سراب (وہ خام خیالیاں جو میرے بلاگ پر تحریر کی جاتی ہیں)

رضوان

محفلین
کراچی سے حیدرآباد:
کراچی حیدرآباد کے درمیان کا سفر آجکل اپنے ہرے بھرے لینڈ اسکیپ کی وجہ سے دلفریب ہوگیا ہے۔ پچھلے سال کی وقفے وقفے سے ہونے والی بارش نے اس بے آب و گیاہ ویرانے کی شکل تبدیل کردی ہے۔ میں اس بنجر علاقے سے گزرتے ہوئے عمومًا سوچا کرتا تھا کہ کاش کیر تھر کے ناٹے ناٹے پہاڑی سلسلے سے آنے والے ان سوکھے برساتی نالوں کو بھی بہتا ہوا دیکھوں۔ لگتا ہے قدرت نے یہی دکھانے کے لیے مجھے صبح دس بجے حیدرآباد سے کراچی اور پھر شام تین بجے برستی برسات میں کراچی سے حیدرآباد کا سفر کرایا۔
لگژری کوچز کی وجہ سے گو کہ سفر آرامدہ ہوگیا ہے مگر باہر کی ٹیپ ٹاپ سے گاڑی کے اندرونی حالات اور عملے کی نیت کا پتہ لگانا ناممکن ہے اور صحیح معنوں میں کسٹمر سروس دینے والی کمپنی کوئی نہیں ہے جیسے پنجاب اور سرحد میں ڈائیو اور اسکائی ویز نے اپنا ایک معیار بنا دیا ہے۔ گو وہ بھی ترکی کی روڈ سروس کا پاسنگ تک نہیں ہیں۔
ایک اور چیز جس کے متعلق سوچ کر میں ہمیشہ ہی دہل جاتا ہوں وہ ہے حادثے یا گاڑی میں آگ لگنے کی صورت میں ہنگامی فرار (Emergency Exit) کا نا ہونا!
کچھ سال پہلے اسی طرح کی ایک کوچ میں آگ لگنے سے کتنے ہی لوگ جل کر خاک ہوگئے کہ باہر نکلنے کا صرف ایک ہی دروازہ تھا۔ اُس وقت شور مچا اور کچھ گاڑیوں میں ہنگامی طور پر دروازے لگوائے گئے لیکن اب پھر وہی حال ہے کہ آہنی تابوت میں پچاس ساتھ افراد کو گھسیڑ دیا جائے وجہ یہی ہے کہ ان بسوں میں صرف لوئر مڈل کلاس اور غریب عوام سفر کرتی ہے جو اپنی آبادی کم کرنے کے لیے سبز ستارہ والوں سے تعاون کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

بسوں کی حالت کے علاوہ بڑے بس اڈوں پر کھانے پینے کی عام چیزوں میں ملاوٹ کیساتھ ساتھ بین الاقوامی کمپنیوں کی سیل بند مصنوعات بھی جعلی والی ہی ہوتی ہیں اور چاہے کوئی کتنی ہی سیانپتی دکھائے لیکن چونا لگانے والے بھی کمال کا ہنر رکھتے ہیں۔ میں ال آصف اسکوائر پر مزید سواریاں لادنے کے انتظار میں کھڑی بس سے میں پانی لینے کے لیے اترا۔ سڑک کے کنارے ہی لائن سے کھوکھے نما دکانوں کا بازار بنا ہے۔ پانی کی بوتلیں مجھے کچھ مشکوک سی لگیں تو میں نے تین گنجوں کے اشتہاروالی مرُنڈا کا ایپل فلیور مانگا کہ توانائی اور ذائقہ ایک ساتھ ہی سپ کر لوں۔ دکان والے لڑکے نے فریزر سے جو بوتل مجھے نکال کر پکڑائی تو پیسے دینے سے پہلے میں نے یہ اطمینان کر لیا کہ لیبل اور بوتل اصلی ہی ہے اور ڈھکن بھی سیلڈ ہے لیکن یہ عقل نا آئی کہ شفاف سنہری ایپل جوس کی جگہ گدلا اورنج محلول بھرا ہے اور جلدی سے بس میں جا بیٹھا اور پہلا اور آخری گھونٹ بھرتے ہی اندازہ ہوگیا کہ ہاتھ ہوگیا ہے۔ یہ تصور کر کے کہ کچرے سے بوتل اٹھائی گئی ہوگی اور کہیں لیبل خراب نا ہوجائے اسکو ٹھیک طریقے سے دھویا بھی نہیں گیا ہوگا بس کوئی سا مشروب بھر کر ڈھکن سیل کردیا اور تھما دی میرے جیسے بھولے مسافر کے ہاتھ۔
 

رضوان

محفلین
ایمرجنسی:
آجکل جس کسی سے پوچھو وہ یہی کہے گا کہ ایمرجنسی کا شوشہ بلکہ میلہ اسی کا کمبل چرانے کے لیے لگایا جارہا ہے۔
ویسے تو شیئرز کا کام کرنے والے دوستوں رشتے داروں سے حال پوچھنا ہو تو پہلے انڈکس دیکھ لینا چاہیے یہ نہ ہو کہ آپ بعد میں مناتے اور منتیں کرتے پھر رہے ہوں۔ اسدفعہ یہ ہوا کہ ادھر ایمرجنسی والی خبر آئی اُدھر یار لوگوں نے مارکیٹ کو چھ سو پوائنٹ نیچے سے ہی کھولا۔ سَٹوریوں اور بھاڑے پر لے کر کام کرنے والوں کی گھگھی بندھ گئی اب ہمارے دوست راحت صاحب لگے سیٹھ مشرف اور سیٹھ شوکت عزیز کے ناقابلِ اشاعت گُن گنوانے کہ یہ لوگ مارکیٹ کریش کر کے سستے پر مال اٹھائیں گے اور پھر اوپر لیجاکر بیچیں گے اسی لیے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔
ایک دوست جو اپنا پلاٹ بیچنا چاہتے تھے وہ پراپرٹی ایجنٹ کے پاس گئے تو وہ بھی ایمرجنسی کو رو رہا تھا کہ شیخ رشید گروپ نے اسلام آباد نیو ایر پورٹ کے نام پر جو ہزاروں ایکڑ زمین بیچی اور جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی ہیں اس کا کیس سپریم کورٹ میں دائر ہونے جارہا تھا اس سے بچنے کے لیے شیخ رشید چھوڑو نے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔
سیاستدان اور کالم نگار یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے مشرف ساری قوم پر عزاب مسلط کر رہا ہے۔ مشرف یہی سمجھتا ہے کہ پاکستان مجھ سے ہے اگر میں نہیں تو خدانخواستہ سب تلپٹ ہوجائیگا۔
اسپر پھر مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ میری پہلی کمپنی میں تین سال سے ایک ہی گروپ مزدور یونین میں چلا آرہا تھا الیکشن کے دن قریب آئے تو الیکشن کمپین اور رابطے شروع ہوگئے اسی سلسلے میں موجودہ یونین کے حمایتی ایک صاحب رابطے کے لیے آئے اور نئے امید وار کے خلاف کافی کچھ کہا ساتھ ہی کہنے لگے کہ بس " اس شخص کا صدر بننا مزدور اتحاد کی موت ہوگا" یہ بات سن کر ہمارے ایک ساتھی جنکا تعلق مردان سے تھا کہنے لگے کہ " تمہارا بات ہم سب نے پورا سُنا اب میرا کہانی سنو۔ پرانے وقتوں میں ایک کسان کے خربوزے کا فصل گیڈر کھا جاتا تھا۔ کسان بڑا پریشان ہوا اور بہت سوچ کر رات کو اس نے پھندا لگا کر گیڈر کو پکڑ لیا۔ جب گیڈر کو وہ چھری سے مارنے لگا تو گیڈر نے شور مچا دیا کہ " ماڑا! مجھ کو نہیں مارو ورنہ قیامت آجائیگا۔" کسان نے ڈر کر اسے چھوڑ دیا اور گیڈر سے پوچھا " تم ایسا کونسا ولی ہے جس کو مارنے سے ساری دنیا میں قیامت آجائیگا؟گیڈر ذرا دور جاکر بولا " تم مجھے مار دیتے تو میرے لیے تو قیامت ہی ہوتی نا"۔
سچی بات ہے کہ اقتدار چھن جانے سے زیادہ بڑی ایمرجنسی مشرف اور چوہدری گروپ کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے؟
 

رضوان

محفلین
کیا ہم نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا؟

ہم پاکستانیوں سے کوئی اگر یہ پوچھے کہ انہوں نے پاکستان کو کیا دیا؟ تو فوراً ڈیفنسیو چلے جاتے ہیں۔ جی میرا بھی یہی مطلب ہے کہ
جرنیل نی کرنیل نی
اور جب اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ساتھ ہی رد عمل میں ایک کوندا سا لپکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ رشوت، بدعنوانی، ساری دنیا کی نفرت؟؟
ہمیں یہی باور کروایا گیا ہے کہ بس پاکستان کو تو انہوں نے ہی بہت کچھ دیا ہے جنکو ستارہ اور نشانِ امتیاز ملتے ہیں یا جنکو کوٹ مٹھن میں زمینیں الاٹ ہوئی ہیں اور اب تگڑے گاہکوں کی تلاش ہے۔
دکھ جھیلیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں
اپنی خدمات کی ہمیں خود قدر نہیں ہوتی ہم اس قوم کے افراد ہیں جسمیں کام کرنے والے بول نہیں سکتے کیونکہ اس معاشرے میں کمیوں کی کوئی عزت نہیں کمی کون ہیں محنت کش، مزدور، کارکن ، ہاری اور ہر وہ شخص کہ جو پیداواری عمل کا حصہ ہے۔
میرے وطن کی اکثریت مجاہدہ کر رہی ہے گاؤں والی کی محنت و ریاضت تو مسلمہ ہے لیکن شہروں والوں سے بھی پوچھیں کہ سارا سارا دن دفتروں کارخانوں میں کام کے بعد جب گھر پہنچ کر بجلی اور پانی کے لیے ترسنا پڑتا ہے ٹی ری چینلوں پر لاشیں اور زخمیوں کی آہ و بکا سننی پڑتی ہے تو کس حال میں روز شب گزرتے ہیں پھر اکثر شب کو تنہائی میں یہ سب محب الوطن یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ ہمیں پاکستان نے کیا دیا؟ لیکن اس سے پہلے کہ یہ سوچ ان کی زبان پر آئے پوچھ لیا جاتا ہے!
آپ نے پاکستان کو کیا دیا؟
اب تو بڑے بڑے اداروں کی انتظامیہ بھی یہ گُر سمجھ گئی ہے اور سال کے آخر میں خالی اپریزل کارکن کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے کہ میاں سال بھر میں جو تیر مارے ہیں ان کا کچا چٹھا خود ہی کھول دو۔ سوالنامہ اس طرح مرتب کیا جاتا ہے کہ بجائے انکریمنٹ کے تنزلی و سبکدوشی سے جان جھڑانی مشکل ہو جاتی ہےکیونکہ غلطیاں بھی کام کرنے والوں سے ہی ہوتی ہیں سادہ دل بندے ان خطاؤں کو یاد کر کے دہل جاتے ہیں اور باتیں بنانے والے
قرطاسِ ابیض
چھاپتے ہیں۔
ہم میں اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ بڑھ کر کہہ سکیں کہ میں وہ کارکن اور سپاہی ہوں جس کے کاندھے پر چڑھ کر آپ نے یہ اعزازات اپنے شانہ مبارک اور سینے پر سجائے ہیں۔
اگر کارکن نہ ہوں تو لیڈری کیسے چمکے اور اگر سپاھی نہ ہوں تو سپہ سالار کیسا؟
اسی طرح جیسے کوئی سپاہی گولیوں کی بارش اور دشمنوں کی یورش کے باوجود محاذ پر ڈٹا رہتا ہے اور ساری قوم کے لیے سر مایہ افتخار بن جاتا ہے ویسے ہی معزز اور لائقِ اکرام ہے وہ شخص جو باوجود دھمکیوں کے اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اڑا رہے۔ کیا فیض الرحمٰن اس وجہ سے لائق اعزاز نہیں ہے کہ وہ ایک ایمبولینس ڈرائیور تھا اور12 مئی کو شر پسندوں کے عزائم کے خلاف زخمیوں اور لاشوں کو اسپتال لیجانے پر مصر رہا اور آخر کار اپنے فرائض کی ادائیگی پر مصر رہنے کے جرم میں شہید کر دیا گیا۔
اور اس کے علاوہ ایسے کتنے ہی گمنام شہید ہیں جو میرے وطن کی سماجی سیاسی اور معاشرتی آزادی کے لیے راہِ وفا میں مارے گئے۔
ان تمام شہیدوں کی روحیں منتظر ہیں کب اہلِ وطن ان کی قربانیوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔
ہم نہیں بولیں گے تو کون انہیں سمجھائے گا کہ سادہ کپڑوں کی عزت سے خاکی وردی پر داغ نہیں آئے گا بلکہ خاکی وردی کا مان اور بڑھ جائیگا۔
ان تک بات پہنچانے سے پہلے اپنے آپ کو بھی سمجھانا ہے کہ میں بھی معزز شہری ہوں رعایا نہیں۔
میں جو قطار میں لگ کر ٹیکس اور بل جمع کرواتا ہوں مراعات نہیں لیتا۔
میں جو فصل بوتا ہوں کہ میرے وطن کو اناج کے لیے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔
میں جو کارخانے چلاتا ہوں کہ میرے وطن کی ستر پوشی قائم رہے۔
میں کہ درس گاہوں و جامعات میں علم کا نور پھیلاتا ہوں کہ میرے وطن سے ظلمت دور رہے۔
میں کہ ۔۔۔۔۔۔۔
میں کہ ۔۔۔۔۔۔
!!!!!!!!!!!!! اب میرا سوال کہ یہ سب جو وطن کو دیا جارہا ہے آخر جاتا کہاں ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

رضوان

محفلین
ہارن دو راستہ لو!

یہ جملہ ٹریکٹروں اور ٹرالوں کے پیچھے تو لکھا دیکھا ہی تھا کہ انہوں نے آہستہ خرامی سے “ کے ٹو کی دھن میں مگن “ چلتے ہی جانا ہے اور اپنی گاڑی کا شور تو جو ہوتا ہے ساتھ ہی بلند آہنگ
کھچ میری فوٹو تے بٹوے وچ لادے
کا مطالبہ بھی ہورہا ہوتا ہے۔ انہوں نے ہی جلد باز اتاؤلوں کے لیے “ ہارن دو رستہ لو “ کا مشورہ لکھ رکھا ہوتا ہے۔ راہ چلتے، سیر کرتے ہوئے بھی کچھ لوگ راستے کو یوں گھیر لیتے ہیں کہ نہ خود آگے بڑھتے ہیں نہ ہی دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں۔ اب اگر بندہ اپنے لیے راستہ لینا چاہے تو اسکے لیے سندھ کے ایک بزرگ (انکا نام شیشے کے عکس کی وجہ سے دھندلا گیا ہے اگلے ہفتے ہی میں صاف تصویر لے آؤں گا عملے کی نگاہ بچا کر) کو نہایت عمدہ خیال سوجھا اور سندھیالوجی میوزیم جامشورو والوں نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ان کی یہ کارآمد ایجاد محفوظ کر لی ۔

6233198.jpg

پہلی تصویر میں بھانت بھانت کی چھڑیوں کے درمیان ایک چھڑی کھڑی ہے جس کے ساتھ بیک ویو مرر اور بھونپو منسلک ہے۔ کہیے ہے نا نادر خیال؟
 

رضوان

محفلین
بارش
August 20th, 2007
برسات کا حال بھی اس مہمان جیسا ہوتا ہے جسے بڑے چاؤ اور فرمائشوں سے بلایا جاتا ہے اور جب دو دن گزرتے ہیں تو اہلِ خانہ کھسر پھسر کرنے لگتے ہیں کہ اب جاتا کیوں نہیں ہے؟ آواز جان بوجھ کر اتنی دھیمی نہیں رکھی جاتی کہ مہمان کے کانوں تک نا پہنچے۔ پہلے بارش بھی جون جولائی میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آنے والے رشتے داروں کے ساتھ آتی تھی اب چونکہ ذرائع نقل و حمل میں کافی ترقی ہوگئی ہے اس لیے اس ٹائپ کے رشتہ دار اور بارش وقت بے وقت ٹپک پڑتے ہیں۔ اب جلدی جلدی کپڑے بستر سمیٹو ادھر ادھر بکھری اشیاء کو ٹھکانے لگاؤ۔ بارش کے پانی اور رشتہ داروں کے بچے ایک سا ہی نقصان کرتے ہیں بلکہ غالب کے کرائے کے مکان کی مانند چھت نہ ٹپکتی ہو تو بارش میں اندرون گیلا ہونے کا امکان نہیں ہوتا بچوں کے معاملے میں یہ گارنٹی نہیں دی جاسکتی کیونکہ سگھڑ مائیں میزبان کے گھر پہنچتے ہی ہونہاروں کو پیمپر کی بندشوں سے آزاد کرنا اپنا فرض اولین جانتی ہیں “ ہا! اب ایسا بھی کیا کہ ہر وقت قید ہی رہے!“ ان نونہالیں کی آزادی کے سیلِ رواں پر میزبان جا بجا بند باندھتے دکھائی دیتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ کراچی میں تو بارش ہمیشہ سے ہی ایک قابلِ ذکر چیز اور واقعہ رہی ہے۔ پنڈی اسلام آباد میں بارش اور گاؤں سے آئے رشتہ داروں کو کوئی لفٹ نہیں کراتا۔ کراچی میں بارش کا پہلا قطرہ ٹپکا نہیں اور چھٹی کے لیے بہانہ بازی شروع ہوجاتی تھی اب تو خیر ٹریفک جام اور بجلی کی بندش نے ساون کی جھڑی کا سارا رومانس کرکرا کردیا ہے، پہلے گھنگھور گھٹا چھاتے ہی ریڈیو پاکستان کو ساون کے گیت اور راگ ملہار سوجھتے تھے اب راگ مالکونس میں بلکہ کوس کوس کر برسات کے زمانے کے لیے حفاظتی اقدامات سنائے جاتے ہیں۔
بارش کا ایک اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اگر کچھ ہفتے نا ہو تو بارانی علاقے اور جنوبی پنجاب والے نماز استسقاء کے لیے صفیں سیدھی کرنے لگتے ہیں اور جس مجذوب و ملنگ کے مستجاب الدعوات ہونے میں رتی بھر بھی شبہ ہو اسے بچا کھچا اناج کھلا کر منت سماجت کیجاتی ہے۔ اُدھر نوابشاہ، خیرپور اور کچے کے علاقوں میں جیسے ہی نمازِ استسقاء کی خبر پہنچتی ہے تو مؤذنین کے گلوں کو تر کیا جاتا ہے کہ تیار رہو بارش رکوانے کے لیے ورنہ بھُگتو گے سیلاب کو۔
پہلے جو تبدیلیاں صدیوں میں آتی تھیں اب عشروں میں ہی کایا پلٹ جاتی ہے پہلے بعد از برسات بیر بہوٹیاں نکلا کرتی تھیں سرخ سُرخ مخملی مخملی سی! اب پلازوں اور کنکریٹ جنگل نے ذرا سی بھی کچی زمین نہیں چھوڑی لیکن سیاہ کیچڑ میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے جسکے پکے داغ سو طرح کی دھلائیوں کے بعد بھی نہیں جاتے۔ جانے یہ
“ ۔۔۔۔۔۔ دھبّے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد“
 

رضوان

محفلین
بیسی ڈالتے جائیے

پچھلے چار سالوں میں چار بجٹوں کی سونامیاں آئیں اور منی بجٹوں کے نام پر مہنگائی کے بیسیوں سائیکلون آئے مگر اس طوفانی رفتار سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود کراچی ایرپورٹ کے ٹریفک پولیس والوں نے اپنا بھاؤ ٹس سے مس نہیں ہونے دیا۔ ان عقابوں میں چوکسی ایسی ہے کہ مجال ہے کوئی کالی پیلی ٹیکسی والا ان کی عقابی نظروں سے بچ کر ان کی بیسی لیکر بھاگ جائے آئے۔ ممکن ہی نہیں کہ کالی پیلی ٹیکسی والا قائداعظم ایر پورٹ پر آئے اور یہاں کے محافظین کو قائداعظم کے درشن سے محروم رکھے؟ ان قائد کے متوالوں کو پچھلے چار سالوں سے تو میں دیکھ رہا ہوں اور یقیناً یہ دھندہ کافی عرصے سے جاری ہی ہوگا ورنہ اتنی مہارت اور شہرت جمعہ جمعہ آٹھ دن میں تو پیدا نہیں ہوسکتی۔ شہر میں کسی ٹیکسی والے سے بھاؤ تاؤ کریں وہ یہی کہے گا کہ بیس روپے تو انکو دینے پڑتے ہیں پھر وہاں سے سواری بھی نہیں اٹھا سکتے۔
اس بات میں شبہ نہیں کہ ریڈیو کیب کی سروس ہی اکنامیکل اور با سہولت رہتی ہے لیکن اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ہر وقت ریڈیو کیب دستیاب ہو بعض اوقات جلدی جانا ہوتا ہے اور ٹریفک جام کے چکر میں ریڈیو کیب والے زیادہ وقت مانگتے ہیں تو سوائے پرائیویٹ ٹیکسی کے کوئی آسرا نہیں ہوتا ہوٹل کی رینٹ اے کار والے ایک دفعہ بیٹھ کر اترو تو 800 روپے اینٹھ لیتے ہیں ٹپ کے علاوہ ۔
ایر پورٹ پر کتنی سیکوریٹی اور چوکسی ہوتی ہے پارکنگ تک کی نگرانی کیمروں اور سادہ لباس اہل کاروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ یہ منظم بھتہ خوری ان اہل کاروں اور حکام کی نظر میں نہیں ہے۔ جونہی ٹیکسی رکتی ہے پولیس والا چہرے پر خشونت لیے ٹیکسی ڈرائیور سے مصافحہ کرنے آ موجود ہوتا ہے اور پھر مصافحہ والا ہاتھ پینٹ کی جیب میں چلا جاتا ہے جو پاپن پیٹ کی طرح پھولتی چلی جاتی ہے۔ اگر یہ ساری کاروائی حکمران بالا کے علم میں نہیں ہے تو اُن سے بڑے نااہل کوئی نہیں ہیں اور ایسے بے خبر حکمرانوں کے زیرِ سایہ کوئی بھی شہری محفوظ نہیں ہے۔ اگر ان کے علم میں ہے اور اس میں سے باقاعدہ حصہ ان تک جاتا ہے تو پھر ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ ہمارے صوبے کے حکمرانوں پر تو کرم و نوازش کی برسات ہے خانہ کعبہ کا در بھی ان ہی پر وا ہوتا ہے!!!!!
 

رضوان

محفلین
شب برات کی پھلجھڑیاں
a>

آج شب برات ہے!
جیسے مثالیں دی جاتی ہیں کہ ہر دن عید کا اور رات شبِ برات ہو!
شبرات کے نام سے یادوں میں انار اور پھلجھڑیاں چھوٹنے لگتی ہیں، رنگ برنگی چٹپٹیاں اندھیرے میں چمکتا فاسفورس اور اس کی مہک جیسے ابھی کل ہی بات ہو۔ آتش بازیاں بھی قسموں قسموں کی ہوتی تھیں راکٹ، شُرلی، ڈھبری، چھچھوندر جس کے فلیتے کو آگ دکھانے سے پہلے ذرا اونچی جائے پناہ ڈھونڈھ لیجاتی، دیوار پر پھوڑنے والے پٹاخے اور بم۔ حادثات اُسوقت بھی ہوتے تھے لیکن مکانات فاصلے فاصلے سے ہوتے تھے اور ان مشاغل کے لیے میدان اور کشادہ جگہیں بھی میسر تھیں غرض شبرات کا اہتمام شعبان کی شروع ہی سے کردیا جاتا تھا۔
آج ہدایت و تعلیم کا نور اسطرح پھیلا ہے کہ اب خوشی منانے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ یہ کس فرقے کا تہوار ہے؟ میرا تعلق کس فرقے سے ہے؟ کس کو مبارکباد دوں کس کو نہیں؟ حلوہ کِس کے گھر بھیجنا ہے؟ حلیم کہیں غلط پڑوسی کے ہاں نہ چلی جائے؟ کونڈوں سے کہیں باہمی منافقانہ خیر سگالی کا ہی کونڈا نہ ہوجائے؟ بارہ ربیع الاول پر پہلے صرف اسکولوں کی حد تک نعتیہ پروگرام اور سیرت النبّی صلعم کے جلسے ہوا کرتے تھے اب بارہ ربیع الاول کے دن بھی کہ رحمت العالمین کے حوالے سے عید میلاد النبّی صلعم ہے پولیس کی اسپیشل ڈیوٹی لگائی جاتی ہے اور شام کو مائیں تب سُکھ کا سانس لیتی ہیں جب ان کے لال خیریت سے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔
زندگی کا بیشتر حصہ عرب کے ریگستانی معاشرے میں گزارنے سے کئی ایک سماجی اور سوشل سرگرمیاں ختم ہی ہو گئیں آج شام بازار میں ایک عجب قسم کی گہما گہمی نظر آئی، مٹھائی کی دکانوں پر کھجلے پھینیاں اور قتلمے پوریاں سجی دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ رمضان آگیا ہے دکانوں پر بینر لگے تھے اور تیل کی کڑھاؤ فٹ پاتھ پر ہی سجے تھے پنڈی کی کمرشل مارکیٹ کراچی کا برنس روڈ بنی تھی اس منظر کو دیکھ کر یقین آگیا کہ بھلے عام لوگ بھول جائیں کہ آج شب برات ہے مگر جنکے حلوے مانڈے انہی تقریبات کے دم سے ہیں وہ کہاں بھولنے دیتے ہیں۔
گھر لوٹ کر آئے تو بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی اگر بتیوں کی خوشبو نے استقبال کیا - یوں لگا کہ ہم کسی مزار کے احاطے میں داخل ہو رہے ہیں کیونکہ ہماری بلڈنگ کی پشت پر قبرستان ہے اور تیسری منزل پر ہمارے کمروں سے تمام قبریں صاف دکھتی ہیں ویسے تو یہ ایک پرانا قبرستان ہے مگر اپنے پیاروں کو یاد کرنے تو اب بھی لوگ آتے ہیں۔ انہوں نے اگربتیوں کی خوشبو سے سارا مہکا رکھا تھا اور اب شام ہوتے ہی کئی قبروں پر دیئے ٹمٹمارہے ہیں جانے کون لوگ ہوں گے جو چلے گئے مگر ان کے قدرداں ان سے پیار کرنے والے اب بھی اپنی وفاؤں کے چراغ لیے آ موجود ہوتے ہیں۔ ان ٹمٹماتے دیوں کی لوء سے یادوں کے کتنے تاریک کونے آج پھر منور ہوگئے۔
اب کے شب رات پر برسوں بعد ہم نے بھی صابونی حلوے کی کڑھائی چولہے پر چڑھوا دی کہ زبان و دہن کو اسی پرانے ذائقے سے پھر آشنا کریں۔ ‌
 

