گُلِ یاسمیں
لائبریرین
صفحہ 96
بنگالی ادب اور ایک گمنام شاعرہ
کسی ملک کی حیاتِ قومی کا مطالعہ کرنے کے لئے جن پہلوؤں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ان میں سے ادبیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ادب کے ذریعے انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں ذہنیتوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ قوم لائقِ نفرین ہے جس کے ادبیات میں ہر قسم کا رطب و یابس موجود ہو۔ غائر نظر سے دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کم از کم عصر جدید میں خوب و زشت کی بیشتر ذمہ داری ان حاملانِ ادب پر عائد ہوتی ہے جو رسائل ادبیّہ کے مدیر یا دارالتصانیف کے ناظم و ناشر ہیں۔ اعتراض ہو سکتا ہے کہ موردِ الزام یا لائقِ تحسین ان ہستیوں کو کیوں نہ ٹہرایا جائےجن کی نگارش کاغذ پر کثیف یا لطیف نقوش پیدا کرتی ہے۔ یہ صرف اس حد تک درست ہے کہ ادب شخصی تخیلات ، جذبات اور احساسات کا پرتو ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کی کاوش دماغی انہی حاملانِ ادب کی فرمائشات اور ذوق کی بلندی و پستی کے تابع ہوتی ہے۔
تخلیق ادب کے اس عمیق نکتہ پر غور کرنے سے پہلے اس امر کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہر ادب میں دو عناصر پائے جاتے ہیں۔ پہلا اکتسابی یا ارثی کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو ایک فاتح قوم مفتوح قوم کے لئے یا ایک نسل دوسری نسل کے لئے بطور ورثہ چھوڑ جاتی ہے۔
صفحہ 97
مثلاً یورپ میں یونان کا ادب روم کو ملا، یا ہندوستان میں ایرانی اور بعد میں انگریزی ادبیات کے نقوش یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ پر مرقسم ہو گئے۔ ایسی صورت میں اسلوب بیان کرنے کے اندر تصنع اور آورد کو زیادہ دخل ہوتا ہے، اور صداقت و سادگی کا فقدان۔جذبات کے پیکر غیر فطری لباس میں نظر آتے ہیں استعارے اور تشبیہات بھی مانگے کے ہوتے ہیں۔
دوسرا عنصر وہ ہے جسے طبعی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ رنگ صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کہ ذاتی ماحول کے مطابق اور خالص انفرادی تاثرات کے بموجب اپنے جذبات کی ترجمانی دل سے کی جائے۔ اس کے ذریعے ہم کائینات کے پوشیدہ راز معلوم کر کے دوسروں کو سمجھا دیتے ہیں اور نہ مٹنے والے نقوش ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہندوستان میں مختلف زبانوں کے بے شمار رسائل شائع ہو رہے ہیں اور ہر سال سینکڑوں کتابیں تصنیف ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی خالص ہندوستانی پیدا وار نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اردو ہی کو لیجئیے۔ ایرانی رنگ تغزل اور انگریزی طرزِ فسانہ نویسی اس قدر حاوی ہے کہ اگر کوئی طبعزاد چیز بھی لکھی جائے تو اسے طبعزاد ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم بنگال ایک ایسا صوبہ ہے جس کو اس کلیّہ سے مستثنٰے کیا جا سکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ابتدا ہی سے اس کا خزینہء ادب اس قدر لبریز تھا کہ بیرونی بھیک کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اور اگر کسی نے نذرانہ پیش بھی کیا تو خود دار طبیعت نے اس کی اثر آفرینی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اس وقت بھی جب کہ یہاں انگریزی معاشرت کے جراثیم بکثرت موجود ہیں۔
صفحہ 98
وہ اپنے شعار قومی اور روایاتِ ملکی پر قانع ہیں۔
