ستار

سید رافع

محفلین
چکوال کے ایک گاؤں میں شام کا وقت تھا۔کچے آنگن میں سورج ڈھل رہا تھا اور سائے لمبے ہو رہے تھے۔ عصر کا وقت جا رہا تھا اور ہر طرف سبز درختوں پر چڑیوں کی تسبیح نے ایک شور سا برپا کیا ہو تھا۔ دادی جان اپنی چارپائی پر عصر کے بعد بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ پاس ہی ان کے پوتے صہیب اور پوتی ثنا زمین پر بیٹھے آپس میں بات کر رہے تھے۔ دونوں ہی شادی شدہ تھے اور ثنا چھٹی کے دن اپنے میکے آئی ہوئی تھی اور صہیب بھی آج کام سے جلدی واپس آگیا تھا۔ صہیب کی بیوی ایمن بھی اپنے میکے گئی ہوئی تھی سو گھر میں بس صہیب، ثنا اور انکے والدین ہی تھے۔ ثنا کے والدین پڑوسیوں کے چہلم کی قرآن خوانی میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ دونوں بہن بھائی باتوں باتوں میں اپنے کچھ رشتے داروں کے بارے میں شکایات کرنے لگے اور ساتھ ہی ان کے عیب گنوانا شروع کر دیے۔ کبھی کسی کی باتیں چھیڑتے، کبھی کسی کی غلطیاں یاد دلاتے۔ انکے چہرے پر نفرت کے تاثرات ابھرتے اور پھر سکون میں تبدیل ہو جاتے۔ کبھی ان کی رگیں تن جاتیں، تو کبھی نخوت سے ایک ہوں کی ایک آواز آتی۔

دادی جان مسکراتے ہوئے ان کی باتیں سنتی رہیں اور پھر آہستہ سے بولیں، "میرے بچو، ذرا میرے پاس آؤ، ایک بات بتانی ہے۔"

صہیب اور ثنا دادی کے پاس سمٹ کر بیٹھ گئے۔ دادی نے پیار سے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگیں، "بیٹا، ہم سب کو اللہ نے بنایا ہے اور اللہ نے ہمیں سکھایا ہے کہ دوسروں کے عیبوں کو ڈھانپو۔ جیسے اللہ تعالیٰ ہماری چھوٹی چھوٹی خطاؤں کو ڈھانپتا ہے اور انہیں سب سے چھپا لیتا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے عزیزوں کے عیب نہ اچھالیں۔ اگر اللہ نے کسی کی خامی پر پردہ ڈالا ہے تو ہمیں بھی اس پر پردہ ڈالنا چاہیے۔"

ثنا اور صہیب خاموش ہو کر دادی کے قریب بیٹھ گئے لیکن بدستور انکی سانس تیز چل رہی تھی، اور دادی نے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا، "بیٹا، ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور اللہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک دوسرے کے عیب نہ نکالیں۔ تم دونوں کی زندگی میں محبت اور سمجھ بوجھ ہونی چاہیے، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے عیب چھپائیں، نہ کہ انہیں دوسروں کے سامنے لائیں۔"

ثنا نے جھنجھلا کر کہا، "لیکن دادی، جب وہ کچھ ایسا کرے جو مجھے تکلیف دے، تو مجھے نہیں پتا کہ کس طرح خاموش رہوں۔"

دادی نے محبت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا، اللہ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ جب ہم کسی کے عیب دیکھیں تو ہم اسے محبت سے سمجھائیں، نہ کہ غصہ نکال کر ان کی خامیوں کو سب کے سامنے لائیں۔ اگر تم اپنے شوہر کی غلطیوں پر پردہ ڈالوں گی، تو اللہ تمہارے عیب بھی چھپائے گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خطاؤں کو چھپاتا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی خامیوں پر پردہ ڈالنا چاہیے۔ بیٹا یہی تو ہمارے اعمال ہیں۔ وہ اعمال جن سے ہماری دنیا جنت بن سکتی ہے یا تکلیف بھرا گھر"

ثنا نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا، "لیکن دادی، اگر کوئی واقعی غلطیاں کرتا ہو تو کیا ہمیں اس کی باتیں نہ کریں؟"

دادی نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا، "دیکھو بچو، اللہ نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ لوگوں کی غلطیوں کو یاد کرو اور انہیں دوسروں کے سامنے بیان کرو۔ بلکہ اللہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور انہیں محبت سے سمجھائیں۔ اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ جو دوسروں کے عیب چھپائے گا، وہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔ سوچو، اگر ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو درگزر کریں گے، تو اللہ بھی ہمارے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولے گا۔"

