یہاں آکر کچھ باتیں عجیب دیکھیں، ان میں رہائش اور بود و باش کا معمولی فرق تو تھا ہی، بول چال میں بھی کچھ الفاظ نامانوس لگتے تھے جیسے اندر دھنوش۔ ایک رات شائستہ گھر میں داخل ہوئی تو چچی نے پوچھا:
’’ کہاں گئی تھیں۔‘‘
’’ناٹک دیکھنے۔‘‘
ہم نے ابھی تک ناٹک کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھا تھا کہ فلاں مجرم کچھ نہ جاننے کا ناٹک کررہا ہے جبکہ ادھر شائستہ اصلی ناٹک دیکھ کر آرہی تھی۔
’’ناٹک کیا ہوتا ہے؟‘‘ ہم نے شوق آمیز تجسس سے پوچھا۔ وہ حیرت سے ہمیں دیکھنے لگی:
‘‘آپ نے کبھی ناٹک نہیں دیکھا؟‘‘
‘‘نہیں۔‘‘ ہم سر ہلا کر رہ گئے۔
’’ارے بھئی رات کو ٹی وی پر ایک گھنٹہ کا ناٹک آتا ہے، آپ نے کبھی نہیں دیکھا؟‘‘ اسے کسی صورت یقین نہیں آرہا تھا۔
’’کہیں تم ڈرامہ کی بات تو نہیں کررہیں؟‘‘ ہم نے جیسے بوجھ ہی لیا ۔ تبھی اس نے اپنا سر ہلایا:
’’آپ کے یہاں اسے ڈرامہ کہتے ہیں ،ہم ناٹک کہتے ہیں۔‘‘ اس نے استانی کی طرح سمجھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن جھنجھلائی ہوئی گھر میں داخل ہوئی اور سیدھا دادی کے پاس جاکر اپنی سہیلیوں کی شکایت کرنے لگی کہ وہ مجھے کچھ کچھ کہہ رہی ہیں۔
’’مثلاً کچھ کچھ میں کیا کہا؟‘‘ ہم نے دلچسپی سے تفصیل جاننا چاہی۔
’’ارے کچھ کچھ ہی تو کہہ رہی تھیں۔‘‘ وہ مزید جھنجھلا گئی۔
’’وہی تو کچھ کچھ میں کیا کچھ کہہ رہی تھیں۔‘‘ ہمارا تجسس ابھی باقی تھا۔
’’اُف اللہ!!!‘‘ وہ پیر پٹختی ہوئی چلی گئی۔ تب دادی نے بتایا :
’’ہم نے بچوں کو سِکھا رکھا ہے کہ اگر کوئی گالم گلوچ کرے تو گھر آکر یہ نہ کہو کہ فلاں گالی دے رہا ہے۔ گھر آیا کوئی مہمان سن لے تو کتنا برا لگے۔ اسی لیے اگر کوئی گالی دے یا برا بھلا کہے تو بچے آکر کہتے ہیں کہ فلاں کچھ کچھ کہہ رہا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوران ایک بات یہ نوٹ کی کہ گھر کے اکثر لوگ اکثر کسی خانقاہ میں جاتے رہتے ہیں۔ جب دیکھو معلوم ہوتا کہ معین خانقاہ گیا ہے، بابر خانقاہ سے آیا ہے، چچا کو کوئی خانقاہ بلا رہا ہے۔ ہم حیران ہوتے کہ یہ کون سی خانقاہ ہے اور یہ لوگ ہمیں خانقاہ کیوں نہیں لے جاتے۔ ایک دن ہم پر حیرت کا پہاڑ اس وقت ٹوٹ پڑا جب آنٹی نے بتایا کہ آج رات آپا پاری نے دعوت پر خانقاہ بلایا ہے۔ ہم بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئے:
’’آپا پاری خانقاہ میں رہتی ہیں؟‘‘ ہم نے حلق اور آنکھیں دونوں حسب استطاعت پھاڑیں۔
’’یوں کیوں باؤلے ہورہے ہو، اور کہاں رہیں گی۔‘‘آنٹی نے آنکھیں نکالیں تو ہماری آنکھیں اندر ہوئیں۔
اس دن سارا وقت ہمارا دماغ چلتا رہا کہ یہ کون خاتون ہیں جو خانقاہ میں رہتی ہیں، نہ صرف خود خانقاہ میں رہتی ہیں بلکہ دھڑلے سے رشتے داروں کو بھی مدعو کرتی ہیں۔ اس رات ہم لرزتے کانپتے سائیکل رکشہ پر بیٹھے خانقاہ کی طرف رواں دواں تھے۔ آنکھوں کے سامنے نقشہ گھوم رہا تھا کہ ایک عظیم الشان عمارت ہے جس پر بڑا سا گنبد ہے، دروازے پر دربان ہیں۔ کہیں ہمیں روک نہ لیں۔ اچانک ہمارے دل میں خوف بیدار ہوا مگر پھر اسے جھٹک دیا کہ ہمارے ساتھ آنٹی ہیں، کچھ روک ٹوک ہوئی تو یہی اندر لے جائیں گی۔ ہم نے مزید سوچا کہ جب اندر داخل ہوں گے تو سامنے ایک وسیع و عریض صحن ہوگا جس کے اختتام پر کسی بابے کا مزار ہوگا ، اس کے چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوں گے، قوالی ہورہی ہوگی۔ مگر وہاں آپا پاری کہاں ہوں گی؟ ہماری سوچوں کو اچانک بریک لگ گیا۔ کیا ان کے لیے کوئی حجرہ مختص ہے؟ کیا وہاں کوئی مجاورن ہیں ؟ آخر وہ کس حیثیت سے خانقاہ میں رہتی ہیں ؟
ہم اسی سوچ و بچار میں گم تھے کہ آنٹی نے کندھا پکڑ کر جھنجھوڑا، نیچے اترو۔ ہم سائیکل رکشہ سے اترے۔ سامنے ایک عام سا مکان تھا جس کے دروازے پر پردہ ڈلا تھا۔ ہم سمجھ گئے کہ خانقاہ یہاں سے پیدل کا راستہ ہوگا۔ لیکن آنٹی اسی پردہ کو اٹھا کر اندر داخل ہوگئیں۔ اب یہ بیچ میں کس سے ملنے چلی گئیں۔ ہم بھنا کر رہ گئے۔ ایک تو یہاں ہر گھر سے کوئی نہ کوئی رشتہ نکل آتا تھا، آگئی ہوگی کسی رشتہ دار کی یاد۔ یہی سوچتے ہوئے ہم بھی اندر داخل ہوگئے۔ اب انتظار میں ہیں کہ یہاں سے فارغ ہوں تو خانقاہ جائیں۔ لیکن اس وقت تو حد ہی ہوگئی جب کھانے کا دسترخوان لگ گیا۔ ہم اندر ہی اندر کھول رہے تھے کہ دعوت خانقاہ میں ہے اور کھانا یہاں اُڑایا جارہا ہے۔ وہاں آپا پاری انتظار میں دبلی ہوئی جارہی ہوں گی۔ ہم ہاتھ دھونے کے بہانے اٹھےاور جان بوجھ کر آنٹی کے برابر آکر بیٹھ گئے:
’’یہاں کیوں کھارہی ہیں؟ خانقاہ نہیں جانا ؟‘‘ ہم نے کان میں کھسر پھسر کی۔
’’تو یہ کیا ہے؟‘‘ آنٹی نے ہمیں ایسے گھورا جیسے ہماری دماغی حالت کے بارے میں ماضی میں انہیں جو شک تھا آج یقین سے بدل گیا ہو۔
’’یہ کیسی خانقاہ ہے نہ مزار، نہ صحن، نہ دربان، نہ قوالیاں؟‘‘ ہم منمنائے۔
’’ بے وقوف اس محلّہ کا نام خانقاہ ہے۔‘‘ آنٹی نے ہنسی دبائی مگر ان کے پیٹ نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
’’حد ہوگئی یعنی کے۔‘‘ ہم اپنے سسپنس کا ستیاناس ہوتے دیکھ کر دل مسوس کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم شائستہ کو اکثر ایک بات کہتے سنتے اور ہمیشہ عجیب لگتا، مثلاً ایک دن دادی نے پوچھا: ’’شائستہ تمہاری آنٹی کہاں گئی ہیں؟‘‘
جواب دیا:’’بڑے بھائیوں۔‘‘
آج چچی نے پوچھا: معین کہاں ہے؟‘‘
شائستہ نے کہا:’’بڑے بھائیوں گئے ہیں۔‘‘
اس بڑے بھائیوں کہنے میں ہمیں ایک کمی محسوس ہوتی تھی گویا شائستہ نے جملہ ادھورا کہا ہو، اسے کہنا چاہیے بڑے بھائیوں کے پاس گئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات ہمیں شش و پنج میں ڈال دیتی کہ آنٹی اور معین کس کے بڑے بھائیوں کے پاس گئے ہیں؟آنٹی کے دو ہی بڑے بھائی ہیں ایک ہمارے والد، ایک چچا۔ یقیناً یہ کوئی جگت بھائی قسم کے بڑے بھائی ہوں گے۔ ایک دن مارے تجسس کے ہم سے رہا نہ گیا اور وہی ہماری شامت اعمال کا خمیازہ بھگتنے کا دن تھا، ہم شائستہ سے پوچھ بیٹھے:
’’یہ بڑے بھائی کون ہیں جن سے ملنے اس دن آنٹی گئی تھیں، آج معین گیا ہے، ہمیں بھی ملواؤ۔‘‘
’’ہیں، کس سے ملواؤں؟‘‘ شائستہ نے شدتِ حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا، اور گود میں اٹھائی فاطمہ کو نیچے اتار دیا۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم کہنا کیا چاہ رہے ہیں، ادھر ہمیں بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنی سیدھی بات اسے سمجھ کیوں نہیں آرہی۔
’’بڑے بھائیوں سے ملواؤ اور کس سے، سب لوگ مل رہے ہیں، ہمیں بھی ملواؤ۔‘‘ ہم نے اپنے تئیں اسے سمجھایا۔
