نوید ناظم
محفلین
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے سب خواب بہہ جایئں گے ورنہ
ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے
یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر
کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے
وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر
مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے
جو خواہش قتل کر کے گاڑ دی تھی
اُسے تیری نظر زندہ نہ کر دے
کہا تو ہے وفا کا اُس کو میں نے
مگر ڈر ہے کہ وہ الٹا نہ کر دے
مجھے یہ شخص مجنوں لگ رہا ہے
کہیں یہ شہر کو صحرا نہ کر دے
دل اُس سے مانگ کر دیکھوں گا اک بار
نہ کرتا ہے اگر، اچھا، نہ کر دے
تِرا غم مجھ سے لے جائے نہ کوئی
مجھے کوئی یونہی آدھا نہ کر دے
سبھی دشمن سمجھتے ہیں اُسے پھر
کسی کو بس خدا سچا نہ کر دے
بہت ہنستا ہے شب زادوں پہ وہ بھی
اُسے یہ روشنی اندھا نہ کر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے سب خواب بہہ جایئں گے ورنہ
ستم گر آنکھ کو دریا نہ کر دے
یہاں ہر اک کی مٹھی میں ہے پتھر
کسی دن وہ مجھے شیشہ نہ کر دے
وہ ایڑھی مار دے بنجر زمیں پر
مجھے کہنا اگر چشمہ نہ کر دے
جو خواہش قتل کر کے گاڑ دی تھی
اُسے تیری نظر زندہ نہ کر دے
کہا تو ہے وفا کا اُس کو میں نے
مگر ڈر ہے کہ وہ الٹا نہ کر دے
مجھے یہ شخص مجنوں لگ رہا ہے
کہیں یہ شہر کو صحرا نہ کر دے
دل اُس سے مانگ کر دیکھوں گا اک بار
نہ کرتا ہے اگر، اچھا، نہ کر دے
تِرا غم مجھ سے لے جائے نہ کوئی
مجھے کوئی یونہی آدھا نہ کر دے
سبھی دشمن سمجھتے ہیں اُسے پھر
کسی کو بس خدا سچا نہ کر دے
بہت ہنستا ہے شب زادوں پہ وہ بھی
اُسے یہ روشنی اندھا نہ کر دے