فرخ منظور
لائبریرین
سب پہ احسان ہے ساقی ترے میخانے کا
نشہ ہر رند کو ہے ایک ہی پیمانے کا
لطف کر، ظلم سے قابو میں نہیں آنے کا
لوگ دیکھیں نہ تماشا ترے دیوانے کا
مدعا کس پہ عیاں ہو مرے افسانے کا
راز ہوں میں، نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
تابشِ حُسن سے یہ رنگ ہے میخانے کا
دل دھڑکتا ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
چشمِ ساقی ہے اُدھر اور مرا دل ہے ادھر
آج ٹکراؤ ہے پیمانے سے پیمانے کا
اپنی ہی آگ میں جلنے کا مزہ ہے کچھ اور
حوصلہ شمع سے بڑھ کر نہیں پروانے کا
واعظِ شہر نے کیوں بیعتِ ساقی کر لی
اُس نے تو عہد کیا تھا مجھے بہکانے کا
زاہد و رند میں ایسی کوئی دوری تو نہیں
فاصلہ ہے، تو چھلکتے ہوئے پیمانے کا
بات بے بات اُٹھا دیتا ہے اک چھیڑ نئی
پڑ گیا ہے اُسے چسکا مجھے تڑپانے کا
بات کہتا ہے کچھ ایسی کہ نہ سمجھے کوئی
یہ بھی اک غور طلب رنگ ہے دیوانے کا
شیخ صاحب کبھی اپنوں کی طرح آ کے پئیں
مرتبہ غیر پہ کھُلتا نہیں میخانے کا
پیرِ میخانہ! تری ایک نظر کافی ہے
میں طلب گار، نہ شیشے کا، نہ پیمانے کا
چشمِ ساقی کی توجہ تھی، کہ آڑے آئی
قصد واعظ نے کیا تھا مجھے بہکانے کا
ایک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی!
سلسلہ ٹوٹ نہ جائے کہیں پیمانے کا
وہ بہار آئی نصیرؔ اور وہ اُٹھے بادل
بات ساگر کی چلے، ذکر ہو میخانے کا
(پیر نصیر الدین نصیرؔ)
نشہ ہر رند کو ہے ایک ہی پیمانے کا
لطف کر، ظلم سے قابو میں نہیں آنے کا
لوگ دیکھیں نہ تماشا ترے دیوانے کا
مدعا کس پہ عیاں ہو مرے افسانے کا
راز ہوں میں، نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
تابشِ حُسن سے یہ رنگ ہے میخانے کا
دل دھڑکتا ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
چشمِ ساقی ہے اُدھر اور مرا دل ہے ادھر
آج ٹکراؤ ہے پیمانے سے پیمانے کا
اپنی ہی آگ میں جلنے کا مزہ ہے کچھ اور
حوصلہ شمع سے بڑھ کر نہیں پروانے کا
واعظِ شہر نے کیوں بیعتِ ساقی کر لی
اُس نے تو عہد کیا تھا مجھے بہکانے کا
زاہد و رند میں ایسی کوئی دوری تو نہیں
فاصلہ ہے، تو چھلکتے ہوئے پیمانے کا
بات بے بات اُٹھا دیتا ہے اک چھیڑ نئی
پڑ گیا ہے اُسے چسکا مجھے تڑپانے کا
بات کہتا ہے کچھ ایسی کہ نہ سمجھے کوئی
یہ بھی اک غور طلب رنگ ہے دیوانے کا
شیخ صاحب کبھی اپنوں کی طرح آ کے پئیں
مرتبہ غیر پہ کھُلتا نہیں میخانے کا
پیرِ میخانہ! تری ایک نظر کافی ہے
میں طلب گار، نہ شیشے کا، نہ پیمانے کا
چشمِ ساقی کی توجہ تھی، کہ آڑے آئی
قصد واعظ نے کیا تھا مجھے بہکانے کا
ایک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی!
سلسلہ ٹوٹ نہ جائے کہیں پیمانے کا
وہ بہار آئی نصیرؔ اور وہ اُٹھے بادل
بات ساگر کی چلے، ذکر ہو میخانے کا
(پیر نصیر الدین نصیرؔ)
مدیر کی آخری تدوین: