مقدس
لائبریرین
329
طلب فرمایا، وہ تشریف لایا۔ صنوبر کا عجب حال ہوا، فرط سرور اور نشاط محبت سے چہرہ لال ہوا۔ آرام دل جوں جوں زمین پر قدم رکھتا تھا، صنوبر کی آنکھیں بچھی جاتی تھیں، دل استقبال کو
باہر نکلے آتا تھا۔ شوق وصال دل میں گدگدی کرتا تھا، دم بہ دم ستاتا تھا۔ شہزادہ آ کر مسند پر بیٹها، جیسے کوئی مہمان آتا ہے یا معشوق کہ اپنے عاشق سے شرماتا ہے، اول ہی ملاقات میں جھینپا جاتا ہے۔ صنوبر نے ملکہ سے کہا "ہمیں ان سے ملال ہے، دل پر صدمہ کمال ہے کہ اتنے دنوں بعد آئے، مگر پھوٹے منہ سے یہ بھی نہ کہا کہ اس عرصے میں تجھ پر کیا گزری؟ یا اب تیرا کیا حال ہے؟" ملکہ نے کہا "بہن! یہ بڑے بے وفا ہیں، اپنے مطلب کے آشنا ہیں۔ یہاں تو یہ میرے دباؤ سے آئے ہیں ورنہ یہ تو درکنار، تم ان کا سا یہ تک نہ دیکھتیں۔ یہ وه بے مروت پر دغا ہيں۔"
شہزادے نے فرمایا "بس ذرا خوشامد نہ کیجیے، خاطر کی نہ لیجیے۔ وہ باتیں بھول گئیں؟ ذرا یاد کرو، الزام اس کا ہم پر نہ دهرو۔ جانتے ہیں آپ کو ان سے کمال محبت ہے، آج کی نہیں مدت سے ہے اور بندہ تو بے مروت ہے۔"
ملکہ بولی "ہاں بہ جا ہے، اس میں شبہ کیا ہے۔ محبت نہ تھی تو آئے کیوں؟ تمہیں زبردستی یہاں لائے کیوں؟ قصور معاف ہو، اگر مرات دل زنگ کدورت سے صاف ہو، کبھی ایسی باتیں زبان پر
نہ آئیں، مگر تمہاری تو ان دنوں لڑائی پر طبیعت بڑهی ہوئی ہے، ہر وقت آستین چڑهی ہوئی ہے، ہر ایک سے الجھتے ہو، اپنا سا کو سمجھتے ہو۔ یہاں تو رشک و حسد کا نام نہیں، تو تو میں میں، لڑائی جھگڑا، کج بحثی اشرافوں کا کام نہیں۔"
صنوبر نے چپکے سے کہا "خدا کے واسطے جانے دو، دور
330
کرو، اس سے کیا حاصل، بس چپ رہو: حضرت غالب
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یه بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلہ ہوتا ہے
غرض دیر تک یہی صحبت رہی۔ طعن و تشنیع، راز و نیاز، چھیڑ چھاڑ، بناؤ بگاڑ، شکر رنجی کی باتوں میں عجب کیفیت رہی۔ پھر ملکہ حسن افروز صنوبر کی ماں کے پاس آئی، رسم سلام بجا لائی۔ اس نے چھاتی سے لگایا، بڑی تعظیم کی، آنکھوں پر بٹھایا اور فرمایا کہ بی بی صنوبر کو اپنی لونڈیوں کے برابر، بلكہ ان سے بدتر سمجھنا، وہ کبھی تمہاری فرماں برداری سے منحرف نہ ہو گی۔
ملكہ نے سر جھکا لیا اور شرم سے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر صنوبر کے پاس گئی، شب بھر وہیں رہی۔ تمام رات عیش و نشاط میں بسر ہوئی۔ ہنستے کھیلتے سحر ہوئی۔ دونوں کا ستاره مل گیا۔ ایسی محبت ہوئی کہ سلف سے آج تک کسی کی کم ہوئی ہو گی۔ صنوبر شہزادی کی شادی شہزادے سے پہلے ہو چکی تھی، مگر دولھا کے نام میں بڑا اختلاف تھا، سلطان عالم آرام دل اور شہزاده سیاہ فام میں بڑا اختلاف تھا۔ دوباره عقد کی صلاح ہوئی۔ بادشاہ نے پانچ لاکھ اشرفیوں کا چبوترہ بنوایا اور ستائیسویں رمضان المبارک کو بعد نماز جمعہ شہزادہ بلند بخت، کیواں بارگاه کو اسی چبوترے پر بٹھا کر موافق شرع شریف دین متین زاد هماالله شرفا خطبۂ نکاح پڑھوایا۔ باره درہم شرعی پر مہر بندها۔ پھر شاہ نے اپنا تاج شہزادے کو پہنايا، سيف کمر سے باندهی، قلم دان آگے رکھا، سلطنت کا مالک کیا۔ یہ جہيز ديا اور آپ اسی روز سے دنیا کو لات مار کر قناعت گزیں ہوا۔ سب سے کنارہ کش ہو کر گوشہ نشیں ہوا۔ نوشاه نے ان اشرفیوں کو لله دیا اور طعام وليمہ تقسیم کیا۔
331
دوسرے روز شاه مشرق اور نگ فلک پر جلوہ افروز ہوا، آرام دل نے تخت پر جلوس فرمایا اور صنوبر کے بھائی اپنے سالے کو جو بہت صغير سن تھا، گود میں بٹھایا۔ امورات مملكت بہ مشوره اراکین سلطنت بہ حسن و خوبی انجام پانے لگے۔ بناء ظلم و ستم منہدم ہوئی، لوگ بہ آسائش رہنے لگے، ہزار طرح کے آرام پانے لگے۔ غرض شہنشاه کشورستان آرام دل جان جہان دونوں شہزادیوں کے ساتھ جشن میں مصروف ہوا۔ وطن جانا بالقوه رہا، مگر بالفعل موقوف ہوا۔
332
شناوران قلزم معانی احوال غواصان بہ کف نیاورده گوہر مقصود، غریق بحر ناکامی، ناآشنائے زبان و سود لکھتے ہیں کہ ایک روز شہزادہ آرام دل باہم ملكہ حسن افروز اور صنوبر قلعے میں ثمن برج پر لب دریا بیٹها کیفیت تلاطم بحر امواج اور تماشائے پیچ تاب ورطہ و گرداب، ہوا کا زور، پانی کا شور دیکھ رہا تھا۔ شراب کے نشے میں ملکہ سے کہنے لگا "بیگم! تم نے کبھی پانی کے اندر جا کر سیر کی ہے؟ آبی جانوروں کے مکان، ان کے انڈے بچے، ان کا چلنا پھرنا، یہ کیفیت بھی دیکھی ہے؟"
ملکہ بولی "ہاں نئی لہر آئی، خوب دل میں سمائی۔ بھلا یہ تو فرمائیے انسان کا کام ہے کہ دریا کے اندر جائے اور سیر کر کے سلامت پھر آئے؟ حضرت ظل سبحانی کے سفینے میں البتہ سیر
333
کی ہے۔ خدا کی قدرت سے جانور کیا دریا میں ملک آباد ہیں۔ صاحب تخت و تاج، امير وزیر، محتاج ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔" شہزادے نے کہا "تم نے تو کتاب میں لکھا دیکھا ہے، اگر تمہیں کشتی پر سوار کر کے پانی کے اندر لے جائیں اور سب سير دکھائیں تو کچھ انعام دو گی؟"
ملکہ نے عرض کی "فی الواقع آب رواں کے دیکھنے سے آدمی کی عقل تیز ہوتی ہے۔ سیر دریا جنوں خیز، وحشت انگیز ہوتی ہے۔ اگر حضور کے ذہن مبارک میں کوئی بات آئی ہو، طبیعت لہرائی ہو تو عجب نہیں۔"
آرام دل نے فرمایا "ہاں اراده ہے کہ سفینہ آبگینہ بنواؤں اور چین تک چین سے اسی پر سیر کرتا ہوا جاؤں۔ پھر زمرد محل میں آ کر سفید دیو کو بلایا، وہ آیا، شہزادے نے کہا "ایک جہاز چاہتا ہوں جس میں بالکل حلبی آئینے لگے ہوں اور کل کام کل سے نکلے۔ كل دبانے سے پانی کے اندر رواں ہو، جب ٹھہرائیں ٹھہر جائے۔ ذرا اشاره پائے، اوپر ابھر آئے، پھر جب پرزه دبائیں تہہ آب ہو جائے اور رواں ہو۔" وہ بولا "بہت خوب! كل زير قلعہ اس کا لنگر ہو گا، جیسا حضور سے ارشاد ہوا، ان شاء الله تعالی اس سے بہتر ہو گا۔" ديو تو یہ کہہ کر رخصت ہوا، شہزادے نے محمود کو مع فوج ملک خاندیس کی طرف کوچ کا حکم دیا اور فرمایا کہ ماوراء النہر میں بحر عمان کے کنارے ہمارے منتظر رہنا، کسی سے یہ حال نہ کہنا۔ اس نے حسب الارشاد سفر کا سامان کیا، شب کو سب افسروں کو حکم سنا دیا۔
جب ماه غواص محیط ظلمت ساحل مغرب میں ڈوبا اور مہر
334
آشنا بحر سپہر کنارہ مشرق سے تھرتھراتا نکلا، محمود لشکر لے کر مع خزانہ روانہ ہوا۔ ادهر جہاز بھی آ پہنچا۔
آرام دل نے دربار عام کیا، کیا خوب انتظام کیا کہ اپنے سالے کو سسرے کی جگہ اورنگ نشیں کر کے تاج بخشا، خراج معاف کیا، واقعی بڑا انصاف کیا۔ جب اس سے فرصت پائی شاه با خدا، گداے در خیرالورا صلے الله عليه وسلم کے پاس آیا، رخصت طلب کی۔ اس ولی نے بہ خوشی اجازت دی۔ ملكہ حسن افروز نے وہیں کہا کہ حضرت انہیں منع کیجیے، دریا کی راه جانے نہ دیجیے۔ سنی ہوں ایک جہاز آیا ہے، خدا جانے کہاں سے منگوایا ہے، کس نے بھیجا ہے، کون لايا ہے۔ وہ پانی کے اندر چلتا ہے، ہوا سے کچھ سروکار نہیں۔ باد موافق کا مخالف پانی کے اندر ڈوب کر چلتا ہے، عقل مقتضی نہیں کہ اس پر سوار ہوں، اجل سے ہمکنار ہوں، مفت جان گنوائیں، بیٹھے بٹھائے صدمے اٹھائیں۔ اور دیدہ و دانستہ سفينہ عمر، زورق زندگی کو ورطہ ہلاکت میں ڈبونا، زبردستی جان کھونا کہاں آیا ہے؟ کوئی حدیث کوئی آیت ہے؟ بلكہ ولا تلقوا بايد بیكم الى التھلكته خدا نے بھی فرمایا ہے۔
شہزادے نے کہا کہ دریا میں فتنہ انگیز ہوا ہے، اكثر
فساد اسی سے ہوا ہے، جب بقول تمہارے اس جہاز کو ہوا سے علاقہ نہیں تو پھر کچھ پروا نہیں، یوں تقدیر کا علاقہ جدا ہے ، اس میں گفتگو کیا ہے، ان الله على كل شی قدير ہر چیز پر قادر خدا ہے، ورنہ ذرا سوچو تو ایسا مرکب بھی کہیں غرق ہوتا ہے؟ پانی میں جانے، کل کے جہاز اور بادبانی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر جہاز پر تشریف لایا۔ شاه داراب نے ملکہ کو سمجھایا اور فرمایا کہ صاحب زادی ہم مجبور ہیں، وہ مختار ہیں۔
335
بہ۔خدا فرقت گوارا نہیں، مگر مشیت ایزدی سے چارہ نہیں۔ کیا کریں ناچار ہیں۔ لازم ہے کہ تم بھی ان کا حکم بجا لاؤ، جہاں جس طرح لے جائیں، بے تامل جاؤ، ضد نہ کرو، ذرا سی بات پر نہ اڑو۔ شوہر کی عدول حکمی میں خدا اور رسول صلى الله عليه وآله وسلم کی نافرمانی ہے۔ وہ اگر آگ میں جھونک دیں اسے گل زار جانو، یہ تو بھلا پانی ہے۔ لو بسم الله تيار ہو، وہ منتظر ہوں گے۔ چلو جہاز پر سوار ہو۔ یہ کہہ کر صنوبر کو ساتھ لیا، ملكہ حسن افروز کا ہاتھ میں ہاتھ لیا اور خضر دروازے نکل کر لب دریا تشریف لائے۔ ملكہ نے دیکھا شہزادہ سوار ہو چكا، صنوبر کا ہاتھ پکڑ مع قمرالنسا اور دل ربا چند خواصوں کو ہم راه لے جہاز پر پہنچی اور فرمایا "بسم الله مجريہا و مر سہا" جب سب سوار ہوئے، جہاں پناه بہت اشک بار ہوئے۔ عورتوں نے رو رو کے کہرام مچایا، پھر سب نے دعائیں دے کر دور سے بلائیں لیں۔ ملکہ نے صنوبر سے کہا "خدا خیر کرے! شگون بد ہوا، قدم رکھتے ہی کان میں رونے کی آواز آئی، یقین جانو جہاز کی سواری شہزادے کو ناساز آئی۔ بے طور دریائے الم موجزن ہے، رہ رہ کے جوش میں آتا ہے، ہر چند سنبھالتی ہوں، لیکن لطمه اندوه و غم میں خود بہ خود دل ڈوبا جاتا ہے۔" میر وزیر علی صبا
گردش سے آسمان کی چکرا رہے ہیں ہم
کشتی ہماری گھوم رہی ہے بھنور کے ساتھ
غرض شہزادہ آرام دل تو مصروف سير و تماشا تھا، مگر ملكہ حسن افروز غواص گرداب تفکر، صنوبر غریق ورطہ تحیر، یہ دونوں بحر غم والم کی آشنا۔ دو گھڑی جہاز اوپر رہا، پھر یکایک پانی کے اندر ڈوب کر
336
رواں ہوا۔ ڈوبتے ہی ایک ماه منور مہر درخشاں کی طرح چمکتا ہوا نمایاں ہوا۔ بلور کی چھت میں ایک حلبی آئینہ مدور آفتاب سے زیاده درخشاں ہوا۔ جہاز کی یہ قطع تھی۔ بہت عریض اور طويل، سر بلندی سب جہازوں سے دو چند، دیواریں سقف بلور کے نور کے سانچے میں ڈھلی ہوئیں، شیشہ چار انگل کا دل دار، جہاز بالكل كل دار نیچے
صندل کی تختہ بندی، لوہا نام کو نہیں، تمام نقرئی اور طلائی کام، اندر متعدد کمرے سجے سجائے، فرش فروش سے آراستہ، شیشہ آلات پیراستہ، دن کو طلسم سے مہر درخشاں روشن، رات کو شمع ہائے مومی اور کافوری کی روشنی سے انجمن کا جوبن۔ ہر ایک مکان میں علیحدہ علیحدہ پسند تکیے لگے ہوئے۔ چھپر کھٹ پھولوں سے بسے ہوئے، پردے چھوٹے ہوئے، اونچے کیسے ہوئے۔ ہر چھپر کھٹ میں پنکھا اس قسم کا کہ جب تک شہزادہ آرام کرے خود بہ خود اس کو حرکت ر ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے دل کو فرحت رہے۔ گل دستوں میں نئے نئے رنگ کے گل بوٹے جن کو باد خزاں کی ہوا نہ لگے، کبھی جھڑے نہ ٹوٹے۔ پر ستان کے میوے کشتیوں میں، مئے انگور شیشوں میں، ہر کمرا سجا ہوا، ایک سے ایک اچھا سامان عیش ہر جگہ مہیا۔ صحن کا طول نہایت معقول، بیچ میں مختصر سا خانہ باغ، روش پٹری نازک، نہر جاری، فوارے سبک، کیاریاں قطع دار، ان میں موتیا، چنبیلی، سوسن، کیتکی، موگرا، مدن، بان، نرگس، لالہ، نافرمان، گل صد برگ کی بہار۔ ہر چمن کے گرد چنبے کے نرگس دانوں میں میوه دار درخت سراسر، بلندی میں قد خوباں کے برابر جن کا پھل تصور سے منہ میں آئے، جانور قصد سے لب تک آ کر کباب ہو جائے۔ سر شاخ ہر غنچہ و گل بلبل ہزار داستان کا جھوم جھوم کر چہکنا، پھولوں کی خوش بو سے تمام جہاز کا مہكنا، لب جو سرو
337
اور شمشاد کے نئے نئے پودوں پر قمری کی صدا، فاخته کی کوکو، چھوٹے چھوٹے پیوندی آم کے درختوں پر مور کا شور کوئل کی توتو۔ زمین میں سیپ کا فرش، اس کے ہر وصل میں سبزۂ نو خیز، نرگس دانوں اور کیاریوں کی مٹی عنبر بیز۔ پری زاد مرد سيم بر، زریں کمر زمردیں بال، جہاز کے موکل سرگرم کار۔ شہزاده آرام دل جب یہاں سے روانہ ہوا فلک تفرقہ انداز کو جہاز کی سواری دریا کی سیر کا بہانہ ہوا، یعنی اس نافرجام شہزادہ سياه فام کو یہ خبر پہنچی کہ آرام دل مع پری و شان حور شمائل تری کی راہ اسی طرف سے بہ سواری جہاز اپنے وطن کو جاتا ہے۔ جہاز شیشے کا ہے، پانی کے اندر چلتا ہے، نہایت سریع السیر ہے، کل دبانے سے اوپر نكلتا ہے۔ یہ سنتے ہی زیر قلعہ آیا، کمال خوش ہوا۔ پیر گردوں نے فریب دیا، دام مکر پھیلایا۔ شہزادہ سیاہ فام نے اپنے اہتمام سے بہت بڑا جال فولادی دریا میں ڈلوایا اور منتظر وقت رہا۔ شام کو جال ڈالا اس کے دوسرے روز قریب دوپہر طرفہ ماجرا رو بکار ہوا کہ گردوں دام صیاد میں گرفتار ہوا۔ جہاز جو رکا، کار پردازوں نے کل دبائی، جہاز سطح آب پر آیا، مگر فولادی جال میں الجھ گیا، مطلق نہ چل سکا۔ یہ لوگ مستفسر حال ہوئے، جہاز روکنے کا سبب پوچھنے لگے۔ ادھر قلعے پر مورچہ بندی تھی، جب جہاز توپ کی زد پر آیا اس ملعون نے شست باندھ کر نشانک لگایا۔ گولہ آتے ہی چھت پر لگا، اس نے کام تمام کیا، جہاز کو تباہی کے گھاٹ اتارا، بیٹھے بٹھائے دشمن نے میدان مارا، جہاز کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ گئے، پاش پاش ہوگیا۔ کسی کو خبر نہ رہی، کون کدھر گیا، کون جیتا رہا، کون مر گیا: صبا
ہر گھڑی اک طرفہ دکھلاتا ہے رنگ
واہ کیا نیرنگ ہیں افلاک کے
338
ناگاه اس وقت سیم تن پری کا وہاں گزر ہوا؛ اس نے جو یہ کیفیت دیکھی، ملکہ حسن افروز اور قمرالنسا کو کہ یہ دونوں بے ہوش، یک دگر ہم آغوش، قريب الہلاکت، عنقریب غرق ہوا چاہتی ہیں، اٹھا کر اپنے تخت پر سوار کیا اور لے اڑی۔ چند ساعت میں اپنے باپ کے پاس جو کوه قاف کا شہنشاہ معظم تھا، جا اتارا اور جلد جلد عود قاری، عنبر سارا انگیٹھیوں میں سلگا کر ان دونوں کی برودت اور خنکی کو دفع کیا۔ کامل کے بعد ملکہ کو ہوش آیا؟ ایک پیر مرد، باریش سفید، تاج خسروی بر سر، عباے پر زر در بر اور ایک پری نازنین کو اپنے بالیں پر موجود پایا۔ گھبرا کر اٹھ بیٹھی، حیرت سے ایک ایک کا منہ تکنے لگی۔
سيم تن پری نے ملکہ کو بہت ادب سے سلام کیا اور اپنے باپ سے یہ کلام کیا کہ حضور یہ شاه فارس آدم زاد کی صاحب زادی ہیں اور شہزادہ آرام دل پسر شاہ چین کی شہزادی ہیں۔
یہ سن کر شاه قاف نے بڑی تعظیم کی، ہاتھ پر بوسہ ديا، اور کہا کہ صاحب زادی، زہے نصیب ہمارے کے تم نے ہمارے غریب خانے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے فردوس بریں فرمایا! اور خوشا طالع ہمارے کہ ہم نے تم کو دیکھا! پھر سيم تن سے کہا کہ ان کو گلستان ازم میں لے جاؤ، وہاں کی سیر دکھاؤ۔ ملکہ اس سليمان ثانی کے اخلاق دیکھ کر ششدر تھی، پری کی محبت اور خاطر داری سے متحیر تھی۔ سیم تن پری ملکہ کو گلزار ارم میں لے گئی۔
سبحان الله! عجب باغ تھا کہ اگر اس کے ایک تختے کی
تعریف صد ہزار تختہ کاغذ پر یہ خط ریحان لکھوں تو عقل سے دور ہے، مگر حکماء کا دستور ہے کہ "مالا يدرك كلہ لا يترك كلہ" اس واسطے مشتی نمونہ از خروارے کچھ مختصر لکھنا ضرور ہے
339
کہ روش پٹری بلور کی، نہر سراسر نور کی، درخت جواہرات کے، جڑ مونگے کی، ٹہنیاں پکھراج کی، پتے زمرد کے، پھل یاقوت کے۔ اکثر درختوں میں مثل خوشہ انگور لعلوں کا گچھا اور تاک میں مروارید کلاں بيضہ کبوتر سے دو چنداں، درختوں پر طیور قدرت حق کا ظہور۔ طوطی کے زمرد کے پر، یاقوت کی منقار، گفتگو میں سحر بیان۔ لعل حقيقتا لعل، مگر خوش الحان۔ باره دری عالی شان، چاروں طرف دیواریں، ہیرے کے پتھر، یاقوت کی اینٹیں، اندر پکھراج کی صحنچیاں، زبرجد کے دالان۔ یہ سب کچھ سیر تھی، مگر ملکہ کی حالت غیر تھی۔ جب سیم تن پری نے ملکہ حسن افروز کو دالان میں لے جا کر بٹھایا، ملکہ نے آب ديده ہو کر پوچھا کہ صاحب آپ کا نام کیا ہے اور یہ باغ ارم کس کا ہے؟ سیم تن پری نے دست بستہ عرض کی، "لونڈی کو سیم تن کہتے ہیں اور یہ باغ اسی کنیز کا ہے۔ اس میں والد ماجد رہتے ہیں۔"
ملکہ پری کا نام سنتے ہی آرام دل کے تصور میں زار زار رونے لگی۔ پہلے تو چپکی بیٹھی رویا کی، بے قراری کو ضبط کرتی رہی، مگر جب بہت دم گھبرایا اور ہجوم غم سے کلیجا منہ کو آیا تو ہائے شہزادہ کہه کر پری کے گلے سے چمٹ گئی اور چیخ مار کر رونے لگی۔ ایسی روئی کہ غش آگیا۔ پری نے ہاتھوں پر روکا، سنبھالا۔ اس کی بھی آنکھ سے بے اختیار آنسو جاری تھے، بے خودی کے عالم طاری تھے۔ دیر تک یہی کیفیت رہی، دونوں کو غش کی حالت رہی۔ آخر سیم تن پری نے اپنے حواس درست کر کے ملکہ کو لخلخه سونگھایا، بید مشک چھڑکا؛ کچھ افاقہ ہوا، ذرا ہوش آیا۔ سیم تن نے تسکین کی باتوں سے سمجھایا، خاطر آشفتہ کو ہر چند بہلایا، مگر:
340
رونا آس سے کیوں کر چھوٹے
جس سے ایسا دل بر چھوٹے
پھر پری نے عرض کی کہ ذرا حضور دل کو تسکین دیجیے، تھوڑی دير باغ کی سیر کیجیے۔ دیکھیے میں ایک آن میں گئی اور آئی اور دو گھڑی میں آپ کے پاس شہزادے کو لائی۔ یہ کہہ کر سیم تن تخت پر سوار ہوئی، ملكہ كو وہیں روتے چھوڑا اور آپ آرام دل کی تلاش میں فلک سیار ہوئی۔
اب سنیے کہ جب جہاز تباه ہوا تھا، شہزادہ ایک تختے کے سہارے بہتا زار زار روتا اور یہ کہتا چلا جاتا تھا: صبا
ساحل دکھائی دیتا ہے مجھ کو نہ تھاه ہے
دریائے عشق میں مری کشتی تباه ہے
ملکہ حسن افروز اور صنوبر کے فراق نے شہزادے کو مردے سے بدتر کر دیا، تفرقہ انداز چرخ کج نہاد نے مجموعہ انبساط اور گل دستہ نشاط کو اک آن میں ابتر کر دیا۔ آرام دل نے سوچا کہ دریا ناپیدا کنار ہے، اب اس دریا کے ذخار سے نکلنا دشوار ہے، ہر دم اجل ہم کنار ہے۔ مانا کہ بچے اور کسی طرح نکلے بھی تو کیا! جب اپنے آرام دل اور دل بر اس طرح دنیا سے اٹھ گئے اور انہوں نے ہمارے واسطے زندگی میں کیسی کیسی جفائیں اٹھائیں، آخر اپنی جانیں گنوائیں تو پھر ہم جی کے کیا کریں گے؟ یہ سمجھ کر مرنے پر مستعد ہوا اور یہ شعر پڑھ کر تختہ چھوڑ دیا: رند
ہو اب رنج و غم کا عدم قافلہ
ہماری بھی دنیا سے رحلت ہوئی
ملکہ سیم تن ابھی قریب پہنچنے نہ پائی تھی کہ اس نے دور سے شہزادے کو ڈوبتے دیکھا، گھبرا کر جھپٹی اور آتے ہی جلدی سے باہر نکالا۔ شہزادہ بےہوش ہو گیا تھا، پری شہزادے
طلب فرمایا، وہ تشریف لایا۔ صنوبر کا عجب حال ہوا، فرط سرور اور نشاط محبت سے چہرہ لال ہوا۔ آرام دل جوں جوں زمین پر قدم رکھتا تھا، صنوبر کی آنکھیں بچھی جاتی تھیں، دل استقبال کو
باہر نکلے آتا تھا۔ شوق وصال دل میں گدگدی کرتا تھا، دم بہ دم ستاتا تھا۔ شہزادہ آ کر مسند پر بیٹها، جیسے کوئی مہمان آتا ہے یا معشوق کہ اپنے عاشق سے شرماتا ہے، اول ہی ملاقات میں جھینپا جاتا ہے۔ صنوبر نے ملکہ سے کہا "ہمیں ان سے ملال ہے، دل پر صدمہ کمال ہے کہ اتنے دنوں بعد آئے، مگر پھوٹے منہ سے یہ بھی نہ کہا کہ اس عرصے میں تجھ پر کیا گزری؟ یا اب تیرا کیا حال ہے؟" ملکہ نے کہا "بہن! یہ بڑے بے وفا ہیں، اپنے مطلب کے آشنا ہیں۔ یہاں تو یہ میرے دباؤ سے آئے ہیں ورنہ یہ تو درکنار، تم ان کا سا یہ تک نہ دیکھتیں۔ یہ وه بے مروت پر دغا ہيں۔"
شہزادے نے فرمایا "بس ذرا خوشامد نہ کیجیے، خاطر کی نہ لیجیے۔ وہ باتیں بھول گئیں؟ ذرا یاد کرو، الزام اس کا ہم پر نہ دهرو۔ جانتے ہیں آپ کو ان سے کمال محبت ہے، آج کی نہیں مدت سے ہے اور بندہ تو بے مروت ہے۔"
ملکہ بولی "ہاں بہ جا ہے، اس میں شبہ کیا ہے۔ محبت نہ تھی تو آئے کیوں؟ تمہیں زبردستی یہاں لائے کیوں؟ قصور معاف ہو، اگر مرات دل زنگ کدورت سے صاف ہو، کبھی ایسی باتیں زبان پر
نہ آئیں، مگر تمہاری تو ان دنوں لڑائی پر طبیعت بڑهی ہوئی ہے، ہر وقت آستین چڑهی ہوئی ہے، ہر ایک سے الجھتے ہو، اپنا سا کو سمجھتے ہو۔ یہاں تو رشک و حسد کا نام نہیں، تو تو میں میں، لڑائی جھگڑا، کج بحثی اشرافوں کا کام نہیں۔"
صنوبر نے چپکے سے کہا "خدا کے واسطے جانے دو، دور
330
کرو، اس سے کیا حاصل، بس چپ رہو: حضرت غالب
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یه بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گلہ ہوتا ہے
غرض دیر تک یہی صحبت رہی۔ طعن و تشنیع، راز و نیاز، چھیڑ چھاڑ، بناؤ بگاڑ، شکر رنجی کی باتوں میں عجب کیفیت رہی۔ پھر ملکہ حسن افروز صنوبر کی ماں کے پاس آئی، رسم سلام بجا لائی۔ اس نے چھاتی سے لگایا، بڑی تعظیم کی، آنکھوں پر بٹھایا اور فرمایا کہ بی بی صنوبر کو اپنی لونڈیوں کے برابر، بلكہ ان سے بدتر سمجھنا، وہ کبھی تمہاری فرماں برداری سے منحرف نہ ہو گی۔
ملكہ نے سر جھکا لیا اور شرم سے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر صنوبر کے پاس گئی، شب بھر وہیں رہی۔ تمام رات عیش و نشاط میں بسر ہوئی۔ ہنستے کھیلتے سحر ہوئی۔ دونوں کا ستاره مل گیا۔ ایسی محبت ہوئی کہ سلف سے آج تک کسی کی کم ہوئی ہو گی۔ صنوبر شہزادی کی شادی شہزادے سے پہلے ہو چکی تھی، مگر دولھا کے نام میں بڑا اختلاف تھا، سلطان عالم آرام دل اور شہزاده سیاہ فام میں بڑا اختلاف تھا۔ دوباره عقد کی صلاح ہوئی۔ بادشاہ نے پانچ لاکھ اشرفیوں کا چبوترہ بنوایا اور ستائیسویں رمضان المبارک کو بعد نماز جمعہ شہزادہ بلند بخت، کیواں بارگاه کو اسی چبوترے پر بٹھا کر موافق شرع شریف دین متین زاد هماالله شرفا خطبۂ نکاح پڑھوایا۔ باره درہم شرعی پر مہر بندها۔ پھر شاہ نے اپنا تاج شہزادے کو پہنايا، سيف کمر سے باندهی، قلم دان آگے رکھا، سلطنت کا مالک کیا۔ یہ جہيز ديا اور آپ اسی روز سے دنیا کو لات مار کر قناعت گزیں ہوا۔ سب سے کنارہ کش ہو کر گوشہ نشیں ہوا۔ نوشاه نے ان اشرفیوں کو لله دیا اور طعام وليمہ تقسیم کیا۔
331
دوسرے روز شاه مشرق اور نگ فلک پر جلوہ افروز ہوا، آرام دل نے تخت پر جلوس فرمایا اور صنوبر کے بھائی اپنے سالے کو جو بہت صغير سن تھا، گود میں بٹھایا۔ امورات مملكت بہ مشوره اراکین سلطنت بہ حسن و خوبی انجام پانے لگے۔ بناء ظلم و ستم منہدم ہوئی، لوگ بہ آسائش رہنے لگے، ہزار طرح کے آرام پانے لگے۔ غرض شہنشاه کشورستان آرام دل جان جہان دونوں شہزادیوں کے ساتھ جشن میں مصروف ہوا۔ وطن جانا بالقوه رہا، مگر بالفعل موقوف ہوا۔
332
روانگی آرام دل سوئے وطن؛ طلسمی شیشے کے
جہاز پر سوار ہونا، شہزادہ سیاہ فام کے دام
گرفتار ہونا، اس ملعون کا توپ
مارنا، جہاز کو تباہی کے
گھاٹ اتارنا، شہزادیوں کا
تباه ہونا، پهر یہ عنایات
جامع المتفرقين بچھڑوں
کا ملنا اورم سیم قن
کا بیاہ ہونا
جہاز پر سوار ہونا، شہزادہ سیاہ فام کے دام
گرفتار ہونا، اس ملعون کا توپ
مارنا، جہاز کو تباہی کے
گھاٹ اتارنا، شہزادیوں کا
تباه ہونا، پهر یہ عنایات
جامع المتفرقين بچھڑوں
کا ملنا اورم سیم قن
کا بیاہ ہونا
شناوران قلزم معانی احوال غواصان بہ کف نیاورده گوہر مقصود، غریق بحر ناکامی، ناآشنائے زبان و سود لکھتے ہیں کہ ایک روز شہزادہ آرام دل باہم ملكہ حسن افروز اور صنوبر قلعے میں ثمن برج پر لب دریا بیٹها کیفیت تلاطم بحر امواج اور تماشائے پیچ تاب ورطہ و گرداب، ہوا کا زور، پانی کا شور دیکھ رہا تھا۔ شراب کے نشے میں ملکہ سے کہنے لگا "بیگم! تم نے کبھی پانی کے اندر جا کر سیر کی ہے؟ آبی جانوروں کے مکان، ان کے انڈے بچے، ان کا چلنا پھرنا، یہ کیفیت بھی دیکھی ہے؟"
ملکہ بولی "ہاں نئی لہر آئی، خوب دل میں سمائی۔ بھلا یہ تو فرمائیے انسان کا کام ہے کہ دریا کے اندر جائے اور سیر کر کے سلامت پھر آئے؟ حضرت ظل سبحانی کے سفینے میں البتہ سیر
333
کی ہے۔ خدا کی قدرت سے جانور کیا دریا میں ملک آباد ہیں۔ صاحب تخت و تاج، امير وزیر، محتاج ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔" شہزادے نے کہا "تم نے تو کتاب میں لکھا دیکھا ہے، اگر تمہیں کشتی پر سوار کر کے پانی کے اندر لے جائیں اور سب سير دکھائیں تو کچھ انعام دو گی؟"
ملکہ نے عرض کی "فی الواقع آب رواں کے دیکھنے سے آدمی کی عقل تیز ہوتی ہے۔ سیر دریا جنوں خیز، وحشت انگیز ہوتی ہے۔ اگر حضور کے ذہن مبارک میں کوئی بات آئی ہو، طبیعت لہرائی ہو تو عجب نہیں۔"
آرام دل نے فرمایا "ہاں اراده ہے کہ سفینہ آبگینہ بنواؤں اور چین تک چین سے اسی پر سیر کرتا ہوا جاؤں۔ پھر زمرد محل میں آ کر سفید دیو کو بلایا، وہ آیا، شہزادے نے کہا "ایک جہاز چاہتا ہوں جس میں بالکل حلبی آئینے لگے ہوں اور کل کام کل سے نکلے۔ كل دبانے سے پانی کے اندر رواں ہو، جب ٹھہرائیں ٹھہر جائے۔ ذرا اشاره پائے، اوپر ابھر آئے، پھر جب پرزه دبائیں تہہ آب ہو جائے اور رواں ہو۔" وہ بولا "بہت خوب! كل زير قلعہ اس کا لنگر ہو گا، جیسا حضور سے ارشاد ہوا، ان شاء الله تعالی اس سے بہتر ہو گا۔" ديو تو یہ کہہ کر رخصت ہوا، شہزادے نے محمود کو مع فوج ملک خاندیس کی طرف کوچ کا حکم دیا اور فرمایا کہ ماوراء النہر میں بحر عمان کے کنارے ہمارے منتظر رہنا، کسی سے یہ حال نہ کہنا۔ اس نے حسب الارشاد سفر کا سامان کیا، شب کو سب افسروں کو حکم سنا دیا۔
جب ماه غواص محیط ظلمت ساحل مغرب میں ڈوبا اور مہر
334
آشنا بحر سپہر کنارہ مشرق سے تھرتھراتا نکلا، محمود لشکر لے کر مع خزانہ روانہ ہوا۔ ادهر جہاز بھی آ پہنچا۔
آرام دل نے دربار عام کیا، کیا خوب انتظام کیا کہ اپنے سالے کو سسرے کی جگہ اورنگ نشیں کر کے تاج بخشا، خراج معاف کیا، واقعی بڑا انصاف کیا۔ جب اس سے فرصت پائی شاه با خدا، گداے در خیرالورا صلے الله عليه وسلم کے پاس آیا، رخصت طلب کی۔ اس ولی نے بہ خوشی اجازت دی۔ ملكہ حسن افروز نے وہیں کہا کہ حضرت انہیں منع کیجیے، دریا کی راه جانے نہ دیجیے۔ سنی ہوں ایک جہاز آیا ہے، خدا جانے کہاں سے منگوایا ہے، کس نے بھیجا ہے، کون لايا ہے۔ وہ پانی کے اندر چلتا ہے، ہوا سے کچھ سروکار نہیں۔ باد موافق کا مخالف پانی کے اندر ڈوب کر چلتا ہے، عقل مقتضی نہیں کہ اس پر سوار ہوں، اجل سے ہمکنار ہوں، مفت جان گنوائیں، بیٹھے بٹھائے صدمے اٹھائیں۔ اور دیدہ و دانستہ سفينہ عمر، زورق زندگی کو ورطہ ہلاکت میں ڈبونا، زبردستی جان کھونا کہاں آیا ہے؟ کوئی حدیث کوئی آیت ہے؟ بلكہ ولا تلقوا بايد بیكم الى التھلكته خدا نے بھی فرمایا ہے۔
