سراج الحق بنام نریندر مودی… قلم کمان - حامد میر

سراج الحق بنام نریندر مودی… قلم کمان
SMS: #HMC (space) message & send to 8001
hamid.mir@janggroup.com.pk
برصغیر پاک و ہند میں ایک دوسرے کو آموں کے تحفے بھجوانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ایک دفعہ اکبر الٰہ آبادی نے علامہ اقبال کو الٰہ آباد سے لنگڑا آم بھجوایا۔ علامہ اقبال نے شکریے کیساتھ اپنے بزرگ دوست کو یہ شعر لکھ بھیجا؎
اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبر
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا، لاہور تک پہنچا
1947ءمیں تقسیم ہند کے بعد مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت میں پہلی جنگ نے دونوں ممالک کے تعلقا ت میں کافی کڑاوہٹ پیدا کردی۔ بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے اور وعدہ کرلیا کہ وہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے کرینگے۔ اس وعدے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے دونوں ممالک کے تعلقات میں کڑواہٹ کم کرنے کے لئے نہرو کو آموں کا تحفہ بھجوایا۔ان آموں کی مٹھاس نے کوئی کام نہ دکھایا اور اگلے کچھ برسوں میں پاکستان اور بھارت میں مزید دو جنگیں ہوگئیں۔ جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اندرا گاندھی کو آموں کا تحفہ بھجوا کر مینگو ڈپلومیسی کے نئے دور کا آغاز کیا لیکن اندرا گاندھی نے کشمیری حریت پسند مقبول بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا اور ان کا جسد خاکی بھی جیل میں دفن کرادیا۔کچھ ہی دنوں میں اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔
آئی کے گجرال بھارت کے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے نواز شریف کو آموں کے تحفے بھجوائے لیکن وہ زیادہ عرصہ حکومت میں نہ رہے۔ کمانڈو جرنیل پرویز مشرف حکومت میں آئے تو انہوں نے اٹل بہاری واجپائی کو آم بھجوا کر کارگل کی تلخیاں کم کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو بھول جانے کی بات بھی کردی۔ اس سے پہلے کہ وہ کشمیر کی جنگ کو مذاکرات کی میز پر ہار دیتے وہ اقتدار سے فارغ ہوگئے۔ پھر من موہن سنگھ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو آم بھجوائے لیکن شرم الشیخ کی ملاقات میں گیلانی نے انہیں بتایا کہ آپ کے آم تو بہت میٹھے تھے لیکن کشمیر کے انگور بہت کھٹے ہیں۔ 2014ءمیں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے نئے وزیر اعظم نریندر مودی کو سندھڑی اور چونسہ آموں کے15پارسل بھجوائے لیکن جواب میں بھارت نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری شروع کردی۔ ستمبر2014ءمیں مودی کے دورہ امریکہ سے قبل بھارت نے کوشش کی کہ کشمیری حریت پسند رہنما سید صلاح الدین پر اقوام متحدہ کے ذریعہ پابندیاں لگوادی جائیں۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے1999ءمیں اپنی قرار داد 1267کے ذریعہ القاعدہ اور طالبان کے رہنمائوں کی ایک فہرست تشکیل دی تھی فہرست میں شامل افراد کے اثاثے ضبط کرلئے گئے۔ سفری سہولتوں پر پابندی عائد ہوگئی اور رکن ممالک سے کہا گیا کہ ان افراد کو گرفتار کیا جائے۔ بھارت نے1267فہرست کو ہمیشہ اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس فہرست میں القاعدہ کے رہنما ڈاکٹر ایمن الظواہری اور طالبان رہنما ملا فضل اللہ کے ناموں کی موجودگی کی کوئی نہ کوئی ٹھوس وجہ موجود ہے لیکن بھارت نے اس فہرست میں دائود ابراہیم،حافظ محمد سعید اور ذکی الرحمان لکھوی کے نام بھی شامل کرادئیے۔ اب بھارت اس فہرست میں سید صلاح الدین کا نام شامل کرانا چاہتا ہے۔ ستمبر2014ءسےجون2015ءتک بھارت نے 1267کمیٹی کے اجلاسوں میں تین مرتبہ سید صلاح الدین کا نام1267فہرست میں شامل کرانے کی کوشش کی لیکن تینوں مرتبہ چین نے تکنیکی اعتراضات کے ذریعہ بھارتی کوشش کو ناکام بنادیا۔ حال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کا دورہ کیا اور کوشش کی کہ سید صلاح الدین کے معاملے میں چین اپنے موقف پر نظر ثانی کرے۔ فی الحال مودی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن انہوں نے سید صلاح الدین کے بارے میں دھمکی آمیز بیانات دینے شروع کردئیے جس پر جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق جلال میں آگئے اور انہوں نے یہ اعلان کردیا کہ جو نریندر مودی کو گرفتار کریگا اسے 100کروڑ روپے کا انعام دیا جائیگا۔ سراج الحق کے اس بیان کو پاکستانی میڈیا میں اتنی اہمیت نہیں ملی لیکن بھارتی میڈیا میں طوفان برپا ہوچکا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مودی نے سید صلاح الدین کو زندہ گرفتار کرنیوالے کیلئے50کروڑ روپے کا انعام مقرر کیا جس پر سراج الحق نے مودی کو گرفتار کرنیوالے کیلئے 100کروڑ روپے کا انعام مقرر کردیا۔میں نے سینیٹر سراج الحق صاحب سے پوچھا کہ انہیں مودی کی گرفتاری کا انعام مقرر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی قرارداروں کی روشنی میں جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔
اس متنازع علاقے کا ایک باشندہ سید صلاح الدین سرینگر سے مظفر آباد آئے یا مظفر آباد سے جموں جائے، بھارتی حکومت اس کی گرفتاری پر انعام مقرر کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتی لیکن اگر بھارتی حکومت کشمیریوں پر ظلم و ستم سے باز نہیں آتی تو پھر مجبوراً ہم بھی بھارتی وزیر اعظم کی گرفتاری پر انعام مقرر کرنیکا حق رکھتے ہیں۔ سراج الحق صاحب کے تحفظات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ نے1267فہرست کو ایک مذاق بنادیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ1267کے خلاف قرارداد منظور کرچکی ہے کیونکہ اس میں کچھ یورپی مسلمانوں کے نام غلط طور پر شامل کئے گئے۔20دسمبر 2011ءکو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے سامنے پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں1267فہرست میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی گئی۔ رپورٹ کے پیرا گراف 36میں کہا گیا کہ طالبان اور لشکر طیبہ کے درمیان کسی براہ راست تعلق کا ثبوت نہیں ملا۔ پیرا گراف40میں کہا گیا کہ فہرست میں گلبدین حکمت یار کا نام بھی شامل ہے لیکن حکمت یار کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ملا۔ اس فہرست سے طالبان رہنما وکیل احمد متوکل اور انکے دیگر چار ساتھیوں کے نام امریکہ نے نکلوادئیے حالانکہ یہ سب ملا محمد عمر کے قریبی ساتھی تھے لیکن امریکہ ان پر پابندیاں ہٹا کر ان کے ذریعہ طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ کو چاہئے کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستی ضرور بڑھائے لیکن بھارت کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرے۔ سید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے قبل یہ معلوم کرلیاجائے کہ انہوں نے ہتھیارکیوں اٹھائے؟ سرینگر یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں ایم اے کرنے والے سید صلاح الدین کا اصل نام سید محمد یوسف شاہ ہے۔
سید محمد یوسف شاہ نے1987ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کی نشست کے لئے سرینگر سے مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن الیکشن کے دن دھاندلی کی انتہا کردی گئی۔ انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے بیلٹ کا راستہ چھوڑ کر بلٹ کا راستہ اختیار کیا کیونکہ بھارتی حکومت نے ان کیلئے کوئی دوسرا راستہ نہ چھوڑا۔ بھارتی حکومت ایک امریکی شہری منصور اعجاز کے ذریعہ سید صلاح الدین سے مذاکرات کی کوشش کرچکی ہے لیکن سید صلاح الدین کو مذاکرات کے نام پر سرینڈر قبول نہیں اور اسی لئے بھارت انہیں دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی اور قربانیوں کی حالیہ تاریخ 13جولائی1931ءسے شروع ہوتی ہے۔مسلم کانفرنس نے19جولائی1947ءکو الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی کیونکہ کشمیریوں کے تاریخی، سماجی اور تہذیبی رشتے پاکستان سے وابستہ ہیں۔ کشمیر کے دریائوں کا بہائو بھارت کی طرف نہیں پاکستان کی طرف ہے۔ کشمیر کے ایک تاریخی شہر اننت ناگ کا نام اسلام آباد 1947ءکے بعد نہیں رکھا گیا بلکہ1664ءمیں رکھا گیا۔ بھارت کا کشمیریوں سے صرف یہ رشتہ ہے کہ مقبول بٹ اور افضل گرو کے جسد خاکی پھانسی کے بعد دہلی کی تہاڑ جیل میں دفن کردئیے گئے۔ پاکستان کا کشمیریوں سے یہ رشتہ ہے کہ مسلم کانفرنس کے بانی رہنما چوہدری غلام عباس راولپنڈی اور قرآن مجید کا کشمیری زبان میں ترجمہ کرنے والے میر واعظ محمد یوسف مظفر آباد میں دفن ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران کئی ز مانوں سے ایک دوسرے کو آم کھلا رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے تعلقات کی اصل حقیقت وہی ہے جو سینیٹر سراج الحق نے نریندر مودی کے نام اپنے پیغام میں واضح کردی ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا کوئی لنگڑا، سندھڑی اور چونسہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں شیرینی پیدا نہیں کرسکتا۔
 
