حسیب نذیر گِل
محفلین
از:عطا الحق قاسمی
میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ کچھ محاورے کالعدم قرار دے دیئے جائیں، مثلاً ”تم تو عید کا چاند ہو گئے ہو“ والا محاورہ، گئے دنوں میں اس کی معنویت یہ تھی عید کا چاند سال میں ایک دفعہ ہی نظر آتا ہے چنانچہ بہت دیر بعد ملنے والے دوست سے کہا جاتا تھا کہ ”تم تو عید کا چاند ہو گئے ہو“ لیکن اب یہ صورتحال نہیں رہی؟ اب کے تین دنوں میں تین دفعہ عید کا چاند نظر آیا؟ جمعہ کو علمائے کرائے کو میران شاہ سے متقی و پرہیز گار افراد نے گواہی دی کہ انہوں نے عید کا چاند خود دیکھا ہے چنانچہ وہاں ہفتے کی عید کا اعلان کر دیا گیا، دوسرے دن مسجد قاسم علی پشاور میں اتنے ہی متقی اور پرہیز گار افراد نے عید کا چاند نظر آنے کی گواہی دی چنانچہ علمائے کرام نے اتنی مستند شہادتوں کے بعد ہفتے کی بجائے اتوار کی عید کا اعلان کر دیا مگر حکومت پاکستان کی قائم کردہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ارکان نے اتوار کے روز پوری باریک بینی سے چاند دیکھنے کے بعد اعلان کیا کہ عید پیر کے روز ہو گی؟ سو آج خیبر پختونخوا ہ کے کچھ علاقوں کے سوا پورے پاکستان میں عید کا تہوار پورے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے؟دوسری طرف محکمہ موسمیات کا موقف یہ تھا کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں اگر چاند نظر آئیگاتو صرف اتوار کے روز نظر آئیگا کیونکہ اس روز چاند کی عمر 30گھنٹے ہو گی؟ اس سے پہلے چاند نظر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ ایسا ہی ہوا، پورے جنوبی ایشیا میں چاند نہ جمعے کو نظر آ سکا اور نہ ہفتے کو، بلکہ اتوار ہی کو دکھائی دیا اور یوں آج پورے جنوبی ایشیا کے مسلمان عید کا تہوار منا رہے ہیں؟ میرا جغرافیے کا علم بہت ناقص ہے چنانچہ کسی سے پتہ کرنا پڑے گا کہ میران شاہ اور پشاور واقعی جنوبی ایشیا کا حصہ ہیں؟ میری معلومات کے مطابق تو حصہ ہیں، باقی اللہ بہتر جانتا ہے؟جن علماء نے تمام سائنسی اصولوں کے خلاف ہفتے کو چاند نظر آنے کی شہادتوں کو قبول کیا، انہیں مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے شکوہ ہے کہ ان کی تو کیا مقامی رویت ہلال کی شہادتیں بھی قبول نہیں کی گئیں؟ اس پر ایک دل جلے نے ان سے پوچھا کہ اگر شہادتوں سے چاند نظر آ سکتا ہے تو اس سے بھی ایک دن پہلے یعنی جمعے کو میران شاہ سے چاند نظر آنے کی شہادتیں موصول ہوئی تھیں، آپ نے وہ شہادتیں کیوں قبول نہیں کیں؟ مولانا نے تو اس کے جواب میں جو کہا، وہ سمجھ سے بالاتر تھا، حالانکہ اس کا مختصر جواب تھا ”ہماری مرضی!“ البتہ اس بار مسجد قاسم علی کی ایک معتبر گواہی لاہور سے بھی مل گئی، یہ معتبر گواہی مولانا طاہر اشرفی کی تھی، حضرت نے اگرچہ چاند نظر آنے کی گواہی نہیں دی تاہم یہ فرمایا کہ صوبہ خیبر کے جن علماء نے عید کا اعلان کیا ہے، وہ تقوی؟ اور بزرگی کے اعلی؟ ترین مدارج پر فائز ہیں چنانچہ وہ ان کے اعلان کے مطابق اتوار کو عید منائیں گے اور یوں اتوار کے روزہ نہیں رکھیں گے؟ اتنی ”بھاری بھرکم“ گواہی کے بعد کسی اور گواہی کی ضرورت ہی نہیں، تاہم اس سے یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ حضرت روزہ بھی رکھتے ہیں، خدانخواستہ اس سے کچھ اور مراد نہ لی جائے، میں نے محض حیرت کا اظہار کیا ہے کیونکہ مولانا کا وزن روزانہ دو تین پاؤنڈ بڑھ جاتا ہے اور یہ اضافہ روزوں میں بھی جاری و ساری رہتا ہے، انہیں چاہئے کہ سحری اور افطاری ذرا سنبھل کر کیا کریں نیز ان اشیاء سے پرہیز کریں جو وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں، بہرحال مولانا نے کل لاہور میں عید منائی لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ عید کس سے ملے ہوں گے کیونکہ پورے جنوبی ایشیا میں اس روز مسلمان روزے سے تھے ممکن ہے اس کے لئے انہیں پشاور جانا پڑا ہو؟ مولانا طاہر اشرفی کو تو جامعہ اشرفیہ لاہور میں بھی کوئی ”روزہ خور“ نہیں ملا ہو گا جس سے وہ عید مل سکیں؟ سو ان سے کسی روز پوچھنا پڑے گا کہ حضرت، جامعہ اشرفیہ کے علمائے کرام اور مفتیان عظام کے تقوی؟ میں آپ کو کیا کمی نظر آئی جو آپ نے ان کی رائے پر اعتماد نہ کیا؟ اور اگر آپ میری رائے جاننا چاہتے ہیں تو وہ بھی حاضر ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پشاور اور میران شاہ کے علماء کی رائے کے مقابلے میں سائنسی حقیقتوں کی کیا حقیقت ہے؟ یہ لوگ اگرچہ چاند پر لینڈنگ بھی کر چکے ہیں لیکن ہیں تو کافر اور مشرک، یہ جو چاہیں کہتے رہیں، میں ذاتی طور پر ان کی خرافات پر کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہوں بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر کل کلاں پشاور یا میران شاہ میں چند متقی اور پرہیز گار افراد یہ گواہی دیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھا ہے اور علمائے کرام ان کی شہادتوں کو قبول کرتے ہوئے سارے نظام الاوقات کی تبدیلی کا اعلان کر دیں تو میں پہلا شخص ہوں گا جو اس پر صاد کروں گا؟ مجھے ان کی رائے پر اس لئے بھی اعتماد کرنا ہو گا کہ بچپن میں میری اماں جب کبھی میری آنکھوں میں سرمایہ لگانے کی کوشش کرتی تھیں جس سے بینائی تیز ہوتی ہے تو میں بھاگ جاتا تھا جس کے نتیجے میں میری بینائی آج تک کمزور ہے؟پشاور میں جن افراد کو ہر سال ایک دن پہلے عید کا چاند نظر آجاتا ہے، ان کی بینائی قابل رشک ہے چنانچہ مجھے یقین ہے کہ وہ کسی ایسے سرمے کا استعمال کرتے ہیں جو سائنسی صداقتوں کو بھی جھٹلا سکتا ہے؟ میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے سینئر وزیر جناب بشیر احمد بلور سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے صوبے میں اس سرمے کی انڈسٹری لگائیں اور پوری دنیا سے زرمبادلہ کمانے کے علاوہ پاکستان کا نام بھی روشن کریں، لاہور میں اس کی ایجنسی مولانا طاہر اشرفی کو دیں تاہم ان پر واضح کر دیں کہ یہ چیز آنکھوں میں لگانے کے لئے ہے، کھانے کے لئے نہیں؟
بشکریہ: روزنامہ جنگ 20 اگست 2012