زینب
محفلین
بھارتی دہشت گرد جو پچھلے 18 سال سے پاکستانی جیل میںہے جو کہ فیصل آباد اور لاہور میںکئی بم دھماکوں کا اعتراف کر چکا ہے۔ جس میںدرجنوں پاکستانی مارے گئے تھے ۔۔۔۔۔انصار برنی بہت سرگرم ہے سربجیت کی رہائی کے لیے وہ کہتا ہے کہ وہ سربجیت کے لیے اقوام متحدہ میںبھی جائے گا کہ اسے رہا کیا جانا چاہیے وہ بےگناہ ہے۔۔۔۔۔
اس سے پہلے انصار برنی کشمیر سنگھ جو کہ بھارتی جاسوس تھا کو بھی رہا کروا چکا ہے جب وہ نگراں حکومت میں تھا۔۔۔۔اسی کشمیر سنگھ نے سرحد کے اس پار کہا کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے اور وہ کسی جاسوسی مشن پر نہیںتھا وغیرہ وغیرہ۔۔مگر سرحد پار کرتے ہی۔۔۔۔اپنے سارے سابقہ بیانات کو الٹ دیا۔۔۔اور کہا کہ جو کچھ کیا اپنے ملک کے لیے کیا۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔مزے کی بات یہ کہ انصار برنی بعد میںکشمیر سنگھ کے گھر تک بھی گیا اور سربجیت کی بہن کو بھی راکھی بندھوا کر بہن بنا لیا اور کہا کہ اب سربجیت میرا بھی بھائی ہے اس کی رہائی کے لیے اقوام متحدہ تک جاوں گا۔۔۔۔۔۔کشمیر سنگھ کی رہائی کے ایک گھنٹے بعد ہی 24 سالہ پاکستانی خالد محمود کی موت کی اطلاع اس کے گھر والوں کو دی گئی جو کہ بھارتی پولیس کی حراست میں ان کے تشدد سے انتقال کر گیا تھا جسے 2005 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ بدنصیب کرکٹمیچ دیکھنے وزٹ ویزہ پے انڈیا گیا تھا۔۔۔۔اس کے گھر والوںنے خالد محمود کی گرفتاری کے بعد انڈیا جا کے بہت مشکل حالت میںاس سے ملاقات کی اور اس پے ہونےو الے مظالم کے بارے میں بھی بتایا جاتا رہا اور اپیلیںبھی کی جاتی رہیئں۔۔۔۔مگر تب کسی انصار برنی نے نہیں سنا۔۔۔۔۔ابھی بھی تقریبا 500 پاکستانی بھارتی پولیس کی قید میں ہیں جن میںسے اکثر تشدد سے ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔۔۔۔کیا انصار برنی کو وہ پاکستانی نظر نہیں اتے۔۔۔۔۔
پاکستان میں نیئ حکومت قانونی ترمیم میں مصروف ہے جس میں سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا جائے گا اور یہ قانون بس کچھ ہی دنوں میں پاس بھی ہو جائے گا۔اگر یہ قانون پاس ہو جاتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ سربجیت سنگھ کو ہو گا جس کے 1مئی کے بلیک وارنٹ جاری کیئے جا چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔انصار برنی جیسے انسانی حقوق کے علمبدار جو رہتے پاکستان میںہیئں کھاتے پاکستان کا ہیئں پہچان بھی پاکستانی ہونے کی استعمال کرتے ہیں پر حقوق کی جنگ وہ بھرتیوںکے لیے کڑتے ہیں انہیں میرے خیال میںپاکستان میںرہنے اک بھی حق نہیں ہونا چاہیئے۔۔پاکستان میں موجود پاکستانیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو سربجیت کی ممکنہ رہائی کے خلاف احتجاج کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔اور اگر سربجیت سنگھ کو رہا کر دیا جاتا ہے تو اس کی جگہ انصار برنی جیسے غدار اور جھوٹے انسان کو پھانسی دی جانی چاہیے۔۔۔میری اس وقت پاکستان میں موجود تمام ممبرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایئں کہ ایک دہشت گرد کو ہر گز رہا نہیں کیا جانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے انصار برنی کشمیر سنگھ جو کہ بھارتی جاسوس تھا کو بھی رہا کروا چکا ہے جب وہ نگراں حکومت میں تھا۔۔۔۔اسی کشمیر سنگھ نے سرحد کے اس پار کہا کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے اور وہ کسی جاسوسی مشن پر نہیںتھا وغیرہ وغیرہ۔۔مگر سرحد پار کرتے ہی۔۔۔۔اپنے سارے سابقہ بیانات کو الٹ دیا۔۔۔اور کہا کہ جو کچھ کیا اپنے ملک کے لیے کیا۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔مزے کی بات یہ کہ انصار برنی بعد میںکشمیر سنگھ کے گھر تک بھی گیا اور سربجیت کی بہن کو بھی راکھی بندھوا کر بہن بنا لیا اور کہا کہ اب سربجیت میرا بھی بھائی ہے اس کی رہائی کے لیے اقوام متحدہ تک جاوں گا۔۔۔۔۔۔کشمیر سنگھ کی رہائی کے ایک گھنٹے بعد ہی 24 سالہ پاکستانی خالد محمود کی موت کی اطلاع اس کے گھر والوں کو دی گئی جو کہ بھارتی پولیس کی حراست میں ان کے تشدد سے انتقال کر گیا تھا جسے 2005 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ بدنصیب کرکٹمیچ دیکھنے وزٹ ویزہ پے انڈیا گیا تھا۔۔۔۔اس کے گھر والوںنے خالد محمود کی گرفتاری کے بعد انڈیا جا کے بہت مشکل حالت میںاس سے ملاقات کی اور اس پے ہونےو الے مظالم کے بارے میں بھی بتایا جاتا رہا اور اپیلیںبھی کی جاتی رہیئں۔۔۔۔مگر تب کسی انصار برنی نے نہیں سنا۔۔۔۔۔ابھی بھی تقریبا 500 پاکستانی بھارتی پولیس کی قید میں ہیں جن میںسے اکثر تشدد سے ذہنی توازن کھو چکے ہیں۔۔۔۔کیا انصار برنی کو وہ پاکستانی نظر نہیں اتے۔۔۔۔۔
پاکستان میں نیئ حکومت قانونی ترمیم میں مصروف ہے جس میں سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا جائے گا اور یہ قانون بس کچھ ہی دنوں میں پاس بھی ہو جائے گا۔اگر یہ قانون پاس ہو جاتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ سربجیت سنگھ کو ہو گا جس کے 1مئی کے بلیک وارنٹ جاری کیئے جا چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔انصار برنی جیسے انسانی حقوق کے علمبدار جو رہتے پاکستان میںہیئں کھاتے پاکستان کا ہیئں پہچان بھی پاکستانی ہونے کی استعمال کرتے ہیں پر حقوق کی جنگ وہ بھرتیوںکے لیے کڑتے ہیں انہیں میرے خیال میںپاکستان میںرہنے اک بھی حق نہیں ہونا چاہیئے۔۔پاکستان میں موجود پاکستانیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو سربجیت کی ممکنہ رہائی کے خلاف احتجاج کرنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔اور اگر سربجیت سنگھ کو رہا کر دیا جاتا ہے تو اس کی جگہ انصار برنی جیسے غدار اور جھوٹے انسان کو پھانسی دی جانی چاہیے۔۔۔میری اس وقت پاکستان میں موجود تمام ممبرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایئں کہ ایک دہشت گرد کو ہر گز رہا نہیں کیا جانا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