سید عمران

محفلین
سلینڈر نما چولہا۔۔۔
نیچےسوراخ اور اوپر سے کھلا ہوا!!!
1.jpg
 

سید عمران

محفلین
یہاں آکر کچھ باتیں عجیب دیکھیں، ان میں رہائش اور بود و باش کا معمولی فرق تو تھا ہی، بول چال میں بھی کچھ الفاظ نامانوس لگتے تھے جیسے اندر دھنوش۔ ایک رات شائستہ گھر میں داخل ہوئی تو چچی نے پوچھا:
’’ کہاں گئی تھیں۔‘‘
’’ناٹک دیکھنے۔‘‘
ہم نے ابھی تک ناٹک کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھا تھا کہ فلاں مجرم کچھ نہ جاننے کا ناٹک کررہا ہے جبکہ ادھر شائستہ اصلی ناٹک دیکھ کر آرہی تھی۔
’’ناٹک کیا ہوتا ہے؟‘‘ ہم نے شوق آمیز تجسس سے پوچھا۔ وہ حیرت سے ہمیں دیکھنے لگی:
‘‘آپ نے کبھی ناٹک نہیں دیکھا؟‘‘
‘‘نہیں۔‘‘ ہم سر ہلا کر رہ گئے۔
’’ارے بھئی رات کو ٹی وی پر ایک گھنٹہ کا ناٹک آتا ہے، آپ نے کبھی نہیں دیکھا؟‘‘ اسے کسی صورت یقین نہیں آرہا تھا۔
’’کہیں تم ڈرامہ کی بات تو نہیں کررہیں؟‘‘ ہم نے جیسے بوجھ ہی لیا ۔ تبھی اس نے اپنا سر ہلایا:
’’آپ کے یہاں اسے ڈرامہ کہتے ہیں ،ہم ناٹک کہتے ہیں۔‘‘ اس نے استانی کی طرح سمجھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن جھنجھلائی ہوئی گھر میں داخل ہوئی اور سیدھا دادی کے پاس جاکر اپنی سہیلیوں کی شکایت کرنے لگی کہ وہ مجھے کچھ کچھ کہہ رہی ہیں۔
’’مثلاً کچھ کچھ میں کیا کہا؟‘‘ ہم نے دلچسپی سے تفصیل جاننا چاہی۔
’’ارے کچھ کچھ ہی تو کہہ رہی تھیں۔‘‘ وہ مزید جھنجھلا گئی۔
’’وہی تو کچھ کچھ میں کیا کچھ کہہ رہی تھیں۔‘‘ ہمارا تجسس ابھی باقی تھا۔
’’اُف اللہ!!!‘‘ وہ پیر پٹختی ہوئی چلی گئی۔ تب دادی نے بتایا :
’’ہم نے بچوں کو سِکھا رکھا ہے کہ اگر کوئی گالم گلوچ کرے تو گھر آکر یہ نہ کہو کہ فلاں گالی دے رہا ہے۔ گھر آیا کوئی مہمان سن لے تو کتنا برا لگے۔ اسی لیے اگر کوئی گالی دے یا برا بھلا کہے تو بچے آکر کہتے ہیں کہ فلاں کچھ کچھ کہہ رہا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی دوران ایک بات یہ نوٹ کی کہ گھر کے اکثر لوگ اکثر کسی خانقاہ میں جاتے رہتے ہیں۔ جب دیکھو معلوم ہوتا کہ معین خانقاہ گیا ہے، بابر خانقاہ سے آیا ہے، چچا کو کوئی خانقاہ بلا رہا ہے۔ ہم حیران ہوتے کہ یہ کون سی خانقاہ ہے اور یہ لوگ ہمیں خانقاہ کیوں نہیں لے جاتے۔ ایک دن ہم پر حیرت کا پہاڑ اس وقت ٹوٹ پڑا جب آنٹی نے بتایا کہ آج رات آپا پاری نے دعوت پر خانقاہ بلایا ہے۔ ہم بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئے:
’’آپا پاری خانقاہ میں رہتی ہیں؟‘‘ ہم نے حلق اور آنکھیں دونوں حسب استطاعت پھاڑیں۔
’’یوں کیوں باؤلے ہورہے ہو، اور کہاں رہیں گی۔‘‘آنٹی نے آنکھیں نکالیں تو ہماری آنکھیں اندر ہوئیں۔
