افتخار عارف ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

محمداحمد

لائبریرین
غزل

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا
ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

تھکے ہارے ہوئے سورج کی بھیگی روشنی میں
ہواؤں سے الجھتا بادباں کیسا لگے گا

جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت
بکھر جائے گی جب عمر رواں کیسا لگے گا

اسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی
گرے گی جس گھڑی دیوار جاں کیسا لگے گا

بہت اترا رہے ہو دل کی بازی جیتنے پر
زیاں بعد از زیاں بعد از زیاں کیسا لگے گا

وہ جس کے بعد ہوگی اک مسلسل بے نیازی
گھڑی بھر کا وہ سب شور و فغاں کیسا لگے گا

ابھی سے کیا بتائیں مرگ مجنوں کی خبر پر
سلوک کوچۂ نا مہرباں کیسا لگے گا

بتاؤ تو سہی اے جان جاں کیسا لگے گا
ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

افتخار عارف​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا ہی عمدہ اور خوبصورت غزل ہے۔۔۔۔ لاجواب اشعار ہیں۔۔۔۔

جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت
بکھر جائے گی جب عمر رواں کیسا لگے گا

اسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی
گرے گی جس گھڑی دیوار جاں کیسا لگے گا

وہ جس کے بعد ہوگی اک مسلسل بے نیازی
گھڑی بھر کا وہ سب شور و فغاں کیسا لگے گا

واہ واہ
 

الف نظامی

لائبریرین
مطلع کے مصرع اول ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا سے تو بڑا روشن کلام پڑھنے کا تاثر مل رہا تھا لیکن،
کیسا لگے گا:
ابھی جو واقعات ہوئے نہیں، قبل از وقت اُن کی اداسی و پریشانی کو پڑھنے والے تک پہنچا دیا۔ کیا کمال فن ہے۔
پڑھنے والے کا موڈ خراب کرنے کا ثواب شاعر کو پہنچے۔
 
Top