ام اویس

محفلین
عرب کی سر زمین ریگستانوں اور پہاڑوں سے بھری ہوئی ہے ۔ اس پتھریلی مٹی میں توحید کے لیے ایک خاص کشش ہے ۔ یہی وہ زمین ہے جہاں ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ بیت الله کی دیواریں بلند کرتے ہوئے الله سبحانہ وتعالی کے حضور دعا کی ۔ جسے الله کریم نے قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

اردو:

اے پروردگار ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کرنا جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے۔ اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان کے دلوں کو پاک صاف کیا کرے بیشک تو غالب ہے صاحب حکمت ہے۔

سورۃ بقرہ ۔ آیة ۔ 129

ان کی یہ دعا الله کی بارگاہ میں قبول ہوئی ۔ 9 ربیع الاول بروز پیر 20 اپریل 571ء کو آفتابِ ھدایت کی کرنیں ہر طرف پھیل گئیں ۔ اور نبی آخر الزماں سید دو جہاں رحمت للعالمین بن کر اس دنیا میں تشریف لے آئے ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کے دادا نے آپ کا نام محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) رکھا ۔

مشہور اور معزز لوگوں کی زندگی کی ابتدا کچھ خاص ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی ایسی بات یا واقعہ ان کی زندگی سے متعلق ضرور ہوتا ہے جو ان کے روشن مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ دنیا کے کامیاب لوگوں کا یہ حال ہے تو سب سے اعلی و ارفع ہستی سید البشر ، رھبر اعظم نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی دور میں بھی ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں ۔
متعدد صحابیوں سے روایت ہے ( جس کا مفہوم یہ ہے ) کہ صحابہ نے ایک دفعہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا
یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ! اپنا حال بیان فرمائیے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا !
میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا اور عیسٰی کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ میری ماں نے جب میں ان کے پیٹ میں تھا خواب دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے محل روشن ہوگئے ۔
( ابنِ سعد ۔ جلد اوّل ۔ صفحہ ۔ 96)
حضرت عرباض بن ساریہ کی روایت میں کچھ الفاظ زیادہ ہیں ۔ ( مفہوم یہ ہے )
انہوں نے کہا !
میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا
" میں الله کا بندہ اور خاتم الانبیاء اس وقت سے ہوں کہ میرا باپ ( آدم ) آب و گُل میں تھا ۔ میں اس کی تفصیل بتاتا ہوں ۔ میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا ، عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں آمنہ کا خواب ہوں ۔ اور اسی طرح پیغمبروں کی مائیں خواب دیکھا کرتی ہیں ۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی والدہ نےآپ کی ولادت کے وقت خواب دیکھا کہ ایک نور ہے ۔ جس سے شام کے محل روشن ہوگئے ۔
( مسند ابن حنبل )
پھر یہ آیت پڑھی

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (45)

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا (46)

سورۃ الاحزاب
اے پیغمبر ! میں نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور الله کے حکم سے الله کی طرف پکارنے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا

بیہقی ، مستدرک ( علی شرط الصحیح ) وابن سعد ج 1 ص 96
 

ام اویس

محفلین
نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے وقت دنیا کی حالت

نبی آخر الزماں محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے وقت دنیا کی اخلاقی ، روحانی اور معاشرتی حالت تباہ ہوچکی تھی ۔ سچے اور صحیح عقیدے کا کہیں وجود نہ تھا ۔ دنیا کا ذرہ ذرہ توحید کی روشنی اور تعلیمات سے محروم تھا ۔
کہیں سورج ، چاند اور مختلف ستاروں و سیاروں کو خدا مانا جاتا تھا تو کہیں انسانی ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھرکے بتوں اور مٹی سے بنائی مورتیوں کی عبادت کی جاتی تھی ۔ سونے ، چاندی سے معبود بنا کر ان کے سامنے سجدے کیے جاتے تھے ۔ عبادت خانے انہیں کے لیے بنائے جاتے اور انہی کے نام پر جانوروں کو قربان کیا جاتا ۔ کہیں تو ان مذبح خانوں میں بے گناہ انسانی جانیں بھی بھینٹ چڑھا دی جاتیں ۔ غرض یہ کہ دنیا کی حکمران قومیں مذھبی اور اخلاقی طور پر مٹتے مٹتے سایہ بن چکی تھیں اور مسلسل بغاوتوں ، سفاکانہ خونریزیوں اور سیاسی بد امنیوں کی وجہ سے تباہ حال اور خستہ ہوچکی تھیں ۔ حکمرانوں اور امراء کی عیاشی ، خود غرضی ، ظلم و ستم اور مال کی حرص نے سچائی اور خلوص سمیت ہر قسم کے اخلاقی جوہر کو فنا کردیا تھا جن سے قوم کی تعمیر ہوتی ہے
سلاطین اور علمائے مذہب کے اخلاق کا اثر رعایا اور پیروکاروں پر پڑنا لازمی امر ہے چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ بد اخلاقی ، خود غرضی ، بے حسی ، چور بازاری ، اسراف اور ہوس پرستی عوام میں بھی سرایت کر گئی ۔ لوگ ہر طرح کا ناجائز کام کرتے ۔ حرام و حلال کی پرواہ کیے بغیر ناحق ظلم سے مال کماتے اور لہو و لعب اور عیاشیوں میں اڑا دیتے ۔ کونسا جرم تھا جسکو کرنے میں لوگ فخر محسوس نہ کرتے تھے ۔

اسلام سے قبل عربوں کی حالت ۔

اگرچہ عرب قدیم زمانے سے ایک خدا پر یقین رکھتے تھے الله کا لفظ ان کے لیے اجنبی نہ تھا کیونکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کی تعلیمات کی بنیاد توحید باری تعالی رہی ہے ۔ رفتہ رفتہ شرک کا اعتقاد پیدا ہوا ۔ اور ایک معبود کے ساتھ کئی اور چھوٹے چھوٹے خدا بنا لیے گئے ۔ جن کے بغیر دنیا کا نظام چلنے کا تصور ہی نہیں تھا ۔
فرشتوں کو الله بیٹیاں سمجھتے اور انہیں الله کے حضور اپنا سفارشی مانتے جنوں کی الله تعالی سے رشتہ داری قائم کرتے اور اسی نسبت سے ان کو الله کے ساتھ عبادت میں شریک کرتے اور ان کی شرارتوں سے بچنے کے لیے ان کے نام کی قربانی کرتے تھے ۔ پتھروں کی عبادت کے اس قدر شوقین تھے کہ جہاں کہیں خوبصورت پتھر مل جاتا اس کی پوجا شروع کردیتے ۔اور اگر اس سے خوبصورت مل جاتا تو اسے پھینک کر نئے کو سجدے کرنے لگتے ۔
قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص عمرو بن لحی جس نے قبیلہ جرہم کو شکست دے کر بیت الله پر قبضہ کرلیا ۔ ایک دفعہ بلقاء گیا وہاں لوگوں کو بتوں کی پوجا کرتے دیکھ کر بت پرستی پر مائل ہوگیا ۔ اور ایک بُت لا کر کعبہ میں نصب کر دیا ۔چونکہ وہ پورے عرب پر حکمران تھا اس کے اثر سے لوگوں نے بت پرستی کو قبول کرلیا اور گھر گھر بت بن گئے ۔ ان میں ہبل بڑا بُت تھا پھر لات و منات اور عزی وغیرہ تھے
یہاں تک کہ خانہ کعبہ اور اس کے اطراف میں تین سو ساٹھ بُت نصب کر دئیے گئے۔ ان میں سے بعض کے ناموں کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے ۔ بتوں کے علاوہ ستارہ پرستی ، شیاطین اور بھوت پریت کی پوجا اور کہانت کی وبا بھی عام تھی ۔ عجیب عجیب واہموں کی پیروی کی جاتی تھی ۔
یہ ان کی مذھبی حالت تھی اور اخلاقی پستی کا عالم اس سے بھی بدتر تھا ۔ معمولی باتوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کا سرکاٹ لینا ان کے نزدیک کچھ حیثیت نہ رکھتا تھا۔ ہر قبیلہ دوسرے قبیلے سے ہر خاندان دوسرے خاندان سے برسر پیکار تھا ۔ بچہ بچہ انتقام کا جذبہ لے کر جوان ہوتا تھا اور گھوڑا آگے بڑھانے اونٹ کو پہلے پانی پلانے جیسی معمولی باتوں پر نسل در نسل لڑائی کا سلسلہ چلتا رہتا تھا ۔
شراب نوشی کو برا نہیں سمجھا جاتا تھا جو ہر قسم کے فسق و فجور اور مظالم و بدکاری کی جڑ ہے ۔ ہر گھر میں شراب خانہ تھا اور جو لوگ شراب نہیں پیتے تھےان کے نام حیرت سے لیے اور یاد رکھے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ قمار بازی ، سود خوری ، لوٹ مار چوری اور ڈاکے جیسے خصائلِ بد عام تھے ۔ رات دن کی لوٹ مار اور کشت و خون سے درندوں جیسے اوصاف پیدا ہوچکے تھے زندہ جانوروں کے اعضا کاٹ کر کھا لیتے تھے ۔ زنا اور فسق و فجور معمول کی بات تھی اور یہ واقعات فخر سےشعر و شاعری کی صورت بیان کیے جاتے۔ شرم و حیا کا کوئی تصورنہ تھا ۔ حج بیت الله میں ہزاروں ، لاکھوں لوگ جمع ہوتے لیکن قریش کے سوا باقی سب مردو عورت بالکل ننگے ہو کر طواف کرتے ۔
عورتوں کی حالت انتہائی خراب تھی ۔ ترکے اور جائیداد سے حصہ نہ ملتا ، طلاق کے لیے نہ کوئی مدت تھی نہ عدت ۔ جب مرد چاہتا نکاح کرلیتا اور جب چاہتا چھوڑ دیتا ۔ دو حقیقی بہنوں سے نکاح کرلیتے اور باپ مرجاتا تو اس کی بیویاں یہانتک کہ سگی ماں بھی بیٹے کی جائز بیوی سمجھی جاتی ۔ لڑکی پیدا ہوتے ہی اس کو میدان میں جا کر زندہ گاڑ دیتے ۔
 
۔ 9 ربیع الاول بروز پیر 20 اپریل 571ء کو آفتابِ ھدایت کی کرنیں ہر طرف پھیل گئیں
لیکن زیادہ روایات 12 ربیع الاول ہے اور یہی صیح ہے امام احمد رضا خاں بریلوی رحمتہ علیہ ، ایک شجرہ تیار کیا ہے تاریخ کے حوالے سے پڑھ لیں بہت سی غلطیاں دور ہو سکتی ہیں
 

ام اویس

محفلین
ان حالات میں رحمت کریمی جوش میں آئی ۔ الله سبحانہ وتعالی نے مخلوق کی دلجوئی اور سُرخروئی کے لیے رحمت ِ عالم ، راھبرِ اعظم سرور عالم صلی الله علیہ وسلم کو دنیا کی تاریکیوں میں امید کی روشنی اور نور بنا کر بھیجا ۔
 

ام اویس

محفلین
سلسلۂ نسب
نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم

محمد صلی الله علیہ وسلم بن عبد الله بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصئ بن کلاب بن مرّہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکه بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔۔۔۔
الٰی
اسماعیل علیہ السلام بن ابراھیم علیہ السلام
(صحیح بخاری)
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خاندان اگرچہ پشتوں سے معزز اور ممتاز چلا آرہا تھا لیکن جس شخص کی وجہ سے اس خاندان کا نام " قریش " ہوا وہ نضر بن کنانہ تھے ۔ اور بعض محققین کے مطابق قریش کا لقب سب سے پہلے فہر کو ملا ۔ نضر کے بعد فہر اور فہر کے بعد قصی نے اعلی مرتبہ ، عزت اور مقام حاصل کیا ۔ اس زمانے میں بیت الله کےمتولی خلیل خزاعی تھے ۔ جن کی صاحبزادی " حبّی " سے قصئ کی شادی ہوئی ۔ اس تعلق کی وجہ سے خلیل خزاعی نے مرتے وقت وصیت کی کہ ان کے بعد حرم کعبہ کی خدمت قصئ کے سپرد کر دی جائے ۔ اس طرح یہ منصب قصئ کو حاصل ہوگیا ۔
قصئ نے اپنے دورِ امارت میں بڑے نمایاں کارنامے سر انجام دئیے جو ایک مدّت تک یادگار رہے۔ انہوں نے ایک دار الشورٰی قائم کیا جسے "دار الندوہ " کہاجاتا تھا ۔ قریش وہیں پر جنگ اور صلح وغیرہ کے مشورے کرتے ۔ نکاح اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی "دارالندوہ "میں کیا جاتا ۔
اس کے علاوہ "سقایہ" یعنی حاجیوں کو زمزم پلانا اور "رفادہ" یعنی حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنا جیسے اعلٰی ادارے بھی قصئ کے قائم کردہ ہیں ۔
قصئ کے بعد قریش کی سرداری عبدِ مناف نے حاصل کی اور انہی کا خاندان خاص حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا خاندان ہے ۔
عبدِ مناف کے چھ بیٹے تھے جن میں سے ہاشم سب سے زیادہ سمجھدار ، معاملہ فہم اور با اثر تھے ۔ ایک دفعہ مکہ میں قحط پڑ گیا ۔ ہاشم نے اس قحط میں روٹیاں چُورا کرکے لوگوں کو کھلائیں ۔ اس وقت سےان کا نام ہاشم مشہور ہوگیا ۔ عربی زبان میں چورا کرنے کو ہشم کہتے ہیں ۔اور ہاشم کا مطلب ہے چورا کرنے والا ۔
ہاشم نے سقایہ اور رفادہ کامنصب نہایت عمدگی سےسنبھالا ۔ اس کے علاوہ مختلف قبائل کے دورے بھی کیے اور ان سے معاھدے کیے کہ قریش کے کاروانِ تجارت کو نقصان نہ پہنچایا جائے ۔ اس کے بدلے قریش کے قافلے ان قبائل میں ان کی ضرورت کی اشیاء خود پہنچائیں گے ۔ اور ان سے خرید وفروخت کریں گے ۔ یہی وجہ تھی کہ عرب میں عام لوٹ مار کے باوجود قریش کے قافلے محفوظ رہتے ۔
ہاشم ایک بار تجارت کی غرض سے شام گئے ۔ راستے میں مدینہ قیام کیا اور وہاں خاندانِ نجّار کی
ایک شریف ، عزت دار اور خوبصورت خاتون سےشادی کی جس کا نام سلمٰی تھا ۔ شادی کے بعد شام روانہ ہوئے اور غزوہ کے مقام پر ان کا انتقال ہوگیا ۔ ہاشم سے نکاح میں سلمٰی کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام
" شیبہ " رکھا گیا ۔ اس نے تقریبا آٹھ برس تک مدینہ میں پرورش پائی ۔ ہاشم کے بھائی جن کا نام مطلب تھا کو اپنے بھتیجے کے بارے میں علم ہوا تو فورا مدینہ روانہ ہوئے ۔اور شیبہ کو اپنے ہمراہ مکہ لے آئے ۔ یہاں آکر شیبہ کا نام عبد المطلب پڑ گیا ۔
عبد المطلب کے لفظی معنٰی " مطلب کا غلام " ہیں ۔ شیبہ کیونکہ یتیم تھے اور مطلب نے ان کی پرورش کی اس لیے عرب کے محاورہ کے مطابق ان کا نام عبد المطلب مشہور ہوگیا ۔( طبری)
عبد المطلب کی زندگی کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے زمزم کے کنویں کو جو ایک مدّت سے گمشدہ تھا تلاش کیا ۔ اسے کھدوا کر نئے سرے سےدرست کروایا ۔
عبد المطلب نے منت مانی کہ دس بیٹوں کو اپنے سامنے جوان ہوتے دیکھیں گے تو ایک بیٹا ربّ کعبہ کی راہ میں قربان کر دیں گے ۔ الله تعالی نے ان کی منّت پوری کر دی تو دس کے دس بیٹوں کو لے کر کعبہ میں آئے ۔ اور ان کے نام کا قرعہ ڈالا ۔ جو عبد الله کےنام پر نکلا ۔ عبد الله کی بہنیں جو ساتھ تھیں رونے لگیں ۔ اور کہنے لگیں عبد الله کے بدلے اونٹ قربان کر دئیے جائیں ۔ چنانچہ عبد المطلب نے عبد الله اور دس اونٹوں کےنام کا قرعہ ڈلوایا ۔ دوبارہ عبد الله کا نام نکلا ۔ یہانتک کہ اونٹوں کی مقدار بڑھاتے بڑھاتے سو تک پہنچ گئی اور اونٹوں کے نام کا قرعہ نکلا ۔ چنانچہ سو اونٹ قربان کیے گئے ۔
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ سردارنِ قریش کے کہنے پر عبد المطلب نے اونٹوں کو قربان کرنے کی تدبیر کی ۔
عبد المطلب کے دس یا بارہ بیٹوں میں سے پانچ بیٹے اسلام قبول کرنے یا کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے مشہور ہوئے ۔
1. حضرت عبدالله ۔
جو نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے والد ہیں ۔
2. ابو طالب ۔
جنہوں نےآپ صلی الله علیہ وسلم کی پرورش کی اور زندگی بھر ہر مشکل میں آپ کو تحفظ دیا ۔
3. حضرت حمزہ رضی الله تعالی عنہ ۔
اسلام قبول کیا اور غزوہ احد میں داد شجاعت دیتے ہوئے الله کی راہ میں شھید ہوئے ۔
4. حضرت عباس رضی الله تعالی عنہ ۔
فتح مکہ سے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا
5. ابولہب ۔
جو نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم سے دشمنی اور اپنے کفر کی وجہ سے مشہور ہوا ۔اور جس کے بارے میں قرآن مجید کی ایک سورة بھی نازل ہوئی ۔
جناب عبد الله قربانی سے بچ گئے تو عبد المطلب کو ان کی شادی کی فکر ہوئی ۔ قبیلہ زہرہ میں وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی جن کا نام آمنہ تھا اور قریش کے تمام خاندانوں میں ممتاز اور شریف تھیں ان سے عبد الله کی شادی کا پیغام دیا ۔ جو قبول کر لیا گیا ۔ اور حضرت عبد الله اور بی بی آمنہ کا نکاح ہوگیا ۔ اس موقع پر خود عبد المطلب نے بھی آمنہ بی بی کے چچا کی بیٹی ہالہ سے نکاح کیا ۔
حضرت حمزہ انہی کے بطن سے پیدا ہوئے ۔ اور اسی نسبت سے حضرت حمزہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چچا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے خالہ زاد بھائی بھی ہیں ۔
دستور تھا کہ شادی کے بعد دولہا تین دن تک سسرال میں رہتا ۔ حضرت عبد الله تین دن تک سسرال رہے پھر گھر چلے آئے ۔ حضرت عبد الله تجارت کے لیے شام گئے واپس آتے ہوئے مدینہ میں ٹہرے اور بیمار ہو کر یہیں رہ گئے ۔ عبد المطلب کو اطلاع ملی انہوں نے اپنے بڑے بیٹے حارث کو ان کی خبر گیری کے لیے بھیجا ۔ وہ مدینہ پہنچے تو حضرت عبد الله کا انتقال ہوچکا تھا ۔ تمام خاندان کو سخت صدمہ ہوا ۔
حضرت عبد الله نے ترکے میں اونٹ ،بکریاں اور ایک لونڈی چھوڑی
جس کا نام ام ایمن ( برکہ ) تھا ۔ یہ سب چیزیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ترکے میں ملیں ۔
 

ام اویس

محفلین
بیت الله کے تعلق سے عبد المطلب کے ساتھ دو اہم واقعات پیش آئے ۔
ایک زمزم کے گمشدہ کنویں کا دریافت ہونا ، اس کی کھدائی اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کا واقعہ ۔
اور دوسرا اصحاب فیل کا واقعہ
طیراً ابابیل کی نشانی ۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں ہوئی ۔ یہ وہ سال تھا جب ابرہہ الاشرم نے ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ کرنا چاہا ۔
واقعہ یہ ہے کہ ابرہہ جو یمن کا حاکم تھا اس نے دیکھا عرب کے لوگ بیت الله کا حج کرتے ہیں ۔ اور سارا سال پوری دنیا سے لوگ بیت الله کی طرف عمرہ و زیارت کے لیے سفر کرتے ہیں ۔ اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑااور عالیشان کلیساء تعمیر کروایا ۔ اور چاہا کہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اس کلیسا کا طواف اور حج کریں ۔ لیکن کلیساء کی طرف کسی کی رغبت نہ ہوئی ۔
غصہ میں آکر ابرہہ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر کعبہ کو ڈھانے نکلا ۔ اس نے اپنی سواری کے لیے ایک زبردست ہاتھی کو منتخب کیا ۔ لشکر میں کُل نو یا تیرہ ہاتھی تھے ۔ جب مزدلفہ اور منٰی کے درمیان وادی محسَّر میں پہنچا تو الله تعالی نے چھوٹی چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیجا ۔ جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے ۔ اور الله تعالی نے انہیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر دیا ۔
ابرہہ کے اس حملے کے موقع پر مکہ کے باشندے عبد المطلب کی رائے سے جان کے خوف سے گھاٹیوں میں بکھر گئے ۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا چھپے ۔ جب لشکر پر عذاب نازل ہوچکا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو واپس آگئے ۔
یہ ایک عظیم الشان نشان تھا جس کا ظہور مسلمان اور عیسائی دونوں تسلیم کرتے ہیں ۔
بلکہ یہ خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ظہور کا نشان تھا ۔ جن کی ذات حقیقی طور پر بیت الله کی حفاظت کی کفیل تھی ۔
اس معجزے کا ذکر الله تعالی نے قرآن مجید میں خاص طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کرکے کیا ہے ۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿١
أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ۔ ﴿٢
وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ﴿٣
تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤
فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟(1)کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا؟ (2)اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے (3)جو اُن پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے (4)پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا (5)

ترجمہ ۔ ابو الاعلی مودودی رحمہ الله

سورة الفیل اس واقعہ کے تقریبا پینتالیس سال بعد نازل ہوئی ۔ غالبا اس وقت متعدد لوگ زندہ موجود ہوں گے جو اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہوں گے ۔ اور ایسے تو ہزاروں ہوں گے جنہوں نے یہ واقعہ خود دیکھنے والوں سے سنا ہو گا ۔
کفار جو ہمیشہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جھٹلانے کی کوشش میں رہتے تھے اگر یہ واقعہ غلط ہوتا تو ضرور اس کی تکذیب کرتے اور اعلانیہ اس کی تردید کرتے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اس لیے اس واقعہ کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں ۔
کعبہ پر حملہ کرنے والا ابرہہ عیسائی تھا اس لیے اس واقعہ کی خبر اس وقت کی متمدن دنیا کے بیشتر علاقوں تک فوراً پہنچ گئی ۔ اور دنیا کی نگاہیں کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔ انہیں بیت الله کی عظمت اور بڑائی سے آگاہی ہوئی اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس گھر کی عظمت میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ الله جل جلالہ کا منتخب مقام ہے لہٰذا یہاں سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا دعوٰی نبوت کے ساتھ اٹھنا بیت الله کے تقدس کے عین مطابق ہو گا ۔
 

ام اویس

محفلین
واقعۂ معراج

اولو العزم پیغمبروں کو آغازِ نبوت کے کسی خاص وقت اور مخصوص گھڑی میں وہ بلند مقام حاصل ہوتا رہا جہاں مادی شرائط کے تمام پردے نگاہوں سے ہٹا دئیے گئے ۔ آسمان وزمین کے پوشیدہ مناظر ان کی نگاہوں سے بے حجاب ہوئے اور ہر ایک اپنے رتبہ وفضیلت کے مناسب مقام پر پہنچ کر فیض ربانی کے نور سے معمور ہوا۔ ہر ایک نے اپنے منصب ومقام کے مطابق اس عالم کے فیض کا مشاہدہ کیا ۔ وہ مقام جہاں ابراھیم علیہ السلام کو خود حق تعالی مخاطب فرماتا ہے اور فرمان ہوتا ہے
(وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ )
اور اسی طرح ہم ابراھیم کو آسمان اور زمین کی بادشاہی دکھاتے ہیں ۔
اور جہاں سے موسی علیہ السلام کو (وکلّم موسیٰ تَسْلِیماً ) کی وجہ سے کلیم الله کے لقب سے سرفراز کیا جاتا ہے ۔ جہاں محب اور محبوب میں قاب قوسین کی دوری رہ جاتی ہے اس مقام پر منطق و استدلال کا ہر پردہ چاک ہوجاتا ہے اور عقل وفہم حیران رہ جاتی ہے ۔

الله سبحانہ وتعالی نے اس خزانہ کو یہاں تک عام کیا کہ اہل ایمان کے لیے دن میں پانچ مرتبہ اپنے دربار کے کسی نہ کسی گوشے تک رسائی دے دی الصلوة معراج المؤمن اسی کی دلیل ہے ۔
حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم چونکہ سرورِ انبیاء اور سید اولاد آدم ہیں اس لیے آپ کی شان کے مطابق آپ کی رسائی وہاں تک ہوئی جہاں فرد آدم کا قدم اس سے پہلے نہیں پہنچا
اور آپ پر وہ اسرار وانوار کھولے گئے جن سے ذہن آدم نا آشنا ہے اور رہے گا ۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب مکی زندگی کا انتہائی دور شروع ہوچکا تھا ۔ قریش کے معاندانہ رویے میں سخت شدت آچکی تھی ۔ شجر سایہ دارشفیق چچا ابو طالب اور ہمدم دیرینہ دکھ سکھ کی ساتھی حضرت خدیجہ رضی الله تعالی عنھا کی وفات کے بعد بظاہر قریش کے ظلم و ستم کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔ادھر مسلمانوں کی تعداد بھی کفار کے مقابلے میں بہت تھوڑی ، پراگندہ حال اور مظالم کا شکار تھی ۔
الغرض جب اسلام کی سخت اور پرخطر زندگی کا مکی باب ختم ہونے کو تھا اور ہجرت کاحکم نازل ہونے والا تھا تو وہ شب آئی جس کی مبارک گھڑیوں میں سرور عالم صلی الله علیہ وسلم کو سیر ملکوت سے سرفراز کیا گیا ۔ خالقِ کائنات نے ان بابرکت ساعات میں اپنے محبوب کو تحفۂ خاص سے نوازنے کے لیے زمان ومکان ، سفر و اقامت ، روئیت و سماعت اور تخاطب وکلام کی تمام پابندیاں ہٹا دیں ۔ اسرارِ نبوت کے سب سے پراسرار مقام تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی رسائی ہوئی
واقعہ معراج کے بارے میں صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی تمام روایات کو ملا کر جو جامع بیان سامنے آتا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے ۔
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سید عالم ، رہبرکامل کعبہ کے مقام حطیم یا حجر میں آرام فرما تھے جہاں اکثر قریش کے نوجوان اور روسا رات کو سویا کرتے تھے ۔ بیداری اور خواب کی درمیانی حالت تھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ آپ کے گھر کی چھت کُھلی اور حضرت جبرائیل علیہ وسلم تشریف لے آئے ان کے ساتھ چند اور فرشتے بھی تھے پہلے وہ آپ صلی الله علیہ وسل کو زمزم کے کنویں کے پاس لے گئے اور وہاں آپ کے سینہ مبارک کو چاک کیا اور قلبِ اطہر کو نکال کر زم زم سے دھویا اس کے بعد ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا طشت لایا گیا جبرائیل نے اس ایمان وحکمت کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے سینہ مبارک میں بھر کر سینہ برابر کر دیا ۔
اس کے بعد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا جس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا دوسرا قدم وہاں پڑتا جہاں نگاہ کی آخری حد ہوتی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اس پر سوار ہوکر بیت المقدس تشریف لائے ۔ براق کی رسی کو اس پتھر کے سوراخ میں باندھا جہاں انبیاء علیھم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسجد اقصی میں قدم رکھا اور دو رکعت نماز ادا کی ۔ یہاں سے نکلے تو جبرائیل علیہ السلام نے دوپیالے پیش کیے ایک میں شراب اور ایک میں دودھ تھا آپ صلی الله علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا تو جبرائیل نے کہا آپ نے فطرت کو پسند کیا اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھاتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی ۔ اس کے بعد جبرائیل آپ کو لے کر آسمان پر چڑھے پہلا آسمان آیا تو جبرائیل نے دربان کو آواز دی اس نے کہا کون ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام نے اپنا نام بتایا ۔ پوچھا گیا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے جواب دیا ممحمد صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔ پھر دریافت کیا گیا ۔ کیا بلائے گئے ہیں ؟ کہا ہاں ! یہ سن کر فرشتے نے دروازہ کھول دیا اور مرحبا خوش آمدید کہا ۔ اور کہا اس خبر کو سن کر آسمان والے خوش ہوں گے ۔ الله تعالی اہل زمین کے ساتھ جو کرنا چاہتا ہے جب تک آسمان والوں کو اس کا علم نہ بخشے وہ جان نہیں سکتے ۔ اب آپ صلی الله علیہ وسلم پہلے آسمان میں داخل ہوئے تو ایک شخص نظر آیا جس کی دائیں اور بائیں طرف بہت سی پرچھائیاں تھیں ۔ وہ جب داہنی طرف دیکھتا تو ہنستا اور جب بائیں طرف دیکھتا تو رونے لگتا ۔ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ کر بولا ۔ مرحبا اے نبی صالح اے فرزند صالح ۔ آپ نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟
جبرائیل نے بتایا یہ آپ کے باپ آدم (علیہ السلام ) ہیں ۔ ان کے دائیں بائیں جو پرچھائیں ہیں وہ ان کی اولادوں کی روحیں ہیں ۔ دائیں طرف والے اہل جنت ہیں اور بائیں طرف والے دوزخی ۔ اس لیے جب دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو آزردہ ہوجاتے ہیں ۔ اسی آسمان میں آپ کو آمنے سامنے دو نہریں نظر آئیں ۔ پوچھنے پر جبرائیل نے بتایا سوئیں (جہاں سے نہر نکلتی ہے) ہیں ۔ چلتے پھرتے آپ کو ایک اور نہر نظر آئی جس پر لؤلو اور زبرجد کا ایک محل تعمیر تھا اور اس کی زمین مشک ازفر کی تھی ۔ جبرائیل نے بتایا یہ نہر کوثر ہے جس کو پروردگار نے آپ کے لیے مخصوص کر رکھا ہے اسی طرح ہر آسمان سے گزرتے رہے اور ہر آسمان کے دربان اور جبرائیل میں اسی طرح کی گفتگو ہوتی رہی اور ہر ایک آسمان پر کسی نہ کسی پیغمبر سے ملاقات ہوتی گئی ۔ دوسرے آسمان میں حضرت یحیٰی عیسی علیھم السلام ملے جو دونوں خالہ زاد بھائی تھے ۔ تیسرے میں حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جن کو حسن کا ایک حصہ عطا ہوا ۔ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جن کے بارے میں الله تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ( ورَفَعْنَاہ مَکاناً عَلیّا) ہم نے اس کو بلند مقام تک اٹھایا ہے ۔
پانچویں آسمان پر حضرت ہارون سے ملے اورہرایک نے اے پیغمبر صالح اے برادر صالح کہہ کر خیر مقدم کیا ۔ چھٹے آسمان میں حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا مرحبا اے پیغمبر صالح اور اے برادر صالح ! جب آپ آگے بڑھے تو حضرت موسی رو پڑے ۔ آواز آئی کہ اے موسٰی اس گریہ کا کیا سبب ہے ؟
موسی علیہ السلام نے عرض کی اے میرے الله ! میرے بعد تو نے اس نوجوان کو مبعوث کیا اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ تعداد میں بہشت میں جائیں گے ( یعنی میری امت مجھ پر ایمان نہ لائی ان پر افسوس ہے)
ساتویں آسمان میں داخل ہوئے تو حضرت ابراھیم علیہ السلام نے مرحبا اے پیغمبر صالح اور اے فرزند صالح کہہ کرخیر مقدم کیا ۔ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ آپ کے باپ ابراھیم علیہ السلام ہیں ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام بیت المعمور (زندہ گھر ) کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں ۔ آپ کو جنت کی سیر کروائی گئی جس کے گنبد موتی کے تھے اور زمین مشک کی ۔ پھر اس مقام پر پہنچے جہاں قلمِ قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی ۔ اگے بڑھ کر آپ سدرة المنتھٰی تک پہنچے ۔ اس درخت پر شانِ ربّانی (امر الله ) کا پرتو تھا جس نے اس کو ڈھانپا تو اس کی ہئیت بدل گئی اور اس میں حسن کی وہ کیفیت پیدا ہوئی جس کو کوئی زبان بیان نہیں کرسکتی اور اس میں رنگ رنگ کے انوار کی ایسی تجلی نظر آئی جن کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے چیزیں نیچے زمین پر اترتی اور زمین سے چڑھ کر اوپر جاتی ہیں ۔ یہاں پہنچ کر جبرائیل علیہ السلام اپنی اصل کمالی صورت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے نمودار ہوئے ۔ پھر شاہدِ مستورِ اوّل نے رُخ سے پردہ ہٹایا اور خلوت میں جو راز ونیاز ہوئے ان کی لطافت و نزاکت الفاظ کے بوجھ کی متحمل نہیں
(فَاَوْحٰی الی عبدہ ما اَوْحٰی )
اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کو بارگاہ الٰہی سے تین تحفے عطا ہوئے ۔
اوّل سورة بقرہ کی آخری آیات جن میں اسلام کے عقائد وایمان کی تکمیل اور مصائب کے خاتمے کی بشارت ہے ۔
دوم امت محمد صلی الله علیہ وسلم کو خوشخبری دی گئی کہ جس نے الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرایا وہ الله کی رحمت وکرم سے سرفراز ہوگا ۔
سوم امت پر پچاس وقت کی نماز فرض کی گئی ۔
آپ ان تحفوں کو لے کر شاداں و فرحاں واپس لوٹے اور موسی علیہ السلام تک پہنچے تو انہوں نے سوال کیا کہ الله سبحانہ وتعالی کے دربار خاص سے کن تحائف سے نوازے گئے ہیں ؟
فرمایا امت پر پچاس وقت کی نماز فرض کی گئی ہے ۔
موسی علیہ السلام نے کہا میں نے بنی اسرائیل علیہ السلام پر خوب تجربہ کیا ہے ۔ آپ کی امت یہ بوجھ نہ اٹھا سکے گی ۔ آپ واپس جائیے اور کمی کی درخواست کیجیے ۔ اپ واپس تشریف لے گئے اور بارگاہِ الہ میں عرض کیا یا الله ! میری امت نہایت کمزور ہے اور اس میں قوت کی کمی ہے حکم ہوا کہ دس وقت کی نمازیں معاف ہوئیں ۔ جب آپ واپس لوٹے تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے پھر روکا اور دوبارہ تخفیف کروانے کا مشورہ دیا اس پر دس اور معاف ہوگئیں اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم بار بار حضرت موسی علیہ السلام کے مشورے پر بارگاہ الہی میں عرض گزار ہوتے رہے یہانتک کہ شب وروز میں صرف پانچ نمازیں رہ گئیں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے پھر یہی مشورہ دیا کہ اب بھی مزید کمی کی درخواست کیجیے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اب مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے ۔ آواز سنائی دی کہ اے محمد (صلی الله علیہ وسلم ) میرے حکم میں تبدیلی نہیں ہوگی نمازیں پانچ ہوں گی لیکن ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا یہ پانچ بھی پچاس کے برابر ہوں گی میں نے اپنے بندوں پر تخفیف کردی اور اپنا فیصلہ نافذ کر دیا ۔
اب آسمان سے اتر کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم زمین پر تشریف لائے اور بیت المقدس میں داخل ہوئے ۔ آپ نے دیکھا یہاں انبیاء علیھم السلام کا مجمع ہے حضرت موسی اور ابراھیم علیھما السلام نماز میں مصروف تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے چند پیغمبروں کی شکل و صورت بھی بیان کی
حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں بیان فرمایا کہ ان کا قد لمبا اور رنگ گندمی تھا اور الجھے ہوئے گھنگریا لے بال تھے اور شنوہ قبیلے کے آدمی معلوم ہوتے تھے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا قد درمیانہ اوررنگ سرخ وسفید تھا سر کے بال سیدھے اور لمبے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا ابھی نہا کر نکلے ہیں عروہ بن مسعود ثقفی صحابی سے ان کی صورت ملتی تھی ۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام کی صورت تمہارے پیغمبر (خود نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ) کی سی تھی ۔ اس اثنا میں نماز کا وقت ( غالبا صبح کی ) آگیا ۔ سرور انبیاء علیھم السلام منصب امامت سے سرفراز ہوئے ۔
نماز سے فارغ ہوئے تو ندا آئی اے محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) دوزخ کا داروغہ سلام کے لیے حاضر ہے ۔ آپ نے مڑ کر دیکھا تو داروغہ جہنم نے سلام کیا ۔
صحیح بخاری باب بداء الخلق میں ابن عباس سے روایت ہے کہ شب معراج میں دجال بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو دکھایا گیا ۔
ان تمام منازل کے طے ہوجانے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد حرام (کعبہ) میں صبح کو بیدار ہوئے ۔
خانہ کعبہ کے اردگرد قریش کے سرداروں اور رئیسوں کی مجلس جمی رہتی تھی آپ بھی وہیں مقام حجر (حطیم ) میں تشریف فرما تھے ۔ آپ نے ان سے معراج کا واقعہ بیان کیا تو وہ سخت حیران ہوئے جو تکذیب میں بڑھے ہوئے تھے انہوں نے آپ کو جھٹلایا (نعوذ بالله ) ۔ بعض لوگوں نے مختلف سوالات کیے ۔
ان میں سے اکثر لوگ تاجر تھے انہوں نے کئی بار بیت المقدس کو دیکھا تھا اور وہ خوب جانتے تھے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کبھی بیت المقدس نہیں گئے ۔ اس لیے تمام بحث ومباحثہ انکار وتکرار کے بعد خاتمہ دلائل کے طور پر انہوں نے کہا کہ اے محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) تم کہتے ہو کہ ایک رات میں تم نے بیت الله سے بیت المقدس تک سفر کیا اور واپس بھی آگئے اگر یہ سچ ہے تو بتاؤ بیت المقدس کیسا ہے ۔ اس کا نقشہ بیان کرو ؟
آںحضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں میں بے چین ہوگیا کیونکہ میرے ذہن میں عمارت کا صحیح اور مکمل نقشہ نہیں تھا کہ اچانک نگاہوں کے سامنے پوری عمارت کر دی گئی ۔ کفار مکہ سوال کرتے جاتے اور میں دیکھ دیکھ کر جواب دیتا جاتا ۔
قرآن مجید میں الله سبحانہ وتعالی سورہ اسراء کی پہلی آیت میں فرماتا ہے ۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
اردوترجمہ :
وہ قادر مطلق جو ہر خامی سے پاک ہے ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصٰے یعنی بیت المقدس تک جسکے چاروں طرف ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ سننے والا ہے دیکھنے والا ہے۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس سفر معراج کے دوران جو کچھ بیان کیا وہ درحقیقت ایک آزمائش ہے ۔ مؤمن اور کافر میں تمیز ہے الله سبحانہ وتعالی کی قدرت اور شان کا اظہار اور اہل عقل کے لیے عبرت کا سامان ہے ۔ جو الله پر بن دیکھے ایمان لاتا ہے اس کی قوت و حکمت کی تصدیق کرتا ہے اس کے لیے اس واقعہ معراج میں ھدایت ، رحمت اور ثابت قدمی ہے ۔ الله جل شانہ اپنے بندے کو رات کے وقت جس طرح اور جیسے چاہا لے گیا تاکہ وہ اپنی نشانیوں میں سے جو چاہے اسے دکھا دے ۔ یہانتک کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے الله سبحانہ وتعالی کی شان اور عظیم قوت کے وہ مناظر دیکھے جو اس نے دکھائے اور اس قدرت کو دیکھا جس سے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ بے شک الله تعالی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

استفادہ از سیرت النبی علامہ شبلی نعمانی رحمہ الله
 
عرب کی سر زمین ریگستانوں اور پہاڑوں سے بھری ہوئی ہے ۔ اس پتھریلی مٹی میں توحید کے لیے ایک خاص کشش ہے ۔ یہی وہ زمین ہے جہاں ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ بیت الله کی دیواریں بلند کرتے ہوئے الله سبحانہ وتعالی کے حضور دعا کی ۔ جسے الله کریم نے قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

اردو:

اے پروردگار ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کرنا جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے۔ اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان کے دلوں کو پاک صاف کیا کرے بیشک تو غالب ہے صاحب حکمت ہے۔

سورۃ بقرہ ۔ آیة ۔ 129

ان کی یہ دعا الله کی بارگاہ میں قبول ہوئی ۔ 9 ربیع الاول بروز پیر 20 اپریل 571ء کو آفتابِ ھدایت کی کرنیں ہر طرف پھیل گئیں ۔ اور نبی آخر الزماں سید دو جہاں رحمت للعالمین بن کر اس دنیا میں تشریف لے آئے ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کے دادا نے آپ کا نام محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) رکھا ۔

مشہور اور معزز لوگوں کی زندگی کی ابتدا کچھ خاص ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی ایسی بات یا واقعہ ان کی زندگی سے متعلق ضرور ہوتا ہے جو ان کے روشن مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ دنیا کے کامیاب لوگوں کا یہ حال ہے تو سب سے اعلی و ارفع ہستی سید البشر ، رھبر اعظم نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی دور میں بھی ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں ۔
متعدد صحابیوں سے روایت ہے ( جس کا مفہوم یہ ہے ) کہ صحابہ نے ایک دفعہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا
یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم ! اپنا حال بیان فرمائیے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا !
میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا اور عیسٰی کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ میری ماں نے جب میں ان کے پیٹ میں تھا خواب دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے محل روشن ہوگئے ۔
( ابنِ سعد ۔ جلد اوّل ۔ صفحہ ۔ 96)
حضرت عرباض بن ساریہ کی روایت میں کچھ الفاظ زیادہ ہیں ۔ ( مفہوم یہ ہے )
انہوں نے کہا !
میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا
" میں الله کا بندہ اور خاتم الانبیاء اس وقت سے ہوں کہ میرا باپ ( آدم ) آب و گُل میں تھا ۔ میں اس کی تفصیل بتاتا ہوں ۔ میں اپنے باپ ابراھیم کی دعا ، عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں آمنہ کا خواب ہوں ۔ اور اسی طرح پیغمبروں کی مائیں خواب دیکھا کرتی ہیں ۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی والدہ نےآپ کی ولادت کے وقت خواب دیکھا کہ ایک نور ہے ۔ جس سے شام کے محل روشن ہوگئے ۔
( مسند ابن حنبل )
پھر یہ آیت پڑھی

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (45)

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا (46)

سورۃ الاحزاب
اے پیغمبر ! میں نے آپ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا اور الله کے حکم سے الله کی طرف پکارنے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا

بیہقی ، مستدرک ( علی شرط الصحیح ) وابن سعد ج 1 ص 96
 
there are many books writton on the life of our dear prophet hazart muhammad PBUH, but as different people have different thinking so the arrangement of books by abdul malik mujahid is wonderful. here's the great book of him on the life of our prophet named as آفتاب نبوت کی سنہری شعاعیں
Aftab-E-Nabovat Ki Sunehri Shuain. if once you read it, defintily you will read it again and agian. you can buy it online from Darussalam.pk . here's the link Aftab-E-Nabovat Ki Sunehri Shuain
 
there are many books writton on the life of our dear prophet hazart muhammad PBUH, but as different people have different thinking so the arrangement of books by abdul malik mujahid is wonderful. here's the great book of him on the life of our prophet named as آفتاب نبوت کی سنہری شعاعیں
Aftab-E-Nabovat Ki Sunehri Shuain. if once you read it, defintily you will read it again and agian. you can buy it online from Darussalam.pk . here's the link Aftab-E-Nabovat Ki Sunehri Shuain
بہتر ہو گا کہ یہاں اردو میں مواد پیش کریں۔
 

ام اویس

محفلین
قلوب مطہرہ کا قبول اسلام

حضرت محمد مصطفی ﷺ نے عرب کے کفر و شرک میں ڈوبے معاشرے میں جب اعلانِ توحید کیا اور حق کی دعوت دی تو ان کی تائید کرنے والا کوئی نہ تھا۔ عرب کا ذرہ ذرہ اس صدائے حق کا دشمن تھا۔ آپ ﷺ نسل در نسل چلنے والے رسم و رواج کو چھوڑ دینے کی دعوت دیتے تھے۔ موروثی مذہب اور عادات جو لوگوں کی رگ وپے میں سرایت کرچکی تھیں ان کو ترک کرنے کا حکم دیتے۔ چوری، ڈاکہ، قتل و خونریزی، کینہ، عداوت، بغض، سود، قماربازی، زنا، شراب غرض وہ تمام افعال جو عربوں کی خصوصیات اور پہچان بن چکی تھیں آپ ﷺ ان کا قلع قمع کرنے اور ان برائیوں کو جڑ کو اکھاڑ دینا چاہتے تھے۔
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے پاس کوئی ظاہری طاقت اور حکومت نہ تھی نہ ہی دولت اور خزانہ تھا جس سے دعوت حق کو قبول کرنے والوں کی معاونت اور حفاظت فرماتے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے ہی گھر، بستی اور معاشرے سے نکال دیا جائے گا۔ مال و جائیداد سے محروم ہوجائے گا، خاندان کی نفرت اور معاشرے کی ملامت کا شکار ہوگا۔ قبیلے کے رؤساء اور صاحب اقتدار لوگوں کی سختیوں اور ظلم و ستم کا نشانہ بنے گا۔ دعوت حق قبول کرنے والوں پر جو ظلم و ستم اور قہر برسایا جا رہا تھا وہ سب کے سامنے تھا۔
تمام تر مخالفت اور معاشرتی بائیکاٹ کے باوجود لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو تلاشِ حق میں محمد عربی صلی الله علیہ وسلم تک پہنچ رہا تھا۔ عرب کے دور دراز قبائل سے لوگ چھپ چھپا کر آتے اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بیعت کرکے لوٹ جاتے۔ جس دل میں حق کوپہچاننے اور حاصل کرنے کی تڑپ ہوتی، وہ شوق سے ان تمام تکالیف اور مصائب کے باوجود اسلام کے دامن توحید سے لپٹ جاتا۔ آخرکار وہ معاندین ومخالفین جو سالہا سال اسلام اور رسالت ماب صلی الله علیہ وسلم کے سخت ترین مخالف تھے، ایک دن سرجھکانے اور اسلام کی حقانیت قبول کرنے پر مجبور ہوگئے۔
یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ محمد صلی الله علیہ وسلم اور ان کی جماعت نے لڑ کر لوگوں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنایا لیکن سوال یہ ہے کہ ہزاروں جانثار اور لڑنے والے کہاں سے آئے اور کیونکر پیدا ہوئے؟ ان کو کس نے لڑ کر مطیع بنایا اور لڑنے پر مجبور کیا؟
درحقیقت دعوت حق کو قبول کرنے کا کوئی ایک سبب نہ تھا بلکہ ہر حق کے طلبگار دل اور صالح طبیعت کے لیے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی مختلف دلیلیں مؤثر اور کارگر ہوئیں۔
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ صرف دعوٰی نبوت کی صداقت سن کر ایمان لے آئے کیونکہ آپ ﷺ کے چالیس سالہ حیات کا کردار اور آپ کی صداقت و عزم ان کے سامنے تھا۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف، عثمان بن مظعون، ابو عبیدہ بن جراح رضوان الله علیھم یہ دیکھ کر اسلام لے آئے کہ ابوبکر جیسا دانشمند اس صداقت سے متاثر ہے۔
آپ کی شریک زندگی حضرت خدیجہ رضی الله عنھا یہ کہہ کر آپ پر ایمان لے آئیں کہ آپ جیسے بلند اخلاق کا مالک جو غریبوں کا ہمدرد، مقروضوں کا خیرخواہ، مسافروں کا ملجا ہے، وہ کبھی شیطان کے شرمیں گرفتار نہیں ہوسکتا۔
حضرت انیس غفاری اور عمرو بن عنبسہ یہ دیکھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے کہ آپ مکارم اخلاق کا حکم دیتے ہیں۔
حضرت عمر، طفیل بن عمرو دوسی، جبیر بن معطم، نجاشی شاہ حبش وغیرہ جیسے صاحب علم اشخاص کلام الله کی معجزانہ تاثیر میں گرفتار ہوکر مسلمان ہوئے۔
حضرت ضماد بن ثعلبہ ازدی نے صرف لا الہ الا الله سُن کر نعرہ حق بلند کر دیا۔
حضرت عبد الله بن سلام آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ انور دیکھ کر پکار اٹھے کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں۔
ضمام بن ثعلبہ رئیس بنی سعد نے بے تکلفی سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو قسم دلائی کہ تمہیں سچ مچ الله نے اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے قسم کھائی تو وہ مسلمان ہوگئے۔
اوس اور خزرج کے لوگ اپنے یہودی ہمسایوں سے نبی آخرالزماں کے ظہور کے قصے سنتے تھے حج کے موقع پر جب انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو سنا تو حق کو پہچان کر آپ کے گرویدہ ہوگئے۔
فتح مکہ کے بعد سینکڑوں قبائل کے قبول اسلام کی وجہ یہ تھی کہ خانہ خلیل کسی جھوٹے نبی کے قبضہ میں نہیں جا سکتا۔
ایک پورا قبیلہ محض آپ صلی الله علیہ وسلم کی فیاضی دیکھ کر مسلمان ہو گیا۔
متعدد شعرائے عرب کلام الله کی معجزانہ آیات سن کر دل پر قابو نہ رکھ سکے اور اسلام کی حقانیت پر ایمان لائے۔
متعدد قریشی جو مرعوب نہ ہوئے، مسلمانوں کے آداب و اخلاق دیکھ کر اسلام لائے۔
ابو سفیان جس کو نہ معجزات متاثر کرسکے نہ آپ کا اخلاق وکردار، نہ ہی کلام الله کی تاثیر نے اس کے قلب کو مسخر کیا، نہ رشتہ دامادی نے اس کا دل موم کیا وہ اس نظارے کو دیکھ کر اپنے ضمیر کو اعتراف سے نہ روک سکا کہ قیصرِ روم اپنے تختِ جلال پر بیٹھ کر مکہ کے بوریا نشین پیغمبر کے پاؤں دھونے کی آرزو رکھتا ہے۔
فتح مکہ پر آپ کی نرمی و عام معافی دیکھ کا ثمامہ بن آثال، ہند زوجہ ابوسفیان اور وحشی قاتلِ حمزہ جیسے پتھر دل موم ہوگئے۔
عدی بن حاتم جو قبیلہ طے کے رئیس تھے مدینہ میں آپ کی بادشاہت اور درباری شان و شوکت کا تصور لے کر آئے اور دیکھا کہ تاجدار دوجہاں مکہ سے آئی لونڈی کی حاجت روائی کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو اس کا دل پکار اٹھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بادشاہ نہیں بلکہ الله کے پیغمبر ہیں۔ قریش کے بہت سے لوگ فتح روم کی پیش گوئی پوری ہونے پر اسلام لے آئے۔

قلوب مطہرہ کا قبول اسلام - نزہت وسیم - Daleel.Pk
 

ام اویس

محفلین
دنیا کے باغِ رنگا رنگ میں کئی بار بہاروں کا گزر ہوا۔ کئی بار تو ایسے دلکش و سہانے زمانے آئے کہ تمام عالم گل و گلزار ہوگیا۔ اور ہر طرف سکون اور امن کے پھول لہلہانے لگے۔ جب بھی کائنات میں جہالت و ظلمت کی تاریکی چھاتی خالقِ کائنات توحید کی روشنی سے زمانے کی ظلمتوں کو دور کرنے کے لیے اپنے پیغمبر بھیج دیتا۔ آدم علیہ السلام سے لے کر عیسٰی علیہ السلام تک انبیاء کرام اپنے اپنے دور میں توحید کے پرچم لہراتے رہے اور جہان میں امن و سلامتی کا پیغام پھیلاتے انسانیت کو سکون و اطمینان کی دولت سے نوازتے رہے ۔ نبوت کی یہ خوبصورت عمارت اپنی آن بان اور شان سے مجسم ہو گئی لیکن اس میں ابھی ایک کمی باقی تھی جس کے مکمل ہونے کے انتظار میں عالم بے چین و بےقرار اور لوگ منتظر و مشتاق تھے۔ آخر وہ تاریخ آپہنچی کہ جس کے انتظار میں کائنات صدیوں سے آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی۔ اس صبح پر بہار کے استقبال کی خاطر مالک کائنات نے ہر طرح سے جہان کو تیار کردیا ہے۔ آج کی صبح وہی جاں نواز صبح، وہی بابرکت ساعت اور وہی قیمتی گھڑی تھی کہ تاریخ دانوں نے اپنے قلم کا کمال دکھاتے ہوئے لکھا کہ اس کی رات ایوانِ کسریٰ کے کنگرے گر گئے، آتش کدۂ فارس بجھ گیا، دریائے ساوہ خشک ہوگیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ شر کے ستون، کفر کے آتش کدے اور گمراہی کے بت گر گئے، صنم خانوں میں دھول اڑنے لگی، بت خانے خاک میں مل گئے، مجوسیوں کی مجوسیت کا شیرازہ بکھر گیا اور یہود و نصارٰی کی توقعات کے بت اوندھے منہ گر پڑے۔
سر زمین عرب ریگستانوں اور پہاڑوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس پتھریلی مٹی میں توحید کے لیے ایک خاص کشش ہے۔ یہی وہ زمین ہے جہاں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ بیت الله کی دیواریں بلند کرتے ہوئے الله سبحانہ وتعالی کے حضور دعا کی۔ جسے الله کریم نے قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اے پروردگار ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کرنا جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے اور ان کے دلوں کو پاک صاف کیا کرے بیشک تو غالب ہے صاحب حکمت ہے۔(سورۃ بقرہ۔ آیة 129) ان کی یہ دعا الله کی بارگاہ میں قبول ہوئی 9 ربیع الاول بروز پیر 20 اپریل 571ء کو آفتابِ ہدایت کی کرنیں ہر طرف پھیل گئیں اور نبی آخر الزماں سید دوجہاں رحمة للعالمین بن کر دنیا میں تشریف لے آئے۔
آمد بہار عالم صلی الله علیہ وسلم - نزہت وسیم - Daleel.Pk
 
آخری تدوین:

ام اویس

محفلین
بیت الله کے تعلق سے عبد المطلب کے ساتھ دو اہم واقعات پیش آئے ۔
ایک زمزم کے گمشدہ کنویں کا دریافت ہونا ، اس کی کھدائی اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کا واقعہ ۔
اور دوسرا اصحاب فیل کا واقعہ
طیراً ابابیل کی نشانی ۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل میں ہوئی ۔ یہ وہ سال تھا جب ابرہہ الاشرم نے ہاتھیوں کی قطار کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ کرنا چاہا ۔
واقعہ یہ ہے کہ ابرہہ جو یمن کا حاکم تھا اس نے دیکھا عرب کے لوگ بیت الله کا حج کرتے ہیں ۔ اور سارا سال پوری دنیا سے لوگ بیت الله کی طرف عمرہ و زیارت کے لیے سفر کرتے ہیں ۔ اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑااور عالیشان کلیساء تعمیر کروایا ۔ اور چاہا کہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اس کلیسا کا طواف اور حج کریں ۔ لیکن کلیساء کی طرف کسی کی رغبت نہ ہوئی ۔
غصہ میں آکر ابرہہ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر کعبہ کو ڈھانے نکلا ۔ اس نے اپنی سواری کے لیے ایک زبردست ہاتھی کو منتخب کیا ۔ لشکر میں کُل نو یا تیرہ ہاتھی تھے ۔ جب مزدلفہ اور منٰی کے درمیان وادی محسَّر میں پہنچا تو الله تعالی نے چھوٹی چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیجا ۔ جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے ۔ اور الله تعالی نے انہیں کھائے ہوئے بھس کی مانند کر دیا ۔
ابرہہ کے اس حملے کے موقع پر مکہ کے باشندے عبد المطلب کی رائے سے جان کے خوف سے گھاٹیوں میں بکھر گئے ۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا چھپے ۔ جب لشکر پر عذاب نازل ہوچکا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو واپس آگئے ۔
یہ ایک عظیم الشان نشان تھا جس کا ظہور مسلمان اور عیسائی دونوں تسلیم کرتے ہیں ۔
بلکہ یہ خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ظہور کا نشان تھا ۔ جن کی ذات حقیقی طور پر بیت الله کی حفاظت کی کفیل تھی ۔
اس معجزے کا ذکر الله تعالی نے قرآن مجید میں خاص طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کرکے کیا ہے ۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿١
أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ۔ ﴿٢
وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ﴿٣
تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤
فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥

تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟(1)کیا اُس نے اُن کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا؟ (2)اور اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے (3)جو اُن پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے (4)پھر اُن کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسا (5)

ترجمہ ۔ ابو الاعلی مودودی رحمہ الله

سورة الفیل اس واقعہ کے تقریبا پینتالیس سال بعد نازل ہوئی ۔ غالبا اس وقت متعدد لوگ زندہ موجود ہوں گے جو اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہوں گے ۔ اور ایسے تو ہزاروں ہوں گے جنہوں نے یہ واقعہ خود دیکھنے والوں سے سنا ہو گا ۔
کفار جو ہمیشہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جھٹلانے کی کوشش میں رہتے تھے اگر یہ واقعہ غلط ہوتا تو ضرور اس کی تکذیب کرتے اور اعلانیہ اس کی تردید کرتے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اس لیے اس واقعہ کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں ۔
کعبہ پر حملہ کرنے والا ابرہہ عیسائی تھا اس لیے اس واقعہ کی خبر اس وقت کی متمدن دنیا کے بیشتر علاقوں تک فوراً پہنچ گئی ۔ اور دنیا کی نگاہیں کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔ انہیں بیت الله کی عظمت اور بڑائی سے آگاہی ہوئی اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس گھر کی عظمت میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ الله جل جلالہ کا منتخب مقام ہے لہٰذا یہاں سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا دعوٰی نبوت کے ساتھ اٹھنا بیت الله کے تقدس کے عین مطابق ہو گا ۔
طیراً ابابیل کی نشانی - نزہت وسیم - Daleel.Pk
 

ام اویس

محفلین
شیر خواری:-
سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کی والدۂ ماجدہ نے آپ کو دودھ پلایا۔ دوتین روز بعد ثویبہ نے دودھ پلایا (جو ابولہب کی لونڈی تھی)۔
اس زمانے کا عام رواج تھا کہ شہر کے شرفا اور سردار دودھ پینے والے بچوں کو قصبوں اور دیہاتوں میں بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بچے کُھلی فضا اور قدرتی آب وہوا میں پرورش پائیں اور دیہاتی بدوؤں میں پل کر فصاحت وبلاغت کا جوہر پیدا کریں ۔ اس طرح عرب اپنی خالص خصوصیات محفوظ رکھتے تھے۔ چنانچہ دستور کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے دودھ پلانے پر قبیلہ ہوازن کی ایک معزز خاتون حلیمہ سعدیہ مامور ہوئیں ۔ ان کے شوہر کا نام حارث بن عبد العزٰی تھا۔ جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت کے بعد مکہ تشریف لائے اور اسلام قبول کیا
( اصابہ فی احوال الصحابہ)
حضرت حلیمہ کے چار بچے تھے۔ جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے رضاعی بہن بھائی ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں ۔
عبد الله ، انیسہ ، حذیفہ اور حذافہ جو شیما کے لقب سے مشہور تھیں ۔ حضرت شیما اور عبد الله کا اسلام لانا ثابت ہے باقیوں کا حال معلوم نہیں ۔ حضرت شیما کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بہت محبت تھی ۔ وہ بچپن میں آپ کو کھلایا کرتی تھیں
دو برس کے بعد حلیمہ سعدیہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ واپس لائیں لیکن اس وقت مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی والدہ نے فرمایا واپس لے جاؤ چنانچہ وہ دوبارہ اپنے گھر لے گئیں ۔ اس میں اختلاف ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حلیمہ سعدیہ کے پاس کتنا عرصہ رہے۔ زیادہ تر سیرت نگاروں نے چھ سال لکھا ہے۔
قبیلہ ہوازن فصاحت و بلاغت میں مشہور تھا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ ( مفہوم)
“ میں تم سب میں فصیح تر ہوں ، کیونکہ میں قریش کے خاندان سے ہوں اور میری زبان بنی سعد کی زبان ہے۔”
بنی سعد ہوازن قبیلہ کو کہتے ہیں۔
(طبقات ابن سعد، زرقانی)
 

ام اویس

محفلین
والدہ سے دائمی جدائی:
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک جب چھ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ آپ کو لے کر اپنے شوہر یعنی آپ کے والد کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ تشریف لے گئیں۔ اور آپ کے دادا عبد المطلب کی ننہال خاندانِ نجار میں ٹہریں۔ ام ایمن بھی ہمراہ تھیں۔ ایک ماہ تک مدینہ میں قیام کیا۔ واپس آتے ہوئے ابواء کے مقام پر ان کا انتقال ہوگیا اور وہیں دفن ہوئیں ۔ ام ایمن آپ کو مکہ واپس لائیں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سفرِ مدینہ کی بہت سی باتیں یاد رہ گئیں۔ ہجرت کے بعد قیام مدینہ کے زمانے میں ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم بنو عدی کے گھروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا کہ (مفہوم) اسی مکان میں میری والدہ ٹہری تھیں۔ یہی وہ تالاب ہے جہاں میں نے تیرنا سیکھا اور اسی میدان میں میں انیسہ نامی لڑکی کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔
(طبقات ابن سعد جلد اوّل)
والدہ کے انتقال کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے آپ کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ وہ ہمیشہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
انہوں نے بیاسی سال کی عمر میں وفات پائی اور حجون میں دفن ہوئے۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک آٹھ سال تھی۔ عبد المطلب کا جنازہ اُٹھا تو آپ ہمراہ تھے اور فرطِ غم سے روتے جاتے تھے۔
عبد المطلب کے دس بیٹے مختلف ازواج سے تھے۔ ان میں سے ابو طالب اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے والد عبد الله ایک ماں کی اولاد تھے۔ انہوں نے وفات کے وقت ابوطالب کو آپ کی تربیت و ذمہ داری سونپ دی۔ جنہوں نے اس فرض کو نہایت خوبی اور احسن طریقے سے نبھایا۔ ابو طالب آنحضرت صلی الله سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے اور دن رات آپ کا بہت خیال رکھتے۔ جب تک زندہ رہے ہمیشہ زندگی کے ہر موڑ پر آپ کا ساتھ دیا۔
 

ام اویس

محفلین
ہمارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا بابرکت بچپن :-
بچے الله تعالی کی عظیم نعمت ہیں۔ نسل انسانی کی بقا کا سبب اور خاندان میں اضافہ کی وجہ ہیں ۔ بچے کی پیدائش والدین کے لیے خوشی کا سبب ہونے کے ساتھ ساتھ برکت و خوش بختی کی علامت ہے۔ عموما بیٹی کی پیدائش رزق میں کشائش وبرکت کا سبب سمجھی جاتی ہےاور بیٹے کی پیدائش خوش بختی کی علامت۔
نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جن کی ہستی کُل عالم کے لیے رحمت وبرکت کا سبب ہے ان کے دادا عبد المطلب نے بھی آپ کے بچپن میں ہی آپ کی خوش بختی اور مبارک قدمی کو محسوس کرلیا تھا۔
ایک صحابی اپنے والد کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اسلام سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں حج کرنے مکہ گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص طواف میں مصروف ہے۔ اس کی زبان پر شعر کی صورت یہ دعا ہے۔
رَدْ اِلَیَّ رَاکِبی مُحمّدا
یارب رَدْ واصطنع عندی یدا
اے میرے پروردگار! میرے سوار محمد ( صلی الله علیہ وسلم ) کو واپس بھیج اور مجھ پر یہ ایک احسان کر۔
وہ کہتے ہیں: میں نے دریافت کیا:” یہ صاحب کون ہیں؟ “
لوگوں نے بتایا: “ یہ عبد المطلب ہیں۔ ان کا ایک اونٹ گُم ہوگیا تھا۔ انہوں نے اپنے پوتے کو اسے ڈھونڈنے بھیجا ہے اور وہ اب تک لوٹ کر نہیں آیا۔ ان کا یہ پوتا ایسا ہے کہ جس کام کے لیے بھی اس کو بھیجا گیا کامیاب واپس لوٹا۔ “
کچھ دیر بعد آپ ( صلی الله علیہ وسلم ) اونٹ لے کر واپس آتے دکھائی دئیے۔ عبد المطلب نے بڑھ کر سینے سے لگا لیا۔
(ذہبی نے مستدرک حاکم کی اس روایت کو بشرط مسلم تسلیم کیا ہے)
بچپن سے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم شرم و حیا کا پیکر تھے۔ ابھی کم عمر تھے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا واقعہ پیش آیا۔ تمام شرفاء مکہ بوڑھے ، جوان اور بچے مقدس گھر کی تعمیر میں شریک تھے۔ ان میں حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم اور ان کے چچا عباس بھی شامل تھے۔ بچے پتھر اٹھا کرلارہے تھے۔ حضرت عباس نے اپنے بھتیجے سے کہا: “ تہبند کھول کر گردن پر رکھ لو تاکہ رگڑ سے گردن پر خراش نہ آئے۔”
آپ ( صلی الله علیہ وسلم ) نے چچا کے حکم کی تعمیل کی۔ دفعتا آپ بے ہوش ہو کر نیچے گر گئے۔ جب ہوش آیا تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ “ میرا تہبند، میرا تہبند”
چچا نے تہبند کمر سے باندھ دیا۔
( یہ مسلم و بخاری کی روایت ہے)
عرب میں بکریاں چرانے کا رواج عام تھا۔ بڑے بڑے امراء ، شرفاء اور سرداروں کے بچے بکریاں چراتے تھے۔
جب آپ صلی الله علیہ وسلم دس یا بارہ سال کے تھے توآپ نے بھی کچھ عرصہ بکریاں چرائیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ تھا۔
زمانۂ رسالت میں آپ اس سادہ و پُرلطف مشغلے کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے۔ صحابہ جھڑ بھیڑیاں توڑ توڑ کر کھانے لگے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا!
(مفہوم)
“ جوبیر خوب سیاہ ہوجاتے ہیں۔ زیادہ مزے کے ہوتے ہیں۔ یہ میرا اس زمانے کا تجربہ ہے جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا۔ “
(طبقات ابن سعد)
بخاری شریف (کتاب الاجارہ) میں آپ کا ایک قول ہے۔
(مفہوم)
“میں قراریط پر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔”
اس بات پر تاریخ دانوں کا اختلاف ہے کہ قراریط درہم یا دینار یعنی قراط کی جمع ہے یا پھر اس جگہ کا نام ہے۔
 

ام اویس

محفلین
عہد شباب :-
آپ صلی الله علیہ وسلم جس زمانے میں پیدا ہوئے مکہ بت پرستی کا مرکز تھا۔ اس کے باوجود یہ بات قطعا ثابت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بچپن اور جوانی میں ہر قسم کے شرک ، شرکیہ رسومات اور کھیل تماشے سے دور رہے۔
ایک دفعہ قریش نے آپ کے سامنے ایسا کھانا رکھا جو بتوں کے چڑھاوے کا تھا۔ کسی بت کے نام پر جانور ذبح کرکے اس کا گوشت پکایا گیا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو کھانے سے انکار کر دیا۔
( صحیح بخاری ، باب المناقب ذکر زید بن عمرو بن نفیل)
اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم بت پرستی سے نفرت کرتے تھے اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو اس سے منع فرماتے تھے۔
حضرت علی رضی الله تعالی عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سن کر بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (مفہوم)
“بعثت سے پہلے صرف دو دفعہ میرے دل میں خیال آیا اور دونوں دفعہ الله تعالی نے میری حفاظت کی۔ ایک دفعہ میں رات کو چرواہوں کے ساتھ مکہ سے باہر تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ شہر جا کر ساتھیوں کے ساتھ محفل میں شریک ہوں۔ راستے میں شادی کا ایک جلسہ نظر آیا۔ میں وہیں رُک گیا۔ الله تعالٰی نے مجھ پر نیند طاری کردی۔ سورج کی کرنوں نے مجھے نیند سے بیدار کیا۔ دوسری دفعہ جب مجھے خیال آیا پھر اسی طرح ہوا۔ اس کے بعد میں نے ایسا کوئی ارادہ نہ کیا۔ یہاں تک کہ الله تعالی نے مجھے نبوت سے سرفراز کر دیا”
(خصائص کبری ۔ سیوطی جلد اول )
عرب میں افسانہ گوئی کا بھی عام رواج تھا۔ رات کو لوگ تمام مشغلوں سے فارغ ہوکر کسی مقام پر جمع ہوجاتے۔ ایک قصہ گو داستان شروع کر دیتا اور تمام لوگ دلچسپی سے رات بھر سنتے۔ چالیس برس کی مدت میں صرف دو بار آپ نے اس قسم کی مجلس میں شرکت کا ارادہ کیا لیکن دونوں دفعہ الله تعالی نے آپ کو بچا لیا ۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات ان تمام مشاغل سے بالاتر رہی۔
حرب فجار میں شمولیت :-
قبلِ اسلام عربوں میں جنگ وجدل کا سلسلہ متواتر چلا آتا ہے۔ ان لڑائیوں میں ایک مشہور اور خطرناک جنگ حربِ فجار تھی۔ یہ لڑائی قریش اور قبیلہ قیس کے مابین ہوئی۔ قریش کے تمام خاندان اپنی اپنی فوج لے کر شامل ہوئے۔ لشکرِ بنی ہاشم کی قیادت زبیر بن عبد المطلب کر رہے تھے۔ چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم لڑائی کی عمر کو پہنچ چکے تھےاس لیے اس لشکر میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی شمولیت اختیار کی۔ قریش کا رئیس اور سپہ سالار حرب بن امیہ تھا جو ابو سفیان کا باپ اور امیر معاویہ کا دادا تھا۔ بڑے زور کا معرکہ ہوا۔ ابتدا میں قبیلہ قیس کا پلڑا بھاری تھا مگر پھر قریش کو فتح ہوئی اور جنگ کا خاتمہ صلح پر ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اگرچہ اس جنگ میں شریک تھے لیکن دو وجوہات کی بنا پر آپ نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اول تو یہ کہ جنگ حرمت والے مہینوں میں لڑی گئی ، اسی لیے اس کا نام حرب فجار پڑا اور دوم یہ کہ فریقین کافر تھے۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لڑائی میں ہتھیار نہیں اٹھایا۔
حلف الفضول :-
جنگ و جدل کے متواتر سلسلے نے بے شمار گھر برباد کر دئیے۔ لڑائی جھگڑا عربوں کی پہچان بننے لگا۔ ان حالات کو دیکھ کر ہمدرد اور سمجھدار لوگوں نے قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔
جنگ فجار سے واپسی پر زبیر بن عبدالمطلب نے یہ تجویز پیش کی۔ چنانچہ قریش کے تمام خاندان عبد الله بن جدعان کے گھر جمع ہوئےاور معاھدہ ہوا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور ہم ظالم کو مکہ سے نکال باہر کریں گے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بھی اس معاہدے میں شامل تھے۔ اور عہدِ نبوت میں فرمایا کرتے تھےکہ معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دئیے جاتے تو میں نہ بدلتا۔ آج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں۔ (مستدرک۔ جلد دوم)
اس معاہدے کو حلف الفضول اس لیے کہتے ہیں کہ معاہدے کی تجویز پیش کرنے والوں کے نام فضل سے شروع ہوتے تھے۔ یعنی فضیل بن حارث، فضیل بن واعہ اور مفضل ۔ یہ لوگ جُرہم اور قطورا قبیلے سے تھے۔ یہ ان کی اس نیک نیتی کا ثمرہ ہی ہے کہ ان کے نام تاریخ میں محفوظ ہوگئے۔
تعمیر کعبہ:-
اس زمانے میں کعبہ ایک پانچ چھ فٹ بلند چار دیواری پر مشتمل تھا اور نشیب میں ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی حرم میں داخل ہوجاتا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ عمارت کر گرا کر نئے سرے سے ایک مضبوط عمارت تعمیر کی جائے۔
اتفاق سے انہی دنوں جدے کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ایک تجارتی جہاز ٹوٹ گیا۔ ولید بن مغیرہ نے جہاز کے تختے تعمیر کعبہ کے لیے خرید لیے اور جہاز ہی سے ایک رومی معمار باقوم کو ساتھ لے آیا۔ تمام قبائلِ قریش نے مل کر کعبہ کی تعمیر شروع کر دی اور عمارت کے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لیے تاکہ کوئی اس شرف سے محروم نہ رہے۔
قریش کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی تعمیر کعبہ میں حصہ لیا۔ اور دوش مبارک پر پتھر اٹھا کر لاتے رہے یہانتک کہ شانے چِھل گئے۔ (صحیح بخاری)
جب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو تمام قبائل میں پھوٹ پڑ گئی۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے حجر اسود نصب کرے۔ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ دستور کے موافق خون کے پیالے میں انگلیاں ڈبو کر قسمیں کھانے کی نوبت آگئی۔ چار دن جھگڑا چلتا رہا آخر ابو امیہ بن مغیرہ جو قریش کا معزز و معمر سردار تھا نے رائے دی کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہو وہی یہ فریضہ سر انجام دے۔
الله کے حکم سے سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے زمین پر اپنی چادر بچھا کر حجر اسود کو اس پر رکھا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کا ایک فرد چادر کو کونے سے پکڑ کا آٹھائےاور حجر اسود کو نصب کرنے کے مقام تک لے آئے۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا ۔ آپ کا حکمت بھرا فیصلہ تمام قبائل کے لیے سکون و اطمینان کا سبب بن گیا۔ (مستدرک حاکم)
اس طرح ایک سخت لڑائی آپ کے بہترین فیصلے سے ٹل گئی۔
یہ گویا اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ دین الہی کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے نصب ہوگا۔
 
عہد شباب :-
آپ صلی الله علیہ وسلم جس زمانے میں پیدا ہوئے مکہ بت پرستی کا مرکز تھا۔ اس کے باوجود یہ بات قطعا ثابت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بچپن اور جوانی میں ہر قسم کے شرک ، شرکیہ رسومات اور کھیل تماشے سے دور رہے۔
ایک دفعہ قریش نے آپ کے سامنے ایسا کھانا رکھا جو بتوں کے چڑھاوے کا تھا۔ کسی بت کے نام پر جانور ذبح کرکے اس کا گوشت پکایا گیا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو کھانے سے انکار کر دیا۔
( صحیح بخاری ، باب المناقب ذکر زید بن عمرو بن نفیل)
اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ نبوت سے پہلے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم بت پرستی سے نفرت کرتے تھے اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو اس سے منع فرماتے تھے۔
حضرت علی رضی الله تعالی عنہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سن کر بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (مفہوم)
“بعثت سے پہلے صرف دو دفعہ میرے دل میں خیال آیا اور دونوں دفعہ الله تعالی نے میری حفاظت کی۔ ایک دفعہ میں رات کو چرواہوں کے ساتھ مکہ سے باہر تھا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ شہر جا کر ساتھیوں کے ساتھ محفل میں شریک ہوں۔ راستے میں شادی کا ایک جلسہ نظر آیا۔ میں وہیں رُک گیا۔ الله تعالٰی نے مجھ پر نیند طاری کردی۔ سورج کی کرنوں نے مجھے نیند سے بیدار کیا۔ دوسری دفعہ جب مجھے خیال آیا پھر اسی طرح ہوا۔ اس کے بعد میں نے ایسا کوئی ارادہ نہ کیا۔ یہاں تک کہ الله تعالی نے مجھے نبوت سے سرفراز کر دیا”
(خصائص کبری ۔ سیوطی جلد اول )
عرب میں افسانہ گوئی کا بھی عام رواج تھا۔ رات کو لوگ تمام مشغلوں سے فارغ ہوکر کسی مقام پر جمع ہوجاتے۔ ایک قصہ گو داستان شروع کر دیتا اور تمام لوگ دلچسپی سے رات بھر سنتے۔ چالیس برس کی مدت میں صرف دو بار آپ نے اس قسم کی مجلس میں شرکت کا ارادہ کیا لیکن دونوں دفعہ الله تعالی نے آپ کو بچا لیا ۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات ان تمام مشاغل سے بالاتر رہی۔
حرب فجار میں شمولیت :-
قبلِ اسلام عربوں میں جنگ وجدل کا سلسلہ متواتر چلا آتا ہے۔ ان لڑائیوں میں ایک مشہور اور خطرناک جنگ حربِ فجار تھی۔ یہ لڑائی قریش اور قبیلہ قیس کے مابین ہوئی۔ قریش کے تمام خاندان اپنی اپنی فوج لے کر شامل ہوئے۔ لشکرِ بنی ہاشم کی قیادت زبیر بن عبد المطلب کر رہے تھے۔ چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم لڑائی کی عمر کو پہنچ چکے تھےاس لیے اس لشکر میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بھی شمولیت اختیار کی۔ قریش کا رئیس اور سپہ سالار حرب بن امیہ تھا جو ابو سفیان کا باپ اور امیر معاویہ کا دادا تھا۔ بڑے زور کا معرکہ ہوا۔ ابتدا میں قبیلہ قیس کا پلڑا بھاری تھا مگر پھر قریش کو فتح ہوئی اور جنگ کا خاتمہ صلح پر ہوا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اگرچہ اس جنگ میں شریک تھے لیکن دو وجوہات کی بنا پر آپ نے کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اول تو یہ کہ جنگ حرمت والے مہینوں میں لڑی گئی ، اسی لیے اس کا نام حرب فجار پڑا اور دوم یہ کہ فریقین کافر تھے۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لڑائی میں ہتھیار نہیں اٹھایا۔
حلف الفضول :-
جنگ و جدل کے متواتر سلسلے نے بے شمار گھر برباد کر دئیے۔ لڑائی جھگڑا عربوں کی پہچان بننے لگا۔ ان حالات کو دیکھ کر ہمدرد اور سمجھدار لوگوں نے قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔
جنگ فجار سے واپسی پر زبیر بن عبدالمطلب نے یہ تجویز پیش کی۔ چنانچہ قریش کے تمام خاندان عبد الله بن جدعان کے گھر جمع ہوئےاور معاھدہ ہوا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور ہم ظالم کو مکہ سے نکال باہر کریں گے۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بھی اس معاہدے میں شامل تھے۔ اور عہدِ نبوت میں فرمایا کرتے تھےکہ معاہدے کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دئیے جاتے تو میں نہ بدلتا۔ آج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں حاضر ہوں۔ (مستدرک۔ جلد دوم)
اس معاہدے کو حلف الفضول اس لیے کہتے ہیں کہ معاہدے کی تجویز پیش کرنے والوں کے نام فضل سے شروع ہوتے تھے۔ یعنی فضیل بن حارث، فضیل بن واعہ اور مفضل ۔ یہ لوگ جُرہم اور قطورا قبیلے سے تھے۔ یہ ان کی اس نیک نیتی کا ثمرہ ہی ہے کہ ان کے نام تاریخ میں محفوظ ہوگئے۔
تعمیر کعبہ:-
اس زمانے میں کعبہ ایک پانچ چھ فٹ بلند چار دیواری پر مشتمل تھا اور نشیب میں ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی حرم میں داخل ہوجاتا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ عمارت کر گرا کر نئے سرے سے ایک مضبوط عمارت تعمیر کی جائے۔
اتفاق سے انہی دنوں جدے کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ایک تجارتی جہاز ٹوٹ گیا۔ ولید بن مغیرہ نے جہاز کے تختے تعمیر کعبہ کے لیے خرید لیے اور جہاز ہی سے ایک رومی معمار باقوم کو ساتھ لے آیا۔ تمام قبائلِ قریش نے مل کر کعبہ کی تعمیر شروع کر دی اور عمارت کے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لیے تاکہ کوئی اس شرف سے محروم نہ رہے۔
قریش کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی تعمیر کعبہ میں حصہ لیا۔ اور دوش مبارک پر پتھر اٹھا کر لاتے رہے یہانتک کہ شانے چِھل گئے۔ (صحیح بخاری)
جب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آیا تو تمام قبائل میں پھوٹ پڑ گئی۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے حجر اسود نصب کرے۔ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ دستور کے موافق خون کے پیالے میں انگلیاں ڈبو کر قسمیں کھانے کی نوبت آگئی۔ چار دن جھگڑا چلتا رہا آخر ابو امیہ بن مغیرہ جو قریش کا معزز و معمر سردار تھا نے رائے دی کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے حرم میں داخل ہو وہی یہ فریضہ سر انجام دے۔
الله کے حکم سے سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے زمین پر اپنی چادر بچھا کر حجر اسود کو اس پر رکھا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کا ایک فرد چادر کو کونے سے پکڑ کا آٹھائےاور حجر اسود کو نصب کرنے کے مقام تک لے آئے۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کر دیا ۔ آپ کا حکمت بھرا فیصلہ تمام قبائل کے لیے سکون و اطمینان کا سبب بن گیا۔ (مستدرک حاکم)
اس طرح ایک سخت لڑائی آپ کے بہترین فیصلے سے ٹل گئی۔
یہ گویا اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ دین الہی کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سے نصب ہوگا۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا۔۔۔۔نہایت عمدہ تحریر۔
مزید لکھئیے
 

شمشاد

لائبریرین
ام اویس میں اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کو ان مراسلوں کا اجر عظیم عطا فرمائے۔

بہت ہی خوبصورت شراکت۔ جزاک اللہ خیر۔
 
Top