کشمیر کے مسئلے کی بنیاد دراصل یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نےآج تک برطانوی تقسیم ہند کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔
 
جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو انہوں نے اندرا گاندھی کو آموں کا تحفہ بھجوا کر مینگو ڈپلومیسی کے نئے دور کا آغاز کیا لیکن اندرا گاندھی نے کشمیری حریت پسند مقبول بٹ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا اور ان کا جسد خاکی بھی جیل میں دفن کرادیا۔کچھ ہی دنوں میں اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔
مسلم کانفرنس نے19جولائی1947ءکو الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کی کیونکہ کشمیریوں کے تاریخی، سماجی اور تہذیبی رشتے پاکستان سے وابستہ ہیں۔
یہ بندہ واقعی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
یہ بندہ جس کا آپ نے کالم شئیر کیا ہے انتہائی فتنہ انگیز اور پراپیگنڈہ ماسٹر ہے۔
آج کل زیادہ تر صحافی پراپیگنڈہ ماسٹر ہی ہیں۔ اوپر جو اقتباسات آپ نے لئے ہیں۔ میں سمجھا نہیں کہ وہاں آپ کو کیا قابل اعتراض بات نظر آئی ہے؟
 
آج کل زیادہ تر صحافی پراپیگنڈہ ماسٹر ہی ہیں۔ اوپر جو اقتباسات آپ نے لئے ہیں۔ میں سمجھا نہیں کہ وہاں آپ کو کیا قابل اعتراض بات نظر آئی ہے؟
سیاق و سباق کو زہن میں رکھ کر پڑھیے آپ کو ضرور سمجھ آ جائے گی
 
یار مجھے تو اس کالم میں حامد میر کی بدنیتی نظر نہیں آئی۔ اسی لئے آپ سے وضاحت کی درخواست کی ہے۔ :)
لئیق بھائی پہلا اقتباس جو میں نے لیا اس میں تین واقعات کا ذکر ہے۔ اور ایک ترتیب کے ساتھ ہے۔ اور آخری واقعہ جو کہ ہائی لائٹ کیا اس کو پچھلے واقعات کے ساتھ ملا کر قاری کو تذبذب میں چھوڑ دیا گیا اور ایک میسیج کو پاس آن کرنے کی کوشش کی گئی۔۔
دوسرے اقتباس میں جس جگہ کو ہائی لائٹ کیا گیا وہاں سے جس بنیاد پر پاکستان قائم ہوا اور جس بنیاد پر مختلف ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اس بنیاد کو ذکر نہیں کیا گیا یعنی اسلام اور مسلم ۔۔اس کی جگہ تہذیب۔تاریخ ۔اور سماج کے الفاظ استعمال کیے گئے ۔۔وہ بھی ایک میسیج پاس آن کرتا ہے۔۔
ساری باتیں کھول کر بیان کرنے کی نہیں ہوتیں کچھ کو اشاروں سے ہی سمجھنا پڑتا ہے بہر حال تفصیل تو آپ نے پوچھ ہی لی۔۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ کالم پڑھنے کے بعد يہ تاثر ابھرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کوئ بين الاقوامی ہتھيار ہے جو اقوام متحدہ کی جانب سے امريکہ کو بطور تحفہ دے ديا گيا ہے تا کہ ہم ہر اس شخص کا تعاقب کر سکيں جو ہم سے اختلاف کرتا ہے۔

