تلمیذ
لائبریرین
سب سے پہلے تو معذرت کہ عنوان پنجابی میں دے رہا ہوں اور مراسلہ اردو میں ہے۔لیکن زمانے کی بے ثباتی کے اظہار کے لئے پیر فضل گجراتی مرحوم کا یہ مصرعہ اچانک ذہن میں آگیا ،اس لئے لکھ دیا ہے۔
ذیل میں برصغیر میں فن پہلوانی کی ایک نابغہ روزگار شخصیت کے آخری دنوں کا حال درج ہے جو معلوماتی ہونے کے ساتھ قابل عبرت بھی ہے۔
ایک روز علی اختر مرزا کہنے لگے: کیوں نہ گاماں پہلوان سے انٹرویو کیا جائے۔ ہم یہ جانتے تھے کہ وہ موہنی روڈ میں کہیں رہتے ہیں۔ ان کے محلے میں پہنچے اور مکان کا پوچھا تو ایک بچے نے بڑی خوشی سے کہا ’’آئیے میں آپ کو بابا جی کے گھر لے چلوں ۔‘‘ گاماں صاحب فراش تھے۔ تکئے پر ایک آدھ سرخ دھبہ اس بات کا غماز تھا کہ بلغم کے ساتھ خون آرہاتھا۔ ہم نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تو پہلوان نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ دوسری بار جب ہمت کرنے لگے تو میں نے پھیلایا ہوا ہاتھ تھام کر سہارا دیا۔ معاً میرا خیال اس واقعہ کی طرف پلٹ گیا ۔جب 1928 میں زبسکو نے گاماں سے ہاتھ ملاتے ہی کہا تھا ،’’گاماں، تم شیرِ نر ہو‘‘۔ جس ہاتھ کا لمس ہی حریف کے تن بدن میں شکست کا احساس دوڑا دیتا تھا، آج وہ ہاتھ سہارے کے لئے پھیل رہا تھا!
گاماں تکئے کے سہارے بیٹھ گئے۔جسم ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تھا جس پر گوشت یوں لٹک رہا تھا کہ جیسے کسی مہیب قلعے کی فصیل پر سے پلستر اُکھڑ رہا ہو۔ فوٹو گرافر نے جب کیمرہ راست کیا تو پہلوان نے غیر شعوری طور پر دونوں ہاتھوں سے مونچھوں کو تاؤ دیا۔ چہرے کی شفق اور نکھر گئی۔ لمحہ بھر میں تصویر اُتر گئی تو گاماں زیادہ سکون سے بیٹھ گئے۔ باتیں شروع ہوئیں تو گزرے وقتوں کی کہانیاں حافظے میں عود کر آئیں۔ جانکاہ ریاضت، خوراک میں قیمتی دھاتوں کے کشتے، پرندوں کی یخنیاں، اکھاڑوں میں معرکے، رؤساء کے درباروں میں باریابی، موتیوں کی مالائیں اور رُوپہلی گرز۔ غرضیکہ یادوں کا ایک پُر بہار دفتر کھل گیا۔ ہم باتیں سُنتے جارہےتھے اور ہمیں ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ مونٹ ایورسٹ کو نطق عطا ہو گیا ہے۔
یادوں کے اس ہجوم میں رُستم زماں کا دم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ بات کرتے کرتے رُک جاتے تھے اور دم لے کر آگے بڑھتے ۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ انہیں مزید زحمت دیں۔ لگ بھگ پون گھنٹے کے بعد ہم نے رخصت چاہی۔ ان کی دہلیز سے قدم باہر رکھا تو احساس کچھ ایسا تھا کہ جیسے تاریخ کے ایک پُر شکوہ باب کے مطالعے سے فارغ ہوئے ہیں۔ یہی مرض بالآخر اتنا شہ زور ثابت ہوا کہ گاماں جانبر نہ ہو سکے۔ یہ ان کی پہلی اور آخری شکست تھی۔
خلق خدا کے اس چل چلاؤ کانقشہ بلہے شاہ رح نے کچھ یوں کھینچا ہے:
پانی بھر بھر گئیاں سبھو، اپنی اپنی وار
اِک بھرن آئیاں اِ ک بھر چلیاں
اک کھلیاں نے باہاں پسار
(اس پنگھٹ پر سبھی ناریں گاگریں بھرنے آرہی ہیں۔ کچھ بھر کے جا چکیں، کچھ بھر رہی ہیں اور کچھ بازو پھیلائے کھڑی ہیں)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
یہ اقتباس مولوی محمد سعید مرحوم کی خود نوشت ’’آہنگ باز گشت‘‘ سے لیا گیا ہے ۔ مولوی صاحب ایک ممتاز اردو انگریزی صحافی اور ادیب اور سیرت نگارتھے۔ پاکستان ٹائمز کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر، ماہنامہ ورلڈ اسلامک ٹائمز کے ایڈیٹر رہ چکےتھے۔ ڈان، انقلاب اور سول اینڈ ملٹر ی گزٹ سے بھی وابستہ رہے۔
مذکورہ بالا خود نوشت قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی کی حسین ، پُر لطف اور دلچسپ تاریخ پر مشتمل ہے اور پڑھنے کے قابل ہے۔ دلچسپی رکھنے والے احباب ذاتی پیغام کے ذریعے ای میل پتہ بھیج کر اس کا آن لائن نسخہ مجھ سے طلب کر سکتے ہیں۔
ذیل میں برصغیر میں فن پہلوانی کی ایک نابغہ روزگار شخصیت کے آخری دنوں کا حال درج ہے جو معلوماتی ہونے کے ساتھ قابل عبرت بھی ہے۔
ایک روز علی اختر مرزا کہنے لگے: کیوں نہ گاماں پہلوان سے انٹرویو کیا جائے۔ ہم یہ جانتے تھے کہ وہ موہنی روڈ میں کہیں رہتے ہیں۔ ان کے محلے میں پہنچے اور مکان کا پوچھا تو ایک بچے نے بڑی خوشی سے کہا ’’آئیے میں آپ کو بابا جی کے گھر لے چلوں ۔‘‘ گاماں صاحب فراش تھے۔ تکئے پر ایک آدھ سرخ دھبہ اس بات کا غماز تھا کہ بلغم کے ساتھ خون آرہاتھا۔ ہم نے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تو پہلوان نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ دوسری بار جب ہمت کرنے لگے تو میں نے پھیلایا ہوا ہاتھ تھام کر سہارا دیا۔ معاً میرا خیال اس واقعہ کی طرف پلٹ گیا ۔جب 1928 میں زبسکو نے گاماں سے ہاتھ ملاتے ہی کہا تھا ،’’گاماں، تم شیرِ نر ہو‘‘۔ جس ہاتھ کا لمس ہی حریف کے تن بدن میں شکست کا احساس دوڑا دیتا تھا، آج وہ ہاتھ سہارے کے لئے پھیل رہا تھا!
گاماں تکئے کے سہارے بیٹھ گئے۔جسم ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ تھا جس پر گوشت یوں لٹک رہا تھا کہ جیسے کسی مہیب قلعے کی فصیل پر سے پلستر اُکھڑ رہا ہو۔ فوٹو گرافر نے جب کیمرہ راست کیا تو پہلوان نے غیر شعوری طور پر دونوں ہاتھوں سے مونچھوں کو تاؤ دیا۔ چہرے کی شفق اور نکھر گئی۔ لمحہ بھر میں تصویر اُتر گئی تو گاماں زیادہ سکون سے بیٹھ گئے۔ باتیں شروع ہوئیں تو گزرے وقتوں کی کہانیاں حافظے میں عود کر آئیں۔ جانکاہ ریاضت، خوراک میں قیمتی دھاتوں کے کشتے، پرندوں کی یخنیاں، اکھاڑوں میں معرکے، رؤساء کے درباروں میں باریابی، موتیوں کی مالائیں اور رُوپہلی گرز۔ غرضیکہ یادوں کا ایک پُر بہار دفتر کھل گیا۔ ہم باتیں سُنتے جارہےتھے اور ہمیں ایسا محسوس ہو رہاتھا کہ مونٹ ایورسٹ کو نطق عطا ہو گیا ہے۔
یادوں کے اس ہجوم میں رُستم زماں کا دم ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ بات کرتے کرتے رُک جاتے تھے اور دم لے کر آگے بڑھتے ۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ انہیں مزید زحمت دیں۔ لگ بھگ پون گھنٹے کے بعد ہم نے رخصت چاہی۔ ان کی دہلیز سے قدم باہر رکھا تو احساس کچھ ایسا تھا کہ جیسے تاریخ کے ایک پُر شکوہ باب کے مطالعے سے فارغ ہوئے ہیں۔ یہی مرض بالآخر اتنا شہ زور ثابت ہوا کہ گاماں جانبر نہ ہو سکے۔ یہ ان کی پہلی اور آخری شکست تھی۔
خلق خدا کے اس چل چلاؤ کانقشہ بلہے شاہ رح نے کچھ یوں کھینچا ہے:
پانی بھر بھر گئیاں سبھو، اپنی اپنی وار
اِک بھرن آئیاں اِ ک بھر چلیاں
اک کھلیاں نے باہاں پسار
(اس پنگھٹ پر سبھی ناریں گاگریں بھرنے آرہی ہیں۔ کچھ بھر کے جا چکیں، کچھ بھر رہی ہیں اور کچھ بازو پھیلائے کھڑی ہیں)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
یہ اقتباس مولوی محمد سعید مرحوم کی خود نوشت ’’آہنگ باز گشت‘‘ سے لیا گیا ہے ۔ مولوی صاحب ایک ممتاز اردو انگریزی صحافی اور ادیب اور سیرت نگارتھے۔ پاکستان ٹائمز کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر، ماہنامہ ورلڈ اسلامک ٹائمز کے ایڈیٹر رہ چکےتھے۔ ڈان، انقلاب اور سول اینڈ ملٹر ی گزٹ سے بھی وابستہ رہے۔
مذکورہ بالا خود نوشت قیام پاکستان کے بعد سے پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی کی حسین ، پُر لطف اور دلچسپ تاریخ پر مشتمل ہے اور پڑھنے کے قابل ہے۔ دلچسپی رکھنے والے احباب ذاتی پیغام کے ذریعے ای میل پتہ بھیج کر اس کا آن لائن نسخہ مجھ سے طلب کر سکتے ہیں۔
آخری تدوین: