مقدس

لائبریرین
329


طلب فرمایا، وہ تشریف لایا۔ صنوبر کا عجب حال ہوا، فرط سرور اور نشاط محبت سے چہرہ لال ہوا۔ آرام دل جوں جوں زمین پر قدم رکھتا تھا، صنوبر کی آنکھیں بچھی جاتی تھیں، دل استقبال کو

باہر نکلے آتا تھا۔ شوق وصال دل میں گدگدی کرتا تھا، دم بہ دم ستاتا تھا۔ شہزادہ آ کر مسند پر بیٹها، جیسے کوئی مہمان آتا ہے یا معشوق کہ اپنے عاشق سے شرماتا ہے، اول ہی ملاقات میں جھینپا جاتا ہے۔ صنوبر نے ملکہ سے کہا "ہمیں ان سے ملال ہے، دل پر صدمہ کمال ہے کہ اتنے دنوں بعد آئے، مگر پھوٹے منہ سے یہ بھی نہ کہا کہ اس عرصے میں تجھ پر کیا گزری؟ یا اب تیرا کیا حال ہے؟" ملکہ نے کہا "بہن! یہ بڑے بے وفا ہیں، اپنے مطلب کے آشنا ہیں۔ یہاں تو یہ میرے دباؤ سے آئے ہیں ورنہ یہ تو درکنار، تم ان کا سا یہ تک نہ دیکھتیں۔ یہ وه بے مروت پر دغا ہيں۔"

شہزادے نے فرمایا "بس ذرا خوشامد نہ کیجیے، خاطر کی نہ لیجیے۔ وہ باتیں بھول گئیں؟ ذرا یاد کرو، الزام اس کا ہم پر نہ دهرو۔ جانتے ہیں آپ کو ان سے کمال محبت ہے، آج کی نہیں مدت سے ہے اور بندہ تو بے مروت ہے۔"

ملکہ بولی "ہاں بہ جا ہے، اس میں شبہ کیا ہے۔ محبت نہ تھی تو آئے کیوں؟ تمہیں زبردستی یہاں لائے کیوں؟ قصور معاف ہو، اگر مرات دل زنگ کدورت سے صاف ہو، کبھی ایسی باتیں زبان پر

نہ آئیں، مگر تمہاری تو ان دنوں لڑائی پر طبیعت بڑهی ہوئی ہے، ہر وقت آستین چڑهی ہوئی ہے، ہر ایک سے الجھتے ہو، اپنا سا کو سمجھتے ہو۔ یہاں تو رشک و حسد کا نام نہیں، تو تو میں میں، لڑائی جھگڑا، کج بحثی اشرافوں کا کام نہیں۔"

صنوبر نے چپکے سے کہا "خدا کے واسطے جانے دو، دور


330


کرو، اس سے کیا حاصل، بس چپ رہو: حضرت غالب

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یه بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلہ ہوتا ہے


غرض دیر تک یہی صحبت رہی۔ طعن و تشنیع، راز و نیاز، چھیڑ چھاڑ، بناؤ بگاڑ، شکر رنجی کی باتوں میں عجب کیفیت رہی۔ پھر ملکہ حسن افروز صنوبر کی ماں کے پاس آئی، رسم سلام بجا لائی۔ اس نے چھاتی سے لگایا، بڑی تعظیم کی، آنکھوں پر بٹھایا اور فرمایا کہ بی بی صنوبر کو اپنی لونڈیوں کے برابر، بلكہ ان سے بدتر سمجھنا، وہ کبھی تمہاری فرماں برداری سے منحرف نہ ہو گی۔

ملكہ نے سر جھکا لیا اور شرم سے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر صنوبر کے پاس گئی، شب بھر وہیں رہی۔ تمام رات عیش و نشاط میں بسر ہوئی۔ ہنستے کھیلتے سحر ہوئی۔ دونوں کا ستاره مل گیا۔ ایسی محبت ہوئی کہ سلف سے آج تک کسی کی کم ہوئی ہو گی۔ صنوبر شہزادی کی شادی شہزادے سے پہلے ہو چکی تھی، مگر دولھا کے نام میں بڑا اختلاف تھا، سلطان عالم آرام دل اور شہزاده سیاہ فام میں بڑا اختلاف تھا۔ دوباره عقد کی صلاح ہوئی۔ بادشاہ نے پانچ لاکھ اشرفیوں کا چبوترہ بنوایا اور ستائیسویں رمضان المبارک کو بعد نماز جمعہ شہزادہ بلند بخت، کیواں بارگاه کو اسی چبوترے پر بٹھا کر موافق شرع شریف دین متین زاد هماالله شرفا خطبۂ نکاح پڑھوایا۔ باره درہم شرعی پر مہر بندها۔ پھر شاہ نے اپنا تاج شہزادے کو پہنايا، سيف کمر سے باندهی، قلم دان آگے رکھا، سلطنت کا مالک کیا۔ یہ جہيز ديا اور آپ اسی روز سے دنیا کو لات مار کر قناعت گزیں ہوا۔ سب سے کنارہ کش ہو کر گوشہ نشیں ہوا۔ نوشاه نے ان اشرفیوں کو لله دیا اور طعام وليمہ تقسیم کیا۔


331


دوسرے روز شاه مشرق اور نگ فلک پر جلوہ افروز ہوا، آرام دل نے تخت پر جلوس فرمایا اور صنوبر کے بھائی اپنے سالے کو جو بہت صغير سن تھا، گود میں بٹھایا۔ امورات مملكت بہ مشوره اراکین سلطنت بہ حسن و خوبی انجام پانے لگے۔ بناء ظلم و ستم منہدم ہوئی، لوگ بہ آسائش رہنے لگے، ہزار طرح کے آرام پانے لگے۔ غرض شہنشاه کشورستان آرام دل جان جہان دونوں شہزادیوں کے ساتھ جشن میں مصروف ہوا۔ وطن جانا بالقوه رہا، مگر بالفعل موقوف ہوا۔


332


روانگی آرام دل سوئے وطن؛ طلسمی شیشے کے
جہاز پر سوار ہونا، شہزادہ سیاہ فام کے دام
گرفتار ہونا، اس ملعون کا توپ
مارنا، جہاز کو تباہی کے
گھاٹ اتارنا، شہزادیوں کا
تباه ہونا، پهر یہ عنایات
جامع المتفرقين بچھڑوں
کا ملنا اورم سیم قن
کا بیاہ ہونا​

شناوران قلزم معانی احوال غواصان بہ کف نیاورده گوہر مقصود، غریق بحر ناکامی، ناآشنائے زبان و سود لکھتے ہیں کہ ایک روز شہزادہ آرام دل باہم ملكہ حسن افروز اور صنوبر قلعے میں ثمن برج پر لب دریا بیٹها کیفیت تلاطم بحر امواج اور تماشائے پیچ تاب ورطہ و گرداب، ہوا کا زور، پانی کا شور دیکھ رہا تھا۔ شراب کے نشے میں ملکہ سے کہنے لگا "بیگم! تم نے کبھی پانی کے اندر جا کر سیر کی ہے؟ آبی جانوروں کے مکان، ان کے انڈے بچے، ان کا چلنا پھرنا، یہ کیفیت بھی دیکھی ہے؟"
ملکہ بولی "ہاں نئی لہر آئی، خوب دل میں سمائی۔ بھلا یہ تو فرمائیے انسان کا کام ہے کہ دریا کے اندر جائے اور سیر کر کے سلامت پھر آئے؟ حضرت ظل سبحانی کے سفینے میں البتہ سیر

333

کی ہے۔ خدا کی قدرت سے جانور کیا دریا میں ملک آباد ہیں۔ صاحب تخت و تاج، امير وزیر، محتاج ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔" شہزادے نے کہا "تم نے تو کتاب میں لکھا دیکھا ہے، اگر تمہیں کشتی پر سوار کر کے پانی کے اندر لے جائیں اور سب سير دکھائیں تو کچھ انعام دو گی؟"
ملکہ نے عرض کی "فی الواقع آب رواں کے دیکھنے سے آدمی کی عقل تیز ہوتی ہے۔ سیر دریا جنوں خیز، وحشت انگیز ہوتی ہے۔ اگر حضور کے ذہن مبارک میں کوئی بات آئی ہو، طبیعت لہرائی ہو تو عجب نہیں۔"
آرام دل نے فرمایا "ہاں اراده ہے کہ سفینہ آبگینہ بنواؤں اور چین تک چین سے اسی پر سیر کرتا ہوا جاؤں۔ پھر زمرد محل میں آ کر سفید دیو کو بلایا، وہ آیا، شہزادے نے کہا "ایک جہاز چاہتا ہوں جس میں بالکل حلبی آئینے لگے ہوں اور کل کام کل سے نکلے۔ كل دبانے سے پانی کے اندر رواں ہو، جب ٹھہرائیں ٹھہر جائے۔ ذرا اشاره پائے، اوپر ابھر آئے، پھر جب پرزه دبائیں تہہ آب ہو جائے اور رواں ہو۔" وہ بولا "بہت خوب! كل زير قلعہ اس کا لنگر ہو گا، جیسا حضور سے ارشاد ہوا، ان شاء الله تعالی اس سے بہتر ہو گا۔" ديو تو یہ کہہ کر رخصت ہوا، شہزادے نے محمود کو مع فوج ملک خاندیس کی طرف کوچ کا حکم دیا اور فرمایا کہ ماوراء النہر میں بحر عمان کے کنارے ہمارے منتظر رہنا، کسی سے یہ حال نہ کہنا۔ اس نے حسب الارشاد سفر کا سامان کیا، شب کو سب افسروں کو حکم سنا دیا۔
جب ماه غواص محیط ظلمت ساحل مغرب میں ڈوبا اور مہر


334


آشنا بحر سپہر کنارہ مشرق سے تھرتھراتا نکلا، محمود لشکر لے کر مع خزانہ روانہ ہوا۔ ادهر جہاز بھی آ پہنچا۔
آرام دل نے دربار عام کیا، کیا خوب انتظام کیا کہ اپنے سالے کو سسرے کی جگہ اورنگ نشیں کر کے تاج بخشا، خراج معاف کیا، واقعی بڑا انصاف کیا۔ جب اس سے فرصت پائی شاه با خدا، گداے در خیرالورا صلے الله عليه وسلم کے پاس آیا، رخصت طلب کی۔ اس ولی نے بہ خوشی اجازت دی۔ ملكہ حسن افروز نے وہیں کہا کہ حضرت انہیں منع کیجیے، دریا کی راه جانے نہ دیجیے۔ سنی ہوں ایک جہاز آیا ہے، خدا جانے کہاں سے منگوایا ہے، کس نے بھیجا ہے، کون لايا ہے۔ وہ پانی کے اندر چلتا ہے، ہوا سے کچھ سروکار نہیں۔ باد موافق کا مخالف پانی کے اندر ڈوب کر چلتا ہے، عقل مقتضی نہیں کہ اس پر سوار ہوں، اجل سے ہمکنار ہوں، مفت جان گنوائیں، بیٹھے بٹھائے صدمے اٹھائیں۔ اور دیدہ و دانستہ سفينہ عمر، زورق زندگی کو ورطہ ہلاکت میں ڈبونا، زبردستی جان کھونا کہاں آیا ہے؟ کوئی حدیث کوئی آیت ہے؟ بلكہ ولا تلقوا بايد بیكم الى التھلكته خدا نے بھی فرمایا ہے۔
شہزادے نے کہا کہ دریا میں فتنہ انگیز ہوا ہے، اكثر
فساد اسی سے ہوا ہے، جب بقول تمہارے اس جہاز کو ہوا سے علاقہ نہیں تو پھر کچھ پروا نہیں، یوں تقدیر کا علاقہ جدا ہے ، اس میں گفتگو کیا ہے، ان الله على كل شی قدير ہر چیز پر قادر خدا ہے، ورنہ ذرا سوچو تو ایسا مرکب بھی کہیں غرق ہوتا ہے؟ پانی میں جانے، کل کے جہاز اور بادبانی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر جہاز پر تشریف لایا۔ شاه داراب نے ملکہ کو سمجھایا اور فرمایا کہ صاحب زادی ہم مجبور ہیں، وہ مختار ہیں۔