دادی نے ثنا سے کہا، بیٹا تم جا کر ذرا ایک گلاس پانی خود بھی پیو اور میرے اپنے بھائی کے لیے بھی لیتی آو۔

صہیب نے سر ہلایا، لیکن وہ ابھی بھی کچھ الجھا ہوا تھا۔ اس نے کہا، "دادی، کبھی کبھی ہم دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے باتیں کر لیتے ہیں۔"

دادی نے مسکراتے ہوئے اس کا کندھا تھپتھپایا اور بولیں، "بیٹا، یہی دل کی بھڑاس ہمیں اللہ سے دور کر دیتی ہے۔ جب ہم دوسروں کی باتیں کرتے ہیں، تو یہ ہمارے اپنے دل کو سخت کر دیتا ہے۔ اس کے بجائے، ہمیں چاہیے کہ اللہ سے دعا کریں کہ ہمیں بھی معاف کرے اور دوسروں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ جب بھی تمہیں کسی کے بارے میں کچھ معلوم ہو، تو اسے اپنے تک رکھو اور اس کے لئے دعا کرو، کہ اللہ اسے ہدایت دے۔"

صہیب نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، "دادی، کبھی کبھار میری بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور میں اپنی بیوی ایمن کی باتوں پر رد عمل دے دیتا ہوں۔"

دادی نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا، اللہ کا فرمان ہے کہ جو اپنے بھائی یا بیوی کے عیب چھپاتا ہے، اللہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔ ہم سب انسان ہیں، اور ہر کسی سے غلطی ہو سکتی ہے۔ لیکن جب ہم ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اللہ کی رضا کے لئے عمل کر رہے ہیں۔"

ثنا نے پانی کی ٹرے دادی کے آگے کی اور انہوں نے ایک گلاس اٹھا لیا اور دوسرا گلاس صہیب نے اٹھا کر پینا شروع کر دیا۔

ثنا نے کہا، "دادی، پھر ہم کیا کریں جب غصہ آ جائے؟"

دادی نے پیار سے کہا، "جب غصہ آ جائے تو سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگو۔ اپنے دل کو صاف رکھو اور ایک دوسرے سے بات چیت کی کوشش کرو، لیکن اس انداز میں جو احترام پر مبنی ہو۔ اللہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر کوئی غلطی کرے تو اسے محبت سے سمجھاؤ اور اس کے لئے دعا کرو۔"

دادی نے پیار سے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا، "آخر میں ایک بات یاد رکھو، اگر ہم دوسروں کے عیب ڈھونڈیں گے تو اپنے دل کی روشنی کھو دیں گے۔ دل کو صاف رکھو، جیسے اللہ ہم سے چاہتا ہے۔ محبت اور معافی کا دامن تھامے رکھو۔ اللہ بھی انہی کو پسند کرتا ہے جو دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔" دادی نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرے بچو، یاد رکھو، یہ دنیا محبت اور معافی سے ہی خوبصورت بن سکتی ہے۔ اللہ سے دوستی کرنی ہے تو دوسروں کے لئے دل میں پیار رکھو۔"

دادی جان نے ایک آخری بات کہی، "میرے بچو، اللہ کی محبت اور رحم کا راستہ ہمیشہ نرم دل سے ہوتا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے عیب چھپاتے ہیں اور اپنے دل میں محبت رکھتے ہیں، تو اللہ ہمیں اپنی محبت سے نوازتا ہے۔"

صہیب اور ثنا دادی کی باتوں سے مکمل طور پر متاثر ہو گئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے سر ہلایا۔ وہ جان گئے کہ اصل محبت اور سکون ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے اور دلوں کو صاف رکھنے میں ہے۔

دادی جان مسکراتے ہوئے آخر میں بولیں، "میرے بچو، یاد رکھو، دنیا میں سب سے بڑی کامیابی ایک دوسرے کا احترام اور محبت ہے۔"
 
بہت اچھی اور سبق آمو ز کہانی ہے ۔زبان وبیان وہی ہے جو نوجوانوں میں رائج ہے یعنی غیر کتابی لب و لہجہ جس میں زور مافی الضمیر کے ترسیل اور ابلاغ پر رہتا ہے۔محاوروں، ضرب الامثال، کہاوتوں ، تشبیہ ، کنایہ، استعارہ یا دیگر علمی اور ادبی وسائل سے تحریرکو پُررونق اور پُرکشش بنانے کی بجائے دل کی بات دل میں اُتارنے کا مقصدکارفرماہے۔رفتہ رفتہ بہتری کی طرف بڑھنے والایہ اُسلوبِ نگارش ان شاء اللہ اور نکھرکر، سنورکے ،آراستہ و پیراستہ ہوکر سامنے آئے گا۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
چکوال کے ایک گاؤں میں شام کا وقت تھا۔کچے آنگن میں سورج ڈھل رہا تھا اور سائے لمبے ہو رہے تھے۔ عصر کا وقت جا رہا تھا اور ہر طرف سبز درختوں پر چڑیوں کی تسبیح نے ایک شور سا برپا کیا ہو تھا۔ دادی جان اپنی چارپائی پر عصر کے بعد بیٹھی تسبیح پڑھ رہیں تھیں۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ پاس ہی ان کے پوتے صہیب اور پوتی ثنا زمین پر بیٹھے آپس میں بات کر رہے تھے۔ دونوں ہی شادی شدہ تھے اور ثنا چھٹی کے دن اپنے میکے آئی ہوئی تھی اور صہیب بھی آج کام سے جلدی واپس آگیا تھا۔ صہیب کی بیوی ایمن بھی اپنے میکے گئی ہوئی تھی سو گھر میں بس صہیب، ثنا اور انکے والدین ہی تھے۔ ثنا کے والدین پڑوسیوں کے چہلم کی قرآن خوانی میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ دونوں بہن بھائی باتوں باتوں میں اپنے کچھ رشتے داروں کے بارے میں شکایات کرنے لگے اور ساتھ ہی ان کے عیب گنوانا شروع کر دیے۔ کبھی کسی کی باتیں چھیڑتے، کبھی کسی کی غلطیاں یاد دلاتے۔ انکے چہرے پر نفرت کے تاثرات ابھرتے اور پھر سکون میں تبدیل ہو جاتے۔ کبھی ان کی رگیں تن جاتیں، تو کبھی نخوت سے ایک ہوں کی ایک آواز آتی۔

دادی جان مسکراتے ہوئے ان کی باتیں سنتی رہیں اور پھر آہستہ سے بولیں، "میرے بچو، ذرا میرے پاس آؤ، ایک بات بتانی ہے۔"

صہیب اور ثنا دادی کے پاس سمٹ کر بیٹھ گئے۔ دادی نے پیار سے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگیں، "بیٹا، ہم سب کو اللہ نے بنایا ہے اور اللہ نے ہمیں سکھایا ہے کہ دوسروں کے عیبوں کو ڈھانپو۔ جیسے اللہ تعالیٰ ہماری چھوٹی چھوٹی خطاؤں کو ڈھانپتا ہے اور انہیں سب سے چھپا لیتا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے عزیزوں کے عیب نہ اچھالیں۔ اگر اللہ نے کسی کی خامی پر پردہ ڈالا ہے تو ہمیں بھی اس پر پردہ ڈالنا چاہیے۔"

ثنا اور صہیب خاموش ہو کر دادی کے قریب بیٹھ گئے لیکن بدستور انکی سانس تیز چل رہی تھی، اور دادی نے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا، "بیٹا، ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور اللہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ایک دوسرے کے عیب نہ نکالیں۔ تم دونوں کی زندگی میں محبت اور سمجھ بوجھ ہونی چاہیے، اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے عیب چھپائیں، نہ کہ انہیں دوسروں کے سامنے لائیں۔"

ثنا نے جھنجھلا کر کہا، "لیکن دادی، جب وہ کچھ ایسا کرے جو مجھے تکلیف دے، تو مجھے نہیں پتا کہ کس طرح خاموش رہوں۔"

دادی نے محبت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا، اللہ نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ جب ہم کسی کے عیب دیکھیں تو ہم اسے محبت سے سمجھائیں، نہ کہ غصہ نکال کر ان کی خامیوں کو سب کے سامنے لائیں۔ اگر تم اپنے شوہر کی غلطیوں پر پردہ ڈالوں گی، تو اللہ تمہارے عیب بھی چھپائے گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خطاؤں کو چھپاتا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی خامیوں پر پردہ ڈالنا چاہیے۔ بیٹا یہی تو ہمارے اعمال ہیں۔ وہ اعمال جن سے ہماری دنیا جنت بن سکتی ہے یا تکلیف بھرا گھر"

ثنا نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا، "لیکن دادی، اگر کوئی واقعی غلطیاں کرتا ہو تو کیا ہمیں اس کی باتیں نہ کریں؟"