علاوہ ازیں زبان کی نزاکت، اس کے فطری لوچ اور قدرتی فضاؤں کے لحاظ سے بھی بنگال خوش نصیب ہے۔ ہر شاعر اور ہر فسانہ نویس اپنے صحیح جذبات کو حقیقی رنگ میں بیان کرنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ اسی لئے اس میں حد درجہ بے ساختہ پن پایا جاتا ہے۔ شاعری کے ضمن میں اگر کبھی محبوب کو یاد کیا گیا تو بالکل اس طرح گویا وہ سامنے موجود ہے۔ اسی طرح افسانے کے واقعات آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ مرد عورت کو یاد کر کے خون کے آنسو بہاتا ہے اور عورت مرد کے فراق میں جاں بلب نظر آتی ہے۔ اردو کی طرح نہیں کہ محبوب کو ہر صورت میں صنف قوی سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
شاعری کے لئے آلام حیات اور آرزوؤں کی پامالی بہت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر صحیح جذبات بیدار نہیں ہوتے۔ مرد اپنے غمگین دل کی افسردگی کو سینکڑوں ذرائع سے محو کر سکتا ہے ۔ یار دوستوں کی بے تکلف محفل میں اُٹھ بیٹھ کر، مختلف تفریحات میں حصہ لے کر ، اقتصادی مشاغل میں منہمک رہ کر، وہ ان کلفتوں کو جلد ہی بھول جاتا ہے۔ جو اس کی روح کے لئے بارِ گراں بنتی ہیں۔ برخلاف اس کے صنفِ نازک کے لئے جس کی ہر آزادی پر بھی سینکڑوں پابندیاں عائد ہوتی ہیں، مقسوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو سینہ ہی میں پرورش کرے۔ اور کبھی ان کی تسکین کا خیال بھی نہ کرے۔ چنانچہ میں سمجھتی ہوں کہ ایک عورت کے اعماقِ قلب سے نکلے ہوئے گیت یا اس کے قلم سے لکھے ہوئے افسانے میں جتنی صداقت ہو سکتی ہے ، مرد کے ہاں ممکن نہیں۔
صفحہ 99
اسی لئے میں نے ان سطور میں ایک خاتون کی شاعرانہ شخصیت کے لئے مخصوص کیا ہے۔
سُربالا دیوی۔۔۔ میرے وطنِ عزیز کی بے مثل شاعرہ جس کا پاکیزہ کلام ہر ملک کے لئے ایک نمونہ ء ادب بن سکتا ہے۔ اس قدر گمنامی کے پردہ میں زندگی بسر کر رہی ہے کہ خود بنگال کے بڑے بڑے ادب نواز طبقوں میں اس کا نام تک سننے میں نہیں آیا۔ جس زمانہ میں یہ شانتی نکیتن کے اندر موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھ سے ملاقات ہوئی۔ نہایت متین و سنجیدہ، کم سخن اور آنکھوں میں ایک وحشت سی تھی، پہلے تو میں اس کی فطرت سمجھ ہی نہ سکی۔ خیال ہوا کہ شاید دیوانی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اسے مطالعہ ء قدرت کا بے حد شوق ہے۔ بارہا میں نے دیکھا کہ موسم سرما کی بہتے ہوئے پانی کو منجمد کر دینے والی خنک راتوں میں وہ صحن چمن میں بیٹھی ماہ و انجم سے ہمکلام ہے۔ جس دن چاند پورے شباب پر ہوتا وہ اکثر قریب کے ایک چشمے کے کنارے اپنا رباب لے کر چلی جاتی۔ اور سکوت شب کو اپنے دلنواز نغمے سنا کر بیدار کر دیتی۔یوں دوسرے شعراء کا کلام بھی اسے یاد تھا مگر عموماً اپنی ہی غزلیں گاتی تھی۔وہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ حقیقت نگر آنکھیں قدرت کی جمال آفرین کیفیتوں میں اس حسن کا مطالعہ کر سکتی ہیں جو ایک شاہدِ رعنا کے ظاہری خدوخال یا خود ارادی ناز و انداز میں کبھی ممکن نہیں۔
ایک رات کا منظر وہ ان الفاظ میں پیش کرتی ہے
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی۔
جب ٹھنڈے چشمے کی سنجیدہ روانی میں مدہم سروں کا باجا بجتا تھا۔
صفحہ 100
جب سرد ہوا کے ہلکے جھونکوں سے
ننھی شاخوں پر سبز پتے رقص کرتے تھے
جب سُرمئی رنگ کی کہر کے دھندلے پردوں سے
چاند کی سنہری کرنیں چھن چھن کر آتی تھیں
جب بھیانک جنگل کے سکوتِ مطلق میں
وحشی درندے تھم تھم کر چلاتے تھے
جب خنکی و دہشت کے اس ہوش ربا عالم میں
مجھے پرمیشور آ آ کر تسکین دیتے تھے
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی
بچپن اور بچپن کی بے فکری کا زمانہ اور اس زمانے کی معصومیت مرتے دم تک یاد آتی ہے۔اس کھوئے ہوئے عہد زریں کا نوحہ ہر شخص کی زبان سے سن لو۔ لیکن صنف نازک جس نرالے انداز میں اس کو یاد کرتی ہے، وہ اسی کا حصہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار سُربالا دیوی اپنی مبدرجہ ذیل نظم کو گاتے گاتے خود رونے لگی تھی۔ ( ترجمہ میں وہ خوبی کہاں جو اصل میں ہے)
کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا
نہ کوئی فکر ، نہ غمگین جذبات کا ہجوم