335

بہ۔خدا فرقت گوارا نہیں، مگر مشیت ایزدی سے چارہ نہیں۔ کیا کریں ناچار ہیں۔ لازم ہے کہ تم بھی ان کا حکم بجا لاؤ، جہاں جس طرح لے جائیں، بے تامل جاؤ، ضد نہ کرو، ذرا سی بات پر نہ اڑو۔ شوہر کی عدول حکمی میں خدا اور رسول صلى الله عليه وآله وسلم کی نافرمانی ہے۔ وہ اگر آگ میں جھونک دیں اسے گل زار جانو، یہ تو بھلا پانی ہے۔ لو بسم الله تيار ہو، وہ منتظر ہوں گے۔ چلو جہاز پر سوار ہو۔ یہ کہہ کر صنوبر کو ساتھ لیا، ملكہ حسن افروز کا ہاتھ میں ہاتھ لیا اور خضر دروازے نکل کر لب دریا تشریف لائے۔ ملكہ نے دیکھا شہزادہ سوار ہو چكا، صنوبر کا ہاتھ پکڑ مع قمرالنسا اور دل ربا چند خواصوں کو ہم راه لے جہاز پر پہنچی اور فرمایا "بسم الله مجريہا و مر سہا" جب سب سوار ہوئے، جہاں پناه بہت اشک بار ہوئے۔ عورتوں نے رو رو کے کہرام مچایا، پھر سب نے دعائیں دے کر دور سے بلائیں لیں۔ ملکہ نے صنوبر سے کہا "خدا خیر کرے! شگون بد ہوا، قدم رکھتے ہی کان میں رونے کی آواز آئی، یقین جانو جہاز کی سواری شہزادے کو ناساز آئی۔ بے طور دریائے الم موجزن ہے، رہ رہ کے جوش میں آتا ہے، ہر چند سنبھالتی ہوں، لیکن لطمه اندوه و غم میں خود بہ خود دل ڈوبا جاتا ہے۔" میر وزیر علی صبا

گردش سے آسمان کی چکرا رہے ہیں ہم
کشتی ہماری گھوم رہی ہے بھنور کے ساتھ

غرض شہزادہ آرام دل تو مصروف سير و تماشا تھا، مگر ملكہ حسن افروز غواص گرداب تفکر، صنوبر غریق ورطہ تحیر، یہ دونوں بحر غم والم کی آشنا۔ دو گھڑی جہاز اوپر رہا، پھر یکایک پانی کے اندر ڈوب کر

336

رواں ہوا۔ ڈوبتے ہی ایک ماه منور مہر درخشاں کی طرح چمکتا ہوا نمایاں ہوا۔ بلور کی چھت میں ایک حلبی آئینہ مدور آفتاب سے زیاده درخشاں ہوا۔ جہاز کی یہ قطع تھی۔ بہت عریض اور طويل، سر بلندی سب جہازوں سے دو چند، دیواریں سقف بلور کے نور کے سانچے میں ڈھلی ہوئیں، شیشہ چار انگل کا دل دار، جہاز بالكل كل دار نیچے
صندل کی تختہ بندی، لوہا نام کو نہیں، تمام نقرئی اور طلائی کام، اندر متعدد کمرے سجے سجائے، فرش فروش سے آراستہ، شیشہ آلات پیراستہ، دن کو طلسم سے مہر درخشاں روشن، رات کو شمع ہائے مومی اور کافوری کی روشنی سے انجمن کا جوبن۔ ہر ایک مکان میں علیحدہ علیحدہ پسند تکیے لگے ہوئے۔ چھپر کھٹ پھولوں سے بسے ہوئے، پردے چھوٹے ہوئے، اونچے کیسے ہوئے۔ ہر چھپر کھٹ میں پنکھا اس قسم کا کہ جب تک شہزادہ آرام کرے خود بہ خود اس کو حرکت ر ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے دل کو فرحت رہے۔ گل دستوں میں نئے نئے رنگ کے گل بوٹے جن کو باد خزاں کی ہوا نہ لگے، کبھی جھڑے نہ ٹوٹے۔ پر ستان کے میوے کشتیوں میں، مئے انگور شیشوں میں، ہر کمرا سجا ہوا، ایک سے ایک اچھا سامان عیش ہر جگہ مہیا۔ صحن کا طول نہایت معقول، بیچ میں مختصر سا خانہ باغ، روش پٹری نازک، نہر جاری، فوارے سبک، کیاریاں قطع دار، ان میں موتیا، چنبیلی، سوسن، کیتکی، موگرا، مدن، بان، نرگس، لالہ، نافرمان، گل صد برگ کی بہار۔ ہر چمن کے گرد چنبے کے نرگس دانوں میں میوه دار درخت سراسر، بلندی میں قد خوباں کے برابر جن کا پھل تصور سے منہ میں آئے، جانور قصد سے لب تک آ کر کباب ہو جائے۔ سر شاخ ہر غنچہ و گل بلبل ہزار داستان کا جھوم جھوم کر چہکنا، پھولوں کی خوش بو سے تمام جہاز کا مہكنا، لب جو سرو

337

اور شمشاد کے نئے نئے پودوں پر قمری کی صدا، فاخته کی کوکو، چھوٹے چھوٹے پیوندی آم کے درختوں پر مور کا شور کوئل کی توتو۔ زمین میں سیپ کا فرش، اس کے ہر وصل میں سبزۂ نو خیز، نرگس دانوں اور کیاریوں کی مٹی عنبر بیز۔ پری زاد مرد سيم بر، زریں کمر زمردیں بال، جہاز کے موکل سرگرم کار۔ شہزاده آرام دل جب یہاں سے روانہ ہوا فلک تفرقہ انداز کو جہاز کی سواری دریا کی سیر کا بہانہ ہوا، یعنی اس نافرجام شہزادہ سياه فام کو یہ خبر پہنچی کہ آرام دل مع پری و شان حور شمائل تری کی راہ اسی طرف سے بہ سواری جہاز اپنے وطن کو جاتا ہے۔ جہاز شیشے کا ہے، پانی کے اندر چلتا ہے، نہایت سریع السیر ہے، کل دبانے سے اوپر نكلتا ہے۔ یہ سنتے ہی زیر قلعہ آیا، کمال خوش ہوا۔ پیر گردوں نے فریب دیا، دام مکر پھیلایا۔ شہزادہ سیاہ فام نے اپنے اہتمام سے بہت بڑا جال فولادی دریا میں ڈلوایا اور منتظر وقت رہا۔ شام کو جال ڈالا اس کے دوسرے روز قریب دوپہر طرفہ ماجرا رو بکار ہوا کہ گردوں دام صیاد میں گرفتار ہوا۔ جہاز جو رکا، کار پردازوں نے کل دبائی، جہاز سطح آب پر آیا، مگر فولادی جال میں الجھ گیا، مطلق نہ چل سکا۔ یہ لوگ مستفسر حال ہوئے، جہاز روکنے کا سبب پوچھنے لگے۔ ادھر قلعے پر مورچہ بندی تھی، جب جہاز توپ کی زد پر آیا اس ملعون نے شست باندھ کر نشانک لگایا۔ گولہ آتے ہی چھت پر لگا، اس نے کام تمام کیا، جہاز کو تباہی کے گھاٹ اتارا، بیٹھے بٹھائے دشمن نے میدان مارا، جہاز کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ گئے، پاش پاش ہوگیا۔ کسی کو خبر نہ رہی، کون کدھر گیا، کون جیتا رہا، کون مر گیا: صبا

ہر گھڑی اک طرفہ دکھلاتا ہے رنگ
واہ کیا نیرنگ ہیں افلاک کے

338

ناگاه اس وقت سیم تن پری کا وہاں گزر ہوا؛ اس نے جو یہ کیفیت دیکھی، ملکہ حسن افروز اور قمرالنسا کو کہ یہ دونوں بے ہوش، یک دگر ہم آغوش، قريب الہلاکت، عنقریب غرق ہوا چاہتی ہیں، اٹھا کر اپنے تخت پر سوار کیا اور لے اڑی۔ چند ساعت میں اپنے باپ کے پاس جو کوه قاف کا شہنشاہ معظم تھا، جا اتارا اور جلد جلد عود قاری، عنبر سارا انگیٹھیوں میں سلگا کر ان دونوں کی برودت اور خنکی کو دفع کیا۔ کامل کے بعد ملکہ کو ہوش آیا؟ ایک پیر مرد، باریش سفید، تاج خسروی بر سر، عباے پر زر در بر اور ایک پری نازنین کو اپنے بالیں پر موجود پایا۔ گھبرا کر اٹھ بیٹھی، حیرت سے ایک ایک کا منہ تکنے لگی۔
سيم تن پری نے ملکہ کو بہت ادب سے سلام کیا اور اپنے باپ سے یہ کلام کیا کہ حضور یہ شاه فارس آدم زاد کی صاحب زادی ہیں اور شہزادہ آرام دل پسر شاہ چین کی شہزادی ہیں۔
یہ سن کر شاه قاف نے بڑی تعظیم کی، ہاتھ پر بوسہ ديا، اور کہا کہ صاحب زادی، زہے نصیب ہمارے کے تم نے ہمارے غریب خانے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے فردوس بریں فرمایا! اور خوشا طالع ہمارے کہ ہم نے تم کو دیکھا! پھر سيم تن سے کہا کہ ان کو گلستان ازم میں لے جاؤ، وہاں کی سیر دکھاؤ۔ ملکہ اس سليمان ثانی کے اخلاق دیکھ کر ششدر تھی، پری کی محبت اور خاطر داری سے متحیر تھی۔ سیم تن پری ملکہ کو گلزار ارم میں لے گئی۔
سبحان الله! عجب باغ تھا کہ اگر اس کے ایک تختے کی
تعریف صد ہزار تختہ کاغذ پر یہ خط ریحان لکھوں تو عقل سے دور ہے، مگر حکماء کا دستور ہے کہ "مالا يدرك كلہ لا يترك كلہ" اس واسطے مشتی نمونہ از خروارے کچھ مختصر لکھنا ضرور ہے

339

کہ روش پٹری بلور کی، نہر سراسر نور کی، درخت جواہرات کے، جڑ مونگے کی، ٹہنیاں پکھراج کی، پتے زمرد کے، پھل یاقوت کے۔ اکثر درختوں میں مثل خوشہ انگور لعلوں کا گچھا اور تاک میں مروارید کلاں بيضہ کبوتر سے دو چنداں، درختوں پر طیور قدرت حق کا ظہور۔ طوطی کے زمرد کے پر، یاقوت کی منقار، گفتگو میں سحر بیان۔ لعل حقيقتا لعل، مگر خوش الحان۔ باره دری عالی شان، چاروں طرف دیواریں، ہیرے کے پتھر، یاقوت کی اینٹیں، اندر پکھراج کی صحنچیاں، زبرجد کے دالان۔ یہ سب کچھ سیر تھی، مگر ملکہ کی حالت غیر تھی۔ جب سیم تن پری نے ملکہ حسن افروز کو دالان میں لے جا کر بٹھایا، ملکہ نے آب ديده ہو کر پوچھا کہ صاحب آپ کا نام کیا ہے اور یہ باغ ارم کس کا ہے؟ سیم تن پری نے دست بستہ عرض کی، "لونڈی کو سیم تن کہتے ہیں اور یہ باغ اسی کنیز کا ہے۔ اس میں والد ماجد رہتے ہیں۔"
ملکہ پری کا نام سنتے ہی آرام دل کے تصور میں زار زار رونے لگی۔ پہلے تو چپکی بیٹھی رویا کی، بے قراری کو ضبط کرتی رہی، مگر جب بہت دم گھبرایا اور ہجوم غم سے کلیجا منہ کو آیا تو ہائے شہزادہ کہه کر پری کے گلے سے چمٹ گئی اور چیخ مار کر رونے لگی۔ ایسی روئی کہ غش آگیا۔ پری نے ہاتھوں پر روکا، سنبھالا۔ اس کی بھی آنکھ سے بے اختیار آنسو جاری تھے، بے خودی کے عالم طاری تھے۔ دیر تک یہی کیفیت رہی، دونوں کو غش کی حالت رہی۔ آخر سیم تن پری نے اپنے حواس درست کر کے ملکہ کو لخلخه سونگھایا، بید مشک چھڑکا؛ کچھ افاقہ ہوا، ذرا ہوش آیا۔ سیم تن نے تسکین کی باتوں سے سمجھایا، خاطر آشفتہ کو ہر چند بہلایا، مگر:

340

رونا آس سے کیوں کر چھوٹے
جس سے ایسا دل بر چھوٹے

پھر پری نے عرض کی کہ ذرا حضور دل کو تسکین دیجیے، تھوڑی دير باغ کی سیر کیجیے۔ دیکھیے میں ایک آن میں گئی اور آئی اور دو گھڑی میں آپ کے پاس شہزادے کو لائی۔ یہ کہہ کر سیم تن تخت پر سوار ہوئی، ملكہ كو وہیں روتے چھوڑا اور آپ آرام دل کی تلاش میں فلک سیار ہوئی۔
اب سنیے کہ جب جہاز تباه ہوا تھا، شہزادہ ایک تختے کے سہارے بہتا زار زار روتا اور یہ کہتا چلا جاتا تھا: صبا

ساحل دکھائی دیتا ہے مجھ کو نہ تھاه ہے
دریائے عشق میں مری کشتی تباه ہے

ملکہ حسن افروز اور صنوبر کے فراق نے شہزادے کو مردے سے بدتر کر دیا، تفرقہ انداز چرخ کج نہاد نے مجموعہ انبساط اور گل دستہ نشاط کو اک آن میں ابتر کر دیا۔ آرام دل نے سوچا کہ دریا ناپیدا کنار ہے، اب اس دریا کے ذخار سے نکلنا دشوار ہے، ہر دم اجل ہم کنار ہے۔ مانا کہ بچے اور کسی طرح نکلے بھی تو کیا! جب اپنے آرام دل اور دل بر اس طرح دنیا سے اٹھ گئے اور انہوں نے ہمارے واسطے زندگی میں کیسی کیسی جفائیں اٹھائیں، آخر اپنی جانیں گنوائیں تو پھر ہم جی کے کیا کریں گے؟ یہ سمجھ کر مرنے پر مستعد ہوا اور یہ شعر پڑھ کر تختہ چھوڑ دیا: رند

ہو اب رنج و غم کا عدم قافلہ
ہماری بھی دنیا سے رحلت ہوئی

ملکہ سیم تن ابھی قریب پہنچنے نہ پائی تھی کہ اس نے دور سے شہزادے کو ڈوبتے دیکھا، گھبرا کر جھپٹی اور آتے ہی جلدی سے باہر نکالا۔ شہزادہ بےہوش ہو گیا تھا، پری شہزادے
 

مقدس

لائبریرین
ریختہ 341


کو اپنی گود میں لٹا فلک سیر ہوئی۔ پھر ایک جزیرے میں پہنچ کر تخت اتارا اور شہزادے کو ہوش میں لائی۔ آرام دل نے آنکھ کھولی پری نے جھک کر مجرا کیا اور کہا "فرمائیے کیا وعدہ کیا تھا، خوب اپنے قول پر ثابت رہے۔ کہیے اب آپ کی کیا سزا، اور جن کے آپ عاشق تھے کہیے وہ کہاں ہیں؟ جن کے آپ دیوانے تھے، بتائیے کدھر وہ پریاں ہیں؟ شہزادے نے متحير ہو کر پری کو دیکھا اور کہا "نہ ہم کسی کے عاشق تھے اور نہ کوئی ہمارا شیدا تھا، خدا جانے یہ کیا تھا اور کیا ہوا۔"
بہ کلام بے خودی اور یاس کا پری کے دل میں تیر سا لگا، بے اختیار آنسو نکل پڑے۔ پھر ذرا نہ توقف کیا، اسی دم تخت پر بٹھا لے اڑی اور باغ ارم میں داخل ہوئی۔ ملکہ حسن افروز شہزادے کے آنے کی امید وار نہایت مضطر و بے قرار زار زار رو رہی تھی کہ شہزادہ آ پہنچا، بے خود ہو کر ہم آغوش ہوئی، ایسی روئی کہ بے ہوش ہوئی۔

آرام دل پہلے تو وحشیوں کی طرح دیکھا گیا، جب بوے پیرہن بار مشام جان تک پہنچی جنون کا نشہ ہرن ہوا۔ پھر تو دونوں خوب روئے اور مسرور ہوئے۔ رخ و آلام مفارقت بہ عنايات جامع المتفرقين دور ہوئے۔ دونوں نے سیم تن پری کا بہت سا شکر ادا کیا۔ پھر شہزادہ سيم تن کے باپ کی ملاقات کو گیا۔ اس نے شہزادے کو آتے دیکھا، سر و قد تعظیم کو اٹھا۔ شہزادہ قدم بوس ہوا۔ اس نے سر اٹھایا، معانقہ کیا اور تخت پر اپنے برابر بٹھایا۔ شہزادے نے عرض کی کہ مجھے خلعت دامادی سے سرفراز کیجیے اور اپنی فرزندی میں لیجیے۔ اس نے بہ دل و جان اس امر کو قبول کیا، مگر کچھ جواب نہ دیا۔ کہتے ہیں کہ پرستان میں سوائے عقد کے اور کوئی دستور نہیں ہے۔ پس فقط بادشاہ نے اسی دم

ریختہ 342

خطبہ نکاح پڑھا، اور سیم تن پری کو بلا کے اس کا ہاتھ شہزادے کے ہاتھ میں دیا اور دونوں کو رخصت کیا۔
شہزادہ مع سيم تن گل زار ارم میں ملکہ حسن افروز کے پاس آیا اور سیم تن پری سے فرمایا کہ افسوس ہماری قمچی دریا میں حضرت خواجہ خضر کی نذر ہوئی۔ ملکہ نے کہا کہ سبحان اللہ! موئی قمچی کا تو یہ خیال آیا، مگر صنوبر کو ذرا ياد نہ فرمايا کہ وہ بے چاری کدھر گئی، جیتی رہی یا مر گئی۔ سیم تن پری نے سفید دیو سے کہا کہ تو ابھی جا اور صنوبر کی خبر لا۔ ديو صنوبر کی تلاش میں تیز پر ہوا - سیم تن پری نے قمچی شہزادے کے حوالے کی اور کہا جس وقت جہاز تباہ ہوا تھا، میں نے یہ قمچی اٹھالی تھی۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سفيد ديو آیا اور خبر لایا کہ ملکہ صنوبر شہزادہ سیاہ فام کی قید میں گرفتار ہے، شدت سے علیل ہے، جان سے بیزار ہے۔
یہ سنتے ہی آرام دل نے چلنے کا ارادہ کیا۔ سیم تن پری کو پوشاک شاہانہ پہنائی۔ اس نے سب اپنا لباس اتار، شہزادیوں کا زیور زیب بدن کیا۔ عزیزوں کا اپنے الزام رکھا، مگر دوست کی خوشی سے کام رکھا۔ پھر شہزادہ تخت پر سوار یوا، ملکہ اور سیم تن پری کو برابر بٹھایا۔ پری زادوں نے اوپر تخت اڑایا۔
تھوڑے عرصے میں وہ تخت شہزادہ سیاہ فام کی خواب گاه میں جا اترا۔ شہزادہ تنہا اندر گیا، دیکھا کہ دالان کے پردے گرے ہوئے ییں، اندر شمعیں روشن ہیں، صنوبر پری پیکر لب جان با چشم گریان مضطر و بے قرار، ہاتھ میں کٹار، مرنے پر آمادہ، ہجر یار میں دل داده، زندگی دست دست بردار، شہزاده سیاہ فام چھپر کھٹ میں لیٹا ہوا، صنوبر کو منت اور عاجزی اپنے پاس بلاتا ہے؟ کبھی دهمكاتا ہے، ڈراتا ہے۔

ریختہ 343

آرام دل نے جو یہ حال دیکھا، تن بدن میں آگ لگ گئی، جاتے ہی اس قمچی سے اس ناپاک کی مشکیں باندھ لیں اور گھسیٹتاہوا باہر لایا۔ پھر ایک پری زاد کے سپرد کر آپ مع ملكہ حسن افروز اور سیم تن صنوبر کے پاس آیا۔ وہ اس حال کو بہ چشم خود نگران تھی، بہ شدت حیران تھی۔ دل میں کہتی تھی کوئی فرشتہ آیا۔ جس نے اس بد ذات کو گرفتار کیا اور مجھے اس کے فریب سے بچایا۔ اسی تصور میں تھی کہ آرام دل مع ملكہ حسن افروز و سيم تن پری نمودار ہوا۔ دیکھتے ہی صنوبر کا جی بے قرار ہوا، دوڑ کر شہزادے سے لپٹ گئی۔ دیر تک رویا کی، منہ آنسوؤں دھویا کی۔ شہزادہ بھی بے قرار رہا، برابر اشک بار رہا۔ پھر صنوبر ملکہ کے گلے لگ کر رونے لگی، ملکہ بھی بلک کر رونے لگی۔ آخر سيم تن نے منہ پر سے رومال سرکایا، یر ایک کو سمجھایا۔ پھر سب عاشق و معشوق مل کے بیٹھے، غبار سب کے دل کے بیٹھے۔ سب نے اپنے اپنے دکھڑے روئے، دفتر حديث آنسوؤں سے دهوئے۔ صنوبر نے جب سیم تن کی جاں فشانی سنی اس پر بہ یزار جان و دل قربان ہوئی۔ تھوڑی دیر ادهر ادهر کا چرچا ریا، پھر شہزادہ مع تینوں شہ زادیوں اور قمرالنسا کے تخت پر سوار یوا۔ اس ملعون کو تخت کے پائے سے باندھا، کسی کو خبر نہ ہوئی اور یہ ملک خاندءس کی طرف سیار ہوا۔

ریختہ 344

پہنچنا شہزادہ آرام دل کا ملک چین میں، كيفيت
سواری، پھر ملازمت والدین اور جشن کی تیاری


پلا ساقیا آخری ایک جام
ہوا چاہتا ہے یہ قصہ تمام
مقاصد مرے دل کے بر آئے سب
لکھا خوب قصہ بہ امداد رب
مگر اب سبھوں کو ملاؤں شتاب
اسی بات پر ختم کردوں کتاب

محردان دفتر خوش بیانی، و طے کنندگان ملک معافی لکھتے ہیں کہ لشکر سلطانی لب دريا جہاز کے آنے کا منتظر تھا۔ افسران فوج و جان نثاران شہزادہ والا تبار اور محمود وفادار سب رفقا بہ سبب توقف کے پریشان خاطر تھے، ہمہ دم شہزادے کی تشریف آوری کے منتظر تھے۔
ایک شب پہر رات رہے روند کے سپاہیوں کو معلوم ہوا کہ ایک تخت دفعتا آسمان پر سیر رو بہ زمین ہوا اور سرا پردہ شاہی میں جاگزین ہوا۔ محمود کو خبر ہوئی، فورا خيمہ سلطانی میں آیا، دیکھا کہ شہزادہ بلند اقبال، سلیمان ثانی تینوں پریوں کے بیچ میں مسند پر رونق افروز ہے؛ بائیں طرف سیم تن اور صنوبر، داہنی طرف ملکہ حسن افروز ہے۔ تخت طاؤس رو بہ رو موجود ہے، پری زاد دست بستہ حاضر هہیں، خواصوں اور مغلانیوں کا ہجوم ہے، شہزادے کے آنے کی تمام لشکر میں دھوم ہے۔
الغرض شہزادے نے اپنی داستان حیرت بیان سب لوگوں کو سنائی اور اس شہزادہ سیاہ فام بد بخت نافر جام کی صورت دکھائی۔ پھر حکم کیا کہ کل تمام لشکر میں اس کو تشہیر کر کے

ریختہ 345

قرار واقعی سزا دیں گے، اپنا بدلا لیں گے۔ پھر شہزادے نے پری زادوں کو مع تخت طاؤس کوہ قاف کی طرف روانہ کیا۔ رات تو باتوں میں بسر ہو گئی، بیٹھے بیٹھے سحر ہو گئی، صبح دم شہزادے نے باہر جلوس فرمایا۔ افسران فوج ملازمت سے مشرف ہوئے، نذریں گزریں، چھوٹا بڑا پھولوں نہ سمایا۔ پھر شہزادے نے لب دریا سب کو سیر دیکھنے کا حکم دیا اور شہزادہ سیاہ فام کو طلب کیا۔ داروغہ محبس لے کر حاضر ہوا۔ شہزادے نے پہلے اس کے ہاتھ قلم کرائے، پھر ناک کٹوائی اور اس کے سامنے چیل کوؤں کو بٹوائی۔ پھر حکم دیا کہ اسے دریا میں ڈبو دو، دین دنیا سے کھو دو۔
یہ حکم سن کر حلال خور نے اس حرام خور کو دریا میں ڈالا، دل کا ارمان نکالا۔ وہ ڈبونے لگا، وہ ناپاک رونے لگا، مگر کب چھوڑتا تھا؛ ہر چند ماہی بے آب کی طرح تڑپا، لیکن وہ منجدھار میں لے گیا اور تہ پر بٹھا دیا۔

جب وہ ماعون اپنی سزا کو پہنچا آرام دل خیمہ فردوس منزل میں آیا۔ اس روز وہاں اور مقام فرمایا، صبح دم ملک چین کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ آدھی رات ریے سے خیمہ ڈیرا لدنے لگا، کوچ کا سامان شروع ہوا۔

جب آفتاب قريب طلوع ہوا، آرام دل عماری دار ہاتھی پر سوار ہوا۔ ملکہ حسن افروز پری پیکر اور صنوبر اور سیم تن رشک قمر جدا جدا تینوں ہاتھیوں پر پردہ دار عماریوں میں سوار، پیش و پس، چپ و راست فوج ہزار در ہزار۔ آگے شہزادہ آرام دل پیچھے برابر وہ تینوں حور شمائل، مگر محمود کے اشارے سے فیل بان ملكہ حسن افروز کا ہاتھی ذرا بڑھائے ہوئے۔
غرض اسی طرح خوش و خرم سوئے وطن منزلیں طے کرتے چلے،