اس دن سارا وقت ہمارا دماغ چلتا رہا کہ یہ کون خاتون ہیں جو خانقاہ میں رہتی ہیں، نہ صرف خود خانقاہ میں رہتی ہیں بلکہ دھڑلے سے رشتے داروں کو بھی مدعو کرتی ہیں۔ اس رات ہم لرزتے کانپتے سائیکل رکشہ پر بیٹھے خانقاہ کی طرف رواں دواں تھے۔ آنکھوں کے سامنے نقشہ گھوم رہا تھا کہ ایک عظیم الشان عمارت ہے جس پر بڑا سا گنبد ہے، دروازے پر دربان ہیں۔ کہیں ہمیں روک نہ لیں۔ اچانک ہمارے دل میں خوف بیدار ہوا مگر پھر اسے جھٹک دیا کہ ہمارے ساتھ آنٹی ہیں، کچھ روک ٹوک ہوئی تو یہی اندر لے جائیں گی۔ ہم نے مزید سوچا کہ جب اندر داخل ہوں گے تو سامنے ایک وسیع و عریض صحن ہوگا جس کے اختتام پر کسی بابے کا مزار ہوگا ، اس کے چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوں گے، قوالی ہورہی ہوگی۔ مگر وہاں آپا پاری کہاں ہوں گی؟ ہماری سوچوں کو اچانک بریک لگ گیا۔ کیا ان کے لیے کوئی حجرہ مختص ہے؟ کیا وہاں کوئی مجاورن ہیں ؟ آخر وہ کس حیثیت سے خانقاہ میں رہتی ہیں ؟
ہم اسی سوچ و بچار میں گم تھے کہ آنٹی نے کندھا پکڑ کر جھنجھوڑا، نیچے اترو۔ ہم سائیکل رکشہ سے اترے۔ سامنے ایک عام سا مکان تھا جس کے دروازے پر پردہ ڈلا تھا۔ ہم سمجھ گئے کہ خانقاہ یہاں سے پیدل کا راستہ ہوگا۔ لیکن آنٹی اسی پردہ کو اٹھا کر اندر داخل ہوگئیں۔ اب یہ بیچ میں کس سے ملنے چلی گئیں۔ ہم بھنا کر رہ گئے۔ ایک تو یہاں ہر گھر سے کوئی نہ کوئی رشتہ نکل آتا تھا، آگئی ہوگی کسی رشتہ دار کی یاد۔ یہی سوچتے ہوئے ہم بھی اندر داخل ہوگئے۔ اب انتظار میں ہیں کہ یہاں سے فارغ ہوں تو خانقاہ جائیں۔ لیکن اس وقت تو حد ہی ہوگئی جب کھانے کا دسترخوان لگ گیا۔ ہم اندر ہی اندر کھول رہے تھے کہ دعوت خانقاہ میں ہے اور کھانا یہاں اُڑایا جارہا ہے۔ وہاں آپا پاری انتظار میں دبلی ہوئی جارہی ہوں گی۔ ہم ہاتھ دھونے کے بہانے اٹھےاور جان بوجھ کر آنٹی کے برابر آکر بیٹھ گئے:
’’یہاں کیوں کھارہی ہیں؟ خانقاہ نہیں جانا ؟‘‘ ہم نے کان میں کھسر پھسر کی۔
’’تو یہ کیا ہے؟‘‘ آنٹی نے ہمیں ایسے گھورا جیسے ہماری دماغی حالت کے بارے میں ماضی میں انہیں جو شک تھا آج یقین سے بدل گیا ہو۔
’’یہ کیسی خانقاہ ہے نہ مزار، نہ صحن، نہ دربان، نہ قوالیاں؟‘‘ ہم منمنائے۔
’’ بے وقوف اس محلّہ کا نام خانقاہ ہے۔‘‘ آنٹی نے ہنسی دبائی مگر ان کے پیٹ نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
’’حد ہوگئی یعنی کے۔‘‘ ہم اپنے سسپنس کا ستیاناس ہوتے دیکھ کر دل مسوس کر رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم شائستہ کو اکثر ایک بات کہتے سنتے اور ہمیشہ عجیب لگتا، مثلاً ایک دن دادی نے پوچھا: ’’شائستہ تمہاری آنٹی کہاں گئی ہیں؟‘‘
جواب دیا:’’بڑے بھائیوں۔‘‘
آج چچی نے پوچھا: معین کہاں ہے؟‘‘
شائستہ نے کہا:’’بڑے بھائیوں گئے ہیں۔‘‘
اس بڑے بھائیوں کہنے میں ہمیں ایک کمی محسوس ہوتی تھی گویا شائستہ نے جملہ ادھورا کہا ہو، اسے کہنا چاہیے بڑے بھائیوں کے پاس گئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات ہمیں شش و پنج میں ڈال دیتی کہ آنٹی اور معین کس کے بڑے بھائیوں کے پاس گئے ہیں؟آنٹی کے دو ہی بڑے بھائی ہیں ایک ہمارے والد، ایک چچا۔ یقیناً یہ کوئی جگت بھائی قسم کے بڑے بھائی ہوں گے۔ ایک دن مارے تجسس کے ہم سے رہا نہ گیا اور وہی ہماری شامت اعمال کا خمیازہ بھگتنے کا دن تھا، ہم شائستہ سے پوچھ بیٹھے:
’’یہ بڑے بھائی کون ہیں جن سے ملنے اس دن آنٹی گئی تھیں، آج معین گیا ہے، ہمیں بھی ملواؤ۔‘‘