’’کون بڑے بھائی، کس کے بڑے بھائی؟‘‘ اس کی پھٹی ہوئی آنکھیں ابھی تک نہیں سِلی تھیں۔
’’اتنی باؤلی کیوں ہورہی ہو، وہی بڑے بھائی جس سے آنٹی ملنے گئی تھیں اور اب معین گیا ہے، تم نے ہی تو چچی کو بتایا ہے۔‘‘
’’یہ میں نے بتایا ہے کہ بھیا کسی بڑے بھائی سے ملنے گئے ہیں؟‘‘ الٹا وہ ہمیں جھوٹا بنانے لگی۔
’’جھوٹ نہ بولو، ابھی تم نے ہی چچی کو بتایا ہے کہ معین بڑے بھائیوں سے ملنے گیا ہے، ہمیں بھی ان سے ملواؤ، اس میں پاگل ہونے والی کیا بات ہے۔‘‘ ہم اس کے ہونق پنے پر جھنجھلا اُٹھے تھے۔
’’ہاہاہا۔ بھیا بڑے بھائی سے ملنے گئے ہیں، اب عمران بھائی بھی بڑے بھائی سے ملیں گے۔ ہی ہی ہی۔‘‘ کچھ سمجھنے پر اس کی آنکھیں سِلیں تو حلق پھٹنے لگا۔ دوڑتی چیختی اندر کی طرف بھاگی جہاں چچی اور دادی بیٹھی تھیں۔
’’ہوہوہو۔ امی، دادی، عمران بھائی کو بڑے بھائیوں سے ملنا ہے، اب ملوائیں انہیں بڑے بھائیوں سے۔‘‘ قہقہوں کے باعث شائستہ کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکل رہے تھے۔ ہنسی سے بے حال پیٹ پکڑے چارپائی پر لوٹ پوٹ ہوئی جارہی تھی۔ ادھر چچی اور دادی ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھیں۔ جب کچھ نہ سمجھ سکیں تو ہماری طرف دیکھا، ہم بھی ناسمجھی کے عالم میں کندھے اچکا کر رہ گئے۔ دادی سے برداشت نہ ہوا تو ہاتھ میں پکڑے پنکھے کی ڈنڈی کس کس کر شائستہ کے بازو پر جمائی۔ دو چار ڈنڈیاں کھانے کے بعد قہقہوں کا زلزلہ تو رُک گیا لیکن آفٹر شاکس جاری رہے۔
’’بتاتی ہے صحیح طرح یا لگاؤں دو جوتی۔‘‘دادی جھک کر چارپائی کے نیچے جوتی ڈھونڈنے لگیں۔ شائستہ بستر سے اچھل کر کھڑی ہوگئی اور لپک کر حظ ما تقدم کے طور پہ دادی کی جوتیوں پر پیر رکھ کر کھڑی ہوگئی۔
’’بتا تو رہی ہوں، عمران بھائی کہہ رہے ہیں انہیں بڑے بھائیوں سے ملنا ہے۔‘‘پنکھے کی ڈنڈیاں کھانے کے بعد جوتیوں سے تواضع کی رسوائی کا خوف ہنسی کو بریک لگا چکا تھا۔
’’کس کے بڑے بھائیوں سے ملنا ہے؟‘‘ چچی نے رسان سے پوچھا۔
’’کہہ رہے ہیں کہ کل آنٹی اور آج بھیا جن بڑے بھائیوں سے ملنے گئے ہیں ہمیں بھی ان سے ملواؤ۔‘‘ اتنا ہی کہا تھا کہ پھر ہنسی کا گولہ چھوٹ پڑا اور وہ کمرے سے فرار ہوگئی۔ اب ہم تھے اور چچی اور دادی۔ چچی کچھ سوچتی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھنے لگیں شاید دماغ میں سمجھنے کی لہریں لپک رہی ہوں۔
’’اچھا اب سمجھی۔‘‘ اچانک چچی کی سمجھ میں ساری باتوں کا لنک آگیا۔
’’ بھئی جس کو تم بڑے بھائی سمجھ رہے ہو وہ کسی کے بڑے بھائی نہیں ہیں بلکہ یہاں ایک محلّہ کا نام ہے۔ یہاں مفتی تقی عثمانی صاحب کا آبائی گھر ہے۔ اس دن تمہاری آنٹی وہیں گئی تھیں اور آج معین کو بھی کسی کام سے وہاں بھیجا ہے۔‘‘
’’اوہ اسی لیے وہ بے وقوف ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔ بے چاری سوچ رہی ہوگی اب انہیں ملوانے کے لیے بڑے بھائی کہاں سے لائیں۔‘‘ ساری بات سمجھٍ میں آئی تو ہم سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گئے۔ کچھ دن بعد مفتی صاحب کے ایک کزن نے جو آنٹی کے سسرالی رشتہ دار تھے آنٹی کو کھانے پر مدعو کیا ساتھ ہی ہمیں بھی ٹانگ لیا۔ اس دن ہم نے بڑے بھائیوں کے خوب اچھی طرح دیدار کیے اور وہاں موجود مفتی صاحب کا آبائی گھر بھی دیکھ لیا!!!