ریختہ 346

جب در شہر پناہ ایک منزل باقی رہا، آرام دل نے کئی ہزار ہرکارے واسطے اطلاع کے بادشاہ کے حضور میں روانہ کیے۔ شہر میں جو ایک غول اجنبی ہرکاروں کا نظر آیا، یر ایک گھبرایا۔ کسی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا "کیوں بھائی، کہاں سے آتے ہو؟" انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ظل سجانی، خليفة الرحمانی، جہان پناه، شہزادہ آرام دل بادشاہ زادے تمہارے آج اس شہر میں داخل ہوں گے، نا مرادوں کے مقاصد دلی حاصل ہوں گے۔

بہ سنتے ہی لوگ مارے خوشی کے پھول گئے، سب کاروبار بھول گئے۔ لوگوں کو گويا عيد ہوئی، جلدی جلدی ہر ایک نے کپڑے بدلے، عطر لگایا۔ کوئی ہاتھی پر سوار ہوا، کسی نے گھوڑا کسوایا، کسی نے کہا میرا نام جان نکال لو، کسی نے کہا کہ سب سپاہیوں کو ساتھ چلنے کے لیے بلا لو، کوئی بولا میاں جلد آؤ، رتھ کسوا کے لاؤ، کسی نے کہا جلد فنس منگواؤ۔ شہروں میں غل ہوا۔ کسی نے کہا اے لیا لپک کے آ۔ کوئی جوا کھیلتے کھیلتے اٹھا اور جھوم کر کہتا ہوا چلا کہ ابے او گلامی تیرے پیر کو یوں توں کروں، دیکھ میرا سجاده آیا، آج اٹھارہ کنڈے لاتا ہوں۔

الغرض ایک عالم امڈا، ہر سیکہ شہزادے کے شوق دیدار میں چلا، اور وزیر اعظم شہزادہ عالم کے استقبال کے واسطے بڑے کر و فر سے روانہ ہوا۔ آرام دل کی فوج اس قدر تھی کہ سواری تو پانچ کوس پر تھی اور نشان کا ہاتھی شہر کے اندر داخل ہوا۔۔ادھر سے شہر کی خلقت امڈی، ادهر سے سواری آئی۔ اللہ اكبر وه ہجوم و ازدهام، آدمیوں کے شور غل سے وہ دھوم دھام کہ خلقت ایک جگہ پہروں اڑی رہتی تھی، سواری دو دو گھڑی کھڑی
رہتی تھی۔

ریختہ 347

الحاصل سواری کے آنے کی صبح خبر پہنچی، مگر شہزادہ عالم دو گھڑی دن رہے شہر میں داخل ہوئے۔ خلقت دو راستہ صف باندھ کر سلام کرتی تھی۔ آرام دل سلام کا جواب اشارے سے دیتا تھا، جب زیادہ گھبراتا تھا تو ہاتھ اٹھا لیتا تھا۔ سلام کے جواب پر لوگوں میں ردو بدل ہوتی تھی۔ ایک کہتا تھا، "نہیں پہ میرے سلام کا جواب ہے" وہ جواب دیتا تھا کہ میاں تمہاری طرف تو دیکھا بھی نہیں۔ غرض اسی پر ہلچل ہوتی تھی۔ پچھلے ہاتھی پر چوب دار روپے اور اشرفیوں کی کھچڑی تقسیم کرتا آتا تھا؛ شہدوں نے کسی سے اس کا نام پوچھ لیا، پھر تو وہ گالیاں سنائیں، ایسی دھجیاں اڑائیں کہ اس كا ناک میں دم کر دیا؛ ہنساتے ہنساتے لوگوں کو بسمل کر دیا۔ کسی نے ہاتھی کا بینڈ پھینک مارا، کسی نے گالی دے کر پکارا، کسی
نے کیچڑ پھینکی، کسی نے لکڑی بڑها کے پگڑی اچھال دی، کوئی بولا 'ابے او کرم بکس، تجھے علی کی مار کوئی چهرہ ادهر تو پھینک" کسی نے کہا "او بڈھے، تجھے خدا کی سنوار! دیکھ لے ہم دعا دیتے ییں ذرا ادھر تو دیکھ۔" کسی نے کہا "ابے او کرم بکس ہمارا سہجادہ¹ تو بڑا سکھی داتا ہے، مگر معلوم ہوا کہ سہجادی² کنجوس مکھی چوس یے۔ اے پدر کے گھوڑے، تو بھی اسی کا نوکر معلوم ہوتا ہے۔" جب وہ بے چارہ مٹھیاں بھر بھر کر پھینکتا تو شہدے کہتے "ہاں پٹھے ہاں، بنے پھینکے جا، واه تیرا کیا کہنا ہے، اے تو تو لبوجهنا ہے، تجھے الو کا پٹھا کون کہتا ہے۔ غرض لیتے جاتے تھے اور گالیاں دیتے جاتے تھے۔ کہیں ایک

1- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں بادشاہ ہے۔
2- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں سجادہ ہے۔

348

بے چارہ مسافر کھڑا سواری کی سیر دیکھ رہا تھا، اتفاقا ایک۔اشرفی اس کے آگے آ پڑی، اس نے اٹھا لی، دو چار شہدے لپکے۔ ایک¹ نے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ " لا بے جردہ لا، اگر دے دے گا تو اڑان چھلے کی قسم ایک ایک چٹا دوں گا۔" جب اس نے انکار کیا تو ایک نے کہا "ابے اس کو چیر غٹو بنا ڈال" دوسرے نے کہا "یہ اس طرح باز نہیں آئے گا، اسے کنڑهتا دے کر اچھال۔" غرض چھین جھپٹ کر کے اس غریب سے وہ اشرفی چھین لی۔ وہ جو رونے لگا تو ایک شہدے نے کہا "نجلہ ابھی جھڑ جائے جو بت کلے پر دو دوں - چل ہٹ بے پرے ہٹ، تین تیرے پیر² کو کھو دوں۔"
قصہ مختصر جب سواری دیوان خاص میں داخل ہوئی، بادشاه تخت پر جلوس فرما چکے تھے اور منتظر تھے کہ شہزادہ یہاں تک آئے تو گلے لگائے، تخت پر بٹھائے، مگر کب رہا جاتا تھا، جوں ہی دیوان خاص تک آنے کا حال سنا، محبت پدری نے جوش کھایا، بے تاب ہو گئے، ذرا قرار نہ آیا، گھبرا کر دوڑے۔ شہزادے کا ہاتھی بیٹھا ہوا تھا، وزیراعظم سیڑھی پکڑے ہوئے شہزادے کو اتار رہے تھے۔ آرام دل نے باپ کو بے قرار آتے دیکھا، گھبرا کر زینے پر سے کود پڑا اور دوڑ کر باپ کا قدم بوس ہوا۔ رو رو کے پشت پا سے آنکھیں ملنے لگا۔ ایسا رویا کہ ہچکی بندھ گئی۔ بادشاہ فرزند کو آغوش میں دبائے، اس کی پیٹھ پر منہ رکھے ہوئے، لب چبا چبا کے ضبط سے روتے تھے، ریش مبارک آنسوؤں سے بھگوتے³ تھے اور کہتے تھے کہ بابا گھر کو بے چراغ،


1- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "ایک نے" نہیں ہے۔
2- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں یہ لفظ نہیں ہے۔
3- نسخہ مطبوعہ "دهوتے" ہے۔

ریختہ 349

خاک سیاہ کر گئے تھے، یمیں دین و دنیا سے تباہ کر گئے تھے۔ بادشاہ جب بہ بیان فرماتے تھے لوگوں کے کلیجے پھٹے جاتے تھے۔ ملکہ حسن افروز اور صنوبر اور سیم تن یہ بھی اپنے اپنے ہاتھیوں پر عماری کی چلونوں میں سے دیکھ کر افسوس کر رہی تھیں۔ اپنے اپنے والدین کو یاد کر کے ٹھنڈی ٹھنڈی سانس بھر رہی تهیں۔
غرض دیر تک یہی کیفیت رہی، سبھوں کو بہ شدت رقت رہی۔ آخر بادشاہ نے سمجھا کر آرام دل کو محل میں بھیجا۔ دروازے پر ایک ہجوم تھا۔ سب عزیز و اقربا، خواصیں، مغلانیاں، نوکر چاکر شہزادے کے آنے کے منتظر تھے۔ بیگم صاحبہ اپنے فرزند کے شوق دیدار میں دروازے کے بایر نکلی جاتی تھیں، لوگ روکتے تھے، مگر باز نہیں آتی تھیں۔ آرام دل اسی بے قراری میں آتے ہی ماں کے قدموں پر گر پڑا۔ اس نے اپنے آرام دل کو کلیجے سے لگایا اور ایسی اشک بار ہوئی کہ فوراً غش آیا۔ لوگ زار زار روتے تھے، کسی کو کسی کی خبر نہ تھی، سب لوگ بے قرار ہو رہے تھے۔ آخر بادشاہ نے آ کر¹ سب کو تسلی دی اور رونے سے منع فرمایا۔ بیگم صاحبہ کو بھی ہوش آیا۔ سواریاں اتریں۔ ملکہ حسن افروز اور صنوبر اور سیم تن پری تینوں نے سسرے کو شرما شرما کر تسلیم کی، ساس² کی بڑی تعظیم کی۔ بادشاہ نے بہوؤں پر سے بہت سا زر و جواہر نثار کیا۔ بیگم صاحب نے سب کو گلے لگا کر خوب پیار کیا۔ لوگوں نے شہزادیوں کو گھیر لیا، ان کے دیدار سے اپنا دل سیر کیا۔ رونمائی میں جواہرات اور


1 - نسخہ مطبوعہ 1918ء میں یہ لفظ نہیں ہے۔
۲- نسخہ مطبوعہ 1918ء میں "ساس کی" نہیں ہے۔

ریختہ 350

اشرفیاں اس قدر آئیں کہ شہزادیوں کے آگے ڈھیر لگ گئے۔ بادشاہ نے جدا جدا تینوں بہوؤں کو تین محل عنایت کیے اور سب کے کارخانے الگ الگ مقرر کر دیے۔ ملکہ حسن افروز کے واسطے زمرد محل آراستہ ہوا، صنوبر کے لیے شیش محل سجا گیا، موتی محل میں سیم تن کے واسطے خواصیں اور پیش خدمتیں مقرر ہوئیں۔ پھر ازسرنو کارخانہ درست ہوا۔
غرض اس رات تمام شہر میں فرط سرور سے کیفیت شب برات رہی، گھر گھر ناچ رنگ، ہر محلے میں جشن، شب ہائے آلام گزشتہ کی مکافات رہی۔ صبح دم بادشاہ نے آرام دل کو تخت پر بٹھایا، آپ سلطنت سے دست بردار ہوئے، گوشۂ عافیت پسند فرمایا۔ شہزاده آرام دل شہنشاہ گیتی ستاں ہوا، جہان پناہ و ماہ تاباں ہوا۔ وزرأ امرا نے پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور نذریں پیش کیں۔ شہزادہ جواں بخت، بلند اقبال نے ہر ایک کو على قدر مراتب خلعت گراں بہا سے سرفراز فرمایا اور محمود وفادار کو مصاحبت میں ممتاز فرمایا۔ پھر شاہ آرام دل دربار برخاست کر کے محل میں داخل ہوا۔ اسی روز سے یہ معمول رکھا کہ ایک شب ملكہ حسن افروز اور ایک رات صنوبر پری پیکر کے ساتھ جشن کرتا اور ایک شب سیم تن پری کے محل میں رہتا۔ تینوں شہزادیوں میں وہ محبت ہوئی کہ ایک دوسرے کی عاشق تھی۔ ایک کی محبت دوسرے کی الفت پر فائق تھی۔ آرام دل نے شہزادیوں کے مشورے سے شمس الدين اپنے وزیر زادے کے ساتھ بڑی دھوم سے قمرالنساء کی شادی کی، ان دونوں کی بھی خانہ آبادی کی۔ پھر مدام با عیش و نشاط و فرحت و انبساط سب عاشق و معشوق مل کر رہنے لگے۔ فلک کج رفتار سے یہ کس کو امید تھی، مگر شکر یے کہ خدا نے یہ دن دکھایا، بچھڑوں کو ملایا۔ جس طرح ان سب کے مقاصد دلی
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
351

حاصل ہوئے اُسی طرح اللہ تعالیٰ تمام عالم کے مطالب بر لائے اور سب کے صدقے میں مصنف کی بھی دل کی مراد دے ۔ آمین ۔ صلے اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد و آلہ و اصحابہ اجمعین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

352

24

خاتمے میں مختصر احوال مصنف کتاب کا، پھر تذکرہ چند بزرگان و احباب کا، اور وجہ تصنیف داستان، پھر ایک نئے جلسے کا بیان

بعد حمد و صلوٰۃ کے سید فخر الدّین حسین سخن مصنف کتاب خدمت میں ارباب دانش اور اصحاب بینش کے عرض رسا ہے کہ یہ غریب الوطن دہلوی مولد اور لکھنوی مسکن ہے۔ ایام طفولیت تا سن شعور اسی شہر مردم خیز میں رہا اور اب آوارۂ وطن ہے : میر تقی

دھلی جو ایک شہر تھا رشک نعیم خلد

تھے جمع عمدہ لوگ وہاں ہر دیار کے

اُس کو فلک نے مار کے تاراج کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے

حضرت جناب تقدس مآب، گردوں رکاب، سر دفتر محقصان سخن، افسر شاعران زمن، نجم الدّولہ، دبیر الملک نواب اسد اللہ خان بہادر سہراب جنگ عرف مرزا نوشہ تخلص غالب اعلیٰ اللہ در جتہ و تعالیٰ اللہ تعالیٰ شانہ جو جد فاسد محرر داستان ہیں، سر آمد شاعران حال و گزشتگان ہیں؛ عرصہ دراز تک کم ترین کو معظم الیہ سے درس و تدریس میں استفادہ رہا، تحریر نظم و نثر فارسی اور اردو کی مزاولت پر دل آمادہ رہا۔ سبحان اللہ! حضرت غالب مد ظلہ العالی امام شعرائے ذی کمال اور پیشوائے نثاران صاحب دانش و شعور ہیں، قبلۂ ارباب دیوان ہیں۔ ہم کیا کہیں وہ تو ہند سے شیراز تک، بلکہ دور دور

353

آفتاب سے زیادہ مشہور ہیں۔ شاعر بہت سے گزر گئے، حضرت کے ہم عصر ہم سری کا دعویٰ کر کے لکھتے لکھتے رہ گئے، مگر آج تک کوئی آپ سے بہتر نہ ہوا، بہتر تو کیا کوئی آپ کے برابر نہ ہوا۔ منصف مزاج آپ کا کلام دیکھے اور غور فرمائے۔ طبع عالی دقت پسند اور مسائل بندش معانی بلند ہے۔ اگر سمجھے تو لطف اُٹھائے۔ دیوان اردو جب تصنیف فرمایا معنی رس اور سخن دان لوگوں نے ایک ایک شعر میں سو سو طرح کا مزہ پایا۔ لیکن بعضے شاعر جو بڑے مشاق تھے، اپنے فن میں طاق، شہرۂ آفاق تھے، اکثر اشعار نہ سمجھے اور ہر ایک مصرع پر الجھے، یہاں تک کہ اضلاع اور امصار سے خطوط آنے لگے، لوگ نواب صاحب کی خدمت میں مطلب دریافت کرنے جانے لگے۔ آسان اشعار کہنے کی فرمائش ہوئی، دوسرا دیوان مرتب کرنے کی خواہش ہوئی۔ آپ نے اس دیوان کو دریا برد کیا اور دوسرا دیوان موافق فہم ابنائے روزگار کے ترتیب دیا۔ پھر یہ رباعی لکھ کر لوگوں کو سنا دی اور دیوان کے آخر میں لگا دی : غالب مد ظلہ

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل

سن سن کے اُسے سخن وران کامل

آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش

گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل

تواریخ ”مہر نیم روز“ اور ”ماہ نہم ماہ؛ حسب الحکم شاہ ثریا جاہ از آغاز پیدائش حضرت آدم تا زمان صاحب قرآن ثانی امیر تیمور گورکانی اور دوسری جلد میں وہاں سے عہد بہادر شاہ ثانی تک ایک مہینے کے عرصے میں اس فصاحت اور بلاغت کے ساتھ لکھی کہ سب اُستادوں نے آپ کے آگے قلم رکھ دیا۔ پھر لکھنے کا نام نہ لیا۔ مورخین سلف کی کتابیں ردی ہو گئیں۔ اتنی بڑی تاریخ کو دو

354

جلدوں میں اور دو جلدوں کو اٹھارہ جزو میں تمام کیا، دریا کو کوزے میں بھرا، واقعی عجب کام کیا، انشائے پنج آہنگ کو، کہ جس میں صد ہا مکتوب ہیں، سخن فہم کو مرغوب ہیں، تین روز میں تصنیف کیا۔ مثنوی باد مخالف جو کلکتے میں رقم فرمائی، اُسے ایک دن میں تالیف کیا۔ دستنبو کتاب کی بے آمیزش لفظ عربی بالکل عبارت ہے جس میں مختصر مذکور حالات زمانۂ غدر اور کچھ اپنی سر گزشت ہے۔ جو شخص آپ کے احوال دریافت کرنے کا شایق ہے، وہ دستنبو دیکھے۔ یہ کتاب اُس کے دیکھنے کے لائق ہے۔

الغرض میں رنجور، دور از سرور جب تک دھلی میں رھا، زندگی کا لطف اٹھاتا رہا۔ حضرت ممدوح کے فیضان صحبت سے ثمرۂ نیک پاتا رہا۔ جب حضرت والد ماجد مد ظلال جلالہ کی زیارت اور قدم بوسی کا اشتیاق ہوا، پھر تو شاہ جہاں آباد میں رہنا شاق ہوا۔ ۱۲۶۹ ہجری میں بلدۂ لکھنؤ میں آیا۔ قیصر باغ کا میلہ دیکھا، شہر کی سیر کی، چندے جی بہلایا۔ حضرت قدر قدرت، قضا شوکت، فلک مرتبت، ذوالمجد والکرم، مقدس و محترم، قبلہ و کعبہ دو جہان، ممدوح برناؤ پیر جناب خواجہ محمد بشیر صاحب مدظلہ جو زمانۂ واجد علی شاہ میں مہتمم فوج داری کل ممالک محروسہ ملک اودھ کے تھے عموی فقیر ہیں۔ لکھنؤ میں سب اہل نظر جانتے ہیں، اصحاب بینش پہچانتے ہیں کہ خواجہ صاحب عالی خاندان، ذی جاہ و مرتبت، صاحب علم و حلم، فارسی داں، یکتا و بے نظیر ہیں، اُن کے پاس رہا۔ بعد عرصے کے حضرت جناب گردوں رکاب، قدوۂ خاندان مصطفوی، زبدۂ دودمان مرتضوی، کریم ابن الکریم جناب پھوپھا صاحب قبلہ و کعبہ مرزا محمد ابراہیم صاحب خلف الصدق حضرت جناب مرزا محمد صدیق صاحب بہادر صدر امین

355

اعلیٰ ضلع سارن مد ظلال جلالہم کہ سید سندی ہیں، عالی خاندان مشہور نزدیک و دور ہیں۔ اجداد و اتحاد اور نیاگان کے وقت سے بہ وجہ عطائے خطاب شاہی بہ لقب میرزائی مشہور ہیں، لکھنؤ سے قصبۃ آرہ ضلع شاہ آباد میں تشریف لائے۔ میری شادی کرنے کا اپنی فرزندی میں لینے کا ارادہ مستحکم تھا ، اس لیے راقم الحروف کو بھی اپنے ہم راہ لائے ۔ ہاں حضرت قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، مقبول بارگاہ رب العلا ماہر عز و اعتلا، مرجع الانام، منبع الاکرام، واقف اسرار خفی و جلی، حضرت جناب مخدوم شاہ سید امداد علی صاحب کی ملازمت حاصل ہوئی جناب قبلہ و کعبہ دو جہان، جد امجدنا حضرت ابوالقاسم خواجہ نظام الدین احمد عرف فقیر صاحب برد اللہ مضجعہ و نور اللہ مرقدہ حضرت موصوف سے کال محبت رکھتے تھے، حقیقی بھائی زیادہ الفت رکھتے تھے، اور جناب کریم و مکرم مطاع عالم، عقدہ کشائے سلسلہ کار بستگان، دست گیر در ماندگان و پاشکستگان، مصدر جود و مخا، معدن رطف و عطا، جگر بند علی، جناب مولوی سید فرزند علی صاحب عم نوالہ کی ملازمت سے بھی شرف اندوز ہوا۔ ذات گرامی صفات ان کی بھی اس زمانے میں غنیمت ہے ۔ میں ان کے اخلاق اور شان و رحم و کرم پر جان و دل نثار ہوں۔ ان کو بھی میرے ساتھ قلبی محبت ہے، مگر جناب مستغنی الالقاب مخدومی مکرمی مولوی سید باقر علی صاحب جن کو ہارے حضرت ہادی ویر و مرشد مدظلال جلالہ کے حضور سے ملک الشعرا کا خطاب سے ) واقعی ایک ایک شعر ان کا فرد ہے ۔ کلام میں انتہا کی شوخی اور درد ہے، دیوان منتخب ہے، لا جواب ہے ۔ فضل خدا ہمت مردانہ رکھتے ہیں، وہ کم ترین سے محبت برادرانہ رکھتے ہیں

----

ا. نسخہ مطبوعہ ۱۹۱۸ء میں یہ لفظ نہیں ہے ۔

356

کمال عنایت فرماتے ہیں۔ غریب خانے پر اکثر تشریف لاتے ہیں۔ مجھے شغل وکالت ہے، روزمرہ دربار جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ کبھی جو عدم فرصت کے سبب سے عرصہ ہو جاتا ہے، تو دل بے قرار کو چین نہیں آتا ہے۔ مولوی صاحب ممدوح بھی بے چین ہو جاتے ہیں، آدمی بھیجتے ہیں، خود کرم فرماتے ہیں، اور ایک ہمارے شفیق مرد با وضع اور خلیق، سخن ور بے عدیل و نظیر سرگروہ انجمن نکتہ دان عالی وقار مولوی محمد نور الحسن صاحب کہ اُن کے اخلاق مسعود اور اوصاف محمود اگر لکھوں تو ایک دوسری کتاب تصنیف ہو، مگر پھر بھی جیسا جی چاہتا ہے اس قدر نہ تعریف ہو۔ وہ بھی اس ضلع میں زمیندار کلاں اور وکیل ہیں، خدا تعالیٰ کے فضل سے با اقتدار صاحب عمدہ جلیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگواروں کو شاد رکھے! دشمنوں کو ان کے ناشاد اور دوستوں کو آباد رکھے! مصرعہ

این دعا از من و از خلق خدا آمیں باد

اور وجہ تصنیف اس داستان(1) کی یہ ہے کہ فقیر مدام دل شاد آزاد رہتا تھا، ایک روز یہ جی میں آیا کہ فضل خدا سے اب ذی شعور ہوئے، سن تمیز پایا، بقائے نام و نشان کی فکر کرنی ضرور ہے، فرصت کو غنیمت مہم سمجھنا کار ہر ذی شعور ہے۔ بس آخر بات ذہن میں آئی کہ بہترین یادگار اس دھر نا پائدار میں تالیف اور تصنیف ہے۔ اسی سے لوگوں کا جہاں میں نام ہے ان کی تعریف ہے : مصنف

سخن سخن سا میں اور کوئی خلف الصدق

کہ تا بہ حشر جیے، نام باپ کا رکھے

---

1- نسخہ مطبوعہ ۱۹۱۸ء میں ”کتاب“ ہے۔

357

بقائے نام کی صورت نہیں ہے اس کے سوا

یہ وہ نگینہ ہے جو نام کو جلا رکھے

بغیر جہد مصنف ہر ایک کے آگے

مثال نکہت گل آپ کو سدا رکھے

غرض سخن سے زیادہ نہیں ہے چیز کوئی

سدا زمانے میں قائم اسے خدا رکھے!