رضوان

محفلین
کاروبار کا بار

پچھلے سال شاہ جی نے اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی سے موبائل فون کی دکان تو کھول لی لیکن اب کچھ خوش نہیں ہیں وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ صبح شٹر اٹھانے سے جھوٹ شروع ہوتا ہے اور رات شٹر گرانے تک جھوٹ جاری رہتا ہے، باراڑی (سندھ میں دیہی علاقے کے لیے بولتے ہیں) تک میں دکانیں کھل گئیں ہیں بچہ بچہ بھید بھاؤ جانتا ہے اور یہ کام چلتا ہی ٹوپی کرانے پر ہےگراہک دکاندار کو خراب فون ٹِکا گیا تو دکاندار گھر تو لیجائے گا نہیں۔ وہ انتظار کرتا تھا کہ دور دراز کا کوئی پنچھی آئے تو اس کو بھِیڑ دیں تاکہ واپسی پر وہ سوچے کہ فون رکھنا وارے کا سودا ہے یا کرایہ بھاڑا لگا کر دکاندار سے جھگڑنا؟ پھر یہ کہ پہلے دن سے لیکر اب تک دکان کھائے ہی جارہی ہے دیکھنے میں سیل بھی اچھی ہے اور خرچا بھی زیادہ نہیں!! یہ تو اچھا ہے کہ ہم دونوں بھائی اپنی نوکری کر رہے ہیں اور دکان کی آمدنی پر کوئی بھی نہیں بیٹھا ہوا!
راحت صاحب منجھے ہوئے نوکری پیشہ کاروباری (نا خدا ہی ملا نا وصالِ صنم ) ہیں اور کئی دھندوں کو بدنام کرچکے ہیں آج کل بازارِ حصص پر دوبارہ کرم نوازی ہے اس لیے ٹی وی پر جیسے ہی تجارتی خبریں کی آواز سُنتے ہیں ٹی وی پکڑ کر وہی اُکڑوں بیٹھ جاتے ہیں انکا یہ آسن تجارتی خبریں ختم ہونے تک ایسا ہی رہتا ہے پیچھے کوئی لاکھ کہتا رہے کہ “چچا اپنا ڈھائی من کا سر تو ایک طرف کرلو” اور جس دن نیچے کے لاک لگتے ہیں اس دن سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں فوراً بولے ” شاہ جی سیدھا سیدھا جائز دھندا تو پھر یہی ہے کہ پرائز بانڈ کی سیریز اٹھاؤ اور جیسے ہی بنک سے سیل ختم ہوتی ہے قرعہ اندازی کے تین مہینے پہلے لاکھ پیچھے ڈھائی تین ہزار زیادہ پر بیچ دو۔ تین مہینے کا گیم ہے ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور اگر نہ بکیں تو ایک دو تو لگ ہی جاتے ہیں۔
کاروبار کرنے والے کیا کیا کام کرتے ہیں بندہ سُنے تو حیران رہ جاتا ہے۔ بنکوں میں لائن نکالو اور نئے نوٹوں کی گڈیاں وہاں سے خرید کر آگے ہار بنانے والوں اور شوقین لوگوں کو بیچو۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھاڑے پر پیسہ چلاؤ ۔ سَٹوریے (سَٹہ کھیلنے والے) ڈوب جائیں تو آپ کا بھی دیوالہ پِٹ جائے گا۔ اگر کوئی بھائی بند کسی وزارت میں ہے یا علیک سلیک ہے تو وارے نیارے آپ صرف اپنے کمیشن کی بات کریں اور خلقِ خدا کے پھنسے ہوئے کام اور پرمٹ وغیرہ کا مُک مُکا کروائیں باقی اوپر والے پر چھوڑ دیں۔ ہر سال بمع اہل و عیال عمرے کا بندوبست ہوجائے گا۔
 

رضوان

محفلین
زبردست بہت عمدہ

یادیں بہانے ڈھونڈتی ہیں کسی نہ کسی بہانے سے یاد آنے کیلیے، آج بھولے بھالے پر خلوص مرنجانِ مرنج طارق جسے عقیل مظلوم چڑیا کے نام سے بلاتے تھے خوب یاد آئے۔
ینبع البحر بحیرہ احمر کے کنارے واقع سعودیہ کا ایک قدیم شہر ہے۔ زمانہ قدیم سے مصری حاجی اسی بندرگاہ کو استعمال کرتے تھے اور اب بھی سڑک کےراستے جدہ سے شام اور مصر جانے والے افراد اسی شہر سے گزر کر جاتے ہیں۔ آج کل اس شہر کی وجہ شہرت و رونق یہاں کی صنعتی سرگرمیاں ہیں۔
1994 میں مجھے اور سعید کو ینبع کی ایک ریفائنری میں ملازمت ملی جو ابھی صرف کاغزات میں ہی اپنا وجود رکھتی تھی۔ سال بھر جدہ ہی کی ایک ریفائنری میں تدریب ( ٹریننگ ) کے نام پر روٹیاں کھِلائی گئیں اس دوران عقیل کو ینبع میں اور طارق کو ہمارے والی ریفائنری(جو اب طارق والی ریفائنری ہے) ہی میں ملازمت مل گئی یوں جب ہم لوگ ینبع شفٹ ہوئےتوچوکڑی پوری ہوگئی ۔ عقیل کی شادی طارق کی بہن کیساتھ ہوئی لیکن ہم سب کی بے تکلفی اور آپس کی چہلوں میں کوئی فرق نہ پڑا اور سب فیمیلیاں ایک دوسرے کیساتھ مل جُل کر رہتیں اور تفریح کرتیں طارق سب ہی کی عزت کرتا بلکہ سب کو خوب مکھن لگاتا بچوں کو لکھانے پڑھانے اور کرکٹ سکھانے کے علاوہ اس کا محبوب ترین مشغلہ تعریفوں کے پُل باندھنا ہوتا تھا۔ کتابوں کا بیحد شوقین ہے بس الماری بھری اور سجی رہے ادھر کسی نے کتاب مانگی ادھر ایسے پیٹ میں بل پڑتے کہ اندر ہی اندر کُلبلاتا رہتا اوپر ہی اوپر ہنستا رہتا کہ انکار والے دن تو پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ بعد میں دکھڑا مجھے اور عقیل کو سننا ہوتا۔
بات ہورہی تھی مکھن لگانے کی، طارق بہت مکھن لگاتا ہے لیکن اسکی مکھن بازی فی سبیل للہ ہی ہوتی ہے اکثر اتنا مکھن لگاتا ہے کہ اسے خود ہی پھسلنا پڑتا ہے کہ صرف مکھن باز ہے چاپلوس ہرگز نہیں۔ باہمی دعوتوں میں طارق کا وطیرہ ہوتا تھا کہ چاہے کھانا کیسا ہی کیوں نہ ہو کوئی نہ کوئی پہلو تعریف کا ڈھونڈھ ہی لیتا تھا۔
ہم مرچوں سے سی سی کیے جارہے ہیں وہ ارشاد فرماتے ہیں “بھابھی! کیا چٹ پٹا حلیم ہے۔“
چکن تکہ ہمارے اناڑی ہاتھوں اور صحرائی بگولوں سے ریت آلودہ ہے۔ لیکن طارق کے بقول کرپس اور کراراپن آگیا ہے۔
حد تو اس دن ہوئی جب اسکی چھوٹی بہن نے کڑاہی گوشت پکایا، سب ہی بیٹھے تھے، طارق صاحب نے پہلا نوالہ توڑا اور ابھی نوالہ ہاتھ ہی میں ہے کہ انہوں نے تعریف و توصیف شروع کردی لاجواب ذائقے کے لیے یہ دیکھ کر عقیل سے رہا نہیں گیا اور بول ہی پڑا “ ابے پہلے چکھ تو لے! پہلے ہی شروع ہو گئے واہ وا کیا بات ہے۔اتنا مزیدار بنا دیا! تو جتنی بھی تعریف کر دوبارہ نہیں بلانے والے۔“
(آج محفل پر ایک لمبی سی پوسٹ لکھی ابھی تبصرے کے لیے لنک دے ہی رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔ پیغام لکھا پایا گیا “ زبردست رضوان عمدہ موضوع چنا ہے!!!!!!!!! “
ارے بھائی پڑھ تو لیتے اتنی بھی کیا جلدی تھی)
 

رضوان

محفلین
گمک

کوئی پوچھے کہ ادھیڑ عمر مردوں کا محبوب ترین موضوع کیا ہے؟ جواب ہوگا دوسری شادی۔
جن اداروں میں ذرا بے تکلف ماحول ہوتا ہے تو چاہے میٹنگ ہو یا کینٹین، کام کی بات ختم ہوتے ہی ہلکا پھلکا ہنسی مزاق شروع ہوجاتا ہے۔ تختہ مشق نوجوان کنوارے ہوتے ہیں ان کو نشانے پر رکھ کر اپنی نا آسودہ حسرتیں بیان کیجاتیں ہیں یا دوسروں سے اگلوائی جاتی ہیں ۔
کچھ لوگ خاصے کم گو ہوتے ہیں ان کو بلوانے کے لیے مختلف تجربات کیے جاتے ہیں بالکل ایسی ہی جیسے طبیعات1 میں گُمک2 کی مدد سے دوشاخہ3 کا قدرتی تعدد4 معلوم کیا جاتا تھا اسی طرح اپنی خواہشات ومشکلات سنائی جاتی ہیں کوئی ایک مقام آتا ہے کہ کم گوء بھی بول اٹھتا ہے دوسری شادی کا ذکر بھی ایک ایسا ہی جادو ہے جو گونگوں کو بھی بلوادیتا ہے۔
موازنہ ہو رہا تھا موجودہ وقت کی ٹکنالوجیکل سہولیات کا پرانے زمانے سے تو ایک صاحب نے کچھ یوں انکشاف کیے: “ عجیب وقت تھا اب تو موبائل آگئے ہیں پہلے ٹیلیفون بھی کسی کسی کو نصیب ہوتا تھا ہاں فون میں ایک سہولت تھی کہ سی ایل آئی کی “ پکھراہٹ “ نہیں ہوتی تھی۔ جہاں پیغام رسانی مقصود ہوتی تو کبوتر پالے جاتے یا عمومًا نکڑ والا کھمبا مخصوص ٹون سے بجایا جاتا اگر شنوائی ہوئی تو درشن ہوجاتے ورنہ کوئی بڑے میاں بالکونی میں نمودار ہوتے اور کھانس کھنکھور کر بلغم کا گولہ گلی میں اگل دیتے۔ عیدوں تہواروں پر ملنے کے بہانے ڈھونڈھے جاتے اور میلے ٹھیلوں پر خواری کاٹی جاتی کی کہیں تو ملاقات کی سبیل نکلے اور بفرض محال ایسا ہو جاتا تو رقیبوں سے زیادہ محلے کے بڑوں سے جان جاتی کہ کوئی چچا ہے تو کوئی ماموں۔ آجکل کی طرح ڈیٹوں والی سہولت بھی نہیں تھی کہ انڈرسٹنڈنگ ہو رہی ہے، منگنی کے بعد ملاقات تو کجا شادی کے بعد بھی دن میں امّاں ابا کی موجودگی میں کھُلے بندوں بات کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی اور بات بھی کیا ہوتی تھی “ میرا کرتا کہاں رکھا ہے مِل نہیں رہا؟“ دو بچے ہوگئے تو کہیں جاکے اتنی ، انڈرسٹنڈنگ ، ہوئی کہ انہیں پتہ چلا کہ ہمیں آملیٹ پسند ہے یا فرائی اور ہمیں یہ آگاہی ہوئی کہ خاتون کو وہ چوڑیاں بہت اچھی لگیں تھیں جو پچھلی عید پر امّاں سے چھپا کر ہم نے انہیں لا دیں تھیں۔ یہ معاملہ تو ہمارا جائز نکاحی بیوی کے ساتھ تھا باقیوں کا ذکر ہی کیا۔“
پھر مزید کریدنے پر کہنے لگے “ سچی بات ہے کہ اب بھی کھلے بندوں یا ڈھکے چھپے دعوتیں تو ملتیں ہی ہیں کہ عمر ڈھل رہی ہے لیکن اسٹیٹس تو ہے“
“ پھر دوسری شادی کیوں نہیں کرلیتے “
“ بہت سی باتیں دیکھنی سوچنی پڑتی ہیں سامنے کی بات ہے مہنگائی کا زمانہ ہے اور جب ایک گاڑی کا پٹرول ڈیزل جب مشکل سے پورا ہوتا ہو تو پھر دوسری گاڑی کیسے چلے گی۔ “

1 ( Physics )
2 ( Resonance )
3 ( Tuning Fork )
4 ( natural frequency )
 

رضوان

محفلین
سائبر کرائم بِل

نعمان کی حالیہ پوسٹ میں مجوزہ آئی ٹی آرڈیننس (جسے کابینہ کے لمبے بازو قبول کرچکے ہیں ) کو اگر پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واقعی انتہائی تشویش کا مقام ہے۔ اس سے آئی ٹی سے وابستہ تمام ہی شعبے بری طرح متاثر ہوں گے لیکن کاروبار سے وابستہ دیگر افراد کی پشت پر تنظیمیں اور معاشی وسائل موجود ہوتے ہیں اور ان کے ہم پیشہ افراد فعال پریشر گروپس تشکیل دے سکتے ہیں جس کے چھتر سائے میں انہیں احساسِ تحفظ ہوتا ہے۔
بلاگرز کی صورتحال دوسری ہے اول تو معاشرہ ہی اس سے روشناس نہیں ہے پھر ایک قبائلی اور جاگیرداری تنگ نظر طرزِ فکر ہر طرف اپنا پھن لہرا رہا ہے جسے اختلافِ رائے تو رہا ایک طرف اظہارِ رائے تک برداشت نہیں ہوتا۔

سول سوسائٹی اپنی بقاء کے لیے پریشان ہے اسے آئی ٹی، ماحولیات، بلاگرز جیسے چُچہ بُچہ مسائل کی طرف دھیان دینے کی فرصت نہیں ہے اوراگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اخبارات و نشریات کی آزادی کسی نے بخشیش کی ہے اسے شاید اس کے پیچھے موجود پریشر گروپس اور مفادات دکھائی نہیں دیتے یا شعور ہی نہیں ہے۔

اس سارے منظر میں پاکستانی بلاگرز نہ صرف یہ کہ غیر محفوظ ہوں گے بلکہ سب سے زیادہ ایکسپوزڈ اور سب کی آنکھ میں کھٹکتے رہیں گے، کیونکہ پاکستان میں نوکر شاہی قانون اسطرح بناتی ہے کہ شتربچے کو بھی ہاتھی کے شبہے میں پکڑا اور لٹکایا جاسکے۔
اب اگر فعال تنظیم بنے تو اس کا دُھرا فائدہ ہے ایک تو قانونی تحفظ دوسرا بلاگرز بھی ذمہ داری کا ثبوت دیں گے اور معاشرے کے ہاضمے کے مطابق ہی لکھا اور چھاپا جائے گا۔
اس کالے قانون کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے ورنہ معاشرے کی گھٹن کے زیرِ اثر ہسپتالوں اور قبرستانوں کا اضافہ کرنا پڑیگا جسکے لیے زمین چاہیے جو پہلے ہی شاپنگ پلازوں کے لیے بھی کم ہے۔
 

رضوان

محفلین
عِلموں بس کریں او یار! بُلّھے شاہ

عِلموں بس کریں او یار!

اِکّو الف ترے درکار

عِلم نہ آوے وچ شُمار!

جاندی عُمر، نہیں اِعتبار

اِکّو الف ترے درکار

عِلموں بس کریں او یار!

عِلموں بس کریں او یار!

پڑھ پڑھ لکھ لکھ لاویں ڈھیر

ڈھیر کتاباں چار چوپھیر

گِردے چانن وچّ انھیر

پُچھّو: “راہ؟“ تے خبر نہ سار

عِلموں بس کریں او یار!

پڑھ پڑھ نفل نماز گزاریں

اُچیاں بانگاں، چانگاں ماریں

مِنبر تے چڑھ، وُعظ پُکاریں

کیتا تینوں علم خوار

عِلموں بس کریں او یار!

عِلموں پئے قِضیّے ہور

اکھّاں والے انّھے کور

پھڑدے سادھ، تے چھڈن چور

دو ہِیں جہانِیں، ہون خوار

عِلموں بس کریں او یار!

ڑھ پڑھ شیخ مشائخ کہاویں

اُلٹے مَسلے گھروں بناویں

بے عِلماں نوں لُٹ لُٹ کھاویں

جھوٹے سچے کریں اقرار

عِلموں بس کریں او یار!

پڑھ پڑھ مُلاں ہوئے قاضی

اللہ عِلماں باجھوں راضی

ہووے حرص دنوں دِن تازی

تینوں کیتا حرص خوار

عِلموں بس کریں او یار!

پڑھ پڑھ مسئلے پیا سناویں

کھانا شکّ شُبھے دا کھاویں

دسیں ہور تے ہور کماویں

اندر کھوٹ باہر سُچیار

عِلموں بس کریں او یار!

جد میں سبق عشق دا پڑھیا

دریا دیکھ وحدت دا وڑیا

گھمّن گھیریاں دے وچ اڑیا

شاہ عنایت لا یا پار!

عِلموں بس کریں او یار!
 

رضوان

محفلین
ایک گزرا ہوا دن!

گھر سے آتے ہوئے آخری دن ہمیشہ سے ہی اداسی کا غلبہ رہتا ہے کہ اب پندرہ دن کے لیے مجھے دور چلے جانا ہے۔

اس دفعہ کا سفر خاصا خوشگوار رہا۔ اس پندرواڑے میں گھر پر رہتے ہوئے کچھ ایسے کام آن پڑے تھے جو سرکار سے کروانے تھے اور سرکاری دفاتر سے کام کروانا گویا کارِسرکار میں مداخلت ہوتی ہے اس پر ہرجانہ و سزا دونوں لاگو ہوتی ہیں۔
ایرپورٹ پر کچھ معمول سے زیادہ ہی رش تھا وہ بھی بین الاقوامی آمد کی طرف۔ خیر مجھے اپنے ای ٹکٹ کے سلسلے میں لاؤنج میں موجود پی آئی اے کے دفتر سے نمبٹنا تھااس لیے میں اسطرف کو چلدیا، اسی دوران جیوے جیوے پاکستان کے نعرے گونج اٹھے جو اس سیاسی صورتحال میں جب ہر کوئی اپنی ذات اپنے نام کی جے جے کار پکار رہا ہو پاکستان کا نعرہ لگنا عجیب سی بات محسوس ہوئی۔ جب پوچھ تاچھ کی تو پتہ چلا کہ پاکستانی کر کٹر سہیل تنویر واپس لوٹے ہیں اور ان کے استقبال میں یہ نعرے لگائے جارہے ہیں سہیل تنویر کو پھول پتیوں سے سجا کر ایک چھوٹے سے جلوس کی شکل میں ایر پورٹ سے لیجایا گیا یہ لوگوں کا 20 ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں پہنچنے اور اچھی کارکردگی دکھانے پر خراجِ تحسین تھا ساتھ ہی ٹولیوں میں کھڑے لوگوں میں گفتگو ہونے لگی مصباح اور تنویر کے چھکوں پر اور یونس خان کی پھُسپھسی کارکردگی پر، اس گفتگو اور باہمی اظہارِ خیال نے تھوڑی دیر کے لیے اسلام آباد ایرپورٹ کے تنے ہوئے مغرور ماحول کو بے تکلف ریلوے اسٹیشن بنادیا اور صرف کھیل کی باتوں ہی سے کتنے لوگوں کے چہروں سے تناؤ غائب ہوگیا۔
صبح سویرے سویرے مختلف دفاتر سے اپنے کام بھگتائےاور بارہ بجے نڈھال پی سی پہنچا کہ کچھ آرام کر لوں یہاں بھی آج معمول سے کہیں زیادہ سیکوریٹی دکھائی دی، پتہ یہ چلا کہ جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کچھ ہی لمحوں بعد پدھارنے والی ہے اس لیے یہ سب ہوشیار باش دِکھ رہے ہیں ابھی میں کاؤنٹر پر موجود ہی تھا کہ ٹیم کو لیے بس آموجود ہوئی ویلکم ٹو پاکستان اور گڈ مارننگ، ہیلو پاکستان کیساتھ ہی کیمروں کے فلاش بھی چلنے لگے اس موقع سے میں نے بھی فائدہ اٹھانا چاہا اور اپنے موبائل سے کھٹا کھٹ تصاویر بنانی چاہیں مگر ہر تصویر کے بعد گول گیند گھومنے لگتی اور دو تین تصاویر ہی بن پائیں کہ پوری ٹیم غائب۔ شام میں کافی ٹیم ممبرز جانگیہ بنیان پہنے لاؤنج میں نظر آئے۔
کراچی پہنچوں تو دوستوں رشتہ داروں سے ملنے کے بعد اہم کام ریگل چوک پر پرانی کتابوں کے ٹھیہے کا چکر لگانا ہوتا ہے،پہلے تو پرانی کتابوں کا ایک پورا بازار لگتا تھا اب بھی شاید اتوار کو ایسا ہوتا ہو لیکن عام دنوں میں تو بس ایک شمشاد اللہ خان صاحب پرانے وقتوں سے بیٹھتے چلے آرہے ہیں ان کے پاس بھی اب پرانی کتابیں کم ہی ہوتی ہیں ورنہ ساقی، فنون وغیرہ کی کافی قدیم کاپیاں ان کے پاس سے مِل جایا کرتی تھیں اب کی دفعہ کچھ وقت بھی زیادہ تھا اور رمضان کی وجہ سے فٹ پاتھ پر رش بھی نہیں تھا تو میں وہیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور شمشاد صاحب کی باتیں سنی کہ پرانے وقتوں سے کتب فروشی کا کام کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کئی لوگ جو ان سے کتابیں لیا کرتے تھے ٹرانسفر ہوگئے اندرونِ ملک اور کچھ ایسے بھی ہیں جو کئی سالوں بعد آ نکلتے ہیں امریکا سے انگلینڈ سے ” شمشاد بھائی پہنچانا؟ آپ سے فلاں فلاں کتابیں لیں تھیں اور فلاں آپ نے کہیں تھیں کہ لا دوں گا۔” انٹرویو بھی ہوئے جنگ مڈ ویک میں اور ایکسپریس نے بھی انکا احوال چھاپا۔ انکی تصاویر میں نے بھی بنائیں ہیں اور موبائل کی کیبل ملتے ہی آپ کو بھی زیارت کر وادوں گا۔ ان سے کچھ کتابیں بھی مل ہی گئیں۔
واہ کیا بات ہے میں اپنی قسمت پر نازاں تھا کہ کل سے بس سیلیبرٹیز سے ہی ملاقاتیں ہورہی ہیں۔
پانچ بجے زینب مارکیٹ سے فارغ ہوکرسوچا کہ کیوں نا نعمان کی نگری چھانی جائے شاید اس سے ملاقات ہو جائے لیکن - - -
روزہ تھا
اور لگ رہا تھا
اس لیے واپس پی آئی ڈی سی کا کہہ کر رکشہ پکڑا اور ہوٹل کی مارکیٹ سے کھجوریں پکڑیں اور کمرے میں
‌پہنچ کر اکیلے ہی ” شو موویز” لگا کر افطار کا انتظار کھینچتے رہے۔
ایک عرصے کے بعد اکیلے بیٹھ کر افطار کیا بہت عجیب لگا لیکن ہمت نہیں تھی کہ باہر جاسکتا۔
رات کے کھانے کے لیے جب پتہ کیا تو ” چاندنی “ بند تھا اور دیگر تمام بوفے بھی مختلف پارٹیز کے لیے بُک تھے سوچا اتنا عرصہ ہوگیا جاپانیز کھانا کبھی نہیں کھایا چلو آج سوشی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ مینو سارا کا سارا ہی عجیب و غریب تھا اس لیے ویٹر سے مینو میں میں مدد چاہی اور اس کا کافی دماغ کھانے کے بعد ” مگرا سوشی “ کھائی ساتھ ہی جھینگا سلاد، حقیقتًا لطف آگیا۔
 

رضوان

محفلین
لاتعلقی

ایک اور بوجھل دن جیسے کسی ناگہانی آفت کے بعد خبریں آتی ہیں کہ اتنے لوگ متاثر۔ ایک مایوسی سی چھائی رہی بس ادھر ادھر کی باتوں میں خود کو الجھائے رکھا بار بار نیوز کی سائٹ کو ریفریش کرتے رہے اس آس پر کہ اب کچھ اچھی خبر آتی ہے ۔
اچھی خبر کی بھی ایک رہی ہمارے الگ الگ پیمانے ہیں اچھے برے کے بعضوں کے نزدیک وکلاء اور اپوزیشن پارٹیوں کی جیت اچھی خبر ہے تو بعضے مشرف اینڈ کمپنی کو فاتح دیکھنا چاھتے ہیں۔ ایک عجیب سی بے چینی ہے ہمارا مزاج تماش بیانہ سا ہو گیا ہے مڈل کلاس تو تاریخی طور پر ہی بزدل ہوتی ہے اور پیش قدمی سے ہر ممکن گریز کرتی ہے۔ جب تک کسی پارٹی کی فتح کا مکمل یقین نہ ہوجائے ساتھ نہیں دیتی۔ عوام کی اکثریت کو متحرک کرنے کی کوئی واضح تحریک دکھائی نہیں دیتی۔ حکومتوں کا ساتھ ہمیشہ غرض مند ہی دیتے ہیں پرمٹوں اور اقتصادی مراعات کی گاجر بھی اسوقت موثر نہیں کہ گدھے پہلے ہی بدہضمی کا شکار ہیں اور انکی تجوریاں ابلی پڑی ہیں اور اکثریت اس خیال میں ہے کہ موجودہ سیٹ اپ سے جتنا دوھنا تھا دوھ لیا اب نئی گائے کو دوھنے کی تیاری کی جائے آخر کو جو بھی آئے اہلِ زر اور اہلِ اختیار کی حاجت تو اسے رہے گی، اس لیے اس مرحلے پر اگر تھوڑا دم لے لیں تو تازہ دم ہوکر نئے حکمرانوں سے ساتھ جڑت ہوجائے گی اسوقت تو نیب کے دانت بھی کھٹے ہوچکے ہیں پھر گھیرے جانے کا ڈر کیسا اسلیے جنہیں حکومت پہلے گھیر لائی تھی وہ مال بنا کر دور دیسوں میں بیٹھے نیرو کی بانسری بجارہے ہیں اور لوٹی ہوئی چینی سے بنے بتاشے گھول گھول کر پی رہے ہیں۔ تحریکوں کا ایندھن بننے والی عوام کو سہانے نعروں کے اتنے ٹیکے لگائے گئے ہیں کہ اب ایڈ کے مریض کی طرح کوئی دوا اثر نہیں کرتی جبتک کوئی نیا معالج اپنے کارگر تیر بہدف نسخے کے ساتھ میدان میں نہیں آتا عوام باہر آنے کو تیار نہیں ہے۔ پہلے لوگ تماشہ دیکھنے آتے اور خود تماشہ بن جاتے تھے اب سکرین کے سامنے بیٹھ کر ہی تمام مناظر سے لطف اٹھا لیتے ہیں۔ یہ سیاسی کھیل بھی انکے لیے کرکٹ میچ ہی کی طرح ہوگیا ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ اس میچ میں عوام اپنی ٹیم کو بھی داد دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
 

رضوان

محفلین
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا

نہ کوئی افسانہ نہ کوئی سنی سنائی بات ہے، یہ آنکھوں دیکھی حقیقت ہے اور تُک بندی کرکے تحریر کرہا ہوں۔
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
میں اس کا اکلوتا بھانجھا ہوتا
وہ کماتا میں کھاتا
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
میں نئے نئے دام بچھاتا
لچھے دار باتوں میں اسکو الجھاتا
وہ کماتا میں کھاتا
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
وہ اپنے گاڑھے پسینے سے کماتا
میں نئی نئی فرمائشیں کر کے نوٹ منگواتا
اسکو نئی نئی اسکیمیں سجھاتا
پیسے پر اسکے اپنےیاروں کو عیش کراتا
وہ کماتا میں کھاتا
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
باقی سارے خاندان سے ہٹا کر
صرف اپنے جال میں پھنسا کر
نت نئے کاروبار انوکھے
اچھوتے بیوپار بتاتا
وہ کماتا میں کھاتا
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
بھر بھر کے جب میرے خسارے
تنگ تنگ وہ آجاتا
ترپ کی چال میں چلتا
مکان بنوانے کا خیال میں اسے دلاتا
خون پسینے سے وہ کماتا
اینٹ گارے میں میں لگاتا
وہ کماتا میں کھاتا
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
آدھا مکان اسکا بنوا کر
پوری کوٹھی اپنی بنواتا
جب بھی دیس کو آنے کی وہ کہتا
یہاں کی مہنگائی یہاں کے حالات سے اسے ڈراتا
وہ کماتا میں کھاتا
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
بچے جب ہو جاتے اسکے بڑے
چارہ اسکے پاس کچھ اور نہ ہوتا
میری منتیں ترلے کرتا
میری کوٹھی کرائے پر لے کر
بچوں کو وہ اپنے رکھتا
وہ کماتا میں کھاتا
کاش میرا ماموں بھی باھر ہوتا
 

رضوان

محفلین
المیہ در المیہ

کس میں ہمت ہے کہ ان پے در پے تازیانوں کے بعد مرثیہ ہی لکھ سکے۔
آج پھر شہر پناہ کے گردا گرد غنیم کے حریص و مکار لشکری بڑھے چلے آتے ہیں۔
کوتوال شہر اپنے جھوٹےگھمنڈ اور ہوس کے دوام کے لیے ہر قزاق کے تلوے چاٹنے پر تلا ہوا ہے۔
رعایا ابھی تک خوابِ غفلت کے فسوں میں ہے۔ قاضی افسوں گر خود پریشان ہے کہ اس کا اپنا کیا طلسم اب ختم نہیں ہوتا۔
میرا شہر پناہ آج باہر اور بھیتر سے تیر اندازوں کی زد میں ہے۔

(مصالحتی آرڈیننس پر اتفاق، صدارتی انتخابات اپنے وقت پر ہونگے)
 

رضوان

محفلین
ایک دفعہ پھر پردیس سے بلاوہ آیا ہے اور مشرق وسطیٰ کی ایک کمپنی میں جاب آفر ہوئی ہے۔اس ماہ کے آخر میں روانہ ہوناہے۔ اپنی موجودہ ملازمت سے چند دن پہلے میں استعفیٰ دے چکا ہوں۔ ( ملاں ڈیزل تو قاضی اور قوم کو غچہ دے گیا لیکن میں نے لبیک کہا) کل میری کمپنی کے ساتھیوں نے الوداعی پارٹی کا انتظام کیا تھا۔ کراچی سے پلانٹ مینیجر بھی آگئےتھے اور یہاں والے بھی مل ملا کر 20 بائیس افراد کی پارٹی بن گئی۔ مقامی KFC ہی مناسب مقام لگا جہاں سب مل بیٹھے۔ تمام ساتھیوں نے انتہائی محبت و خلوص کے جزبات کا اظہار کیا۔ سچ پوچھیں تو یہ تین سال انتہائی پر لطف طریقے سے ہنستے کھیلتے گزر گئے۔ پلانٹ کے مسائل اور مشکلات پربھی اکھٹے کام کرتے ہوئے کبھی گرما گرمی نہیں ہوئی، ہنسی مزاق اور جگت بازی میں کڑے سے کڑا وقت گزار ہی دیا۔
چھوٹی سی ہماری کمپنی ہے اور چند ہی لوگ ہیں اس لیے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ پاکستانی آئل کمپنیز میں کام کرنے والے ویسے بھی ایک عالمی قبیلہ سا بن چکے ہیں۔ دنیا جہاں میں پھیلے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی حوالے سے ایکدوسرے کو جانتے ہیں کسی نے اکھٹے کام کیا ہے تو کسی کا دوست کسی کے ساتھ تھا۔ اس وجہ سے رابطہ رہتا ہی ہے۔ یہاں بھی جب میں آیا تو چند ایک کو جانتا تھا اب جب جا رہا ہوں تو پچیس تیس لوگوں کا اپنے حلقہ احباب میں اضافہ ہی کر کے جارہا ہوں۔ ساتھیوں کا رویہ دوستانہ تھا اسی وجہ سے اچھا وقت گزر گیا۔
پاکستان میں ورکنگ انوائرمنٹ(ماحولِ کار) زیادہ دوستانہ نہیں ہوتا جسکی وجہ میرے نزدیک صدیوں سے قائم ذات پات کا نظام اور اس پر طرہ مارشل ریسسز کا احساسِ کمتری ہے جو نظم و نسق کے نام پر اداروں کے اندرونی ربط کو تباہ کیے دے رہا ہے۔ ہمارے ادارے میں اتفاق سے اکثریت مڈل ایسٹ سے کام کر کے آئی تھی اور پھر امریکن انتظامیہ کا کوئی بندہ بنفسہ یہاں موجود نہیں ہوتا اس لیے نہ ہی مقامی افسر شاہی اور نہ ہی گورا شاہی پنپ سکی۔ بھائی لوگوں نے ” سر ” کلچر کو کافی پانی اور کھاد دینے کی کوشش کی مگر ابھی تک تو یہ ایک ٹنڈ کا ٹنڈ ہے اور مستقبل قریب میں بھی برگ و بار کے آثار نظر نہیں آتے۔ ویسے
کتنے کم ظرف ہوتے ہیں غبارے
چند پھونکوں میں پھول جاتے ہیں
(شعر میں الفاظ کے ہیر پھیر کے لیے معذرت)
(تبصرہ جات کے لیے الوداعیہ)
 

رضوان

محفلین
سونجھیاں ہو جان گلیاں, وچ مرزا یار پھرے!

حجرے شاہ مقیم کی جٹی! بکرا دان دینے پر تیار تھی لیکن اسلام آباد کی گلیاں عید کے دن بکرا صدقہ کیے بغیر ہی “ سونجیاں“ ہوگئیں اور مرزا یار اکیلا ہی پھرتا رہا۔ تیسواں روزہ ملازمت پیشہ افراد کے لیے عید بونس بن گیا اور سہولت کے ساتھ بچے کھچے افراد بھی اپنے اپنے پیاروں کو پیار کرنے روانہ ہوگئے۔ لوگ رہتے اسلام آباد میں ہیں اور پیار کی پینگیں کہیں اور بڑھائی ہوئی ہوتیں ہیں۔ عیدین کے تہواروں پر یہ بیوفائی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ لیکن ایسا صرف اسلام آباد کے ساتھ ہی نہیں ہوتا کراچی اور لاہور سے بھی پردیسیوں کی ٹرینیں اور نیو خان کی کوچیں بھر کر نکلتیں ہیں سب روزی روٹی کے چکر ہیں روٹی کہیں ملتی ہے “روزی“ کسی اور جگہ بیٹھی ہجر کے نغمے الاپتی ہے اور وصال کی ترغیب دیتی ہے ۔
سُونے شہروں کی فہرست میں 92 سے پہلے جدہ جیسا کوئی شہر نہ ہوگا جہاں حج کے دنوں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اور عین ایامِ حج یعنی 4 دن خلقت مکہ مکرمہ کو سدھار جاتی تھی دکانیں اور کاروبار میں غالب اکثریت یمنیوں کی تھی جو پاک وہند کے لوگوں کی طرح حج درحج در حج کے مواقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اس لیے اگر کوئی قسمت کا مارا جدہ میں رک بھی جاتا تو روٹی کے لالے پڑجاتے تھے، وہ تو عراق کویت تنازعہ پر سعودی حکام نے یمن کی حکومت کے عراق کا ساتھ دینے پر تمام یمنیوں کو (جن کا دوسرا گھر سعودیہ کہلاتا تھا) انتہائی محدود وقت میں دیس نکالا دیا اور مقامی سعودی آگے آئے پھر انہیں کاروبار کا ایسا چسکا لگا کہ تمام غیر سعودیوں پر عام کاروبار کے دروازے بند کردیے اور ساتھ ہی ایام حج میں جدہ کی رونقیں بڑھ جاتیں کہ ان دنوں مکہ کے سعودی بھی حاجیوں کے اژدھام سے تنگ ہوکر جدہ آکر مسکراتے ہیں (ابتسم انت فی جدہ )۔
اسلام آباد کی سونجھی گلیوں سے بات کہاں جا پہنچی! اور یہ بے رونقی تو چار دن کی ہے پھر وہی اندھیری رات !!! باسی عید بھی گزر گئی! جانے پاکستان کے باسیوں کے چہرے پر کب رونق لوٹے گی۔ کب وہ دن آئے گا جب ہم بھی کہہ سکیں گے “ مسکرائیے آپ پاکستان میں ہیں“۔
( تبصرے کے لیے " سونجھیاں ہو جان گلیاں, وچ مرزا یار پھرے! " )
 

