رضوان
محفلین
کراچی سے حیدرآباد:
کراچی حیدرآباد کے درمیان کا سفر آجکل اپنے ہرے بھرے لینڈ اسکیپ کی وجہ سے دلفریب ہوگیا ہے۔ پچھلے سال کی وقفے وقفے سے ہونے والی بارش نے اس بے آب و گیاہ ویرانے کی شکل تبدیل کردی ہے۔ میں اس بنجر علاقے سے گزرتے ہوئے عمومًا سوچا کرتا تھا کہ کاش کیر تھر کے ناٹے ناٹے پہاڑی سلسلے سے آنے والے ان سوکھے برساتی نالوں کو بھی بہتا ہوا دیکھوں۔ لگتا ہے قدرت نے یہی دکھانے کے لیے مجھے صبح دس بجے حیدرآباد سے کراچی اور پھر شام تین بجے برستی برسات میں کراچی سے حیدرآباد کا سفر کرایا۔
لگژری کوچز کی وجہ سے گو کہ سفر آرامدہ ہوگیا ہے مگر باہر کی ٹیپ ٹاپ سے گاڑی کے اندرونی حالات اور عملے کی نیت کا پتہ لگانا ناممکن ہے اور صحیح معنوں میں کسٹمر سروس دینے والی کمپنی کوئی نہیں ہے جیسے پنجاب اور سرحد میں ڈائیو اور اسکائی ویز نے اپنا ایک معیار بنا دیا ہے۔ گو وہ بھی ترکی کی روڈ سروس کا پاسنگ تک نہیں ہیں۔
ایک اور چیز جس کے متعلق سوچ کر میں ہمیشہ ہی دہل جاتا ہوں وہ ہے حادثے یا گاڑی میں آگ لگنے کی صورت میں ہنگامی فرار (Emergency Exit) کا نا ہونا!
کچھ سال پہلے اسی طرح کی ایک کوچ میں آگ لگنے سے کتنے ہی لوگ جل کر خاک ہوگئے کہ باہر نکلنے کا صرف ایک ہی دروازہ تھا۔ اُس وقت شور مچا اور کچھ گاڑیوں میں ہنگامی طور پر دروازے لگوائے گئے لیکن اب پھر وہی حال ہے کہ آہنی تابوت میں پچاس ساتھ افراد کو گھسیڑ دیا جائے وجہ یہی ہے کہ ان بسوں میں صرف لوئر مڈل کلاس اور غریب عوام سفر کرتی ہے جو اپنی آبادی کم کرنے کے لیے سبز ستارہ والوں سے تعاون کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
بسوں کی حالت کے علاوہ بڑے بس اڈوں پر کھانے پینے کی عام چیزوں میں ملاوٹ کیساتھ ساتھ بین الاقوامی کمپنیوں کی سیل بند مصنوعات بھی جعلی والی ہی ہوتی ہیں اور چاہے کوئی کتنی ہی سیانپتی دکھائے لیکن چونا لگانے والے بھی کمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ میں ال آصف اسکوائر پر مزید سواریاں لادنے کے انتظار میں کھڑی بس سے میں پانی لینے کے لیے اترا۔ سڑک کے کنارے ہی لائن سے کھوکھے نما دکانوں کا بازار بنا ہے۔ پانی کی بوتلیں مجھے کچھ مشکوک سی لگیں تو میں نے تین گنجوں کے اشتہاروالی مرُنڈا کا ایپل فلیور مانگا کہ توانائی اور ذائقہ ایک ساتھ ہی سپ کر لوں۔ دکان والے لڑکے نے فریزر سے جو بوتل مجھے نکال کر پکڑائی تو پیسے دینے سے پہلے میں نے یہ اطمینان کر لیا کہ لیبل اور بوتل اصلی ہی ہے اور ڈھکن بھی سیلڈ ہے لیکن یہ عقل نا آئی کہ شفاف سنہری ایپل جوس کی جگہ گدلا اورنج محلول بھرا ہے اور جلدی سے بس میں جا بیٹھا اور پہلا اور آخری گھونٹ بھرتے ہی اندازہ ہوگیا کہ ہاتھ ہوگیا ہے۔ یہ تصور کر کے کہ کچرے سے بوتل اٹھائی گئی ہوگی اور کہیں لیبل خراب نا ہوجائے اسکو ٹھیک طریقے سے دھویا بھی نہیں گیا ہوگا بس کوئی سا مشروب بھر کر ڈھکن سیل کردیا اور تھما دی میرے جیسے بھولے مسافر کے ہاتھ۔