اور قطع نظر اس کے اپنا دل لذت گیر چاشنی محبت ہے، عاشقانہ طبیعی اُلفت ہے، کچھ ان دنوں طبیعت زیادہ مائل و وارفتہ ہے۔ ہر چند دل عشق منزل لڑکپن سے انہیں باتوں کا خو گرفتہ ہے: فرد

طفلی میں بھی ہٹ کرتے تھے ھم اور طرح کی

بہلاتی تھی(1) دایہ تو گل داغ جگر سے

الغرض اسی تردد، طبیعت کی واشد میں عرصہ گزرا ۔ آخر نہ رہ سکا، دل نے اظہار حسن و عشق میں بڑی کد کی اور معشوق نے بھی اپنے عاشق پر اس امر میں تاکید از حد کی۔ ناچار قصہ شہ زادہ آرام دل اور ملکہ حسن افروز کا اپنی طبیعت کے زور سے قلم بند کیا، طالب اور مطلوب دونوں کو خرسند کیا۔ جب یہ قصہ تمام ہوا ”سروش سخن“ اس کا نام ہوا۔ اس نام میں یہ خوبی ہے کہ ہم نام و ہم تاریخ، مگر ترکیب میں اس کی اضافت مقلوبی ہے۔

تاریخ تصنیف از مصنف

سن کے ہماری داستاں کہنے لگے یہ نکتہ دان

عشق کا خوب ہے بیان قصہ بھی یہ عجیب ہے

---

1۔ نسخہ مطبوعہ ۱۹۱۸ء میں ”چلاتی تھی دابہ بہ گل داغ جگر ہے“ ہے۔

358

لکھنے کو سال اے سخن فکر جو دل میں کی ذرا

ہاتف غیب نے کہا نغمۂ عندلیب ہے

1276ھ (مطابق 1859-60ء)

تاریخ طبع از مصنف

چون بہ تائید خدا انجام یافت

قصۂ دلچسپ و مرغوب بیان

داستان عشق چوں کردم رقم

ہدیۂ آوردم بہ پیش دوستاں

سال طبعش اے سخن ہاتف بگفت

طبع شد زیبا و دل کش داستان 1281ھ

بیان جلسہ

ایک جلسہ ہمارے دوستوں کا جو موسوم بہ انجمن احباب ہے، بہ اتفاق یاران جلسہ وہ ایجاد ہوا، حقیقت میں لاجواب ہے۔ ایک دستور العمل حاوی سب کاروبار ضروری، بلکہ جملہ امور دینی و دنیوی طیار ہے۔ سب احباب کا اُسی پر دار و مدار ہے۔ زبان نہایت فصیح صاحبان جلسہ کی ایجاد سب زبانوں سے جدا ہے۔ اُس میں ہر ایک کو خوب مشاقی حاصل ہے۔ صرف کتابت انگریزی نہیں، مگر مثل انگریزی خوش نما ہے۔ اس جلسے کے واسطے خاص ایک مکان رفیع الشان مع اسباب ضروری و سامان عیش و نشاط سجا ہوا ہے۔ ہر طرح مرتب ہے۔ ہر چیز وہاں مہیا ہے۔ روزمرہ اُس مکان میں سب احباب کی نشست ہوتی ہے۔ دوست آشنا آتے ہیں، قرینے سے بیٹھتے ہیں، پیچوان پیتے ہیں اور گلوریاں نفیس کھاتے ہیں، کیفیت ہوتی ہے۔ ہر مہینے اُنتیسویں تاریخ جلسہ کلاں ہوتا ہے، میلے کا لطف ہوتا ہے،

359

موجود ہر پیرو جوان ہوتا ہے، رنج و الم سب سے دور ہوتا ہے۔ تعظیم اور تواضع ہر فرد بشر کی مد نظر رہتی ہے۔ ہر ایک دل مسرور رہتا ہے۔ اس روز پچیس روپے کے ٹکے فقرا اور مساکین للّٰہ تقسیم ہوتے ہیں۔ ان لڑکوں کو اکثر دیے جاتے ہیں جو یتیم ہوتے ہیں۔ چنانچہ بہ اُنتیسویں کا جلسہ ہمارا مشہور ہے۔ دکان دار مکان کے دروازے پر دکانیں لگاتے ہیں۔ لوگ دور دور سے سیر دیکھنے کو آتے ہیں۔ شاہدان گل غدار اور مہ و شان پری رخسار کی کثرت سے وہ مکان پرستان ہوتا ہے وہاں کی زیب و زینت اور روشنی کی کیفیت دیکھ کر راہ چلتوں کو شادی کی محفل کا گمان ہوتا ہے۔ تمام شہر کی طوائف نامی مجرے کے واسطے طلب کی جاتی ہیں، اکثر ہوتا ہے کہ خود چلی آتی ہیں۔ سب احباب ایک طرح کی پوشاک پہن کر بیٹھتے ہیں۔ از سر تا پا بلا فرق سب کی ایک وضع ہوتی ہے۔ فرط محبت سے باہم کچھ عجب ڈھنگ ہیں کہ دوئی کا نام نہیں۔ سب آشنا یک رنگ ہیں۔ اس بزم میں پہلے غزل خوانی کا چرچا ہوتا ہے، بعد اس کے رقص و سرود کی محفل آراستہ ہوتی ہے۔ صبح تک عجب لطف کا جلسہ ہوتا ہے۔ سب احباب فضل الہٰی سے ملازم سرکار دولت مدار ہیں۔ عہدہ ہائے جلیل پر مقرر ہیں، جہت ہوشیار کارگزار ہیں۔ جملہ اشخاص اکثر علوم و فنون میں استعداد کامل رکھتے ہیں، طاق ہیں۔ ہمہ دان شاعر نام آور ہیں۔ شعر گوئی میں مشاق ہیں۔ یادش بخیر جناب سید محمد افضل صاحب خضر تخلص جو عدالت دیوانی ضلع شاہ آباد میں امین درجۂ اوّل کے ہیں، عالیٰ خاندان، نیک ذات، خجستہ صفات، بے تکلّف، انتہا کے ذہین اور فطین، بامذاق، لطیفہ گو، حاضر جواب ہیں، دوستوں میں ہمارے انتخاب ہیں۔ سید فرزند احمد صاحب صفیر بلگرامی جو صاحب دیوان

360

ہیں، تحریر اُن کی چست، روزمرہ درست، نہایت خوش بیان ہیں۔ ہر شہر و دیار میں اُن کی علو خاندانی کی شہرت ہے، ہر جگہ اُن کی قدر و منزلت ہے، بیان کرنے کی کیا حاجت ہے۔ اور صدر نشین اریکۂ برتری منشی احمد حسین صاحب منشی محکمۂ سرسری عرف میاں جان، حیرت تخلّص مرد با وضع، عالیٰ ہمّت، ذکی، نکتہ سنج، بے رنج، سخن فہم، خوش رو جوان ہیں، پیکر سخن کی جان ہیں۔ ایک ادنیٰ وصف خلق اُن کا یہ ہے کہ جس شخص سے ایک بار ملاقات کرتے ہیں وہ ان کا بہ دل مشتاق رہتا ہے، تما عمر اُسے اُن کی ملاقات کا اشتیاق رہتا ہے۔ واقعی بڑے چالاک، نہایت طرار، سحر گفتار ہیں، جوان رعنا خوش پوشاک، وضع دار ہیں۔ حکیم سید لقمان حیدر صاحب کہ متخلص بہ فقیر ہیں، کمال دانش مند، ارسطو فطرت، لقمان ثانی، طبیب بے نظیر ہیں، کتابیں خوب یاد ہیں۔ تشخیص بہت اچہی، نہایت خوبصورت، نیک سیرت، قابل صحبت اور لائق ملاقات ہیں، مگر ملاقات کم کرتے ہیں، پابند اوقات ہیں۔ محمد برکت اللہ خان صاحب سیفی تخلص کہ فی الحقیقت سیف زباں، جادو بیاں، یار با وفا، بے تکلف، محبت میں یکتا ہیں، ان کی کیا بات ہے، عجیب ذی مروت آشنا ہیں۔ محمد اصغر صاحب اصغر تخلص بلگرامی کہ ہر علم و فن میں ماہر ہیں، شاعری کے واسطے موزوں ہیں۔ نہایت نازک خیال، پر گو، معاملہ بند، محقق شاعر ہیں۔ طبیعت بہت لطیف رکھتے ہیں، مگر بالفعل اس جلسے میں شریک نہیں ہیں؛ بہ حصول رخصت، بہ اجازت ارباب انجمن اپنے وطن میں تشریف رکھتے ہیں۔ منشی بالک رام صاحب منشی تخلص جو محرر محکۂ کلکٹری اور زمیں دار ہیں، رہ نورد جادۂ محبت، گام فرمائے وادئ مروت، آشنا پرست، ذی جاہ و وقار ہیں ۔ مدیر امجد حسین

361

اور منشی ریاض علی اور منشی بنیاد علی تخلص توقیر، یہ تینوں صاحب رئیساں عظیم آباد ہیں؛ ذی جوہر، بحر خوبی کے گوہر ہیں، باغ عالم میں بسان سر و غم و الم سے آزاد ہیں۔ بابو سنت پرشاد اور منشی علی حیدر صاحب حیدری تخلص یہ دونوں نوجوان محکمۂ کلکٹری اور فیزی فن میں ہیڈ رائٹر ہیں، سرکاری نوکر ہیں، علم انگریزی اور فارسی میں بہرہ کامل رکھتے ہیں، بہت اچھی استعداد ہے، خلیق ہیں، ہر ایک سے محبت بہ دل رکھتے ہیں۔ منشی عطا حسین صاحب کہ جن کو 1861ء میں سند وکالت درجۂ اول کی ہ،ارے ساتھ ہی عطا ہوئی ہے، کیسے قانون دان اور لائق ہیں کہ جن کا جواب نہیں، آمدنی ایسی کثیر ہے کہ جس کا حساب نہیں۔ منشی کیرت نراین صاحب پیش کار فوج داری شوکت تخلص، منتظم، خوش سلیقہ، با اخلاق وضع دار ہیں۔ ان کی ذات سے خیر بہت جاری ہے۔ شریر النفس کو اُس کے جرائم کی سزا قرار واقعی دیتے ہیں، بڑے کار گزار ہیں۔ راجا صاحب آباد اور منشی بے نظیر منشی نظر علی صاحب نظیر و سید عبد الحلیم صاحب حلیم اور میاں جان صاحب نہال اور منشی رگھو بردیال صاحب مشیر بہ سب صاحب آشنائے بحر محبت ہیں۔ انہیں لوگوں سے رونق انجمن ہے ۔ اس جلسے کا شریک ایک یہ خوشہ چین خرمن بے دانشی محرر داستان ہیچ ہمدان، کم ترین فخر الدین حسین سخن ہے۔ جامع المتفرقین خدائے توانا ارحم الراحمین کے افضال و کرم سے یبہ جلسہ ایسا با زیب و زینت ہے کہ خوش و خرم سب احباب ہیں۔ دوست دیکھ کر مسرور ہوتے ہیں، دشمنوں کے دل آتش رشک و حسد سے کباب ہوتے ہیں۔ جو علم موسیقی کا کامل یہاں آتا ہے، اسی جلسے میں مجرا کیے بغیر نہیں جاتا ہے۔ اکثر طوائف لکھنؤ سے آتیں، ارباب جلسہ نے اُن کے ساتھ وہ کام کیا، ایسا کچھ دیا کہ آج تک

362

دولت مند اور شاد ہیں۔ فراموش کاری، ایسے لوگوں کا شعار ہوتا ہے، مگر صاحبان جلسہ کے احسانات سب انہیں یاد ہیں۔ ایک اُن سے ایک راجا کی سرکار میں ہزار روپے مہینے کی نوکر ہے، مگر یاران انجمن کے فراق میں، اس جلسے کے اشتیاق میں زندگی سے بیزار ہے۔ کبھی جو ذکر آتا ہے، کوئی اس جلسے کی خبر سناتا ہ تو رو دیتی ہے، لیکن اتفاقات زمانہ سے مجبور ہے، ناچار ہے۔

الغرض ارباب جلسہ کے اوصاف اور اس انجمن کے فوائد اگر سب لکھے جائیں تو کئی کتابیں تصنیف ہوں، اس واسطے اس کتاب میں مختصر اس قدر حال رقم کیا، زیادہ طول نہ دیا۔ اللہ تعالیٰ سب دوستوں کو خوش و خرم رکھے! فلک تفرقہ انداز بد نظر سے نہ دیکھے! حافظ حقیقی سب کا نگہ بان رہے، اور بالاتفاق سبھوں کو باہم رکھے۔ آمین ثم آمین .

----

تمت بالخیر
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ...صفحہ 251
۱۸۳
اور ہمارا بھی الم کرنا عبث ہے کیوں که کسی پر کسی کا زورنہیں چل سکتا ہے ۔ ہمارا تو پهلے هی به اراده هے که آپ سے ترک ملاقات کریں گے ۔ هزار منتیں کیجیے گا، مگر هرگز بات نه کریں گے۔ اور یه جو کوئی کہے که دل کیوں کر مانے گا ، اس سے کیا کہو گی ، ہجر کے صدمے کیوں کر سہوگی ؟ تو هم ایسے بہلا لیں گے ، اس سے سمجھ لیں گے ، اسے سمجھا لیں گے :
رندپھینک دیں گے ابھی هم چیر کے پہلو اپنا
تم په قابو نہیں دل په تو هے قابو۔ اپنا
آرام دل نے کها ديکھو ، ذرا زبان سنبھادو ، بےهوده کلمه زبان نه نکالو ۔ اس بے چارے شاه داراب نے تمھارا کیا کیا جواس کو گالیاں دیتی هو . اس کے فرشتے کیا کہتے هوں گے ؟
نا حق گناہ اپنے ذمے لیتی ھو ۔ اور ملاقات کے باب میں کیا کها ،
ذرا پھر کہنا ، تمھیں میری جان کی قسم ! خاموش نه رهنا ،،
ملکه نے کها “هان هان؛ میں سچ کهتی هوں ۔ آپ میرا کیا کیجیے گا ؟ میں کیا بغير كہے رهتی هوں ؟ اور میں تو یہ حيران هوں که آپ : ع
اس قدر کیوں خوشی سے پھولے هیں
هر دفعه جو دباتے هیں ، کم زور سمجھ کر دھمکاتے هیں تو گھمنڈ پر بھولے هیں ؟ بيت
یوں جو کرتے هو برملا دعوی
آپ کا کہیے ! مجھ په کیا دعويٰ

اور کیوں جی هم نے کس کو گالی دی جو تم اتنا بگڑتے هو ؟
صنوبر کا کچھ برا چیتا جو شیر کی طرح غرا کر لڑتے هو ؟ خدا کے لیے قمر النسا چلو، میں یهاں هرگز نه ٹھہروں گی ۔ ان کے تو سر پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ۔صفحہ 252
۱۸۳

آج جن سوار هے - هوا سے لڑتے هیں ، بات بات میں بگڑتے هیں ،خدا جانے کیا اسرار ھے ۔
یه کهه کر اٹھی اور شه زادے کو دو چار سخت و سست سنا کر ، بگڑ کر ،منه بنا کر چلی ۔ آرام دل هاتھ جوڑ کر قدموں پر گر پڑا ، رونے لگا . ملکه نے کها که سبحان اللّہ! رو رو کے ڈراتے هو - ماشاء اللّہ ! بگڑے کو بنانے هو - بس هٹو صاحب! آب دل کی صفائی به خیر ھے۔ ایک مدت گلستان وصال میں شاداں رھے ،اب دیکھیے بوستان فراق میں عجب سیر ھے ۔
غرض دیر تک یہ کیفیت رهی - به روٹھی رهیں ، أدهر
غشی رهی . آخر عاشق کو کهاں تک صبر هو ، پاس سخن سے دل پر خبر هو . ملکه نے پاس آ کر عاشق جاں باز کا سر اٹھا کراپنے زانو پر رکھا ۔ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کاکل رخ پرسرکانے لگی ، زلف معنبر سونگھانے لگی ۔ کف دست صندلی جو پیشانی مریض عشق پر گی، صندل کا کام کر گئی - هاتھ لگاتے هی درد سر دور هوا ، دل بادۂ انبساط سے مسرور هوا - شه زادے کو
هوش آیا ، گھبرا کر اٹھ بیٹھا ، مگر خجالت سے
سر جھکا لیا ۔
ملکه نے فرمایا : نسیم لکهھنوی
کیا کهتی هوں میں ادھر تو دیکھو
میری طرف اک نظر تو دیکھو
هے يا به نهیں خطا تمھاری
فرمائیے کیا سزا تمھاری
آرام دل نے کها :
کی عرض رضا هے جو خوشی هو
عاشق کی سزا جو پوچھتی۔ هو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریختہ صفحہ۔253
۱۸۴

مشکیں زلفوں سے مشکیں کسواؤ
کالے ناگوں سے مجھ کو ڈسواؤ
تلوار سے قتل هو جو منظور
ابرو کے اشارے سے کروچور
زنداں میں جو زندہ بھیجنا هو
اپنے دل تنگ میں جگه دو
الغرض پھر با هم دور ساغر الفت چلنے لگا ، وصال طالب و
مطلوب سے فلک جلنے لگا۔ رات بھر جشن رها . صبح هوتے هی
ملکه روانه هوئی - رات کی کیفیت سب قصه هوئی ، فسانه هوئی ۔
شه زاده شاه کی ملازمت کے واسطے گیا۔ بادشاه نے آرام دل کو
دیکھا ، کمال مسرور هوا - شه زاده قدم بوس هوا ۔ بادشاہ نے سینے
سے لگایا اور فرمایا کہاں گئے تھے؟، آرام دل نے عرض کیا که
فدوی بعد عرصے کے شکار کھیلنے گیا تھا ، صیدگاه میں جو طبیعت
لگ گئی
، چند روز تک شکار کھیلتا رها - آخر مفارقت قدوم میمنت
سے جی بے چین هوا ، گھبرایا ، اسی دم کوچ کیا
كل
اس شہر میں داخل هوا ، آج حضور میں حاضر آیا ۔
غرض آرام دل نے اپنی چرب زبانی سے کچھ جھوٹ کچھ سچ
ملا کر شاہ کی تسکین کر دی ۔ پھر دیر تک باب گفتگو وا رها ،
در تقرير کھلا رها . جب دربار برخاست هوا ، شه زاده موتی محل
میں تشریف لایا - مدام بادۂ انبساط سے مخمور به اميد شادی وصال
شه زادی سے مسرور رهنے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 319

ورود لشکر فیروز اثر صحرائے پر فضا میں، کیفیت
اردوئے معلیٰ، اور نامہ پہنچا صنوبر کا، بے قرار
ہونا آرام دل دل بر کا، پھر متوجہ ہونا
طرف ملک دار اب کے؛ شہ زادہ سیاہ فام
سے لڑنا، اُس کو بھگانا اور شادی
کرنا صنوبر سے

پلا ساقیا آب گل نار رنگ
کہ اب ہجر میں ہے بہت حال تنگ
پلا ساغر بادہ ارغواں
لکھوں اک نئے طور کی داستاں

مے کشان خم خانہ سخن، و تازہ کنندگان داستان کہن رقم کرتے ہیں کہ شہ زادہ آرام دل باھزاراں ھزار کرو فر، لشکر فیروز اثر، شاد کام، فائز المرام منزلیں طے کرتا چلا جاتا تھا؛ جب سرحد ملک فارس سے نکلا، ایک دوسرے ملک میں پہنچا۔ شہر سے سات کوس آگے جاکے ڈیرے ڈالے۔ خیمے ایستادہ ہوئے۔ پلٹنیں جو آگے تھیں، لال پردے کے قریب پہنچ کر تھم گئیں، دو راستہ ادھر اُدھر جم گئیں۔ وردی بجنے لگی، سلامی کی توپ دغنے لگی۔ پلٹنوں کی پشت پر سواروں نے پرے باندھے، رکابوں پر کھڑے ہوکر طعنے سر کیے، سیف نکال کر سلامی دی۔ جب سواری خیمہ فردوس منزل میں پہنچی پلٹنوں کے نشان گر گئے۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 320

سپاہیوں نے کمریں کھولیں، سوار اُترے، گھوڑے رسالوں میں بندھے، توپ خانہ الگ کھڑا ہوا، ایک طرف فیل خانہ بنا، ایک سمت رتھ خانہ اور شتر خانہ درست ہوا۔ بچھیرے شامیانوں کے نیچے، خاصے گھوڑے جدا جدا خیموں میں۔ پانچ کوس تک ادھر فوج، پانچ کوس تک اُدھر سیاہ، بیچ میں شہ زادے کی فرودگاہ، خاص بردار سوا پردہ شاہی کے گرد حلقہ مارے ہوئے اپنے اپنے خیموں میں باعیش و آرام، پہرہ چوکی والے ہوشیار سب خبردار۔ ادھر پلٹنیں اُدھر خاص بردار، ادھر توپ خانہ ادھر سوار۔ بیچ میں اردو بازار آراستہ ہوا۔ دکانیں جم گئیں، کٹورہ بجنے لگا، ہر ایک اپنی اپنی دکانیں سجنے لگا۔ حلوائی، نان بائی، کبابی، عطار، پنساری، کنجڑے، برف والے، خوانچہ والے، تنبولی، پھول والے۔ کوئی آواز لگاتا ہے سلائی برف کی، کوئی سناتا ہے حلوا سوھن ہے جاڑے کا، کبھی ندا آئی تڑاقا ہے پٹی میں، کبھی صدا آئی گلاب جامن ہے مصری کی ڈلیاں، کوئی بولا لونگ چڑے کباب، کسی نے کہا کنٹھے ہیں موتیا کے۔ اور دو راستہ جا بہ جا ساقنیں عجب آن بان سے کورے کورے مداریے تازے کیے، چلمیں برابر آگے رکھی ہوئیں، اُن میں سلقے کا تمباکو جما ہوا۔ ککڑ والے پھرتے گلے میں خلتہ، ہاتھ میں حقہ، دو چلمیں، ایک تیار حقے پر دوسری میں رومال وہ خلتے کے اندر۔ لشکر کی رنڈیاں نوجوان، پاؤں میں زرد مخملی بوٹ، گل بدن کا پائے جامہ، ساسر لیٹ کی چوڑی چوڑی گوٹ، دیکھنے والوں کا جی لوٹ پوٹ۔ لاھی کی انگیا، کرتی مصالحہ ٹکا۔ کرتی سر کی پیٹ کھلا۔ اوپر سے دو شالے کی فرد اوڑھے ہوئے۔ چوٹی کھینچے صاف و شفاف، لچکے کا موباف، پٹی جمی، گلوری کلے میں دبی، ہاتھوں میں سونے کے کڑے، پاؤں میں تین تین چھڑے، گلے میں چمپا کلی دھک دھکی، بازو
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 321

پر نور تن، ناک میں کیل، کانوں میں سادے سادے پتے، بالیاں۔
ناز سے پائینچے اُٹھائے، تیوری پر بل ڈالے، ناک بھوں چڑھائے۔ بعضی کے حسن و جمال کی تمام لشکر میں دھوم، ڈیرے پر عاشقوں کا ہجوم۔ جوان کنٹھے گلے میں ڈالے، بانڈیاں ہاتھوں میں سنبھالے، نشہ مردانگی کے متوالے، البیلوں کی طرح بازار میں ٹہلتے۔ کوئی جلسے میں بیٹا طنبل بجاتا، کوئی لکھنو کی ٹھمری گاتا۔

غرض یہ کہ جنگل میں منگل ہوگیا۔ آرام دل مع ترقی خواھاں و جاں نثاراں زر بفت کے شامیانے کے نیچے جواہر نگار کرسی پر بیٹھے سیر و تماشا میں مصروف تھے۔ خیمہ سلطانی میں ملکہ جہاں اپنی خواصوں اور سہیلیوں کے ساتھ بیٹھی فضائے صحرا کو جو صحن فرود گاہ میں واقع تھا ملاحظہ کر رہی تھی، بادِ وطن میں ہر دم دمِ سرد بھر رہی تھی کہ اس عرصے میں ایک کبوتر بے قرار و مضطر پیاس کے مارے تھرتھراتا پانی کی طرف جاتا نظر آیا۔ ملکہ جا جی للچایا، فرمایا "اسے پکڑو، خبردار جانے نہ پائے۔ مگر پانی پی لینے دو۔" جب کبوتر پانی پی کر نہایا اور پر کھول کر ذرا بازو جھاڑے، دو چار خواتین لپکیں، لیکن دوپٹہ ڈال کر پکڑا۔ قمر النسا کے پاس لائیں، قمر النسا نے شہ زادی کو دیا، ملکہ نے اُسے ہاتھ میں لے کر پیار کیا۔ طائر تیز بال، ھمائے فرخندہ خصال، فرخ فال کے گلے کے بال جو ہوا سے اُڑے ایک کاغذ نظر آیا۔ ملکہ نے ٹٹولا، پھر جلدی سے کھولا اور پڑھا، لکھا تھا:

نامہ از مصنف
اے جان جہاں، و جان عالم
اے گلبن بوستان عالم
اے غنچہ گلشن تمنا
اے بلبل شاخسار زیبا
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 322

اے عاشق زار حسن افروز
اے ہم دم دیدار حسن افروز
اے نیر برج دل ربائی
اے گوہر درج کج ادائی
اے بانی ظلم و جور و آزار
اے ظالم و قاتل ستم گار
اے عاشق زار مہ جبینیاں
اے زخمی غمزہ حسیناں
اے درپئے حسن باختہ ہوش
اے عہد شکن، خدا فراموش
اے باعث سوز عاشق زاد
اے وعدہ خلاف، محو دل دار
اے عاشقوں کے ستانے والے
اے دل جلوں کے جلانے والے
افسوس! کہ تو وہاں ہو خرم
یاں ہم کو ہو ہجر کا ترے غم
ہو غنچہ لب ترا شگفتہ
پژمردہ کنول ہو میرے دل کا
وعدہ تو کیا تھا جاتے جاتے
مہندی نہیں چھوٹتی جو آتے
ہے اب تو یہ حال اور دل آرام
روتے ہیں سحر سے روز تا شام
ہے راتوں کو آہ و گریہ زاری
دن کو تڑپ اور بے قراری
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 323

لاغر ہیں وہ ہجر میں تمہارے
جیتے ہیں بس آہ کے سہارے
فرقت کے سبب سے جان عاری
ہے سارے بدن کو بے قراری
زلفیں ترے ہجر میں پریشاں
آنکھیں ترے واسطے ہیں گریاں
ابرو کا فقط تو ہی ہے مقصود
مژگاں ہیں مدام خوں آلود
ہاتھوں نے بڑی جفا اُٹھائی
کسی دن ہے کلائی کو کل آئی
کیا حالت جسم ناتواں ہے
جان بس کوئی دم میں اب رواں ہے
یاں تک تو جو کچھ گزرتی ہے خیر
پر آگے کچھ اور دیکھے سیر
گردوں کی جگائیں اب بتائیں
حال دل غم زدہ سنائیں
شہ زادہ سیام فام آیا
دو لاکھ سوار ساتھ لایا
آتے ہی لیا ہے شہر کو گھیر
قسمت کا لکھا، دنوں کے ہیں پھیر
اندر کوئی دم میں ہوگا داخل
خلقت کو بنائے گا وہ بسمل
تاراج کرے گا ملک دل کو
لے جائے مجھ سے مضمحل کو
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 324

کیا دیکھیں، فلک دکھائے افسوس!
افسوس ہے، ہائے ہائے افسوس!
گر زیست ہماری چاہتے ہو
تو بہر خندا یہاں تم آؤ
بے تابی دل ستارہی ہے
ہم زیست سے اپنی اب خفا ہیں
کر جور کہ قابل جفا ہیں
یہ نامہ سخن کا قاصد آ، لے
اور جلد جواب اس کا لا دے

نامہ پڑھتے ہی ملکہ کے آنسو گر پڑے، بے اختیار دل بھر آیا، خوب روئی۔ اُسی شہزادے کو بلایا، خط دیا اور فرمایا کہ ہائے عشق کم بخت بھی کیا بری بلا ہے، جس کے مریض کو کبھی صحت نہیں۔ ہجر میں تڑپے، دیدار کو ترسے، تمام عمر فراق میں ہزار طرح کے صدمے اُٹھائے، آخر تمام ہو، پھڑک پھڑک کر مرجائے، جان سے گزر جائے، مگر وصال تا قیامت نہ ہو۔ افسوس! جسے دیکھا گور کنارے دیکھا۔ جان پر ہوتے کم تر جان کھوتے اکثر سنا۔ لا اعلم

یہ عشق وہ ہے کہ پتھر کو دم میں آب کرے
لگاوے دل وہی جس کو خدا خراب کرے

عاشق ازل سے اب تک وصل سے محروم ہے۔ معشوقان با وفا پیدا نہیں، کوئی والہ و شیدا نہیں۔ اگر ایک آدھ ہو تو اس کا اعتبار کیا! الشاذ کا المعدوم ہے۔ واللہ بتوں کے دل میں مہر ذرا نہیں، یہ بے وفا کسی کے آشنا نہیں۔ کوئی مرحلے یا جیے انہیں مطلق پروا نہیں۔ وہ جو کبھی عاشق کا غم کھاتے ہیں، برسر رحم آتے ہیں
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 325

تو یہ تائید ربانی ہے، اسی کی عنایت کا سبب ہے، ورنہ کرم نا کا ستم ہے، لطف ان کا عین غضب ہے۔ پھر شہزادے سے کہا "کیوں صاحب! صنوبر پر تو یہ مصیبت ہو اور تمہیں یہ عیش و عشرت ہو۔" اللھم زد لا تنقص۔

آرام دل تو بڑے جعل ساز بہ شدت دم ساز تھے، کہنے لگے "بھلا بتاؤ کیا تدبیر کریں، جواب قلم انداز ہو یا تحریر کریں۔"

ملکہ نے فرمایا "کیا خوب! سبحان اللہ، کیا کہنا، کیا ہی بے حیائی کا جامہ پہنا ہے، کچھ اثر نہیں، جس کے دل میں یہ محبت آنکھ میں مروت نہ ہو وہ ہمارے نزدیک بشر نہیں۔ صاحب برائے خدا جس طرح ممکن ہو صنوبر کے پاس چلو اور اس بے کسی میں اُس غم زدہ مظلوم ناکام پابند آلام کی خبر لو۔"

آرام دل نے کہا "بیگم! اگر ہزار خط آتے، ہم نہ جاتے، مگر یہ آپ کی خاطر ہے۔ پھر نہ کہنا کہ تو ہی قاصر ہے، چلنے کو بندہ حاضر ہے۔"

غرض پہر رات رہے پھر کوچ ہوا، دو منزلہ سہ منزلہ طے کرتے ملک داراب کی طرف چلے۔ وہاں کا حال سنیے کہ سات روز تک وزیر خوب لڑا، آٹھویں دن اُس بد انجام یعنی شہزادہ سیاہ فارم نے یلغار کیا اور اُدھر کی فوج پر آپڑا۔ شپاشپ تلواریں چلنے لگیں، تیغوں کی چنگاریاں نکلنے لگیں، دونوں لشکر مل گئے۔ کٹار، پیش قبض، قرولی، گھونسم گھانسا، کشتی، طمانچے کی نوبت آئی، توپ خانے نے فرصت پائی، وہ خون ریزی ہوئی کہ روح قبض کرتے کرتے حضرت عزرائیل علیہ السلام کے ہاتھ دکھ گئے، دوڑتے دوڑتے پاؤں تھک گئے۔ نکیرین سوال کرتے کرتے
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 326

عاجز آئے۔ رضوان و مالک دونوں گھبرا گئے، بہک گئے۔ بھولے سے ایک آدھ بہشتی جہنم میں چلا گیا، دوزخی جنت میں داخل ہوا۔ استغفراللہ ربی من کل زنب و اتوب الیہ۔ غرض خوب لڑائی ہوئی۔ دشمن دبائے آتا تھا، ادھر فوج کا جی چھوٹا جاتا تھا۔ شہر میں کھلبلی تھی، انسان و حیوان کو بے کلی تھی۔ بادشاہ اور بیگم صاحب سب چھوٹے بڑے گھبرائے ہوئے، بے حواس۔ رنگ محل میں صنوبر کے پاس بیگم صاحب بار بار زمین پر سجدہ کرتیں، جل تو جلال تو کی تسبیح پڑھتیں۔ بڑی بوڑھیاں مصلوں پر ناکیں رگڑتیں۔ بادشاہ لڑکی کو گود میں بیٹھی، چہرے کا رنگ فق، ہجوم غم سے سینہ شق، آنکھوں سے آنسو جاری، کچھ عجب عالم طاری، ہونٹ دانتوں میں دبائے، سر اُٹھائے بندوقوں کی آواز سنی، ادھر اُدھر سر دھنتی۔ خوف سے ہراساں، آئینہ وار حیراں، زندگی سے ہاتھ دھوئے، ہوش و حواس کھوئے ہوئے، پُر حسرت و ارمان اور چپکے چپکے سے یہ شعر وردِ زبان: رند

پروردگار صدمے جو مقسوم میں یہ تھے
لوہے کا اک توا دبا ہوتا نہ جائے دل

یہاں تو یہ حال تھا، وہاں آرام دل نے ملک داراب میں پہنچ کر شہر سے دو کوس ادھر خیمہ ڈالا۔ ملکہ نے شہزادے سے کہا "ہمیں صنوبر کی ملاقات کا کمال اشتیاق ہے، اگر اجازت ہو تو جائیں؟ "شہزادے نے کہا "بسم اللہ کیا مضائقہ" غرض ملکہ کی سواری تو شہر میں آئی اور شہزادے نے مع سپاہ رزم گاہ کی طرف باگ اُٹھائی، شاہ کو پرچہ لکھا۔ ملکہ حسن افروز کے آنے سے آگاہ ہوا، فوراً سوار ہوا اور شہزادے کی تمنائے دید میں
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 327

روزانہ وہ شاہ ہوا۔ یہاں خواصوں نے جلدی جلدی رنگ محل کو آراستہ کیا۔ لوگ سنبھل بیٹھے، پوشاکیں بدل بیٹھے۔ صنوبر نے جو سنا شاد شاد ہوئی، بند قید الم سے آزاد ہوئی۔ شکر کیا اور کہا: مصنف

تو بھی چل جسم سے اے روح پئے استقبال
نکہت زلف لیے باد صبا آتی ہے

پھر بال جو سر پر وبال سے تھے، چہرے پر سے سرکار کر درست کیے، دوپٹا اچھی طرح اوڑھا، گہنا پہنا، جواہرات کے جوشن جو دبلے پن سے ڈھیلے ہوگئے تھے، ڈوری کھینچ کر چست کیے، ذرا آدمی کی شکل بنی۔

ملکہ حسن افروز مع قمر النسا اپنی خواصوں کے ہمراہ بڑے تکلف سے رنگ محل میں آئیں۔ صنوبر مضمحل، شکستہ دل بہ صد ناز و ادا تعظیم کو اُٹھی، جھک کر سلام کیا۔ ملکہ نے کہا، "بوڑھ سہاگن" صنوبر نے جواب دیا کہ یہ سہاگ خدا آپ ہی کو مبارک رکھے! یہاں تو فراق میں میں بڑی لذت اُٹھائی، خوب مزے چکھے؛ بندی باز آئی، کیسی محبت کہاں کی آشنائی۔

ملکہ بولی "صاحب کیا خوب! جورو بن کے مکرتی ہو؟ نکاح کرواکے بھول گئیں؟ میرے پاس تو طلبی کی دستاویز موجود ہے۔"

غرض یہ رمز و کنایہ ہوکر پھر برابر کی ملاقات ہوئی۔ صنوبر ملکہ کا ہاتھ پکڑ کر چند خواصوں کے ہم راہ زمرد محل میں گئی۔ وہاں سے کوسوں کا میدان، لشکر کا ہر جوان نظر آتا تھا۔ یہ دونوں پتھر کی جالیوں میں سے لڑائی کی سیر دیکھنے لگیں۔ دیکھا کہ فوج عدو ہزار در ہزار ہے۔ ادھر کے لوگ بھاگے آتے ہیں، اُدھر سے مار مار ہے۔ پھر کیا دیکھتی ہیں کہ شہزادہ سمند برق دم پر سوار، سر پر تاج شاہی، ہاتھ میں وہی قمچی
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 328

بہ جائے تلوار، پیچھے لاکھ ڈیڑھ لاکھ سوار، سب کا ایک پرا، تلواریں سونتے گھوڑوں کو میٹھی میٹھی پوئی اُٹھائے دھنے سے کترا کے بائیں طرف جھکے۔ وزیر جو پہلے سے لڑ رہا تھا، گھوڑا جھپٹا کے شہزادے کے قریب آیا، آتے ہی قدم چوم لیے۔ پھر کچھ مشورہ کر آرام دل نے رخشی کی باگ اٹھائی فوج عدو میں جا پڑا۔ دشمن کی جان پر آفت ہوئی۔ خوب لڑا، خالی دے کر جس سوار پر قمچی کا ہاتھ بھرپور لگایا سر پر پڑا، کہیں نہ اڑا، مع گھوڑے چار ٹکڑے کرکے زین سے زمین پر اُتر آیا۔ اُس روئین بگ ٹٹ تگ و دو میں جس پیدل بے دل پر ہاتھ چل گیا، مطلق نظر نہ آیا، جیسے صابون میں سے تار نکل گیا۔ مارتے مارتے ستھراؤ کردیا، دشت لاشوں سے بھر دیا۔ حساب کیا تو ہر سوار کے حصے میں ایک ایک شکار بھی نہ آیا۔ بہت سے سواروں کی تلواریں پیاسی رہ گئیں۔ انہوں نے مردوں کو چورنگ بنایا، لہو نہ دیا تو اپنے بدن پر چرکا لگا کے تھوڑا بہت خون چٹایا۔

ملکہ حسن افروز اور صنوبر دل سوز دونوں اپنے اپنے حواس میں نہیں تھیں۔ بال کھولے ہوئے، گھبرا گھبرا کے، قبلے کی طرف ہاتھ اُٹھا اُٹھا کے دعائیں مانگ رہی تھیں۔ بارے شکر خدا کہ شہزادہ دشمن پر ظفریاب ہوا، سرخ رو پیش شاہ داراب ہوا۔ فوج عدو میں سے کوئی بشر زندہ نہ بچا، سب وہیں کھیت رہے، مگر شہزادہ سیاہ فام بچا، جان بچا کر بھاگا۔ بادشاہ شہزادے کے قریب آئے، قوت اور جواں مردی کی تعریف کی، ہاتھی پر سوار کرکے محل میں لائے۔ ملکہ حسن افروز اور صنوبر دونوں زہرہ و مشتری پھر رنگ محل میں آئیں۔ دس ہزار اشرفیاں شہزادے کے صدقے کیں۔ اُسی دم جابجا مسجدوں اور مدرسوں میں فقرا، طلبا، مساکینوں کو بھجوائیں۔ پھر شہزادے کو
 
Top