سخنورانِ محفل کے شعری فن پارے۔۔۔!

آپ کو یہ دھاگہ کیسا لگا۔۔۔؟


  • Total voters
    63
کیا ہوا تم نے بھی گر ستم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ لو دادِ ہنر سر کو خم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔
ہم پہ جب عشق نے ہی کرم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔
خواہشوں کا تو پھر سر قلم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

ہم سے کہتے تو ہو، حالِ دل کچھ کہو ۔ ۔ ۔
پھر نہ کہنا کہ آنکھوں کو نم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

بیخودی کام آہی گئی کچھ نہ کچھ ۔ ۔ ۔
جس نے ‛‛میں‛‛ اور ‛‛تُو‛‛ کو ہی ہم کر دیا. ۔ ۔ ۔ ۔

بوسہ مانگا تو بولے، ہا ئے توبہ ہے ۔ ۔ ۔۔
تم کو تو عشق نے بے شرم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

آپ بیتی بھی لکھ نا سکے اور کبھی ۔ ۔ ۔
چُپ میں ہی زندگی کو رقم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

بے وفا ہو گئے ہو یا مجبوری ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔
کس لیے ہم سے ملنا ہی کم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

مت لگا پارسائی پہ تہمت صنم ۔ ۔ ۔ ۔۔
میکدے میں گئے تو حرم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

میرے گاؤں میں تیرے قدم کیا پڑے ۔ ۔ ۔ ۔
تُو نے دیسی پٹاخوں کو بم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

جس جگہ تُو نے اپنا قدم رکھ دیا ۔ ۔ ۔۔
پھر اُسی جاہ کو ہی ارم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

جب سے ت۔۔ُ۔۔و نے ہی ترکِ وفا کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔
پھر سفر ہم نے م۔ُ۔لکِ عدم کر دیا ۔ ۔ ۔

کون کمبخت پینے کا عادی بھلا ۔ ۔ ۔ ۔
ہے توفیقِ نظر ذوقِ رم کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔

موت ہی بس بڑی سب سے نعمت ’’جوگی‘‘ ۔ ۔ ۔ ۔
زندگی کے دکھوں پہ ہی دم کر دیا۔ ۔ ۔ ۔

(فہیم ملک جوگی)
 
خدا کا خوف کرو کچه تم
خدا کیسے بنے ہو تم
مرے ہیں لوگ وعدے میں
دغا ہر دم بنے ہو تم
مرے دکه پہ دلاسا ہو
مگر ہر دم ہسے ہو تم
بشر خوں میں نہایا ہے
خدا جب جب بنے ہو تم
نظر ہم کو نہیں آتے
بتا قصدا چهپے ہو تم
 

عاطف ملک

محفلین
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مصحف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے

قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصل

ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصل

نگہ میں آبِ رُخِ یار، ہاتھ میں تیشہ
زمیں کی مانگ اِسی جہد نے سنواری ہے

اسے بھی جھیل ہی جائے گی فطرتِ عشّاق
یہ مانا اب کے لگا ہے جو زخم، کاری ہے

اس طرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو

بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا "سُمنات" ہو

برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
بہت ہی خوبصورت کلام ہے۔
درج بالا اشعار تو بہت ہی زیادہ پسند آئے مجھے :)
 
سو سب سے پہلے اپنی سب سے بہترین کاوش(بزعمِ خود) پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔۔۔! آپ کی آراء و تبصرہ جات کا شدت سے انتظار رہے گا۔۔۔!
دُعا
الٰہی مجھ کو تو ذوقِ مسیحائی عطا کر دے
جنوں کو تو مرے، مولا شکیبائی عطا کر دے

بنوں رہبر دکھاؤں راہ میں گمراہ لوگوں کو
مجھے وہ معرفت ، ایماں، وہ مولائی عطاکردے

مری بے نام منزل کو نشانِ راہ دے دے تو
مجھے تو ذات سے اپنی شناسائی عطا کر دے

الٰہی سوچ سے میری ،ہو روشن اک جہانِ نو
تخیل کو مرے تو ایسی گہرائی عطا کردے

نگہ میری اٹھے جس سمت دنیا ہی بدل جائے
مری بے نور آنکھوں کو ،وہ بینائی عطا کر دے

معطر روح ہو جس سے ، مسخر قلب ہو جس سے
زبان و نطق کو یارب ،وہ گویائی عطا کردے

زَمن جس سے منور ہو، چمن جس سے معطر ہو
مرے کردار کو مولا، وہ رعنائی عطا کر دے

خیالوں کو ملے تصویر اور تعبیر خوابوں کو
مرے وجدان کو یارب، وہ دانائی عطا کر دے

اگر چہ عجز سے ہوں میں تہی دامن ، کرم سے تُو
مرے بے ربط جملوں کو پذیرائی عطا کردے

ترے در پر ندامت سے ،جھکی ہے پھر جبیں میری
تمنائے حزیں کو اب، تو شنوائی عطا کر دے

ترا ہی نام ہو لب پر ، نہ ہو پھر دوسرا کوئی
نصرؔ کو اب تو وہ خلوت، وہ تنہائی عطا کردے



محمد ذیشان نصر
اپریل 2012
:khoobsurat:
 

سعید سعدی

محفلین
دل کی بات زباں پر لا کے دیکھو تو
ہم کو اپنا حال سنا کے دیکھو تو

ہم تیری باتوں میں بھی آ سکتے ہیں
سچ میں تھوڑا جھوٹ ملا کے دیکھو تو

سورج چاند ستارے توڑ کے لا دوں گا
تھوڑی سی امید دلا کے دیکھو تو

اس چہرے کے پیچھے کتنے چہرے ہیں
آئینے کے سامنے آکے دیکھو تو

وحشت ، ہُو کا عالم ، سناٹا ، اور ہم
بیٹھے ہیں اطراف سجا کے دیکھو تو

تم نے اس کا کہنا یونہی مان لیا
کچھ اپنا بھی ذہن لڑا کے دیکھو تو

آؤ دیکھیں کتنے ہیں سقراط یہاں
تم لوگوں کو زہر پلا کے دیکھو تو

اجڑی بستی والو ہمت کر دیکھو
پھر کوئی زندہ شہر بسا کے دیکھو تو

ہر خواہش پوری ہو یہ نا ممکن ہے
پھر بھی تم کچھ خواب سجا کے دیکھو تو

سعدی وہ ٹوٹے ہوئے دل کی سنتا ہے
اس کے در سے آس لگا کے دیکھو تو
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
دل کی بات زباں پر لا کے دیکھو تو
ہم کو اپنا حال سنا کے دیکھو تو

اس چہرے کے پیچھے کتنے چہرے ہیں
آئینے کے سامنے آکے دیکھو تو

وحشت ، ہُو کا عالم ، سناٹا ، اور ہم
بیٹھے ہیں اطراف سجا کے دیکھو تو

ہر خواہش پوری ہو یہ نا ممکن ہے
پھر بھی تم کچھ خواب سجا کے دیکھو تو

سعدی وہ ٹوٹے ہوئے دل کی سنتا ہے
اس کے در سے آس لگا کے دیکھو تو
کیا کہنے ۔۔۔
 
ایک غزل پیش خدمت ہے۔

ہم محبت کو عام کرتے ہیں
ہر کسی کو سلام کرتے ہیں

ہم کو محلوں کی کیا ضرورت ہے
ہم دلوں میں قیام کرتے ہیں

فکر دنیا نہ فکر عقبٰی ہے
صبح سے یونہی شام کرتے ہیں

یاد ِآقا میں ناچ اور باجے
کیا یہی سب غلام کرتے ہیں

پل دو پل کا یہاں سوال نہ کر
زندگی تیرے نام کرتے ہیں

ہم تو بدنام ہیں مگر حضرت
آپ بھی ایسے کام کرتے ہیں

صدامؔ حسین
 

(Z.N Siddiqui (ZEESH

محفلین
٢٠١٢ سے جاری سلسلۂ بہت اچھا لگا
اک کاوش شامل کیئے دیتے ہیں...

چاک اپنا ھی گریباں کر لیں
ساری دنیا کو بیاباں کر لیں

کریں کچھ ! ایسا کوئی کر نہ سکے
اپنے دشمن کو، اپنی جاں کر لیں

ھوئے رخسار سرخ انگاره
ان پہ زلفوں کو سائباں کر لیں

آپ چاھتے ھیں، ہم کو بھی ھم سا؟
وه جو پوچھیں توھم بھی 'ہاں' کرلیں

آزمائیں خدا کے ہی ڈھنگ سے
جاں وه دینے لگیں تو 'ناں' کر لیں

آ کے دھوکے میں، نہ ابلیس کے ذیش
ساری محنت کو ر ا ئیگاں کر لیں
 

Qamar Shahzad

محفلین
بہترین سلسلہ ہے اور نہایت خوبصورت غزلیات پڑھنے کو ملیں
تمام احباب شاد و آباد و بامراد رہیں ۔۔ آمین
 
مجبور ہو گئے ہیں دل نا تواں سے ہم
ورنہ تو کب ڈرے ہیں کسی امتحاں سے ہم

مہر و وفا کے نام سے ڈرنے لگا ہے دل
کھائے ہوئے ہیں زخم بہت مہرباں سے ہم

یہ زخم بھر گیا بھی تو چھوڑے گا اک نشاں
رکھیں گے یاد تجھ کو اسی اک نشاں سے ہم

جلتی ہے ہم سے پھر بھی یہ دنیا نہ جانے کیوں
کہتے نہیں کسی کو کبھی کچھ زباں سے ہم

دنیا میں لگ کے بھول گئے ہیں عظیم سب
جانا ہمیں کہاں ہے کہ آئے کہاں سے ہم

عظیم سہارن پوری
 
جھوٹے فریبی لوگ سیاسی یقین کیا
کرتا ہے تو بھی بات پہ انکی یقین کیا

کب موت آکے *اپنی* لے آغوش میں ہمیں
پل بھر کی *زندگانی* ہے ساتھی یقین کیا

*خلقت نہ اعتبار کرے جسکی بات پر*
ہر ایک بات اسکی ہے جھوٹی یقین کیا

خاکی بدن پہ ناز *کا مطلب ہے کجروی
مٹی سے جا ملے گی یہ مٹی یقین کیا

سسرال والے کار جو ماںگیں تو کار دوں
لیکن رہیگی خوش میری بیٹی یقین کیا

مانا *کہ اعتکاف ہے تجھ کو عزیز تر*
لیکن حلال ہو تیری روٹی یقین کیا

*جو تھے زمانہ ساز یہاں وہ بھی مر گیے*
پھر زندگی پہ سعد کو اپنی یقین کیا

ارشد سعدؔ ردولوی
 
Top