الف نظامی
لائبریرین
ستیارتھ پرکاش میں ہندو مناظر دیانند نے موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے بارہ چشموں کے پھوٹنے کا انکار کرتے ہوئے لکھا کہ جو قدرتی اصول ہیں مثلا آگ گرم ، پانی ٹھنڈا وغیرہ ان کی طبعی صفت کو ایشور بھی نہیں بدل سکتا۔
تو صدر الافاضل حضرت مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
پنڈت جی کے نزدیک اس عقیدہ کے بموجب ناممکن ہے کہ بچھو کا طبعی خواص یعنی ڈنک مارنا اور کاٹنا بدل جائے۔ یہ بات پنڈت دیانند کے نزدیک ناممکن بھی ہے اور ایشور کے مقدور سے باہر بھی کہ اگر پنڈت جی کا ایشور چاہے بھی کہ بچھو کاٹنا چھوڑ دے تو اس بیچارے کے چاہے سے کچھ نہ ہو اور بچھو ڈنک مارنے سے باز نہ آئے۔ اپنے عقیدہ کے بموجب ایشور کے یہ اختیارات دیکھتے ہوئے ایک پتھر سے بارہ چشموں کا برامد ہونا ناممکن سمجھ گئے تو کوئی تعجب نہیں مگر واقعات ان کے اس اعتقاد کو باطل کر دیں تو بیچارے کے بس کی بات نہیں۔ زمانہ پاک حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام بہت دور ہو چکا اور اسی بھروسہ پر پنڈت جی نے ان کے معجزہ کا انکار کر دیا کہ نہ اب وہ زمانہ لوٹ کر آئے گا نہ پنڈت جی کو کوئی ذلیل کر سکے گا۔ مگر اس بیچارے کو یہ خیال نہ آیا کہ غلامان حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی کرامتیں آج بھی دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہیں وہ پنڈت جی کے عقیدہ کا بطلان ظاہر کر دیں گی۔
امروہہ ضلع مراد آباد میں آستانہ حضرت شاہ ولایت صاحب قدس سرہ العزیز میں ہر زمانہ و ہر موسم میں ہزارہا بچھو ملتے ہیں اور احاطہ درگاہ کے اندر کوئی بچھو کسی طرح نہیں کاٹتا، ہاتھ پر رکھئے ، خواہ گلے میں بچھووں کا ہار بنا کر ڈالئے یا بچھو کے ڈنک پر ہاتھ رکھئے کسی طرح وہ نہیں کاٹتا اور اس کا وہ طبعی خاصہ پلٹ جاتا ہے جس کو پنڈت جی کا ایشور بھی نہیں پلٹ سکتا تھا، تو اب پنڈت جی بتائیں کہ ایسی ناممکن بات جو ان کے عقیدہ پر ایشور کے اختیار میں بھی نہ تھی کس طرح واقع ہو گئی اور اس کا استحالہ کہاں چلا گیا اور ایشور سے بڑھ کر کونسی قدرت ہے جس نے اپنا کرشمہ دکھایا۔ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا نہیں جس کو مکر جائے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے لانا ممکن نہ ہو۔ یہ کرامت آج ظاہر ہے۔ لاکھوں کفار دیکھ چکے ہیں۔ روزانہ خلق خدا اس تجربے اور مشاہدے کرتی ہے۔ جس آریہ کا دل چاہے ، امروہہ جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ جو قادر مطلق اپنے مقبولانِ بارگاہ کے ہاتھوں پر ایسے عجائب کا اظہار فرماتا ہے اس کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے عصا سے بارہ چشمے ظاہر فرما دے۔
( احقاقِ حق ، صفحہ 166-167 )
تو صدر الافاضل حضرت مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
پنڈت جی کے نزدیک اس عقیدہ کے بموجب ناممکن ہے کہ بچھو کا طبعی خواص یعنی ڈنک مارنا اور کاٹنا بدل جائے۔ یہ بات پنڈت دیانند کے نزدیک ناممکن بھی ہے اور ایشور کے مقدور سے باہر بھی کہ اگر پنڈت جی کا ایشور چاہے بھی کہ بچھو کاٹنا چھوڑ دے تو اس بیچارے کے چاہے سے کچھ نہ ہو اور بچھو ڈنک مارنے سے باز نہ آئے۔ اپنے عقیدہ کے بموجب ایشور کے یہ اختیارات دیکھتے ہوئے ایک پتھر سے بارہ چشموں کا برامد ہونا ناممکن سمجھ گئے تو کوئی تعجب نہیں مگر واقعات ان کے اس اعتقاد کو باطل کر دیں تو بیچارے کے بس کی بات نہیں۔ زمانہ پاک حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام بہت دور ہو چکا اور اسی بھروسہ پر پنڈت جی نے ان کے معجزہ کا انکار کر دیا کہ نہ اب وہ زمانہ لوٹ کر آئے گا نہ پنڈت جی کو کوئی ذلیل کر سکے گا۔ مگر اس بیچارے کو یہ خیال نہ آیا کہ غلامان حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی کرامتیں آج بھی دنیا کی نگاہوں کے سامنے ہیں وہ پنڈت جی کے عقیدہ کا بطلان ظاہر کر دیں گی۔
امروہہ ضلع مراد آباد میں آستانہ حضرت شاہ ولایت صاحب قدس سرہ العزیز میں ہر زمانہ و ہر موسم میں ہزارہا بچھو ملتے ہیں اور احاطہ درگاہ کے اندر کوئی بچھو کسی طرح نہیں کاٹتا، ہاتھ پر رکھئے ، خواہ گلے میں بچھووں کا ہار بنا کر ڈالئے یا بچھو کے ڈنک پر ہاتھ رکھئے کسی طرح وہ نہیں کاٹتا اور اس کا وہ طبعی خاصہ پلٹ جاتا ہے جس کو پنڈت جی کا ایشور بھی نہیں پلٹ سکتا تھا، تو اب پنڈت جی بتائیں کہ ایسی ناممکن بات جو ان کے عقیدہ پر ایشور کے اختیار میں بھی نہ تھی کس طرح واقع ہو گئی اور اس کا استحالہ کہاں چلا گیا اور ایشور سے بڑھ کر کونسی قدرت ہے جس نے اپنا کرشمہ دکھایا۔ یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا نہیں جس کو مکر جائے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے لانا ممکن نہ ہو۔ یہ کرامت آج ظاہر ہے۔ لاکھوں کفار دیکھ چکے ہیں۔ روزانہ خلق خدا اس تجربے اور مشاہدے کرتی ہے۔ جس آریہ کا دل چاہے ، امروہہ جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ جو قادر مطلق اپنے مقبولانِ بارگاہ کے ہاتھوں پر ایسے عجائب کا اظہار فرماتا ہے اس کی قدرت سے کیا بعید ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے عصا سے بارہ چشمے ظاہر فرما دے۔
( احقاقِ حق ، صفحہ 166-167 )