حقيقت اس سے کوسوں دور ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح رہے کہ اکتوبر 1999 ميں اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل نے افغانستان پر قرارداد 1267 کے ذريعے قدغنيں لگائ تھيں تا کہ طالبان جو اس وقت افغانستان ميں عنان حکومت سنبھالے ہوئے تھے، انھيں مجبور کيا جائے کہ وہ دہشت گرد اسامہ بن لادن کو متعلقہ حکام کے حوالے کر ديں۔ اسامہ بن لادن پر امريکہ کی جانب سے فرد جرم عائد کی جا چکی تھی۔

اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل نے ان پابنديوں کی منظوری اسی وقت دی جب اس گروہ کی جانب سے اسامہ بن لادن کی حوالگی سے انکار کر ديا گيا۔ وہی بن لادن جو اگست 1998 ميں ايسٹ افريقہ ميں امريکی سفارت خانوں پر دو حملوں کی منصوبہ بندی کے ليے مطلوب تھے۔ جنوری 2001 ميں سو سے زائد طالبان کے قائدين کو ان افراد کی لسٹ ميں شامل کيا گيا جن پر قدغنيں لگانے کا فيصلہ کيا گيا۔

تاہم اقوام متحدہ کی قرارداد نے امريکی انتظاميہ کو اس بات کی کھلی چھٹی نہيں دے دی تھی کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق جسے چاہيں دہشت گرد قرار دے ديں۔

بلکہ حقيقت تو يہ ہے کہ دسمبر 17 2009 کو اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 1904 کے ذريعے 1267 کميٹی سے متعلق محتسب کے دفتر کی منظوری دی تا کہ ايک آزاد اور غير جانب دار شخص ايسے تمام کيسز کی جانچ پڑتال کر کے کيمٹی کو اپنی سفارشات پيش کر سکے اور اس بات کا فيصلہ کيا جا سکے کس شخص پر قدغن لگنی چاہيے اور کس کا نام اس لسٹ سے خارج کيا جانا چاہيے۔ اس منصب کا قيام اسی ليے عمل ميں لايا گيا تھا کہ تا کہ اس سارے عمل کو شفاف اور غلطيوں سے پاک کيا جا سکے۔

جون 17 2011 کو قرارداد 1289 کے ذريعے محتسب کے مينڈيٹ ميں دسمبر 2012 تک توسيع کر دی گئ تھی۔

کالم نگار کی جانب سے کچھ ايسے طالبان ليڈروں کا حوالہ بھی ديا گيا ہے جن کے نام دہشت گردی سے متعلق فہرست سے خارج کر ديے گئے تھے۔ تاہم اس ضمن ميں کچھ اہم حقائق کا ذکر نہيں کيا گيا جس سے واقعے کا درست تناظر سامنے نہيں آ سکا۔

مئ اور جون 2011 ميں 1267 کميٹی نے کئ افراد اور عناصر کے نام دہشت گردی سے متعلق فہرست سے يقينی طور پر خارج کيے تھے۔ تاہم ان ميں سے اکثر درخواست گزاران نے محتسب کے ساتھ مل کر اپنے کيس کی پڑتال کے ليے تعاون بھی فراہم کيا تھا اور اس ضمن ميں باقاعدہ کاوشيں کی تھيں۔ ان ميں سے کچھ افراد کے نام اس لسٹ سے خارج کر ديے گئے ہيں تاہم افراد پر لگائ جانے والی قدغنوں کی پڑتال کا عمل جاری رہتا ہے۔

