سترہ اگست ظالم سے نجات کا دن

تاریخ: 17 اگست، 2017

29vc5fl.jpg

سترہ اگست ظالم سے نجات کا دن
تحریر: سید انور محمود

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تین ایسے تاریخی دن5 جولائی 1977، 4 اپریل 1979 اور 17 اگست 1988 ہیں جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور سوچ کو بدل ڈالا۔5 جولائی 1977کی صبح جب پاکستانی عوام سوکر اٹھے تو انہیں پتہ چلا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت ختم ہوچکی ہے اورپورئے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے، یعنی فوج نے سول حکومت سے بغاوت کردی تھی اور ملک پر قبضہ کرلیا تھا۔ جنرل ضیاء نے اپنی پہلی نشری تقریر میں نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا تھا، اس کا کہنا تھا کہ میرئے والد نے مجھے سچ بولنا سکھایا ہے۔نوئے دن کا وعدہ تو کبھی پورا نہیں ہوا کیونکہ ضیاءالحق ایک منافق اور جھوٹا انسان تھا ،البتہ ایک نام نہاد غیر جماعتی انتخابات 1985 میں ہوئے تھے۔جنرل ضیاء گیارہ سال سے زائد اقتدار پر قابض رہا، اس گیارہ سالہ میں اس نے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچا یا جتنا اس سے پہلے یا بعد میں کسی نے نہیں پہنچایا ۔نظریہ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق نے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا۔ جنرل ضیاء نے بھٹو سے حکومت تو چھین لی لیکن بھٹو کی شہرت اور عوام کی اس سے محبت نہ چھین سکا، سدا کا بزدل تھااس لیے بھٹو کا وجود ہی ختم کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ ایک پرانا کیس کھولا گیا، جس میں بھٹو قتل کے ملزم کے طور پر نامزد تھے، احمد رضا قصوری نے بھٹو پر اپنے والد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے سے زیادہ خوشامدی اور بزدل جسٹس انوارالحق کو ستمبر 1977 میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا۔

ضیاءالحق نے جسٹس مولوی مشتاق کو 12 جنوری 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیا، جس کو بھٹو اس لیے ناپسند تھا کہ بھٹو نے اسے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد نہیں کیا تھا۔ اس نے 18 مارچ 1978 کو بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا ، بعد میں چیف جسٹس انوارالحق کے سپریم کورٹ نےبھی بھٹو کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی اور 4 اپریل 1979 کی صبح بھٹو کو سرکاری طور پر پھانسی دینے کا پی ٹی وی کے زریعے اعلان کیا گیا۔دنیا بھر کے تما م جمہوری او راسلامی ممالک نے آمر جنرل ضیاء الحق کو اس ظلم سے باز رکھنے کےلیےاس سے اپیلیں کیں،لیکن بزدل ضیاء جانتا تھا کہ اگر ایک مرتبہ بھٹو اس کی گرفت سے باہر نکل گیا تو پھر خود اس کی خیر نہیں۔ چیف جسٹس انوارالحق کی بینچ کے ایک رکن جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات تسلیم کی کہ بھٹو کوپھانسی دینے کا فیصلہ دباو کا نتیجہ تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا کیونکہ ان کی بھٹو سے ذاتی رنجش تھی۔ نسیم حسن شاہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا۔

افغان حکومت کی دعوت پر روس نے 25 دسمبر، 1979 کو اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔جنرل ضیاءالحق جس کی حکومت کی حمایت دنیا بھر میں کم ہوگئی تھی اس کی تو جیسے عید ہوگئی ، امریکہ کو بھی اس کی ضرورت تھی ، لہذا امریکہ سے سیاسی حمایت کے ساتھ ساتھ ڈالروصول کرکے مذہب فروشی کرتا رہا۔ ڈالر کے بدلے وہ امریکہ کو ڈالر مجاہد مہیا کرتا تھا جو افغانستان جاکر روس سےنام نہاد جہاد کے نام پر لڑتے اور ڈالر کماتے تھے۔امریکا نے جنرل ضیاء کی حکومت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ملک میں جہادی کلچر فروغ پایا۔ہزاروں کی تعداد میں مدرسے کھولے گئے اور جہادیوں کی تربیت کے لیے امریکا نے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے، جس سے ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں خاصکر جماعت اسلامی ، جمیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کے علاوہ سول اور فوجی افسر شاہی نے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔جنرل ضیاء الحق ملک کے عوام پر لاٹھی، کوڑے اور پھانسیوں سے قہر ڈھارہا تھا لیکن انسانی حقوق کے چیمپین امریکا کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا وہ تو پاکستان کو استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کو زچ کرنا چاہتے تھا جس میں جنرل ضیاء نےامریکاکا پورا پورا ساتھ دیا۔

جنرل ضیاءبڑا ہوشیار اور مکار شخص تھا لیکن تاثر ایسا دیتا تھا جیسے بہت ہی سادہ لوح ہے۔ اس کی اس خوبی نےہی اس کی مکارانہ سیاست کے مختلف مراحل کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ جھوٹ بولنا جنرل ضیاء کی فطرت تھی۔ 12ا گست 1983کومجلس شوریٰ کے ساتویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا کہ نیشنل آرکائیوزمیں محفوظ قائد اعظم کی ایک ذاتی ڈائری ملی ہے جو اب تک شائع نہیں ہوئی۔ اس نے قائد اعظم کی ڈائری کے حوالے سے یہ جھوٹا انکشاف کیا کہ ان کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ”قائد اعظم سربراہ ریاست کے منصب کو انتہائی موثر اور مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اور جمہوری نظام کے خلاف تھے، ملک بھر کے میڈیا میں یہ بحث چل نکلی لیکن جب ممتاز دولتانہ اور کے ایچ خورشید نے کسی ایسی ڈائری کو موجود ہونے کی پرزور تردید کی تو یہ افسانہ اپنی موت آپ مرگیا۔ اس کے بعد ضیاءالحق یا اسکے حواریوں میں سے کسی نے اس فرضی ڈائری کا کبھی ذکر نہیں کیا۔جنرل ضیاءالحق نے اپنے گیارہ سالہ دور میں آئین میں اپنی مرضی کی ترمیمیں کیں، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نظام کو برباد کردیا۔ جنرل ضیاء نےایک نام نہاد ریفرنڈم بھی کرایا اور اپنے آپ کو کامیاب قرار دینے کےخود کو ملک کا جمہوری صدر کہنے لگا۔آٹھ سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے بعد 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا، مگر ان کو بھی تین سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔جب اپریل1988میں اوجڑی کیمپ کے دھماکے ہوئے تو جونیجو نے اس کی تحقیقاتی رپورٹ عام کرنی چاہی ،جس پر جنرل ضیاء الحق نے جونیجو کو برطرف کرکے گھر بھیج دیا۔

سترہ اگست 1988 کو جنرل ضیاءالحق فوج کے ایک پروگرام میں شریک ہوکر بہاولپور سے واپس اسلام آباد جارہا تھا کہ اس کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا اور ساتھ ہی فضا میں وہ خود بھی پھٹ گیا، جنرل ضیاءکی لاش کی شناخت اُس کی بتیسی کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اگلے دن جنرل ضیاءالحق کے لیے ایک منافقت کی گئی اور ایک بتیسی کے ساتھ جلے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں کو جنرل ضیاءالحق کی باقیات کہہ کر بغیر کسی وجہ کےاسلام آباد کی فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ بعد میں کچھ لوگوں نے فیصل مسجد کے اسٹاپ کا نام جبڑا چوک رکھ دیا۔ جنرل ضیاء کی موت پرپاکستانی عوام نے سترہ اگست کو ظالم سے نجات کا دن قرار دیا تھا۔ جنرل ضیاء کی گیارہ سالہ آمریت کی قیمت پاکستانی عوام آجتک منشیات، کلاشنکوف کلچر، نام نہادجہاد، فرقہ واریت، لسانی جھگڑوں، طالبان دہشتگرد اور پھر ان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی صورت میں چکا رہے ہیں۔آج ضیا ءالحق کی قبر پر کوئی بھی نہیں جاتا، حتیکہ اس کا بیٹا اعجاز الحق بھی نہیں، لیکن ضیا ءالحق کی روحانی اولاد نواز شریف اور ان کے حواری جو ضیاء کی باقیات کہلاتے ہیں آج بھی سیاسی اور ریاستی اقتدار پر قابض ہیں۔
 
ضیاءالحق کی برسی منانے والے آج کل خود اپنی نا اہلی پر پریشان ہیں نا ضیاءرہا نا یہ رہنے ہیں ظلم کرنے والا خود ہی اپنے ظلم میں پھس جاتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ تین تاریخی دن جن کا ذکر تحریر کے پہلے ہی جملے میں ہوا ہے وہ بھٹو صاحب کے "باقی ماندہ" پاکستان کے تین تاریخی دن تو ہو سکتے ہیں لیکن جناح کے اصلی پاکستان کے نہیں ہو سکتے کہ ان سے پہلے بھی کئی ایک ایسے تاریخی دن گذر چکے تھے "جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور سوچ کو بدل ڈالا"۔ الا یہ کہ ہم 71ء سے پہلے کے پاکستان کو 'پاکستان' ہی نہ سمجھیں۔
 
ہر انسان میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہوتی ہیں۔ کالم نگار کو جنرل ضیاءالحق کی خوبیوں کا بھی ذکر کرنا چاہئیے تھا تاکہ غیر جانبداری نظر آتی لیکن یہ مضمون تو نفرت سے بھرپور ہے۔ اگر پاکستانی عوام ضیاءالحق کی موت سے خوش ہوتے تو ان کا جنازہ اتنا بڑا اور تاریخی نہ ہوتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
ضیاء الحق نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں کئی شخصی خوبیاں پائی جاتی تھیں جن کی طرف فاضل کالم نگار نے توجہ نہ کی۔ اس لیے اس مضمون کو کافی حد تک یک رُخا کہا جا سکتا ہے۔
 
یہ تین تاریخی دن جن کا ذکر تحریر کے پہلے ہی جملے میں ہوا ہے وہ بھٹو صاحب کے "باقی ماندہ" پاکستان کے تین تاریخی دن تو ہو سکتے ہیں لیکن جناح کے اصلی پاکستان کے نہیں ہو سکتے کہ ان سے پہلے بھی کئی ایک ایسے تاریخی دن گذر چکے تھے "جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور سوچ کو بدل ڈالا"۔ الا یہ کہ ہم 71ء سے پہلے کے پاکستان کو 'پاکستان' ہی نہ سمجھیں۔
آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے میں نے بھی ’’باقی ماندہ‘‘ پاکستان کو ہی مضمون کا حصہ بنایا ہے۔۔۔۔۔ آپکے تبصرئے کا شکریہ
 

زیک

مسافر
یہ تین تاریخی دن جن کا ذکر تحریر کے پہلے ہی جملے میں ہوا ہے وہ بھٹو صاحب کے "باقی ماندہ" پاکستان کے تین تاریخی دن تو ہو سکتے ہیں لیکن جناح کے اصلی پاکستان کے نہیں ہو سکتے کہ ان سے پہلے بھی کئی ایک ایسے تاریخی دن گذر چکے تھے "جنہوں نے پاکستان کی سیاست اور سوچ کو بدل ڈالا"۔ الا یہ کہ ہم 71ء سے پہلے کے پاکستان کو 'پاکستان' ہی نہ سمجھیں۔
اسی لئے آج کا پاکستان ضیاء الحق کا پاکستان ہے
 
ہر انسان میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہوتی ہیں۔ کالم نگار کو جنرل ضیاءالحق کی خوبیوں کا بھی ذکر کرنا چاہئیے تھا تاکہ غیر جانبداری نظر آتی لیکن یہ مضمون تو نفرت سے بھرپور ہے۔ اگر پاکستانی عوام ضیاءالحق کی موت سے خوش ہوتے تو ان کا جنازہ اتنا بڑا اور تاریخی نہ ہوتا۔

ایسا کریں کہ ضیاء کی خوبیاں آپ لکھ دیں میرئے پاس تو اس کی صرف برائیاں ہی ہیں۔ رہا جنازئے کا سائز تو ممتاز قادری کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا، جنازوں سے نہیں لوگوں کے اعمال سے انکے بارئے میں کچھ کہا جاتا ہے۔
 
ہر گزرتا دن یہ بات مزید آشکار کرتا ہے کہ شکر ہے اعمال کو تولنے کا فیصلہ اللہ نے انسانوں کے ہاتھوں میں نہیں دیا !! :)
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ضیاء الحق نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں کئی شخصی خوبیاں پائی جاتی تھیں جن کی طرف فاضل کالم نگار نے توجہ نہ کی۔ اس لیے اس مضمون کو کافی حد تک یک رُخا کہا جا سکتا ہے۔
کیا آپ اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ بظاہر جنہوں نے غاصبانہ قبضہ نہیں کیا مثلا وہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آئے تو آپ کس جہاں میں رہ رہے ہیں؟؟؟
یہاں کوئی ووٹوں سے مسند نشین نہیں ہوتا...
ہاں مگر امریکہ کی آشیرباد سے...
سارے غاصب ہیں عوام کا مال اور تمام حقوق غصب کررہے ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
ایسا کریں کہ ضیاء کی خوبیاں آپ لکھ دیں میرئے پاس تو اس کی صرف برائیاں ہی ہیں۔ رہا جنازئے کا سائز تو ممتاز قادری کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا، جنازوں سے نہیں لوگوں کے اعمال سے انکے بارئے میں کچھ کہا جاتا ہے۔
بھٹو کی برائیوں کی بھی قطار ہے...
کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں...
البتہ اگلے لوگ اپنی برائیوں کے باوجود اس وطن کی بھلائی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرگئے...
بعد میں آنے والے محض خون آشام درندے بن کر رہ گئے...
زرداری صاحب نے ملک پر پانچ سالہ دور حکومت میں مجال ہے جو کوئی ترقیاتی کام کیا ہو سوائے اپنی ذاتی ترقی کے...
سندھ پر آٹھ سالہ دور حکومت میں صرف کراچی میں سڑکوں سے کوڑا اٹھایا گیا نہ گٹر صاف ہوئے نہ ہی کسی سڑک کی مرمت ہوئی... آٹھ سال میں آٹھ سڑکیں بھی نہ بن سکیں...
کراچی سمیت پورا سندھ کوڑے کا ڈھیر اور گرد کا کھنڈر بن چکا ہے...
دوسروں کو وہ برا کہے جو خود فرشتہ ہو اور کوڑھ کی اس کاشت کی پیداوار نہ ہو...
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
کیا آپ اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ بظاہر جنہوں نے غاصبانہ قبضہ نہیں کیا مثلا وہ عوام کے ووٹوں کے ذریعے اقتدار میں آئے تو آپ کس جہاں میں رہ رہے ہیں؟؟؟
یہاں کوئی ووٹوں سے مسند نشین نہیں ہوتا...
ہاں مگر امریکہ کی آشیرباد سے...
سارے غاصب ہیں عوام کا مال اور تمام حقوق غصب کررہے ہیں!!!
ہر کسی نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے صاحب! ضیاء الحق کی شخصی خوبیاں ایک طرف، یہ فرمائیے کہ کیا بھٹو صاحب کے جرائم کی فہرست اتنی طویل تھی کہ انہیں ایسی کڑی سزا دی جاتی۔
 
