ماوراء
محفلین
سردار جی
جب دہلي اور نئي دہلي ميں فرقہ ورانہ قتل و غارت کا بازار گرم اور مسلمانوں کا خون سستا ہوگيا تو ميں نے سوچا واہ ري قسمت پڑوسي بھي ملا تو سکي، حق ہمسائيگي ادا کرنا اور جان بچانا تو کجانا جانے کب کر پان بھونک دے، بات يہ ہے کہ ميں کسي قدر سکھوں سے ڈرتا ہوں، کافي نفرت کرتا ہوں اور ان کو عجيب الخلقت قسم کا جانور سمجتھا ہوں، آج سے نہيں بچپن سے ، ميں شايد چھ برس کا تھا، جب پہلي بار ميں نے ايک سکھ کو ديکھتا تھا جو دھوپ ميں بيٹھا اپنے بالوں ميں کنگھي کر رہا تھا، ميں چلا پڑا، ارے وہ ديکھو عورت کے منہ پر کتني لمبي داڑھي جيسے جيسے عمر گزرتي گئي يہ استجناب ايک فطري نفرت ميں تبديل ہوگيا، گھر کي بڑي بوڑھياں جب کسي بچے کے بارے ميں نامبارک بات کا ذکر کرتيں مثلا يہ کے اسے نمونيا ہوگيا تھا اس کي ٹانگ ٹوٹ گئي ہے، تو کہتيں اب سے دور کسي سکھ فرنگي کو نمونہ ہوگيا تھا، يا اب سے دورکسي سکھ فرنگي کا ٹانگ ٹوٹ گئي تھي، بعد ميں معلوم ہوا کہ يہ ١٨٥٧ کيياد گار تھا، جب ہندو مسلمانوں کي جنگ آزادي کو دبانے ميں پنجاب سے سکھ راجو اور ان کي فوجوں نے فرنگيوں کا ساتھ ديا تھا، مگر اس وقت تاريخ حقائق پر نظر نہيں تھي، صرف ايک مہم سا خوف ايک عجيب سے نفرت اور ايک عميق تعصب ڈرانگريز سے بھي لگتا تھا اور سکھ سے بھي مگر اس وقت بھي مگر انگريز سے زيادہ مثلا جب ميں کوئي دس برس کا تھا، ايک روز دہلي سے علي گڑھ جا رہا تھا ہميشہ تھرڈ ائیڑ ميں سفر ہوتا تھا سوچا اب کي بار سيکنڈ کلاس ميں سفر کر کے ديکھا جائے ٹکٹ خريد ليا، اور ايک خالي ڈبے ميں بيٹھ کرگدوں پر خوب کودا باتھ روم کے آئينے ميں اچک اچک کر اپنا عکس ديکھا سب پنکھوں کو ايک ساتھ چلا ديا، روشنيوں کو کبھي جلايا کبھي بجھايا، مگر گاڑي کے چلے نے ميں دو تين منٹ باقي تھے کہ لال لال منہ والے چار فوجي گورے آپس ميں ڈيل بليڈي قسم کي گفتگو کرتے ہوئے درجے ميں گھس آنے ان کو ديکھنا تھا کہ سکينڈ کلاس ميں سفر کا شوق رفو چکر ہوگيا، اور اپنا سوٹ کيس گھسيٹا ميں بھاگا اور نہايت کچھا کھچ بھرے ہوئے تھرڈ کلاس کے ڈبے ميں آکر دم ليا يہاں ديکھا تو کئي سکھ داڑھياں کھولے کھچے پہنے بيٹھے تھے، مگر ان ميں سے ڈر کر دوجہ چھوڑ کر نہيں بھاگا، صرف ان سے ذرا فاصلہ پر بيٹھ گيا۔
ہاں تو ڈر سکوں سے بھي لگتا تھا اور انگريزوں سے ان سے زيادہ مگر انگريز تھے اور کوٹ پتلون پہنتے تھے، مگر ميں ان سے ڈر کر درجہ چھوڑ کر نہيں بھاگا، صرف ان سے ذرا فاصلہ پر بيٹھ گيا۔
ہاں تو ڈرسکوں سے بھي لگتا تھا، اور انگريزوں سے ان سے زيادہ مگر انگريز، انگريز تھے اور کوٹ پتلون پہنتے تھے جو ميں بھي پہننا چاہتا تھا مگر سکھو سے جوڈر لگتا تھا، وہ حقارت آميز تھا، کتنے عجيب الخلقات تھے يہ سکھ جو مرد ہوکر بھي سر کے بال عورتوں کي طرح لمبے لمبے رکھتے تھے يہ اور بات ہے کہ انگريزي فيشن کي نقل ميں سر کے بال چھوٹے کرائيں جائيں ميں نے بال خوب بڑھا رکھے تھے، ہاکي فٹبال کھيلتے وقت بال ہوا ميں اڑيں جيسے انگريزي کھلاڑيوں کے، ابا کہتے يہ کيا عورتوں کي طرح يٹے بڑھا رکھے ہيں، مگر ابا تو تھے پراني دقيانوسي خيالات کے ان کي بات کون سنتا تھا ان کا بس چلتا تو سر پر استا چلوا کر بچپن ميں بھي ہمارا چہرہوں پر داڑھياں بند واديتے ہاں اس پر ياد آيا کہ سکھوں کي عجيب الخلقت ہونے کي دوسري نشاني ان کي داڑھياں تھيں، اور پھر داڑھي داڑھي ميں بھي فرق ہوتا ہے، مثلا ابا کي داڑھي جونوکيلي اور چوندار تھي، مگر يہ بھي کيا کہ داڑھي کو کبھي قينچي لگے ہي نہيں، جھاڑ جھنکاڑ کي طرح بڑھتي رہے، بلکہ تيل اور دہي اور نہ جانے کيا کيا مل کر بڑھائي جائے، اور جب کئي فٹ لمبي ہوجائے تو اس ميں کنگھي کي جائے، جيسے عورتوں سر کے بالوں ميں کرتي ہے، عورتيں يا مجھ جيسے اسکول کے فيشن ايبل لڑکے، اس کے علاوہ داد جان کي داڑھي بھي کئي فٹ لمبي تھي اور وہ بھي اس ميں کنگھي کرتے تھے مگر دادا جان کي بات اور تھي آخر وہ ميرے دادا جان ٹہرے اور سکھ پھر سکھ تھے۔
ميٹرک کرنے کے بعد مجھے پڑھنے کيلئے مسلم يونيورسٹي عليگڑھ بھيجا گيا، کالج ميں جو پنجابي لڑکے پڑھتے تھے، ان کو ہم دہلي اور يورپي والے نيچ، جاہل اور اجڈ سمجھتے تھے، نہ بات کرنے کا سليقہ، نہ کھانے پينے کي تميز، تعصب و تمدن چھو نہيں گئے، گنوار لٹھ يہ بڑے بڑے لسي گلاس کے پينے والے بھلا کيوڑے دار فالودے اور لپٹن کي چائے کي لذت کيا جانيں، زبان نہايت ناشائستہ بات کريں تو معلوم ہو لڑ رہے ہيں، اسي تسي، ساڈے، تہادے، لاحولا ولاقوتھ ميں ہميشہ ان پنجابيوں سے کتراتا تھا، مگر خدا بھلا کرے ہمارے داڑن صاحب کا کہ انہوں نے ايک پنجابي کو ميرے کمرہ ميں جگہ ديدي ميں نے سوچا چلو جب ساتھ رہنا ہي ہے، تو تھوڑي بہت حد تک دوستي ہي کرلي جائے کچھ دنوں ميں کافي گاڑھي پنجابي کو ميرے ميں جگہ ديدي ميں نے سوچا چلو جب ساتھ رہنا ہي ہے، تو تھوڑي بہت حد تک دوستي ہي کرلي جائے، کچھ دنوں ميں کافي گاڑھي چھينے لگي اسکا نام غلام رسول تھا، روالپنڈي کا رہنے والا تھا کافي مزے دار آدمي تھا اور لطيفے خوب سناتا تھا۔
اب آپ کہيں گے ذکر شروع ہوا تھا سرادار صاحب کا يہ غلام رسول کہاں سے ٹپک مگر اصل ميں غلام رسول کا اسي قچے سے قريبي تعلق ہے بات يہ ہے کہ وہ مجھے لطيفے سناتا تھا، وہ عام طور پر سکھوں کے بارے ميں ہوتے تھے، جن کو سن سن کر مجھے پوري سکھ قوم کي عادت و خصائل ان کي نسلي خصوصيات اور اجتماعي کريکٹر کا بخوبي علم ہو گيا تھا، بقول غلام رسول کے سکھ تمام بے وقوف اور بدھو ہوتے ہيں،