سردار جی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
سردار جی


جب دہلي اور نئي دہلي ميں فرقہ ورانہ قتل و غارت کا بازار گرم اور مسلمانوں کا خون سستا ہوگيا تو ميں نے سوچا واہ ري قسمت پڑوسي بھي ملا تو سکي، حق ہمسائيگي ادا کرنا اور جان بچانا تو کجانا جانے کب کر پان بھونک دے، بات يہ ہے کہ ميں کسي قدر سکھوں سے ڈرتا ہوں، کافي نفرت کرتا ہوں اور ان کو عجيب الخلقت قسم کا جانور سمجتھا ہوں، آج سے نہيں بچپن سے ، ميں شايد چھ برس کا تھا، جب پہلي بار ميں نے ايک سکھ کو ديکھتا تھا جو دھوپ ميں بيٹھا اپنے بالوں ميں کنگھي کر رہا تھا، ميں چلا پڑا، ارے وہ ديکھو عورت کے منہ پر کتني لمبي داڑھي جيسے جيسے عمر گزرتي گئي يہ استجناب ايک فطري نفرت ميں تبديل ہوگيا، گھر کي بڑي بوڑھياں جب کسي بچے کے بارے ميں نامبارک بات کا ذکر کرتيں مثلا يہ کے اسے نمونيا ہوگيا تھا اس کي ٹانگ ٹوٹ گئي ہے، تو کہتيں اب سے دور کسي سکھ فرنگي کو نمونہ ہوگيا تھا، يا اب سے دورکسي سکھ فرنگي کا ٹانگ ٹوٹ گئي تھي، بعد ميں معلوم ہوا کہ يہ ١٨٥٧ کيياد گار تھا، جب ہندو مسلمانوں کي جنگ آزادي کو دبانے ميں پنجاب سے سکھ راجو اور ان کي فوجوں نے فرنگيوں کا ساتھ ديا تھا، مگر اس وقت تاريخ حقائق پر نظر نہيں تھي، صرف ايک مہم سا خوف ايک عجيب سے نفرت اور ايک عميق تعصب ڈرانگريز سے بھي لگتا تھا اور سکھ سے بھي مگر اس وقت بھي مگر انگريز سے زيادہ مثلا جب ميں کوئي دس برس کا تھا، ايک روز دہلي سے علي گڑھ جا رہا تھا ہميشہ تھرڈ ائیڑ ميں سفر ہوتا تھا سوچا اب کي بار سيکنڈ کلاس ميں سفر کر کے ديکھا جائے ٹکٹ خريد ليا، اور ايک خالي ڈبے ميں بيٹھ کرگدوں پر خوب کودا باتھ روم کے آئينے ميں اچک اچک کر اپنا عکس ديکھا سب پنکھوں کو ايک ساتھ چلا ديا، روشنيوں کو کبھي جلايا کبھي بجھايا، مگر گاڑي کے چلے نے ميں دو تين منٹ باقي تھے کہ لال لال منہ والے چار فوجي گورے آپس ميں ڈيل بليڈي قسم کي گفتگو کرتے ہوئے درجے ميں گھس آنے ان کو ديکھنا تھا کہ سکينڈ کلاس ميں سفر کا شوق رفو چکر ہوگيا، اور اپنا سوٹ کيس گھسيٹا ميں بھاگا اور نہايت کچھا کھچ بھرے ہوئے تھرڈ کلاس کے ڈبے ميں آکر دم ليا يہاں ديکھا تو کئي سکھ داڑھياں کھولے کھچے پہنے بيٹھے تھے، مگر ان ميں سے ڈر کر دوجہ چھوڑ کر نہيں بھاگا، صرف ان سے ذرا فاصلہ پر بيٹھ گيا۔
ہاں تو ڈر سکوں سے بھي لگتا تھا اور انگريزوں سے ان سے زيادہ مگر انگريز تھے اور کوٹ پتلون پہنتے تھے، مگر ميں ان سے ڈر کر درجہ چھوڑ کر نہيں بھاگا، صرف ان سے ذرا فاصلہ پر بيٹھ گيا۔
ہاں تو ڈرسکوں سے بھي لگتا تھا، اور انگريزوں سے ان سے زيادہ مگر انگريز، انگريز تھے اور کوٹ پتلون پہنتے تھے جو ميں بھي پہننا چاہتا تھا مگر سکھو سے جوڈر لگتا تھا، وہ حقارت آميز تھا، کتنے عجيب الخلقات تھے يہ سکھ جو مرد ہوکر بھي سر کے بال عورتوں کي طرح لمبے لمبے رکھتے تھے يہ اور بات ہے کہ انگريزي فيشن کي نقل ميں سر کے بال چھوٹے کرائيں جائيں ميں نے بال خوب بڑھا رکھے تھے، ہاکي فٹبال کھيلتے وقت بال ہوا ميں اڑيں جيسے انگريزي کھلاڑيوں کے، ابا کہتے يہ کيا عورتوں کي طرح يٹے بڑھا رکھے ہيں، مگر ابا تو تھے پراني دقيانوسي خيالات کے ان کي بات کون سنتا تھا ان کا بس چلتا تو سر پر استا چلوا کر بچپن ميں بھي ہمارا چہرہوں پر داڑھياں بند واديتے ہاں اس پر ياد آيا کہ سکھوں کي عجيب الخلقت ہونے کي دوسري نشاني ان کي داڑھياں تھيں، اور پھر داڑھي داڑھي ميں بھي فرق ہوتا ہے، مثلا ابا کي داڑھي جونوکيلي اور چوندار تھي، مگر يہ بھي کيا کہ داڑھي کو کبھي قينچي لگے ہي نہيں، جھاڑ جھنکاڑ کي طرح بڑھتي رہے، بلکہ تيل اور دہي اور نہ جانے کيا کيا مل کر بڑھائي جائے، اور جب کئي فٹ لمبي ہوجائے تو اس ميں کنگھي کي جائے، جيسے عورتوں سر کے بالوں ميں کرتي ہے، عورتيں يا مجھ جيسے اسکول کے فيشن ايبل لڑکے، اس کے علاوہ داد جان کي داڑھي بھي کئي فٹ لمبي تھي اور وہ بھي اس ميں کنگھي کرتے تھے مگر دادا جان کي بات اور تھي آخر وہ ميرے دادا جان ٹہرے اور سکھ پھر سکھ تھے۔
ميٹرک کرنے کے بعد مجھے پڑھنے کيلئے مسلم يونيورسٹي عليگڑھ بھيجا گيا، کالج ميں جو پنجابي لڑکے پڑھتے تھے، ان کو ہم دہلي اور يورپي والے نيچ، جاہل اور اجڈ سمجھتے تھے، نہ بات کرنے کا سليقہ، نہ کھانے پينے کي تميز، تعصب و تمدن چھو نہيں گئے، گنوار لٹھ يہ بڑے بڑے لسي گلاس کے پينے والے بھلا کيوڑے دار فالودے اور لپٹن کي چائے کي لذت کيا جانيں، زبان نہايت ناشائستہ بات کريں تو معلوم ہو لڑ رہے ہيں، اسي تسي، ساڈے، تہادے، لاحولا ولاقوتھ ميں ہميشہ ان پنجابيوں سے کتراتا تھا، مگر خدا بھلا کرے ہمارے داڑن صاحب کا کہ انہوں نے ايک پنجابي کو ميرے کمرہ ميں جگہ ديدي ميں نے سوچا چلو جب ساتھ رہنا ہي ہے، تو تھوڑي بہت حد تک دوستي ہي کرلي جائے کچھ دنوں ميں کافي گاڑھي پنجابي کو ميرے ميں جگہ ديدي ميں نے سوچا چلو جب ساتھ رہنا ہي ہے، تو تھوڑي بہت حد تک دوستي ہي کرلي جائے، کچھ دنوں ميں کافي گاڑھي چھينے لگي اسکا نام غلام رسول تھا، روالپنڈي کا رہنے والا تھا کافي مزے دار آدمي تھا اور لطيفے خوب سناتا تھا۔
اب آپ کہيں گے ذکر شروع ہوا تھا سرادار صاحب کا يہ غلام رسول کہاں سے ٹپک مگر اصل ميں غلام رسول کا اسي قچے سے قريبي تعلق ہے بات يہ ہے کہ وہ مجھے لطيفے سناتا تھا، وہ عام طور پر سکھوں کے بارے ميں ہوتے تھے، جن کو سن سن کر مجھے پوري سکھ قوم کي عادت و خصائل ان کي نسلي خصوصيات اور اجتماعي کريکٹر کا بخوبي علم ہو گيا تھا، بقول غلام رسول کے سکھ تمام بے وقوف اور بدھو ہوتے ہيں،
 

ماوراء

محفلین
بارہ بجے تو ان کي عقل بالکل بند ہوجاتي ہے، اس کے ثبوت ميں کتنے ہي واقعات بيان کئے جاسکتے ہيں، مثلا، سردار جي دن کے بارہ بجے سائيکل پر سوار مرمت سر کے بال بازار سے گزرتے تھے چوراہے پر ايک سکھ کانسٹيبل نے روکا پوچھا تمہارے سائيکل کا لائٹ کہاں ہے، سائيکل سوار سردار جي گڑ گڑا کر بولے جمعدار صاحب ابھي بجھ گئي ہے گھر جلا کر تو چلا تھا، اس پر سپاہي نے چالان کرنے کي دھمکي دي، ايک راہ چلتے سفيد داڑھي والے سردار جي نے بيچ بچاؤ کرايا، چلو بھئي کوئي بات نہيں لائٹ بجھ گئي تو اب جلا لو، اور اسي قسم کے سيکڑوں قصے غلام رسول کو ياد تھے اور نہيں جب وہ پنجابي مکالموں کے ساتھ سناتا تھا تو سننے والوں کے پيٹ ميں بل پڑ جاتے تھے، اصل ميں انکو سننے کا مزہ ہي پنجابي ميں تھا سکھ نہ صرف بيوہ قوف اور بدھو بلکہ گندے تھے، جيسا ايک ثبوت تو غلام رسول نے يہ کہا کہ وہ بال نہيں منڈواتے تھے اس کے علاوہ بر خلاف ہم صاف ستھرے غازي مسلمانوں کے جوہر اٹھواڑے جمعے کے جمعے غسل کرتے ہيں يہ سکھ کچھا باندھ سب کے سامنے نل کے نيچے بيٹھ کر نہاتے تو روز ہيں مگر اپنے بالوں اور داڑھي ميں نے جانے کيا کيا گندي اور غلط چيزيں ملتے ہيں، مثلا وہي ويسے سر ميں بھي لائم جيوس گليسرين لگاتا ہوں جو کسي قدر گاڑھے گاڑھے دودھ سے مشابہ ہوتي ہے مگر اس کي بات اور ہے، وہ ولايت کي مشہور پرفريم فيکڑي سے نہايت خوبصورت شيشي ميں آتي ہے اور دہي گندے سندے حلوائي کي دکان سے۔
خير جي ہميں دوسروں کے رہنے سہنے کے طريقوں سے کيا لينا مگر سکھوں کا سب سے بڑا قصور تھا يہ لوگ اکھڑ پن بد تميزي اور ماردھاڑ ميں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کي جرات کرتے تھے، اب تو دنيا جانتي تھي کہ ايک اکيلا مسلمان دس ہندوؤں يا سکھوں پر بھاري ہوتا ہے، مگر پھر يہ سکھ مسلمانوں کے رعب کو نہيں مانتے تھے، کر پانيں لڑکائے اکڑائے اکاکر مونچھوں پر بلکہ داڑھي پر بھي تاؤ ديتے چکتے تھے، غلام رسول کہتا، ان کي ہيکڑي ايک دن ہم ايسي نکاليں گےکہ خالہ ياد ہي تو کريں گے۔
کالج چھوڑے کئي سال گزر گئے طالبعلم سے ميں کلرک اور کلرک سے ہيڈ کلرک بن گيا، علي گڑھ ہوسٹل چھوڑ کرنئي دہلي ميں ايک سرکاري کواٹر ميں رہنا سہنا اختيار کرليا، شادي ہوگئي، بچے ہوگئے، مگر کتني ہي مدت کے بعد غلام رسول کا وہ کہنا ياد آيا، جب ايک سردار صاحب ميرے برابر کے کواٹر رہنے آئے، يہ رولپنڈي کے ضلع ميں غلام رسول کي پيشنگوئي کے بمو صاحب سرداروں کي ہيکڑي اچھي طرح سے نکالي سے نکالي گئي تھي، مجاہدوں نے ان کا صفايا کرديا تھا، بے سور مابنتے تھے، کرپانيں لئے پھرتے تھے، بہادر مسلمانوں کے سامنے ان کي ايک نہ بني ان کي داڑھياں کر مونڈ کر ان مسلمان بنايا گيا تھا، زبردستي ان کا ختنہ کيا تھا، ہندو پريس حسب عادت مسلمانوں کو بدنام کرنے کيلئے لکھ رہا تھا کہ سکھ عورتوں اور بچوں کو بھي مسلمانوں نے قتل کيا ہے، حالانکہ يہ اسلامي روايات کے خلات ہے، کوئي مسلمان مجاہد کبھي کسي عورت يا بچے پر ہاتھ نہيں اٹھاتا رہيں اور بچوں کي لاشوں کي تصويريں جو چھاپي جا رہي تھيں، وہ يا تو جعلي تھيں، اور يا سکھوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کيلئے خود اپني عورتوں اور بچوں کو قتل کيا ہوگا، رولپنڈي اور مغربي پنجاب کے مسلمانوں پر يہ بھي الزام لگايا گيا تھا کہ انہوں نے ہندو اور سکھ لڑکيوں کو بھگايا، حالانکہ واقعہ صرف اتنا تھا کہ مسلمانوں کي جوانمردي کي دھاک بيٹھي ہے اور اگر نوجوان مسلمان پر ہندو اور سکھ لڑکياں کو ہي لٹو ہوجائيں تو انکا قصور ہے، کہ وہ تبليغ اسلام کے سلسلے ميں ان لڑکيوں کو اپني پناہ ميں لے ليں ہاں تو سکھوں کي نام نہاد بہادري کا بھانڈہ پھوٹ گيا تھا، بھلا اب تو ماسٹر تارا سنگھ لاہور ميں کرپان نکال کر مسلمانوں کو دھمکياں دے پنڈي سے بھاگے ہوئے سردار ان کي خستہ حالي کو ديکھ کر ميرا سينہ عظمت اسلام کي روح سے بھر گيا، ہمارے پڑوسي سردار جي کي عمر کوئي ساٹھ برس کي ہوگي، داڑھي بالکل سفيد ہوچکي تھي، حالانکہ موت کے منہ سےبچ کر آئے تھے مگر يہ حضرت ہر وقت دانت نکالے ہنستے رہتے تھے، جس سے صاف ظاہر ہوتا تھا، کہ وہ دراصک کتنا بيوقوف اور بے حس ہے شروع شروع ميں انہوں نے مجھے اپني دوستي کے جال ميں پھنسانا چاہا، آتے جاتے زبردستي باتيں کرتے، شروع کرديں نہ جانے سکھوں کا کونسا تہوار تھا اس پر شاد کي مٹھائي بھي بھيجي جو ميري بيوي نے فورا مہتراني کو ديدي، پر ميں نے زيادہ منہ نہ لگايا، کوئي بات ہوئي سوکھا سا جواب ديديا اور بس جانتا تھا کہ سيدھے منہ دو چار باتيں کرليں تو يہ پيچھے ہي پڑجائيگا، آج باتيں تو کل گالم گلفتار، گالياں تو آپ جانتے ہي ہيں سکھوں کي دال روٹي ہوتي ہے، کون اپني زبان گندي کرے ايسے لوگوں سے تعلقات بڑھا کر، وہاں ايک اتوار کي دوپہر کو ميں اپني بيوي کو سکھوں کي حماقت کے قصے سنا رہا تھا اور اس کا عملي ثبوت دينے کيلئے دينے بارہ بجے ميں نے اپنے نوکروں کو سردار جي کے ہاں بھيجا کہ پوچھ آئے کيا بجا ہے، انہوں کہواديا بارہ بجکر دو منٹ ہوئے ہيں، ميں نے کہا بارہ بجے کا نام ليتے گھبراتے ہيں، يہ اور اہم خوب ہسنے، اس کے بعد ميں نے کئي بار بيوقوف بنانے کيلئے سردار جي سے پوچھا، کيوں سردار جي بارہ بج گئے، گويا بڑا مذاق ہوا، مجھے زيادہ ڈر بچوں کي طرف سے تھا، اول تو کيس سکھ کا اعتبار نہيں، کب بچے کے گلے پر کر پان چلا دے، پھر يہ لوگ روالپنڈي سے آئے تھے، ضرور دل ميں مسلمانوں کيلئے کينہ رکھتے ہوں گے،
 

ماوراء

محفلین
اور انتقام لينے کي تاک ميں ہوں گے، ميں نےبيوي کو تاکيد کردي تھي، کہ بچے ہر گز سر دار جي کے کوارٹر کي طرف نہ جانے دئيے جائيں، پر بچے تو بچے ہي ہوتے ہے، چند روز کے بعد ميں نے ديکھا کہ سردار کي چھوٹي لڑکي موہني اور انکے پاتوں کيساتھ کھيل رہے ہيں، يہ بچي جس کي عمر مشکل سے دس برس ہوگي سچ مچ موہني ہي تھي، گور چٹي، اچھا ناک نقشہ، بڑي خوبصورت کم بختوں کي عورتيں کافي خوبصورت ہوتي ہيں، مجھے ياد آيا، کہ غلام رسول نےکہا تھا، کہ اگر پنجاب سے سکھ مرد چلے جائيں اور اپني عورتوں کو چھوڑ جائيں تو پھر حوروں کي تلاش ميں جانے کي ضرورت نہيں، ہاں تو جب ميں نے بچوں کو سردار جي کے بچوں کے ساتھ کھيلتے تو ميں ان کو گھسٹيتا ہوا اندر لے گيا، اور خوب پٹائي کي، پھر ميرے سامنے کم از کم ان کي ہمت نہ ہوئي کہ ادھر کا رخ کريں۔
بہت جلد سکھوں کي اصليت پوري ظاہر ہوگئي، روالپنڈي سے تو ڈرپوکو کي طرح پٹ کر بھاگ آئے تھے، پر مشرقي پنجاب ميں مسلمانوں کو اقليت ميں پاکر ان پر ظلم ڈھانا شروع کرديا، ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو جام شہادت پينا پڑا، اسلامي خون کي ندياں بہہ گئيں، ہزاروں عورتوں کو برہنہ کرکے جلوس نکالاگيا، جب سے مغربي پنجاب سے بھاگے ہوئے سکھ اتني بڑي تعداد ميں دہلي ميں آنے شروع ہوئے تھے، اس کا وبا کا يہاں تک پہنچا يقيني ہوگيا تھا، ميرے پاکستان جانے ميں ابھي چند ہفتے کي دير تھي اس لئے ميں نے اپنے بڑے بھائي کيساتھ اپنے بيوي بچوں کو تو ہوائي جہاز سے کراچي بھيج ديا، ورکو خدا پر بھروسہ کرکے ٹہرارہا، ہوائي جہاز ميں سامان تو زيادہ نہيں جاسکتا تھا، اسلئے ميں نے ايک پوري ويگن بک کرالي، مگر جس دن سامان چڑھانے والے تھا، اس دن سنا کہ پاکستان جانے والي گاڑيوں حملے ہورہے ہيں، اسلئيے سامان گھر ميں ہي پڑا رہا۔
پندہ اگست کو آزادي کا جشن منايا گيا، مگر مجھے آزادي ميں کيا دلچسپي تھي، مي نے چھٹي منائي اور دن بھر ليٹا ڈان اور پاکستان ٹائمز کا مطالعہ کرتا رہا دونوں ميں نام نہاد آزادي کے چھينٹے اڑائے گئے تھے اور ثابت کيا گيا تھا کہ کس طرح ہندوؤں اور انگريزوں نے مل کر مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کي سازش کي تھي، وہ تو ہمارے قائد اعظم کا اعجاز تھا، کہ پاکستان ليکر ہي رہے، اگر چہ انگريزوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے دباؤ ميں آکر امرتسر کو ہندوستان کے حوالے کرديا، حالانکہ دنيا جانتي ہے، کہ امرتسر خالص اسلامي شہر ہے اور يہاں کي سنہري مسجد کے نام سے مشہور ہے، نہيں وہتو گوردوارہ ہے، کہلاتا ہے، سنہري مسجد تو دہلي ميں ہے، سنہري مسجد ہي نہيں جامع مسجد بھي لال قلعہ ہے، نظام الدين اوليا کا مزار ہمايوں کا مقبرہ صفدر جنگ کا مدرسہ گرض چپے چپے پر اسلامي حکومت کے نشان پائے جاتے ہيں، پھر بھي آج اسي دہلي بلکہ کہنا چاہئيے شاہجہان آباد پر ہندو سامراج کا جھنڈ بلند کيا جارہا تھا، رولے اب دل کھول کر اے ديدہ خونبار اور يہ سوچ کر ميرا دل بھر آيا کہ دہلي جو مسلمانوں کا پايہ تخت تھا، تہذيب و تمدن کا گہوارہ تھا ہم سے چھين ليا تھا اور ہميں مغربي پنجاب اور سندھ بلوچستان وغيرہ جيسے اجڈ اور غير متمدن علاقوں ميں زبردسي بھيجا جا رہا تھا، جہاں کسي کو شتہ اردو زبان بھي بولنا نہيں آتي، جہاں شلوارين جيسا مضحکہ خيز لباس پہنا جاتا ہے، جہاں ہلکي ہلکي پاؤ بھر ميں بيس بيس چپاتيوں کے بجائے دو دوسير کي نانيں کھائي جاتي ہيں پھر ميں نے اپنے دل کو مضبوط کرکے سمجھايا کہ قائد اعظم اور پاکستان جانے ميں دير کي تھي ابھي گول۔
 

ماوراء

محفلین
مارکيٹ کے پاس پہنچا ہي تھا دفتر کا ايک ہندو بابو ملا نے کہا يہ کيا کرہے ہو واپس جاؤ، باہر نہ نکلنا، کناٹ پيس ميں بلوائي مسلمانوں کو مار رہے ہيں، ميں واپس بھاگ آيا۔
میں اسکوائر ميں پہنچا ہي تھا کہ سردار جي سے مد بھيڑ ہوگئي، کہنے لگے شیخ جي فکر نہ کرنا جب تک ہم سلامت ہيں تمہيں کوئي ہاتھ نہيں لگائے گا، ميں نےسوچا اس کي داڑھي کے يچھے کتان مکر چھپا ہوا ہے دل ميں خوشي ہے چلو اچھا ہوا مسلمانوں کا صفايا ہو رہا ہے، مگر زباني ہمدري جتا کر مجھ پر احسان کر رہا ہے، بلکہ شايد مجھے چڑانے کيلئے يہ کہہ رہا ہے کيونکہ سارے اسکوائر ميں بلکہ اس سڑ ک پر ميں تن تہنا مسلمان تھا، مجھے ان کافروں کا رحم و کرم نہيں چاہيے، ميں سوچ کر اپنے کوارٹر ميں آگيا، ميں مارا بھي جاؤں گا تو دس بيس کو مار کر سيدھا اپنے کمرے ميں گيا جہاں پلنگ کے نيچے ميري دو نالي بندوق رکھي تھي، جب سے فساد شروع ہوئے تھے، ميں نے کارتوس اور گوليوں کا بھي کافي ذخيرہ جمع کر رکھا تھا، پر وہاں بندوق نہ ملي سارا گھر چھان مارا اس کا کہيں پتہ نہيں چلا۔
کيوں حضور کيا ڈھونڈ رہے ہيں آپ؟ يہ ميرا وفا دار ملازم تھا، ميري بندوق کا کيا ہوا ؟ ميں نے پوچھا۔
اس نے کوئي جواب نہيں ديا، مگر اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اسے معلوم ہے ، شايد اس نے کہيں چھائي ہے يا چرائي ہے، بولتا کيوں نہيں ميں نے ڈانٹ کر پوچھا، تب حقيقت معلوم ہوئي کہ ممدو نے ميري بندوق چرا کر اپنے چند دوستوں کو دے دي تھي، جو دريا گنج ميں مسلمانوں کي حفاظت کيلئے ہتھياروں کا ذخيرہ جمع کر رہے تھے، کئي سو بندوقيں ہيں سرکار ہمارے پاس سات مشين گن، دس ريوالور اور ايک توپ کافروں کو بھون کر رکھ ديں، بھون کر۔
ميں نےکہا دريا گنج ميں ميري بندوق سے کافروں کو بھون ديا گيا تو اس ميں ميري حفاظت کيسے ہوگي، ميں تو يہاں نہتا کافروں کے نرغے ميں پھنسا ہوا ہوں، يہاں مجھے بھون ديا گيا تو کون ذمے دار ہوگا؟ ميں نے ممدو سے کہا۔
پھر يہ طےہوا کہ وہ دريا گنج جائے اور ميري بندوق اور سودا کار توس لے آئے وہ چلا گيا مگر مجھے يقين تھا کہ وہ اب لوٹ کر نہيں آئے گا، اب ميں گھر ميں بالکل اکيلا تھا، سامنے کارنس پر ميري بيوي اور بچوں کي تصوير خاموشي سے مجھے گھور رہي تھي، يہ سوچ کر ميري آنکھوں ميں آنسو آگئے، کہ اب ان سے کبھي ملاقات ہوگي بھي يا نہيں، ليکن پھر يہ خيال کرکے اطمينان بھي ہوا کہ کم سے کم وہ خیريت سے پاکستان پہنچ گئے تھے، کاش ميں نے پرويڈيٹ فنڈ کا لالچ نہ کيا ہوا، اور پہلے ہي چلا گيا ہوتا، پر اب پچھتانے سے کيا ہوتا ہے۔
سست سري اکال۔۔۔ہر ہر مہاديو دور سے آوازيں آرہي تھي، اور ميري موت قريب آرہي تھي، اتنے ميں دروازے پر دستک ہوئي، سردار جي داخل ہوئے شيخ جي تم ہمارے کوارٹر ميں آجاؤ جلدي کرو بغير سوچے سمجھے اگلے لمحے ميں سردار جي کے برآمدے کي چکوں کے پيچھے تھا، موت کي گولي سن سے ميرے سر پر سے گزرگئي، کيونکہ ميں وہاں داخل ہي ہوا تھا کہ ايک لاري آکر رکي اور اس ميں سے دس پندرہ نوجوان اترے، ان کے ليڈر کےہاتھ مین ايک ٹائپ کي ہوئي فہرست تھي، کوارٹر نمبر ٨ شیخ برہان الدين اس نے کاغذ پر نظر ڈالتے ہوئے حکم ديا، اور يہ غول کا غول ميرے کواٹر ميں ٹوٹ پڑے مير گرہستي کي دنيا ميري آنکھوں کے سامنے اجڑ گئي، لت گئي کرسياں، ميزيں، صندوق، تصويريں، کتابيں درياں قالين، يہاں تک کہ يہ ميلے کپڑے ہر چيز لاري ميں پہنچا دي گئي۔
ڈاکو۔۔۔۔۔۔
لٹيرے۔۔۔۔۔۔
قزاق۔۔۔۔۔
اور يہ سردار جي جو ظاہر ہمدردي جتا کر مجھے يہاں لے آئے تھے، يہ کون سےکم لٹيرے تھے، باہر جاکر بلوائيوں سےکہنے لگے، ٹھرئيے صاحب اس گھر پر ہمارا حق زيادہ ہے، ہميں بھي اس لوٹ ميں سے حصہ ملنا چاہئيے، اور يہ کہہ کر انہوں نے اپنے بيٹے اور بيٹي کو اشارہ کيا، اور وہ بھي لوٹ ميں شامل ہوگئے کوئي ميري پتلون اٹھائے چلا آرہا تھا، کوئي سوٹ کيس، کوئي ميري بيوي اور بچوں کي تصوريريں بھي لارہا تھا، اور يہ سب مال غنيمت سيدھا انسر کے کمرے ميں جا رہا تھا، اچھا رے سردار زندہ رہا تو تجھ سے بھي سمجھوں گا پر اس وقت ميں چوں بھي نہيں کرسکتا تھا، کيوں کہ فسادي جو سب کے سب مصلح تھے، مجھے سے چند گز کے فاصلے پر تھے، اگر نہيں کہيں معلوم ہوگيا کہ ميں يہاں ہو، ارے اندر آؤ جي تسي۔
دفعتا ميں نے ديکھا کہ سردار جي ننگے پان ہاتھ ميں لئے مجھے اندر بلا رہے ہيں ميں ايک بار اس دڑھيل چہرے کو ديکھا جو لوٹ مارکي بھاگ دوڑ سے اور بھي خوفناک ہوگيا، اور پھر کرپان کو جس کي چمکيلي دھار مجھے دعوت موت دے ري تھي، بحث کرنے کا موقع نہيں تھا۔
 

ماوراء

محفلین
اگر ميں کچھ بھي بولا اور بلوائيوں نے سن ليا تو ايک گولي ميرے سينے کے پار ہوگي، کرپان اور بندوق ميں سے ايک کو پسند کرنا تھا، ميں نے سوچا ان دس بندوق باز بلوائيوں سے کرپان والا بڈھا بہتر ہے، ميں کمرے ميں چلا گيا جھجھکتا ہوا خاموش، اچھے جي اوس اندر آؤ۔
ميں اور اندر کے کمرے ميں چلا گيا، جيسے بکرا قصائي کے ساتھ ذبح خانے ميں داخل ہوتا ہے ميري آنکھيں کر پان کي دھار سے چندہاتي جارہي تھي، يہ لوجي اپني چيزيں سنبھال لو، يہ کہہ کر سردار جي نے وہ تمام سامان ميرے سامنے رکھ ديا، جو انہوں نے ان کے بچوں نے جھوٹ موٹ کي لوٹ ميں حاصل کيا تھا، سردارني بوليں، بيٹا ہم تو تيرا کچھ بھي سامان نہيں بچا سکے، ميں کوئي جواب نہ دے سکا، اتنے ميں باہر سے کچھ آوازيں سنائي ديں، بلوائي لونے کي الماري کو باہر نکال رہے تھے اور اس کو توڑنے کي کوشش کررہے تھے، اس کي چابياں مل جاتيں تو سب معاملہ آسان ہوجاتا، چابياں تو اس کي پاکستان ميں مليں گي، بھاگ گيانا ڈر پوک کہيں کا مسلمان کا بچہ تھا تو مقابلہ کرنا، نھني موہني ميري بيوي کے چند ريشمي قميش اور غرارے نے جانے کس سے چھين کر لا رہي تھي، کہ اس نے يہ سنا وہ بولي تم بڑے بہادر ہو شيخ جي ڈر پوک کيوں ہونے لگے وہ تو کوئي بھي پاکستان نہيں گئے، گيا تو يہاں سے کيوں منہ کالا کر گيا، منہ کالا کيوں کرتے وہ تو ہمارے ہاں۔۔۔۔۔
ميرے دل کي حرکت ايک لمحے کيلئے رک گئي، بچي اپني غلطي کا احساس کرتے ہي خاموش ہوگئي، مگر ان بلوائيوں کيلئے يہي کافي تھا، سردار جي پر جيسے خون سوار ہوگيا تھا، انہوں نے مجھے اندر کمرے ميں بند کرکے کنڈي لگادي اور اپنے بيٹے کے ہاتھ ميں کرپان دي اور خود بارہ نکل گئے، باہر کيا ہوا مجھے ٹھيک طرح سے معلوم نہ ہوا تھپڑوں کي آوازيں پھر موہني کي رونے کي آواز، اور اس کے بعد سردار جي آواز، پنجابي ميں گالياں کچھ سمجھ ميں نہيں آرہا تھا، کہ کسے گالياں دے رہے ہيں، اور کيوں، ميں چاروں طرف سے بند تھا اس لئے ٹھيک سنائي نہيں ديتا تھا، اور پھر گولي چلنےکي آواز اور سر دارني کي چيخ لاري روانہ ہونے کي کڑ کڑاہٹ اور تمام اسکوائر پر جيسے سناٹا چھا گيا ہو، جب مجھے کمرے کي قيد سے نکالا گيا تو سردار جي پلنگ پر پڑے تھے، اور ان کے سينے کے قريب سفيد قميض خون سے سرخ ہو رہي تھي، ان کا لڑکا ہماسائے کے گھر سے ڈاکڑ کو فون کر رہا تھا، سردار جي يہ تم نے کيا کيا؟ ميري زبان سے نہ جانے يہ الفاظ کيسے نکلے مہبوت تھا، ميري برسوں کي دنيا، خيالات، محسوسات، تعصبات کي دنيا کھنڈر ہوچکي ہے، سردار جي يہ تم نے کيا کيا؟
مجھ پر کرجہ اتار نا تھا بيٹا۔
قرضہ۔
ہاں راولپنڈي ميں تمہارے جيسے مسلمان نے اپني جان دے کر ميري اور ميرے گھر والوں کي جان اور اجت بچائي تھي، کيا نام تھا اس کا سردار جي؟
غلام رسول
غلام رسول
غلام رسول اور مجھے ايسا معلوم ہوا جيسے ميرے ساتھ قسمے نے دھوکا کيا ہو۔
ديوار پر لٹکے ہوئے گھنٹے نے بارہ بجانے شروع کئے ايک دو تين چار پانچ۔۔۔۔
سردار جي کي نگاہيں گھنٹے کي طرف گئيں، جيسے مسکرارہے ہوں اور مجھے اپنے داد ياد آئے،جن کي کئي فٹ لمبي داڑھي تھي، سردار جي کي شکل ان سے کتني ملتي تھي، چھ سات آٹھ نو۔
جيسے وہ ہنس رہے ہوں ان کي سفيد داڑھي اور سر کے کھلے ہوئے بالوں نے چہرے کے گرد ايک نواراني بالہ سا بنايا ہوا تھا، دس گيارہ بارہ جيسے وہ کہہ رہے ہوں جي اساں دے ہاں تو ٢٤ گھنٹے بارہ بجے رہتے ہيں، اورپھر ميرے کانوں ميں غلام رسول کي آواز سے بہت دور آئي، ميں کہتا تھا، کہ بارہ بجے ان سکھو کي عقل غائب ہوجاتي ہے، اور کوئي نہ کوئي حماقت کر بيٹھتے ہيں، اب ان سردار جي کو ديکھو نا، ايک مسلمان کي خاطر اپني جان دے دي۔
پر يہ سردار جي مرے نہيں تھے، ميں مرا تھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top