’’ہیں، کس سے ملواؤں؟‘‘ شائستہ نے شدتِ حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا، اور گود میں اٹھائی فاطمہ کو نیچے اتار دیا۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ ہم کہنا کیا چاہ رہے ہیں، ادھر ہمیں بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنی سیدھی بات اسے سمجھ کیوں نہیں آرہی۔
’’بڑے بھائیوں سے ملواؤ اور کس سے، سب لوگ مل رہے ہیں، ہمیں بھی ملواؤ۔‘‘ ہم نے اپنے تئیں اسے سمجھایا۔
’’کون بڑے بھائی، کس کے بڑے بھائی؟‘‘ اس کی پھٹی ہوئی آنکھیں ابھی تک نہیں سِلی تھیں۔
’’اتنی باؤلی کیوں ہورہی ہو، وہی بڑے بھائی جس سے آنٹی ملنے گئی تھیں اور اب معین گیا ہے، تم نے ہی تو چچی کو بتایا ہے۔‘‘
’’یہ میں نے بتایا ہے کہ بھیا کسی بڑے بھائی سے ملنے گئے ہیں؟‘‘ الٹا وہ ہمیں جھوٹا بنانے لگی۔
’’جھوٹ نہ بولو، ابھی تم نے ہی چچی کو بتایا ہے کہ معین بڑے بھائیوں سے ملنے گیا ہے، ہمیں بھی ان سے ملواؤ، اس میں پاگل ہونے والی کیا بات ہے۔‘‘ ہم اس کے ہونق پنے پر جھنجھلا اُٹھے تھے۔
’’ہاہاہا۔ بھیا بڑے بھائی سے ملنے گئے ہیں، اب عمران بھائی بھی بڑے بھائی سے ملیں گے۔ ہی ہی ہی۔‘‘ کچھ سمجھنے پر اس کی آنکھیں سِلیں تو حلق پھٹنے لگا۔ دوڑتی چیختی اندر کی طرف بھاگی جہاں چچی اور دادی بیٹھی تھیں۔
’’ہوہوہو۔ امی، دادی، عمران بھائی کو بڑے بھائیوں سے ملنا ہے، اب ملوائیں انہیں بڑے بھائیوں سے۔‘‘ قہقہوں کے باعث شائستہ کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکل رہے تھے۔ ہنسی سے بے حال پیٹ پکڑے چارپائی پر لوٹ پوٹ ہوئی جارہی تھی۔ ادھر چچی اور دادی ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھ رہی تھیں۔ جب کچھ نہ سمجھ سکیں تو ہماری طرف دیکھا، ہم بھی ناسمجھی کے عالم میں کندھے اچکا کر رہ گئے۔ دادی سے برداشت نہ ہوا تو ہاتھ میں پکڑے پنکھے کی ڈنڈی کس کس کر شائستہ کے بازو پر جمائی۔ دو چار ڈنڈیاں کھانے کے بعد قہقہوں کا زلزلہ تو رُک گیا لیکن آفٹر شاکس جاری رہے۔
’’بتاتی ہے صحیح طرح یا لگاؤں دو جوتی۔‘‘دادی جھک کر چارپائی کے نیچے جوتی ڈھونڈنے لگیں۔ شائستہ بستر سے اچھل کر کھڑی ہوگئی اور لپک کر حظ ما تقدم کے طور پہ دادی کی جوتیوں پر پیر رکھ کر کھڑی ہوگئی۔
’’بتا تو رہی ہوں، عمران بھائی کہہ رہے ہیں انہیں بڑے بھائیوں سے ملنا ہے۔‘‘پنکھے کی ڈنڈیاں کھانے کے بعد جوتیوں سے تواضع کی رسوائی کا خوف ہنسی کو بریک لگا چکا تھا۔
’’کس کے بڑے بھائیوں سے ملنا ہے؟‘‘ چچی نے رسان سے پوچھا۔
’’کہہ رہے ہیں کہ کل آنٹی اور آج بھیا جن بڑے بھائیوں سے ملنے گئے ہیں ہمیں بھی ان سے ملواؤ۔‘‘ اتنا ہی کہا تھا کہ پھر ہنسی کا گولہ چھوٹ پڑا اور وہ کمرے سے فرار ہوگئی۔ اب ہم تھے اور چچی اور دادی۔ چچی کچھ سوچتی ہوئی نظروں سے ہمیں دیکھنے لگیں شاید دماغ میں سمجھنے کی لہریں لپک رہی ہوں۔
’’اچھا اب سمجھی۔‘‘ اچانک چچی کی سمجھ میں ساری باتوں کا لنک آگیا۔
’’ بھئی جس کو تم بڑے بھائی سمجھ رہے ہو وہ کسی کے بڑے بھائی نہیں ہیں بلکہ یہاں ایک محلّہ کا نام ہے۔ یہاں مفتی تقی عثمانی صاحب کا آبائی گھر ہے۔ اس دن تمہاری آنٹی وہیں گئی تھیں اور آج معین کو بھی کسی کام سے وہاں بھیجا ہے۔‘‘
