے سائے کا بھی سایا تھا فقط

میں یہ سمجھا تھا ہیں افلاک مری مٹھی میں
قبر بولی کہ تو اک خاک کا پتلا تھا فقط

رتبہ ساقی کا تھا تیرے ہی تو دم سے جاوید
ایک تو ہی تو بھری بزم میں پیاسا تھا فقط
 
Top