سب نے ہونٹوں سے لگا کر توڑ ڈالا ہے مجھے...... بھارت بھوشن پنت

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
سب نے ہونٹوں سے لگا کر توڑ ڈالا ہے مجھے
کوزہ گر نے جانے کس مٹی سے ڈھالا ہے مجھے

اس طرح تو اور منظر کی اداسی بڑھ گئی
میں کہیں خود میں نہاں تھا کیوں نکالا ہے مجھے

شاخ پر رہ کر کہاں ممکن تھا میرا یہ سفر
اب ہوا نے اپنے ہاتھوں میں سنبھالا ہے مجھے

کیوں سجانا چاہتے ہو اپنی پلکوں پر مجھے
رائیگاں سا خواب ہوں آنکھوں نے ٹالا ہے مجھے

اک ذرا سی دھوپ کو لے کر یہ ہنگامہ ہوا
میری ہی پرچھائیوں نے روند ڈالا ہے مجھے

جانے کتنے چاند تارے رات کے جنگل میں تھے
یاد لیکن ایک جگنو کا اجالا ہے مجھے

اک دھڑکتے دل سے میں نے خود کو پتھر کر لیا
اب بتوں کے ساتھ ہی بس رکھنے والا ہے مجھے

زندگی نے اپنا کوئی خواب بننے کے لیے
ایک اک دھاگے کی صورت کھول ڈالا ہے مجھے
 
Top