’’اوہ اسی لیے وہ بے وقوف ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔ بے چاری سوچ رہی ہوگی اب انہیں ملوانے کے لیے بڑے بھائی کہاں سے لائیں۔‘‘ ساری بات سمجھٍ میں آئی تو ہم سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گئے۔ کچھ دن بعد مفتی صاحب کے ایک کزن نے جو آنٹی کے سسرالی رشتہ دار تھے آنٹی کو کھانے پر مدعو کیا ساتھ ہی ہمیں بھی ٹانگ لیا۔ اس دن ہم نے بڑے بھائیوں کے خوب اچھی طرح دیدار کیے اور وہاں موجود مفتی صاحب کا آبائی گھر بھی دیکھ لیا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
مفتی صاحب کے کزن کے دو بیٹے تھے۔ ان کی فیملی سال دو سال بعد پاکستان آتی تھی لہٰذا ہماری اچھی خاصی علیک سلیک تھی۔ ایک شام عصر کے بعد چھوٹا بیٹا گھر آیا اور چھوٹتے ہی کہا :
’’چلو، یہاں کے سب سے بڑے مندر کی سیر کرتے ہیں۔‘‘
پہلے ہم گھر سے نکلے پھر قصبہ سے نکلے اور سامنے روڈ کراس کرکے چار دیواری میں گھرے ایک وسیع و عریض میدان میں داخل ہوگئے۔ یہ دیوی کُنْڑْ کا مندر تھا ( اردو میں اس کو دیوی کُن لکھیں گے مگر ’’ن‘‘ کی جگہ ’’ں‘‘ اور ’’ڑ‘‘ دونوں جزم کے ساتھ ساکن پڑھیں)۔ہم زندگی میں پہلی بار اصلی مندر دیکھ رہے تھے، وہاں موجود ہندوؤں کو پوجا پاٹھ کرتے اور پرشاد کے نام پر پنڈت سے چٹکی بھر کوئی چیز ہتھیلی پر لیتے دیکھ رہے تھے۔ جابجا چھوٹے بڑے حجرے نما کمرے بنے تھے جن میں مختلف اقسام کے بت رکھے تھے۔ گھومتے گھماتے ایک حجرے کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ ایک آدمی کا بت تھا جس کا سینہ چِرا ہوا تھا، چِرے ہوئے سینہ میں دل نمایاں تھا اور دل میں کسی عورت کو دکھایا تھا۔ اس بت کے پاس مندر کی ایک عمر رسیدہ داسی ملگجی سی سوتی ساڑھی میں ملبوس زمین پر بیٹھی تھی۔ ہم بت دیکھنے میں مصروف تھے اور وہ ہمیں۔ تھوڑی دیر میں خود ہی بول اُٹھی:
’’بیٹا تم لوگوں کے دلوں میں تمہارا خدا رہتا ہے جس طرح اس رام کے دل میں سیتا کو دکھایا گیا ہے، اسی لیے تمہیں بتوں کی ضرورت نہیں، لیکن ہم اپنے بھگوان کی یاد دہانی کے لیے ان بتوں کو سامنے رکھ کر ایشور کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
پجارن ہمارے حلیہ سے سمجھ گئی تھی کہ ہم مسلمان ہیں۔ اس نے اپنی سمجھ کے مطابق فلسفہ جھاڑا، بت کدہ میں نعرہ خدا لگایا۔ بہرحال اس کی یہ بات یاد رہ گئی مسلمان کے دل میں خدا ہوتا ہے، اس کے لیے اسے باہر جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ یہ اس بے چاری کی مسلمانوں کے متعلق خوش گمانی تھی، مگر اس کی خوش گمانی ہماری دعا بن چکی تھی کہ خدا کرے ہمارے دل میں خدا آجائے۔
اواخر اکتوبر کی خنک شام، عصر کے بعد سنہری رنگ میں رنگا ماحول اور سامنے کُھلے ہوئے وسیع و عریض زمین اور آسمان۔ کافی دیر یونہی بے مقصد ٹہلتے رہے، فطرت کا حسن اور رنگ و روپ دل و نگاہوں میں سموتے رہے، ان لمحات کے لطف کا قطرہ قطرہ کشید کرتے رہے۔ جانتے تھے چند ہی دنوں میں سب ماضی بننے والا ہے، بس یادوں میں باقی رہنے والا ہے۔ ہم نے کُھلے ماحول میں لمبی سانس بھری اور باہر نکل آئے، حال کو ماضی کا روپ دھارنے کی کھلی چھوٹ دے آئے!!!