اور سب سے اہم بات يہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی عالمی بليک لسٹ سے 14 طالبان ليڈروں کے نام نکالنے کا عمل امريکہ کی خواہش پر نہيں بلکہ افغانستان ميں کرزئ حکومت کی براہراست درخواست کے بعد شروع کيا گيا تھا۔ يہ رہا اس کا ثبوت

http://www.reuters.com/article/2010/06/22/us-afghanistan-taliban-idUSTRE65L2HN20100622

سيکورٹی کونسل کی جانب سے افراد کے ناموں کو دہشت گردی سے متعلق لسٹ سے نکالے جانے کے عمل کی وضاحت کے ضمن ميں يہ واضح کيا گيا کہ اس ساری کاروائ کے ذريعے افغان حکومت کی مفاہمتی کاوشوں کی حمايت اجاگر کی گئ ہے۔

اقوام متحدہ ميں جرمنی کے سفير پيٹر وٹيگ جو قدغن سے متعلق کميٹی کے سربرائ کر رہے تھے، ان کی جانب سے يہ بيان جاری کيا گيا تھا

"عالمی برادری کی جانب سے ہائ پيس کونسل کے ممبران کی ان کوششوں کو تسليم کيا گيا ہے جو امن، استحکام اور افہام وتفہيم کے ضمن ميں کی گئ ہيں۔ تمام افغان باشندوں کو اس بات کی ترغيب دی گئ ہے کہ وہ ان کوششوں ميں شامل ہوں۔ پيغام بالکل واضح ہے۔ امن کی جانب پيش قدمی يقینی طور پر اچھے نتائج کا موجب بنے گی"۔

اور وہ رائے دہندگان جو يہ تاويل پيش کرنا چاہيں گے کہ صدر حامد کرزئ محض امريکی کٹھ پتلی تھے اور ان کی جانب سے طالبان کے قائدين کے نام دہشت گردی سے متعلق لسٹ سے خارج کيے جانے کی درخواست پر اقوام متحدہ کے پاس امريکہ کو خوش کرنے کے علاوہ کوئ آپشن تھا ہی نہيں، تو ان کے ليے ايک اور اہم حقيقت پيش ہے جس کا مذکورہ کالم ميں سرے سے ذکر ہی نہيں کيا گيا۔

افغان حکومت نے پچاس کے قريب افراد کے نام بليک لسٹ سے نکالے جانے کی درخواست کی تھی، اس ضمن ميں باقاعدہ تفصيلی دستاويزات کے ذريعے يہ باور کروانے کی کوشش بھی کی گئ تھی کہ وہ پرتشدد روش چھوڑ کر معاشرے کا حصہ بن چکے ہيں، تاہم اس کے باوجود اقوام متحدہ کی کميٹی کی جانب سے ان کے ناموں کو لسٹ سے خارج کيے جانے کی درخواست رد کر دی گئ۔

http://gulfnews.com/news/asia/afghanistan/karzai-to-ask-un-to-trim-taliban-blacklist-report-1.653361

کالم ميں پيش کيے جانے والے تاثر کے مطابق اگر طالبان کے ليڈروں کے ناموں کو دہشت گردی سے متعلق لسٹ ميں شامل کرنے يا انھيں نکالنے کے ضمن ميں ہمارا کوئ کنٹرول يا اثرورسوخ ہوتا تو پھر يقینی طور پر ان تمام ناموں کو اس لسٹ سے خارج کر ديا جاتا جن کی درخواست افغان حکومت کی جانب سے کی گئ تھی۔ تاہم ايسا نہيں ہوا۔

اور آخر ميں اقوام متحدہ کی يہ سرکاری ويب سائٹ پيش ہے جو ان تمام افراد کے کيسز سے متعلق تازہ معلومات فراہم کرتی ہے جنھيں قرارداد 1267 کے تحت دہشت گرد قرار ديا گيا تھا۔

http://www.un.org/en/sc/ombudsperson/status.shtml

اس سارے عمل پر امريکی حکومت کا نا تو کوئ کنٹرول يا اثر ہے اور نا ہی ہم اس ميں ردوبدل کر سکتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

USDOTURDU_banner.jpg
 
Top