"کلر کھٹن کھوہڑی ، چینا ریت نہ گڈ وے اڑیا "
نایاب بھائی نے جس قدر حسن ظن کا اظہار فرمایا ہے، اس کا عشر عشیر بھی مجھے مل جائے، تو خوش نصیبی ہے ، بہر حال ان کی محبت بھری خوش گمانی کے لیے بھی میں ان کا تہ دل سے شکرگزار ہوں۔
اوپر دی گئی سطر کا جو ترجمہ اس فقیر کو سمجھ آیا ہے، وہ کچھ یوں ہے :
"اے دوست، کلراٹھی زمین میں جوہڑ ہی بنتے ہیں،سو اس میں ڈیرہ لگانے کی نہ سوچ۔۔۔ اور ریتلی زمین اس قابل نہیں ہوتی ، کہ وہاں چاول کی فصل، جسے بہت پانی کی ضرورت ہوتی ہے، کاشت کی جائے، کیونکہ وہ تو پانی پیتی جائے گی اور فصل کو کچھ بھی نہ ملے گا اس لیے میں تیری منت کرتا ہوں کہ چینا (چاول، سرائیکی میں ) ریت میں مت اگانے کی کوشش کرو،۔۔۔۔ دو تمثیلیں بیان کی گئی ہیں اور دونوں انسان کو اس کی قدر و قیمت کا احساس دلاتی ہیں ، کہ تم دنیا نامی اس کلراٹھی زمین میں ڈیرہ لگانے کی کوشش کر رہے ہو، تمہیں خبر بھی ہے، کہ یہ تو اس قابل ہی نہیں ہے، کہ اس میں مستقل قیام کیا جا سکے، کیونکہ کلراٹھی زمینوں میں بہت جلد پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔۔دوسری طرف ریتلی زمین، جسے ہمارے نواح میں "میَرا زمین"بھی کہتے ہیں ، اس کی خاصیت ہے، کہ جتنا بھی پانی لگائیں، اسے فوراً پی جاتی ہے، ایسی زمین چاول جیسی قیمتی فصل کے لیے ہر گز موزوں نہیں ہوتی۔۔۔اسی طرح انسان کو سمجھایا گیا ہے، کہ اپنی جہد کے بیج کو صحیح زمین کے لیے بچا کر رکھو۔۔۔ دنیا اس قابل نہیں ، کہ اپنی کل کاوش اس بے وفا کے نام کر دو۔ "
مشہور مغنی پٹھانے خاں ایک گیت میں گویا ہوتے ہیں :
چینا ایں چھڑیندا یار۔۔۔
پہلے اوکھلی صاف کرائیں ۔۔
روڑا مٹی دھول ہٹائیں
فیر اوکھلی وچ چینا پائیں
چھج ۔۔۔ دا رکھیں تیار ۔۔۔
چینا ایں چھڑیندا یار۔۔۔
اس ترجمہ اور تفہیم سے اہل علم اختلاف کا حق رکھتے ہیں ، مجھ ناقص العلم کی فہم کے مطابق جو کچھ ہے، وہ پیش خدمت ہے۔