بنگالی ادب اور ایک گمنام شاعرہ
کسی ملک کی حیاتِ قومی کا مطالعہ کرنے کے لئے جن پہلوؤں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ان میں سے ادبیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ادب کے ذریعے انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں ذہنیتوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اس لئے وہ قوم لائقِ نفرین ہے جس کے ادبیات میں ہر قسم کا رطب و یابس موجود ہو۔ غائر نظر سے دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کم از کم عصر جدید میں خوب و زشت کی بیشتر ذمہ داری ان حاملانِ ادب پر عائد ہوتی ہے جو رسائل ادبیّہ کے مدیر یا دارالتصانیف کے ناظم و ناشر ہیں۔ اعتراض ہو سکتا ہے کہ موردِ الزام یا لائقِ تحسین ان ہستیوں کو کیوں نہ ٹہرایا جائےجن کی نگارش کاغذ پر کثیف یا لطیف نقوش پیدا کرتی ہے۔ یہ صرف اس حد تک درست ہے کہ ادب شخصی تخیلات ، جذبات اور احساسات کا پرتو ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کی کاوش دماغی انہی حاملانِ ادب کی فرمائشات اور ذوق کی بلندی و پستی کے تابع ہوتی ہے۔
تخلیق ادب کے اس عمیق نکتہ پر غور کرنے سے پہلے اس امر کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہر ادب میں دو عناصر پائے جاتے ہیں۔ پہلا اکتسابی یا ارثی کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو ایک فاتح قوم مفتوح قوم کے لئے یا ایک نسل دوسری نسل کے لئے بطور ورثہ چھوڑ جاتی ہے۔
صفحہ 97
مثلاً یورپ میں یونان کا ادب روم کو ملا، یا ہندوستان میں ایرانی اور بعد میں انگریزی ادبیات کے نقوش یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ پر مرقسم ہو گئے۔ ایسی صورت میں اسلوب بیان کرنے کے اندر تصنع اور آورد کو زیادہ دخل ہوتا ہے، اور صداقت و سادگی کا فقدان۔جذبات کے پیکر غیر فطری لباس میں نظر آتے ہیں استعارے اور تشبیہات بھی مانگے کے ہوتے ہیں۔
دوسرا عنصر وہ ہے جسے طبعی بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ رنگ صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کہ ذاتی ماحول کے مطابق اور خالص انفرادی تاثرات کے بموجب اپنے جذبات کی ترجمانی دل سے کی جائے۔ اس کے ذریعے ہم کائینات کے پوشیدہ راز معلوم کر کے دوسروں کو سمجھا دیتے ہیں اور نہ مٹنے والے نقوش ہمیشہ کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہندوستان میں مختلف زبانوں کے بے شمار رسائل شائع ہو رہے ہیں اور ہر سال سینکڑوں کتابیں تصنیف ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی خالص ہندوستانی پیدا وار نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اردو ہی کو لیجئیے۔ ایرانی رنگ تغزل اور انگریزی طرزِ فسانہ نویسی اس قدر حاوی ہے کہ اگر کوئی طبعزاد چیز بھی لکھی جائے تو اسے طبعزاد ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم بنگال ایک ایسا صوبہ ہے جس کو اس کلیّہ سے مستثنٰے کیا جا سکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ابتدا ہی سے اس کا خزینہء ادب اس قدر لبریز تھا کہ بیرونی بھیک کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اور اگر کسی نے نذرانہ پیش بھی کیا تو خود دار طبیعت نے اس کی اثر آفرینی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اس وقت بھی جب کہ یہاں انگریزی معاشرت کے جراثیم بکثرت موجود ہیں۔
صفحہ 98
وہ اپنے شعار قومی اور روایاتِ ملکی پر قانع ہیں۔
علاوہ ازیں زبان کی نزاکت، اس کے فطری لوچ اور قدرتی فضاؤں کے لحاظ سے بھی بنگال خوش نصیب ہے۔ ہر شاعر اور ہر فسانہ نویس اپنے صحیح جذبات کو حقیقی رنگ میں بیان کرنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ اسی لئے اس میں حد درجہ بے ساختہ پن پایا جاتا ہے۔ شاعری کے ضمن میں اگر کبھی محبوب کو یاد کیا گیا تو بالکل اس طرح گویا وہ سامنے موجود ہے۔ اسی طرح افسانے کے واقعات آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ مرد عورت کو یاد کر کے خون کے آنسو بہاتا ہے اور عورت مرد کے فراق میں جاں بلب نظر آتی ہے۔ اردو کی طرح نہیں کہ محبوب کو ہر صورت میں صنف قوی سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
شاعری کے لئے آلام حیات اور آرزوؤں کی پامالی بہت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر صحیح جذبات بیدار نہیں ہوتے۔ مرد اپنے غمگین دل کی افسردگی کو سینکڑوں ذرائع سے محو کر سکتا ہے ۔ یار دوستوں کی بے تکلف محفل میں اُٹھ بیٹھ کر، مختلف تفریحات میں حصہ لے کر ، اقتصادی مشاغل میں منہمک رہ کر، وہ ان کلفتوں کو جلد ہی بھول جاتا ہے۔ جو اس کی روح کے لئے بارِ گراں بنتی ہیں۔ برخلاف اس کے صنفِ نازک کے لئے جس کی ہر آزادی پر بھی سینکڑوں پابندیاں عائد ہوتی ہیں، مقسوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو سینہ ہی میں پرورش کرے۔ اور کبھی ان کی تسکین کا خیال بھی نہ کرے۔ چنانچہ میں سمجھتی ہوں کہ ایک عورت کے اعماقِ قلب سے نکلے ہوئے گیت یا اس کے قلم سے لکھے ہوئے افسانے میں جتنی صداقت ہو سکتی ہے ، مرد کے ہاں ممکن نہیں۔
صفحہ 99
اسی لئے میں نے ان سطور میں ایک خاتون کی شاعرانہ شخصیت کے لئے مخصوص کیا ہے۔
سُربالا دیوی۔۔۔ میرے وطنِ عزیز کی بے مثل شاعرہ جس کا پاکیزہ کلام ہر ملک کے لئے ایک نمونہ ء ادب بن سکتا ہے۔ اس قدر گمنامی کے پردہ میں زندگی بسر کر رہی ہے کہ خود بنگال کے بڑے بڑے ادب نواز طبقوں میں اس کا نام تک سننے میں نہیں آیا۔ جس زمانہ میں یہ شانتی نکیتن کے اندر موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھ سے ملاقات ہوئی۔ نہایت متین و سنجیدہ، کم سخن اور آنکھوں میں ایک وحشت سی تھی، پہلے تو میں اس کی فطرت سمجھ ہی نہ سکی۔ خیال ہوا کہ شاید دیوانی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اسے مطالعہ ء قدرت کا بے حد شوق ہے۔ بارہا میں نے دیکھا کہ موسم سرما کی بہتے ہوئے پانی کو منجمد کر دینے والی خنک راتوں میں وہ صحن چمن میں بیٹھی ماہ و انجم سے ہمکلام ہے۔ جس دن چاند پورے شباب پر ہوتا وہ اکثر قریب کے ایک چشمے کے کنارے اپنا رباب لے کر چلی جاتی۔ اور سکوت شب کو اپنے دلنواز نغمے سنا کر بیدار کر دیتی۔یوں دوسرے شعراء کا کلام بھی اسے یاد تھا مگر عموماً اپنی ہی غزلیں گاتی تھی۔وہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ حقیقت نگر آنکھیں قدرت کی جمال آفرین کیفیتوں میں اس حسن کا مطالعہ کر سکتی ہیں جو ایک شاہدِ رعنا کے ظاہری خدوخال یا خود ارادی ناز و انداز میں کبھی ممکن نہیں۔
ایک رات کا منظر وہ ان الفاظ میں پیش کرتی ہے
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی۔
جب ٹھنڈے چشمے کی سنجیدہ روانی میں مدہم سروں کا باجا بجتا تھا۔
صفحہ 100
جب سرد ہوا کے ہلکے جھونکوں سے
ننھی شاخوں پر سبز پتے رقص کرتے تھے
جب سُرمئی رنگ کی کہر کے دھندلے پردوں سے
چاند کی سنہری کرنیں چھن چھن کر آتی تھیں
جب بھیانک جنگل کے سکوتِ مطلق میں
وحشی درندے تھم تھم کر چلاتے تھے
جب خنکی و دہشت کے اس ہوش ربا عالم میں
مجھے پرمیشور آ آ کر تسکین دیتے تھے
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی
بچپن اور بچپن کی بے فکری کا زمانہ اور اس زمانے کی معصومیت مرتے دم تک یاد آتی ہے۔اس کھوئے ہوئے عہد زریں کا نوحہ ہر شخص کی زبان سے سن لو۔ لیکن صنف نازک جس نرالے انداز میں اس کو یاد کرتی ہے، وہ اسی کا حصہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار سُربالا دیوی اپنی مبدرجہ ذیل نظم کو گاتے گاتے خود رونے لگی تھی۔ ( ترجمہ میں وہ خوبی کہاں جو اصل میں ہے)
کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا
نہ کوئی فکر ، نہ غمگین جذبات کا ہجوم
آخری تدوین: