سحر قریب ہے تاروں کا حال کیا ہو گا

دوست

محفلین
سحر قریب ہے تاروں کا حال کیا ہو گا
اب انتظار کے ماروں کا حال کیا ہو گا
تری نگاہ نے ظالم کبھی یہ سوچا
تری نگاہ کے ماروں کا حال کیا ہو گا
مقابلہ ہے ترے حسن کا بہاروں سے
نجانے آج بہاروں کا حال کیا ہو گا
نقاب ان کا اُلٹنا تو چاہتا ہوں مگر
بگڑ گئے تو نظاروں کا حال کیا ہو گا
مذاقِ دید ہی صہبا اگر بدل جائے
تو زندگی کی بہاروں کا حال کیا ہو گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخ رنگ والا سننے اور سمجھنے میں مشکل تھا
شاعر نامعلوم
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! اچھا انتخاب ہے! اچھی غزل ہے !
مقطع میں صہباؔ تخلص تو موجود ہے لیکن یہ کون سے صہباؔ ہیں یہ نہیں معلوم۔ بہت عام ہے یہ تخلص۔
تیری اور تیرے کو تری اور ترے کرلیجئے تاکہ وزن میں آجائیں ۔ دوسرے شعر کا پہلا مصرع نامکمل ہے ۔ اس کے آخر میں شاید "ہے" ٹائپ ہونےسے رہ گیا۔
 
Top