نبیل
تکنیکی معاون
لاہور میں مال روڈ پر پھرتے ہوئے مجھے ایک بک سٹال کے باہر اشتہار نظر آیا جس پر لکھا ہوا تھا کہ سب رنگ کا نیا شمارہ شائع ہو گیا۔ میں نے نہایت اشتیاق سے اس کے بارے میں دریافت کیا اور فوراً اسے خرید لیا۔ سب رنگ کسی زمانے میں پاکستان کا مقبول ترین رسالہ ہوتا تھا۔ میرے والد صاحب کی لائبریری میں اس کے پرانے شماروں کی جلدیں موجود ہیں۔ مجھے سب رنگ کے مستقل سلسلوں میں اس کا تاریخی فکشن اور تصوف والا سلسلہ بہت پسند تھا۔ اس کے علاوہ میں بازی گر، اقابلا اور انکا بھی بہت شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ بازی گر تو ابھی تک جاری ہے۔
اگرچہ سب رنگ کی اشاعت رکی تو نہیں لیکن اس میں تعطل آ گیا ہے۔ اتنے مقبول جریدے کی اشاعت میں یہ تعطل میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ شکیل عادل زادہ کا استدلال یہ ہے کہ جب تک انہیں ایک شمارے کے لیے معیاری کہانیاں نہیں مل جاتیں، وہ شمارہ نہیں نکالتے۔
میں نے شمارے کی ورق گردانی شروع کی تو مجھے پہلی کہانی دیکھ کر ہی کافی مایوسی ہوئی۔ یہ تاریخی فکشن تو آج سے قریباً بیس سال قبل کے سب رنگ میں شائع ہوا ہوا تھا۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ پرانے شماروں کے انتخاب کو اکٹھا کرکے بھی نیا شمارہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ باقی کہانیوں میں سے کتنی نئی ہیں اور کتنی دوبارہ شائع کی جا رہی ہیں۔ بہرحال اس سے مزا جاتا رہا۔
اگرچہ سب رنگ کی اشاعت رکی تو نہیں لیکن اس میں تعطل آ گیا ہے۔ اتنے مقبول جریدے کی اشاعت میں یہ تعطل میری سمجھ سے تو باہر ہے۔ شکیل عادل زادہ کا استدلال یہ ہے کہ جب تک انہیں ایک شمارے کے لیے معیاری کہانیاں نہیں مل جاتیں، وہ شمارہ نہیں نکالتے۔
میں نے شمارے کی ورق گردانی شروع کی تو مجھے پہلی کہانی دیکھ کر ہی کافی مایوسی ہوئی۔ یہ تاریخی فکشن تو آج سے قریباً بیس سال قبل کے سب رنگ میں شائع ہوا ہوا تھا۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ پرانے شماروں کے انتخاب کو اکٹھا کرکے بھی نیا شمارہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ باقی کہانیوں میں سے کتنی نئی ہیں اور کتنی دوبارہ شائع کی جا رہی ہیں۔ بہرحال اس سے مزا جاتا رہا۔