کراچی حیدرآباد کے درمیان کا سفر آجکل اپنے ہرے بھرے لینڈ اسکیپ کی وجہ سے دلفریب ہوگیا ہے۔ پچھلے سال کی وقفے وقفے سے ہونے والی بارش نے اس بے آب و گیاہ ویرانے کی شکل تبدیل کردی ہے۔ میں اس بنجر علاقے سے گزرتے ہوئے عمومًا سوچا کرتا تھا کہ کاش کیر تھر کے ناٹے ناٹے پہاڑی سلسلے سے آنے والے ان سوکھے برساتی نالوں کو بھی بہتا ہوا دیکھوں۔ لگتا ہے قدرت نے یہی دکھانے کے لیے مجھے صبح دس بجے حیدرآباد سے کراچی اور پھر شام تین بجے برستی برسات میں کراچی سے حیدرآباد کا سفر کرایا۔
لگژری کوچز کی وجہ سے گو کہ سفر آرامدہ ہوگیا ہے مگر باہر کی ٹیپ ٹاپ سے گاڑی کے اندرونی حالات اور عملے کی نیت کا پتہ لگانا ناممکن ہے اور صحیح معنوں میں کسٹمر سروس دینے والی کمپنی کوئی نہیں ہے جیسے پنجاب اور سرحد میں ڈائیو اور اسکائی ویز نے اپنا ایک معیار بنا دیا ہے۔ گو وہ بھی ترکی کی روڈ سروس کا پاسنگ تک نہیں ہیں۔
ایک اور چیز جس کے متعلق سوچ کر میں ہمیشہ ہی دہل جاتا ہوں وہ ہے حادثے یا گاڑی میں آگ لگنے کی صورت میں ہنگامی فرار (Emergency Exit) کا نا ہونا!
کچھ سال پہلے اسی طرح کی ایک کوچ میں آگ لگنے سے کتنے ہی لوگ جل کر خاک ہوگئے کہ باہر نکلنے کا صرف ایک ہی دروازہ تھا۔ اُس وقت شور مچا اور کچھ گاڑیوں میں ہنگامی طور پر دروازے لگوائے گئے لیکن اب پھر وہی حال ہے کہ آہنی تابوت میں پچاس ساتھ افراد کو گھسیڑ دیا جائے وجہ یہی ہے کہ ان بسوں میں صرف لوئر مڈل کلاس اور غریب عوام سفر کرتی ہے جو اپنی آبادی کم کرنے کے لیے سبز ستارہ والوں سے تعاون کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
بسوں کی حالت کے علاوہ بڑے بس اڈوں پر کھانے پینے کی عام چیزوں میں ملاوٹ کیساتھ ساتھ بین الاقوامی کمپنیوں کی سیل بند مصنوعات بھی جعلی والی ہی ہوتی ہیں اور چاہے کوئی کتنی ہی سیانپتی دکھائے لیکن چونا لگانے والے بھی کمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ میں ال آصف اسکوائر پر مزید سواریاں لادنے کے انتظار میں کھڑی بس سے میں پانی لینے کے لیے اترا۔ سڑک کے کنارے ہی لائن سے کھوکھے نما دکانوں کا بازار بنا ہے۔ پانی کی بوتلیں مجھے کچھ مشکوک سی لگیں تو میں نے تین گنجوں کے اشتہاروالی مرُنڈا کا ایپل فلیور مانگا کہ توانائی اور ذائقہ ایک ساتھ ہی سپ کر لوں۔ دکان والے لڑکے نے فریزر سے جو بوتل مجھے نکال کر پکڑائی تو پیسے دینے سے پہلے میں نے یہ اطمینان کر لیا کہ لیبل اور بوتل اصلی ہی ہے اور ڈھکن بھی سیلڈ ہے لیکن یہ عقل نا آئی کہ شفاف سنہری ایپل جوس کی جگہ گدلا اورنج محلول بھرا ہے اور جلدی سے بس میں جا بیٹھا اور پہلا اور آخری گھونٹ بھرتے ہی اندازہ ہوگیا کہ ہاتھ ہوگیا ہے۔ یہ تصور کر کے کہ کچرے سے بوتل اٹھائی گئی ہوگی اور کہیں لیبل خراب نا ہوجائے اسکو ٹھیک طریقے سے دھویا بھی نہیں گیا ہوگا بس کوئی سا مشروب بھر کر ڈھکن سیل کردیا اور تھما دی میرے جیسے بھولے مسافر کے ہاتھ۔