بھٹو کی برائیوں کی بھی قطار ہے...
کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں...
البتہ اگلے لوگ اپنی برائیوں کے باوجود اس وطن کی بھلائی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ کرگئے...
بعد میں آنے والے محض خوں آشام درندے بن کر رہ گئے...
زرداری صاحب نے ملک پر پانچ سالہ دور حکومت مجال ہے جو کوئی ترقیاتی کا کیا ہو سوائے اپنی ذاتی ترقی کے...
سندھ پر آٹھ سالہ دور حکومت میں صرف کراچی میں سڑکوں سے کوڑا اٹھایا گیا نہ گٹر صاف ہوئے نہ ہی کسی سڑک کی مرمت ہوئی... آٹھ سال میں آٹھ سڑکیں بھی نہ بن سکیں...
کراچی سمیت پورا سندھ کوڑے کا ڈھیر اور گرد کا کھنڈر بن چکا ہے...
دوسروں کو وہ برا کہے جو خود فرشتہ ہو اور کوڑھ کی اس کاشت کی پیداوار نہ ہو...

جناب سید عمران صاحب میرئے مضمون کا حدف ضیاءالحق تھا، اس لیے سارا مضمون اس پر لکھا ہے، بھٹوکی برائیاں، آصف زرداری کی لوٹ مار، کراچی کا کوڑا، میں ان سب پر لکھ چکا ہوں اور وہ سب کچھ اس ویب سائٹ پر موجود ہے۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
جناب سید عمران صاحب میرئے مضمون کا حدف ضیاءالحق تھا، اس لیے سارا مضمون اس پر لکھا ہے، بھٹوکی برائیاں، آصف زرداری کی لوٹ مار، کراچی کا کوڑا، میں ان سب پر لکھ چکا ہوں اور وہ سب کچھ اس ویب سائٹ پر موجود ہے، بس ذرا اپنے کوڑھ معغز کا علاج کریں اور تھوڑا تمیز سیکھیں۔
پیچھے آپ نے کیا کام کیا اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔۔۔
بات اس مضمون کے حوالے سے ہورہی ہے۔۔۔
رہی بات کوڑھ مغز اور بدتمیز ہونے کی تو۔۔۔
آپ نے کس اعلیٰ اخلاق اور خوش مغزی کا ثبوت دیا۔۔۔
مرنے کے بعد کسی کی لاش بھنبھوڑنا کسی اچھی تہذیب کا خاصہ ہے؟؟؟
 

سید عمران

محفلین
ہر کسی نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے صاحب! ضیاء الحق کی شخصی خوبیاں ایک طرف، یہ فرمائیے کہ کیا بھٹو صاحب کے جرائم کی فہرست اتنی طویل تھی کہ انہیں ایسی کڑی سزا دی جاتی۔
اس اصول کی رو سے کیا ضیاء الحق اور ان کے ساتھ موجود لوگ اس سزا کے مستحق تھے؟؟؟
 
ہر گزرتا دن یہ بات مزید آشکار کرتا ہے کہ شکر ہے اعمال کو تولنے کا فیصلہ اللہ نے انسانوں کے ہاتھوں میں نہیں دیا !! :)

آپکی بات سے سو فیصد اتفاق لیکن اعمال کو دیکھتے ہوئے ہی ہم کسی کے بارئے اچھا یا برا کہتے ہیں، فیصلہ کرنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے۔ تبصرہ کےلیے شکر گذار ہوں۔
 
Top