رضوان

محفلین
پھیری والے سوداگر

پھیری والے پہلے جاپانی کپڑا،قالینیں، غالیچے اور پھر سستی الیکٹرونکس کی چیزیں فروخت کرتے ہی تھے ۔ پوچھنے پر بھاؤ وہ بتاتے ہیں کہ بندہ کہے کہ دوبئی آنے جانے کا کرایہ بھی اسی ایک آئٹم سے نکالنا ہے ساتھ ہی بارگیننگ کا آپشن بھی کھُلا رکھتے ہیں کہ “ آپ بتاؤ! وارے میں آیا تو دیگا“ یارا کچھ تو بولو پیسہ نہیں ہے تو ادھار کریگا،۔
گھر کے دروازے پر آیا سوداگر جب اس طرح کی سیلزمین شپ دکھائے تو کون بچ سکتا ہے نتیجتًا درمیانے طبقے کے علاقے میں ریکوری کی ٹیمیں کریڈٹ کارڈ والوں سے بہت پہلے ہی گھوما کرتیں تھیں اور انکا طریقہ کار بھی ہماری معاشرتی اقدار سے میل کھاتا تھا یہ نہیں کہ پہلی پیمنٹ لیٹ ہوئی تو سوٹٹ بوٹٹ غنڈوں نے ٹیلیفون پر ماں بہن پُنّنا شروع کردیا آپ نے شکایت کی تو مینیجر نے انتہائی انکساری سے معذرت کی اور ساتھ ہی پانچ منٹ بعد دوبارہ وہی گالم گلوچ سے پُر فون آگیا۔ پھیری والے مال بیچتے وقت اکیلے دکھائی دیتے ہیں مہینے ڈیڑھ یا پیمنٹ کے وعدے والے دن آئیں تو دعا سلام ہوئی پیسے کی بات سے پہلے دروازے پر کھڑی ٹیکسی جسمیں تین چار مزید سوداگر براجمان ہوتے ہیں کا کرایہ ادا کرنے کی فرمائش ہوتی ہے۔ گاہک نے ٹیکسی کے کرائے کو غنیمت جانا اور یہ ادا کرنے کے بعد خان صاحب سے درخواست کی کہ ابھی تو گھر پر پیسے نہیں ہیں اس لیے کچھ مہلت عنایت فرمائیں۔ “ کوئی بات نہیں آپ میرا بھائی! پانچ چھ دن بعد آجائے گا۔ اللہ حافظ“
پانچ دن بعد خان صاحب بمعہ اپنے حواریوں کے دوبارہ عین کھانے کے وقت آن وارد ہوتے ہیں۔ اب بھی پیسوں کا انتظام نہیں ہوا تو ٹیکسی کا کرایہ اور کھانا دونوں مقروض کے ذمے۔ مقروض گاہک میں اگر ذرا سی بھی حسِ معاشیات موجود ہو تو ادھار چکتا کر کے جان چھُڑواتا ہے اور آئندہ کے لیے تائب ہوجاتا ہے۔
یہ ساری کتھا تو ویسے ہی بیچ میں کود پڑی اصل بات یہ ہے کہ اب پھیری والے چوٹی پراندوں اور جوسر بلینڈر کے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ اور ڈیجیٹل کیمرے بھی بیچتے ہیں اور ہم جیسے ڈیڑھ سیانے خرید بھی لیتے ہیں۔ FUJITSU کا لیپ ٹاپ بقول خانصاحب کے پینٹیئم تھری ہے ہارڈ ڈسک آٹھ حصوں میں منقسم ٹوٹل 10 جی بی اور 900 میگاہرٹز پروسسر بمع 256 ایم بی ریم مبلغ 15000ہزار روپے میں بیچ رہا تھا جسکو بیٹا میرا گھیر لایا کہ چیک کرتا ہوں باقی باتیں بعد میں۔ وینڈوز 98 انسٹال کی ہوئی تھی اور ایک دو چٹخارے دار پشتو رقص بھی محفوظ تھے۔ جانچ پڑتال سے یہ تو پتہ چل گیا کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
ساتھ ہی سی ڈی ڈرائیو بھی کام نہیں کر رہی تھی اب عمیر اور شعیب ( عمیر کا دوست) نے بھاؤ تاؤ شروع کیا خانصاحب بلکہ مولوی خانصاحب ساڑھے پانچ ہزار میں مان گئے لیکن عمیر اینڈ فرینڈز نے 4500 کی ادائیگی کی کہ سی ڈی ڈرائیو لائیں اور باقی کے ہزار لے جائیں۔ دونوں پارٹیاں خوش تھیں کہ میدان مارلیا ہے۔ اس کے بعد جب فارمیٹ کیا گیا تو حقیقت یہ کھلی کہ 365 کا پروسسر، 3 جی بی کی ہارڈ ڈسک اور 64 ایم بی ریم لیکن کھینچ تان کر ایکس پی ڈال دی گئی ہے اور سی ڈی ڈرائیو بھی ٹھیک کرچکے ہیں۔ یعنی مبلغ 4500 نصف جنکے دوہزار دو سو پچاس ہوتے ہیں میں صحیح سالم P - II
اب آپ ہی بتائیں کہ فائدے میں کون رہا؟



( تنقید و تبصرے کے لیے " پھیری والے سوداگر" )
 

رضوان

محفلین
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

پی پی پی سے اختلاف ہوسکتا ہے بینظیر کی مخالفت کیجاسکتی ہے لیکن عوام کی جان لینا انہیں دکھ پہنچانا کوئی بھی ذیشعور مہزب شخص اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ بینظیر کی مشرف کے ساتھ مفاہمت پر خود پی پی والے خوش نہیں تھے لیکن اس بات کی سبکو خوشی تھی کہ محترمہ واپس تو آرہی ہیں۔ باہر بیٹھ کر ہدایات دینے اور ساتھ رہ کر ان کے نتائج بھگتنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
جن قوتوں کو عوام سے چڑ ہے جو خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اور ان کے وہ آفاقی ساتھی جو اپنی ہوس اقتدار کےلیے کتاب سے تاویلیں تراشتے اور جمہور کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں ان سب کے لیے کسی بھی جمہوری لیڈر کا یوں عوام کے درمیان موجود ہونا اور عوام کا متحرک ہونا اس لمحہ تاریخ میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ کتنی محنت کی ہے ان قوتوں نے عوام کے شعور کا گلا گھوٹنے کے لیے ان کی آنکھوں پر مزہب اور عصبیت کی پٹی باندھی ہے، اسّی کے عشرے سے ایک مخصوص سبق پڑھایا جارہا ہے اب وہ طوطے بڑے ہوگئے ہیں اور اس معاشرے کے تاروپود بکھیرتے چلے جارہے ہیں ان کی راہ میں کچھ من چلے، کچھ جیالے کچھ سر پھرے ابھی بھی کھڑے ہیں اس عزم کے ساتھ کہ وہ وقت کا پہیہ پیچھے کی جانب نہیں لے جانے دیں گے۔ جو طاقت عوام کو ایک دفعہ مِل چکی اسے دوبارہ چھیننے نہیں دیں گے۔ جہاں ایک دفعہ علم کا اجالا پھیل چکا ان ذہنوں کو دوبارہ جہالت کی تاریکیوں میں نہیں دھکیلنے دیں گے کتنے ساحر وردی پہن کر آئے لیکن نظر بندی سے سحر سے بھلا حقیقت کہیں چھپ سکتی ہے، پہلے وردی والوں کی ٹیم میں جبہ و دستار والے بھی شامل تھے اور نظر بندی کے ایکٹ کے دوران یہ اہلِ جبہ و دستار ایک طرح کی افیون کے زریعے عوام کی عقل کو ماؤف کرتے تھے تاکہ وردی والوں کو نظر بندی میں مشکل پیش نہ آئے پھر یوں ہوا کہ اہلِ جبہ و دستار کی وردی والوں سے عوام کی لوٹ کی بانٹ پر بظاہر لڑائی ہوگئی اور دونوں ٹولوں نے جمہور کو الگ الگ لوٹنا شروع کردیا لوٹ تک ہی بات رہتی تو بھی ایک تھا لیکن دونوں ہی نے معصوم عوام کا قتلِ عام بھی شروع کردیا ہے۔
ایسے حالات میں بینظیر امید کی کرن بن کر چمکی ہیں۔ کیماڑی سے خیبر تک عوام جو بزعم خود دانشوروں کے نزدیک بے حس ہوچکی تھی باہر آنے پر تیار نہیں تھی وہ عوام سیکوریٹی کی وارننگز کے باوجود اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے انکے استقبال کو سرحد، سندھ، پنجاب اور بلوچستان سے آن موجود ہوئیں۔ یہ عوام باشعور ہیں انہیں پتہ ہے کہ انکے باہر آنے سے کن قوتوں کو پس پردہ جانا ہوگاسورج نکلتا ہے تو ظلمتوں کے پجاری منہ چھپانے لگتے ہیں۔ سورج پر انکا بس نہیں چلتا تو آنکھوں پر پٹیاں باندھتے پھرتے ہیں۔
اجالے کے متلاشیوں کو سلام۔ انکی عظمتوں کو سلام جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا۔ اپنے خون کی سرخی سے قوم کے مقدر کی سیاہی دھونے کی کوشش کرنے والوں کو لاکھوں سلام
فیض آج پھر بے طرح یاد آئے

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علَم
اور نکلیں گے عُشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

( تنقید و تبصرے کے لیے " ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے " )
 
Top