دادی نے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا، "دیکھو بچو، اللہ نے ہمیں یہ نہیں سکھایا کہ لوگوں کی غلطیوں کو یاد کرو اور انہیں دوسروں کے سامنے بیان کرو۔ بلکہ اللہ ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم ان کی مدد کریں اور انہیں محبت سے سمجھائیں۔ اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ جو دوسروں کے عیب چھپائے گا، وہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔ سوچو، اگر ہم ایک دوسرے کی خامیوں کو درگزر کریں گے، تو اللہ بھی ہمارے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولے گا۔"

دادی نے ثنا سے کہا، بیٹا تم جا کر ذرا ایک گلاس پانی خود بھی پیو اور میرے اپنے بھائی کے لیے بھی لیتی آو۔

صہیب نے سر ہلایا، لیکن وہ ابھی بھی کچھ الجھا ہوا تھا۔ اس نے کہا، "دادی، کبھی کبھی ہم دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے باتیں کر لیتے ہیں۔"

دادی نے مسکراتے ہوئے اس کا کندھا تھپتھپایا اور بولیں، "بیٹا، یہی دل کی بھڑاس ہمیں اللہ سے دور کر دیتی ہے۔ جب ہم دوسروں کی باتیں کرتے ہیں، تو یہ ہمارے اپنے دل کو سخت کر دیتا ہے۔ اس کے بجائے، ہمیں چاہیے کہ اللہ سے دعا کریں کہ ہمیں بھی معاف کرے اور دوسروں کی اصلاح کا ذریعہ بنائے۔ جب بھی تمہیں کسی کے بارے میں کچھ معلوم ہو، تو اسے اپنے تک رکھو اور اس کے لئے دعا کرو، کہ اللہ اسے ہدایت دے۔"

صہیب نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، "دادی، کبھی کبھار میری بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور میں اپنی بیوی ایمن کی باتوں پر رد عمل دے دیتا ہوں۔"

دادی نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا، "بیٹا، اللہ کا فرمان ہے کہ جو اپنے بھائی یا بیوی کے عیب چھپاتا ہے، اللہ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا۔ ہم سب انسان ہیں، اور ہر کسی سے غلطی ہو سکتی ہے۔ لیکن جب ہم ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپاتے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اللہ کی رضا کے لئے عمل کر رہے ہیں۔"

ثنا نے پانی کی ٹرے دادی کے آگے کی اور انہوں نے ایک گلاس اٹھا لیا اور دوسرا گلاس صہیب نے اٹھا کر پینا شروع کر دیا۔

ثنا نے کہا، "دادی، پھر ہم کیا کریں جب غصہ آ جائے؟"

دادی نے پیار سے کہا، "جب غصہ آ جائے تو سب سے پہلے اللہ سے مدد مانگو۔ اپنے دل کو صاف رکھو اور ایک دوسرے سے بات چیت کی کوشش کرو، لیکن اس انداز میں جو احترام پر مبنی ہو۔ اللہ ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر کوئی غلطی کرے تو اسے محبت سے سمجھاؤ اور اس کے لئے دعا کرو۔"

دادی نے پیار سے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا، "آخر میں ایک بات یاد رکھو، اگر ہم دوسروں کے عیب ڈھونڈیں گے تو اپنے دل کی روشنی کھو دیں گے۔ دل کو صاف رکھو، جیسے اللہ ہم سے چاہتا ہے۔ محبت اور معافی کا دامن تھامے رکھو۔ اللہ بھی انہی کو پسند کرتا ہے جو دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔" دادی نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرے بچو، یاد رکھو، یہ دنیا محبت اور معافی سے ہی خوبصورت بن سکتی ہے۔ اللہ سے دوستی کرنی ہے تو دوسروں کے لئے دل میں پیار رکھو۔"

دادی جان نے ایک آخری بات کہی، "میرے بچو، اللہ کی محبت اور رحم کا راستہ ہمیشہ نرم دل سے ہوتا ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے عیب چھپاتے ہیں اور اپنے دل میں محبت رکھتے ہیں، تو اللہ ہمیں اپنی محبت سے نوازتا ہے۔"

صہیب اور ثنا دادی کی باتوں سے مکمل طور پر متاثر ہو گئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے سر ہلایا۔ وہ جان گئے کہ اصل محبت اور سکون ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے اور دلوں کو صاف رکھنے میں ہے۔

دادی جان مسکراتے ہوئے آخر میں بولیں، "میرے بچو، یاد رکھو، دنیا میں سب سے بڑی کامیابی ایک دوسرے کا احترام اور محبت ہے۔"
ماشاءاللہ، کافی رواں دواں اسلوب ہے۔ آپ ضرور لکھا کریں۔ پڑھ کر لطف آیا۔
 
Top