 

سید عمران

محفلین
صبح ناشتہ کرکے بس میں بیٹھے اور سہارن پور کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں رام پور جا اُترے۔ رام پور نام کی ایک بڑی ریاست بھی اتر پردیش کے صوبے میں واقع ہے۔یہاں کی چاقو چھریاں اور پٹھان بہت مشہور ہیں۔ لیکن ہمارا وہاں جانے کا کوئی قصد نہ تھا۔ بس رام پور گاؤں کے کنارے اتار کر دھواں اُڑاتی آگے بڑھ گئی۔ یہاں آنٹی کی خالہ زاد بہن کا گھر تھا، ان کے میاں بڑے زمیں دار تھے لہٰذا اپنی شان کے مطابق ہمیں ریسیو کرنے ’’مرسڈیز بیل ‘‘ بھیج دی۔ یہ بیل ہی ہے اسے بینز نہ پڑھا جائے، البتہ مرسڈیز کا اضافہ اضافی ہے۔
بیل گاڑی میں کیسے بیٹھیں؟ ہم جھجھک گئے۔ ایسا ایڈونچر کبھی نہ کیا تھا۔ بیٹھیں تو کہاں؟ یہاں فرنٹ یا بیک سیٹ تو کیا کسی سیٹ کا کوئی وجود نہ تھا۔ محمود و ایاز سب کے لیے ایک جیسا نقشہ تھا۔ ہمیں جھجھکتے دیکھ کر آنٹی بولیں:
’’سب سے پہلے اس کو بٹھاؤ، ورنہ یہ سب کا سفر غارت کردے گا۔‘‘
اس سے پہلے بچہ پارٹی ہمیں زبردستی ذلیل کرکے بٹھاتی ہم نے خود ہی عزت سے بیٹھ جانے میں عافیت جانی۔ جس عجیب و غریب طریقے سے مختلف زاویوں کے ساتھ ہم بیل گاڑی پر کبھی چڑھے کبھی اُترے وہ الگ کہانی ہے جو ناقابل بیان کے زمرے میں آجاتی ہے لہٰذا اس کا ذکر حذف کرتے ہیں اور بیل گاڑی پر لدنے کے بعد کا احوال بیان کرتے ہیں۔ لرزتے کانپتے ہم بیل گاڑی پر لدے تو فرنٹ سیٹ پر جگہ ملی۔ بیل وقفے وقفے سے اپنی دم ہلاتا تو ہمیں تقریباً چھوتے ہوئے گزرتی۔ ہم اس سے بچنے کے لیے پیچھے ہونے کی کوشش کرتے تو سارے کزن مل کر ہمیں مزید آگے کی طرف کھسکا دیتے:
’’اب کے اگر کسی نے دھکا دیا تو ہم سیدھا بیل پر سوار ہوجائیں گے۔‘‘مگر ہماری منمناہٹ خاطر میں نہ لائی گئی اور کزنز کی یہ پریکٹس جاری رہی۔
سامنے الگ تماشہ چل رہا تھا۔ آنٹی اور معین میں کشمکش ہورہی تھی۔ ہر فریق فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا متمنی تھا۔ اس جنگ کو جیتنے کے لیے دھینگا مشتی ہورہی تھی۔ بالآخر آنٹی نے اپنی جسامت، ڈیل ڈول اور بڑے ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا لیا۔ معین کو ان کے برابر میں جگہ ملی۔ اس کی چمکدار آنکھوں میں انتقام کے شعلے لپک رہے تھے۔ آخر بول اٹھا:
’’آنٹی میرے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ میں اس کا بدلہ لے کر رہوں گا۔‘‘ ٹھٹھول بازیوں میں مگن آنٹی نے اس کی سننا تک گوارا نہ کی۔ لیکن یہ جو کیا بہت برا کیا۔ انہیں کیا معلوم تھا عنقریب ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ نہ جانے معین کے دماغ میں کیا کھچڑی پک رہی تھی ہم نے صرف اتنا دیکھا کہ اچانک اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ہم سمجھ گئے آگیا ہوگا ذہن میں کوئی شیطانی منصوبہ۔ ہم بالکل صحیح سمجھے تھے۔معین کچھ دیر تو ہمیں شرارت بھری نظروں سے دیکھتا رہا پھر جھک کر کان میں بولا:
’’عمران بھائی آپ میری جگہ پر آجاؤ، میں ابھی آنٹی کو آگے بیٹھنے کا مزہ چکھاتا ہوں۔‘‘
ہم ویسے ہی بیزار بیٹھے تھے فوراً جگہ بدلنے پر آمادہ ہوگئے۔ دونوں نے کھسک کر ایک دوسرے سے جگہ بدل لی۔ ابھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عنقریب کیا ہونے جارہا ہے، کسی کو ذرا بھی ہوا لگ جاتی تو شاید وہ نہ ہوپاتا جو ہوگیا تھا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ معین نے ہوا میں لہراتی بیل کی پونچھ ایک ہاتھ میں پکڑی اور دوسرے ہاتھ میں آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر بولا:
’’آنٹی یہ لیں، ذرا دھیان سے پکڑئیے گا۔‘‘
آنٹی جو گردن موڑے اپنے برابر والی سے باتوں میں مصروف تھیں بے دھیانی میں بیل کی دم پکڑ لی۔ لیکن جیسے ہی انتہائی ناگوار للبلی سی دُم اور پونچھ کے بالوں کا احساس ہوا تو گردن موڑ کر دیکھا کہ کیا چیز پکڑ لی۔ جیسے ہی منظر پر نظر پڑی انتہائی لرزہ خیز چیخ ماری،جھٹکے سے دُم چھوڑی، ایک زوردار دھپ معین کے لگائی اور انتہائی کراہت آمیز لہجے میں کہا:
’’اییییہہ۔ کم بخت یہ کیا چیز تھی۔‘‘
’’بیل کی دم تھی۔‘‘ انتہائی اطمینان سے جواب دیا گیا۔
’’میرے ہاتھ میں کیوں دی؟‘‘ لہجہ ایسا تھا جیسے ابھی قے ہوجائے گی۔ بار بار ہاتھ بیل گاڑی سے رگڑتی جاتیں جیسے ان دیکھی گندگی اور جراثیم صاف کر رہی ہوں۔
’’بیل کے پاس بیٹھیں گی تو دم ہی ملے گی، سونے چاندی کے پہاڑ نہیں ۔‘‘ بدلہ لے کر معین کی طبیعت ہلکی ہوچکی تھی اور آنٹی کی بھاری۔
گھر عام سا لیکن کافی بڑا اور کشادہ تھا۔ تھوڑی دیر آرام کے بعد کھانا کھایا پھر زمیں دار صاحب کی زمینیں دیکھنے پہنچ گئے۔ سردیوں کی شروعات ہوا چاہتی تھیں۔ گنّے کے کھیت میں گنے لگے ہوئے تھے۔ یہاں گنے کو ’’اِیخ‘‘ کہتے ہیں، نہ جانے کیوں؟ شاید اس لیے کہ ہم بھی تو انہیں گنّا کہتے ہیں، اب تو بعض لوگ اسے ’’گناہ‘‘ بھی لکھنے لگے ہیں اور سر عام اس کا جوس نکال کر دھڑلے سے فروخت کرتے ہیں۔
کھیت سے گنے توڑ کر پاس بہتی چھوٹی سے نہر میں دھوئے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد کا مرحلہ نہایت پریشان کن تھا۔ لوگ باگ دانتوں سے گنا چھیل، بغیر گنڈیریاں بنائے ثابت ڈنڈے پہ منہ مارنے لگے۔ یہ سب ہمیں کہاں آتا تھا۔ افسوس ہم زندگی بھر دنیا کے کتنے ہنروں سے بے بہرہ رہے۔ ہم افسردہ کھڑے تھے تبھی کسی نے چِھلا چِھلایا گنا ہمیں پیش کیا۔ شاید ہماری پریشانی بھانپ گیا تھا۔ لیکن گنے کا یہ ڈنڈا بھی ہمارے مسئلہ کا حل نہ تھا۔ ہم اسے ہاتھ میں لیے بے بسی سے تک رہے تھے کہ پہلے کہاں منہ مارا جائے، مگر افسوس ککھ وی پلّے نہ پڑا ۔ اب کوئی اپنے دانتوں سے نچا گنا چھیل کر ہمیں دیتا تو اسے کھانے پر بھی طبیعت آمادہ نہ ہوتی۔ ہم سمندر کے کنارے بھی پیاسے ہی رہے۔
رات کو کھانے کے بعد آنٹی کو رشتے داروں سے ملاقات کی سوجھی۔ نہ جانے کس کس کے یہاں گئے بس ایک نقشہ یاد رہ گیا۔ ایک گھر میں داخل ہوئے، کم واٹ کا بلب جل رہا تھا، صحن میں ملگجی روشنی پھیلی ہوئی تھی، تبھی ایک لڑکی سادہ سا لباس پہنے سر پر دوپٹہ جمائے لنگڑاتی ہوئی آئی، حال احوال پوچھا، کمرہ میں بٹھایا اور ناشتہ پانی کا بندوبست کرنے چلی گئی۔ ہمیں دیکھ کر دُکھ ہوا کہ اس عمر میں کیا روگ لگ گیا تھا۔ آنٹی نے ہماری صورت پر بارہ بجتے دیکھ کر کہا:
’’یہ ویسی معذور نہیں جیسا تم سمجھ کر منہ پر بارہ بجائے بیٹھے ہو۔ اسے عرق النساء کی بیماری ہے۔ علاج کروارہی ہے صحیح ہوجائے گی۔ اب چہرہ سے یہ نحوست ہٹاؤ ورنہ تمہیں دیکھ کر دہل جائے گی کہ پتا نہیں مجھے کیا بیماری لگ گئی۔‘‘ آنٹی نے نحوست ہٹانے کا کہا اور ہم نے فوراً ہٹا لی۔
اگلے دن دیوبند پہنچ گئے تھے۔
پاکستان واپسی کی گھڑیاں سر پر کھڑی تھیں۔یہاں ہماری دلچسپی کی صرف ایک چیز باقی رہ گئی تھی۔
تاج محل!!!
گلابی شہر جے پور اور بمبئی انڈیا والوں نے نہیں دیکھنے دئیے اور سری نگر اور ڈل جھیل چچا نے۔ دہرہ دون جاتے سمے ہم نے چچا سے فرمائش کی تھی کہ کشمیر بھی لے چلیں۔ تب چچا نے کہا :
’’وہاں تو آگ لگی ہوئی ہے، انڈین نہیں جاسکتے پاکستانیوں کو تو اس کا خواب بھی نہیں دیکھنا چاہیے۔‘‘
اس کے بعد سے ہم نے کشمیر اپنے خوابوں میں بھی دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔
لیکن تاج محل؟؟؟
آہ !!!
اسے کیسے بھلادیں؟؟؟
اپنے والد سے اس کے طلسماتی، کرشماتی اور ساحرانہ کشش کے جو قصے سن رکھے تھے انہیں عملی جامہ پہنائے بغیر کیسے رہا جاسکتا تھا۔ پاکستان میں ہی چچا سے وعدہ لے لیا تھا کہ کچھ دکھائیں نہ دکھائیں تاج محل آپ کو ہرحال میں دکھانا ہوگا، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔اس وقت تو انہوں نے ہامی بھر لی تھی لیکن اب جب کہ دم واپسیں کی ساعتیں سر پر کھڑی تھیں چچا نے سب کچھ دکھا دیا تھا لیکن تاج محل دکھانے کا نام تک نہیں لے رہے تھے۔
ہر شام جب سورج ڈوبتا ہمارا دل بھی ڈوب جاتا۔ آج کا دن بھی نکل گیا اور تاج محل کا کوئی تذکرہ نہ ہوا۔ اگر چچا نے تاج محل نہ دکھایا تو عمر بھر اس کا افسوس رہے گا۔ نہ جانے زندگی میں دوبارہ آنا ہو یا نہیں۔ اس بار بھی جتنی مشکلوں سے یہاں پہنچے ہیں یہ ہم جانتے ہیں یا ہمارے قارئین!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
رات کھانے پر چچا آئے تو چہرہ پر الگ ہی رنگ جھلک رہا تھا، چہک بھی رہے تھے۔ ہمیں اچھا لگ رہا تھا اور تعجب خیز بھی۔ کھانے کے بعد آرام کرنے لیٹے تو مسکراتے ہوئے کہا:
’’بھئی کل روانگی ہے۔ سب اپنی اپنی تیاریاں پکڑلو۔ کل شام فارغ ہوکر آؤں گا تو دِلّی چلیں گے۔‘‘
پھر دلی؟دو دفعہ ہوآئے ، اب پھر دلی۔ دل بجھ گیا۔ شاید اس لیے کہ دل میں آگرہ کی آس لگی تھی۔ ورنہ دلی کے سو چکر لگا آتے۔
’’ دلی میں رات ہوٹل میں رُکیں گے، پھر صبح سویرے بس ٹور سے آگرہ جائیں گے۔‘‘
’’کہاں جائیں گے؟؟؟‘‘ ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ دوبارہ تصدیق کے لیے پوچھا۔
چچا جو ذرا دیر سانس لینے کو رکے تھے تو ہماری سانسیں روک دی تھیں ۔ مگر پھر جو بولے تو گویا چھپڑ پھاڑ کے بولے۔ ہمیں ابھی تک یقین نہیں آیا۔ واقعی آگرہ جارہے ہیں۔ تاج محل دیکھنے۔ زندگی کی ایک بڑی خواہش پوری کرنے۔ انہونی کو ہونی کرنے۔
اگلے دن شام کو چچا آئے۔ نہائے دھوئے۔ چچی نے ان کا سامان تیار کر دیا تھا ۔ ادھر ہم، آنٹی اور صبا بھی اپنے اسلحہ سے لیس تیار بیٹھے تھے۔چائے پینے کے بعد گھر والوں سے سلا م دعا کی اور گھر سے نکل گئے۔ بس کے ذریعے چار گھنٹے بعد پرانی دلی اُترے۔ چچا ایک ہوٹل میں لے گئے۔ ہمیں سختی سے منع کر دیا تھا کہ کسی کے ساتھ بالکل نہیں بولنا۔ اگرچہ اس تنبیہہ کے بعد ہم نے تہیہ کرلیا تھا کہ سختی تو کیا کسی کے ساتھ نرمی سے بھی نہیں بولیں گے مگر آنٹی نے دل کا غبار نکالنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا:
’’اس کی زبان کیل دیں بھائی۔ کسی صورت نہیں رُکتی۔ ہم کہیں پھنسے تو اسی کی زبان دانی سے پھنسیں گے۔‘‘ آنٹی دانت پیستے ہوئے بولیں۔
ہم نے بھی دانت پیستے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر چچا نے ہاتھ کے اشارے سے بات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یوں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ ورنہ ہم آنٹی سے ایک آدھ دھول پھر وصول کر بیٹھتے!!!
چچا نے ہوٹل میں اپنے نام اور قصبہ دیوبند سے اینٹری کروائی۔ سامان کمرے میں رکھ کر کچھ دیر آرام کیا، پھر رات کے کھانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ کھانے کے بعد کچھ دیر چہل قدمی کی اور ہوٹل واپس آگئے۔ ابھی جلدی سونا ہے کیوں کہ صبح سویرے چھ بجے اٹھنا تھا۔ چار گھنٹے کا راستہ تھا، اسی روز جانا اور پھر واپس بھی آنا ہے۔
صبح ہم مقررہ وقت پر تیار ہو کر کاؤنٹر کے پاس بچھے صوفے پر بچھے تھے۔ تھوڑی دیر بعد مسافر جمع ہوگئے تو بس میں چڑھے۔ چچا، آنٹی اور صبا ایک ساتھ بیٹھ گئے ۔ ہمیں ان کے پیچھے والی سیٹ ملی۔ ہمارے ساتھ دو نوجوان اور بیٹھے۔ تھوڑی دیر بعد بس نے چلنے کا ہارن بجایا اور رینگنے لگی، بڑی سڑک پر آتے ہی رفتار پکڑ لی اور شہر سے باہر نکل کر فراٹے بھرنے لگی۔ دلی شہر کی حدود ختم ہوتے ہی سڑک کے دائیں بائیں راستے میں کھیت کھلیان اور درختوں کے جھنڈ نظر آنے لگے ، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔راستے میں ایک ہوٹل پر بس رکی۔ بس والے نے آواز لگائی ناشتہ کے لیے اتر آئیں۔ ہم نے نیچے اتر کر ناشتہ کیا ۔ اور دوبارہ بس پر چڑھ گئے۔ موڈ خوشگوار ہوگیا تھا۔
ساتھ بیٹھے لڑکے سے محتاط انداز میں بات چیت شروع کی۔ ڈر تھا آگے بیٹھے چچا اور آنٹی نہ سن لیں ورنہ ڈانٹ پڑجاتی کہ منع کرنے کے باوجود اجنبی لوگوں سے میل جول بڑھا رہا ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ اجنبی نوجوان ہم سے بھی زیادہ محتاط انداز میں بات کررہا تھا۔ اور بات کیا کررہا تھا محض ہاں ناں میں جواب دے رہا تھا۔ اس پر ہمیں شدید حیرت تھی کہ ڈرنا تو ہمیں چاہیے کہ دشمن ملک کے خطرناک عوام سے پینگیں بڑھارہے ہیں، جبکہ ان کو اپنے ملک میں شیر ہونا چاہیے، مگر معاملہ برعکس تھا، لگ رہا تھا جیسے ہم انڈین اور وہ پاکستانی ہیں۔
ہم نے نام پوچھا، خاموش رہا، پھر بولا:
’’علی۔‘‘
چلو مسلمان تو ہے۔ ہمارا آدھا خوف دور ہوا۔
علی کا لہجہ ہماے دماغ میں دور کہیں لال بتی جلا بجھا رہا تھا۔ گویا ذہن کچھ ری کال کررہا ہو۔ مگر سگنل کبھی آرہے تھے کبھی جارہے تھے۔ باتوں کے دوران کچھ دیر بعد ہی ہماری لال بتی پوری طرح روشن ہوچکی تھی اور ہمارا ذہن باور کراچکا تھا کہ علی گو اردو بول رہا تھا مگر اس کا لہجہ خالص پنجابیوں والا تھا۔ ہم نے باتوں کے درمیان کہہ دیا:
’’آپ کا لب و لہجہ بالکل پنجابیوں جیسا ہے۔ سچ سچ بتائیں آپ کا تعلق لاہور سے ہے نا؟‘‘
’’نہیں جی، گجرانوالہ سے۔‘‘ تیزی سے جواب دیا۔ پھر فوراً ہی سٹپٹا گیا، شاید یہ نہیں بولنا چاہیے تھا، پاکستان کا نہیں بتانا چاہیے تھا۔ اس کو پریشان دیکھ کر ہم نے کہا:
’’ گھبراؤ نہیں، ہم بھی کراچی سے ہیں۔ ‘‘
’’اچھا ، واقعی!‘‘ چہرے سے پریشانی کے آثار دور ہوئے تو خوشی اور جوش کے رنگ دمکنے لگے۔ جیسے یقین نہ آرہا ہو، دشمن ملک میں بیٹھے بٹھائے دوست مل گیا ہو ۔
ایک شہر کے آثار نظر آئے تو لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے، آگرہ آگیا۔
آگرہ!!!
سلطنتِ مغلیہ کا پایۂ تخت۔۔۔
سیاسی سرگرمیوں کا شہر۔۔۔
شاہی سازشوں کا شہر۔۔۔
جہاں غلام گردشوں میں آج بھی ماضی کے افسانے بھٹک رہے ہیں۔۔۔
غلاموں کی سرگوشیاں اور وزیروں کی ساز باز۔۔۔
کنیزوں کے قہقہے اور شہزادیوں کے لباس کی سرسراہٹ۔۔۔
شہزادوں کی عشقیہ آہیں اور بادشاہوں کی جلالی آواز۔۔۔
شاید یہ سب آج بھی سنا جاسکتا ہو۔۔۔
بس سننے والے کان چاہئیں!!!
صبح کے دس یا گیارہ بجے ہوں گے ۔ اواخر اکتوبر کا روشن چمک دار سورج جسم کو برا نہیں لگ رہا تھا۔ تب ہم نے خوابوں کے محل، تاج محل کی سرزمین پر پہلا قدم رکھ دیا۔
یہ آگرہ تھا۔۔۔
تاج محل کا شہر ۔۔۔
محبتوں ، آرزوؤں اور ارمانوں کا شہر!!!
بس نے آگرہ فورٹ کے سامنے اُتارا تھا۔
ابھی تاج محل دور ہے۔۔۔
تاج محل اتنی آسانی سے جھلک نہیں دِکھاتا ۔۔۔
پہلے فاصلہ رکھتا ہے۔۔۔
عاشقوں کی آتش عشق تیز کرتا ہے۔۔۔
تھوڑا تڑپاتا ہے۔۔۔
تھوڑا ترساتا ہے۔۔۔
تب کہیں جاکے پاس بلا کر اپنے درشن کراتا ہے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
شاہجہاں نے اپنی دو بیٹیوں روشن آراء اور جہاں آراء کے لیے ایک آرام گاہ تیار کروائی جس کا نام آرام گاہِ مقدر رکھا۔۔۔
اب یہ خاص محل کے نام سے مشہور ہے!!!
9-Khas-Mahal.jpg
 
Top