شہزادے نے کہا کہ دریا میں فتنہ انگیز ہوا ہے، اكثر
فساد اسی سے ہوا ہے، جب بقول تمہارے اس جہاز کو ہوا سے علاقہ نہیں تو پھر کچھ پروا نہیں، یوں تقدیر کا علاقہ جدا ہے ، اس میں گفتگو کیا ہے، ان الله على كل شی قدير ہر چیز پر قادر خدا ہے، ورنہ ذرا سوچو تو ایسا مرکب بھی کہیں غرق ہوتا ہے؟ پانی میں جانے، کل کے جہاز اور بادبانی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر جہاز پر تشریف لایا۔ شاه داراب نے ملکہ کو سمجھایا اور فرمایا کہ صاحب زادی ہم مجبور ہیں، وہ مختار ہیں۔
335
بہ۔خدا فرقت گوارا نہیں، مگر مشیت ایزدی سے چارہ نہیں۔ کیا کریں ناچار ہیں۔ لازم ہے کہ تم بھی ان کا حکم بجا لاؤ، جہاں جس طرح لے جائیں، بے تامل جاؤ، ضد نہ کرو، ذرا سی بات پر نہ اڑو۔ شوہر کی عدول حکمی میں خدا اور رسول صلى الله عليه وآله وسلم کی نافرمانی ہے۔ وہ اگر آگ میں جھونک دیں اسے گل زار جانو، یہ تو بھلا پانی ہے۔ لو بسم الله تيار ہو، وہ منتظر ہوں گے۔ چلو جہاز پر سوار ہو۔ یہ کہہ کر صنوبر کو ساتھ لیا، ملكہ حسن افروز کا ہاتھ میں ہاتھ لیا اور خضر دروازے نکل کر لب دریا تشریف لائے۔ ملكہ نے دیکھا شہزادہ سوار ہو چكا، صنوبر کا ہاتھ پکڑ مع قمرالنسا اور دل ربا چند خواصوں کو ہم راه لے جہاز پر پہنچی اور فرمایا "بسم الله مجريہا و مر سہا" جب سب سوار ہوئے، جہاں پناه بہت اشک بار ہوئے۔ عورتوں نے رو رو کے کہرام مچایا، پھر سب نے دعائیں دے کر دور سے بلائیں لیں۔ ملکہ نے صنوبر سے کہا "خدا خیر کرے! شگون بد ہوا، قدم رکھتے ہی کان میں رونے کی آواز آئی، یقین جانو جہاز کی سواری شہزادے کو ناساز آئی۔ بے طور دریائے الم موجزن ہے، رہ رہ کے جوش میں آتا ہے، ہر چند سنبھالتی ہوں، لیکن لطمه اندوه و غم میں خود بہ خود دل ڈوبا جاتا ہے۔" میر وزیر علی صبا
گردش سے آسمان کی چکرا رہے ہیں ہم
کشتی ہماری گھوم رہی ہے بھنور کے ساتھ
غرض شہزادہ آرام دل تو مصروف سير و تماشا تھا، مگر ملكہ حسن افروز غواص گرداب تفکر، صنوبر غریق ورطہ تحیر، یہ دونوں بحر غم والم کی آشنا۔ دو گھڑی جہاز اوپر رہا، پھر یکایک پانی کے اندر ڈوب کر
336
رواں ہوا۔ ڈوبتے ہی ایک ماه منور مہر درخشاں کی طرح چمکتا ہوا نمایاں ہوا۔ بلور کی چھت میں ایک حلبی آئینہ مدور آفتاب سے زیاده درخشاں ہوا۔ جہاز کی یہ قطع تھی۔ بہت عریض اور طويل، سر بلندی سب جہازوں سے دو چند، دیواریں سقف بلور کے نور کے سانچے میں ڈھلی ہوئیں، شیشہ چار انگل کا دل دار، جہاز بالكل كل دار نیچے
صندل کی تختہ بندی، لوہا نام کو نہیں، تمام نقرئی اور طلائی کام، اندر متعدد کمرے سجے سجائے، فرش فروش سے آراستہ، شیشہ آلات پیراستہ، دن کو طلسم سے مہر درخشاں روشن، رات کو شمع ہائے مومی اور کافوری کی روشنی سے انجمن کا جوبن۔ ہر ایک مکان میں علیحدہ علیحدہ پسند تکیے لگے ہوئے۔ چھپر کھٹ پھولوں سے بسے ہوئے، پردے چھوٹے ہوئے، اونچے کیسے ہوئے۔ ہر چھپر کھٹ میں پنکھا اس قسم کا کہ جب تک شہزادہ آرام کرے خود بہ خود اس کو حرکت ر ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا سے دل کو فرحت رہے۔ گل دستوں میں نئے نئے رنگ کے گل بوٹے جن کو باد خزاں کی ہوا نہ لگے، کبھی جھڑے نہ ٹوٹے۔ پر ستان کے میوے کشتیوں میں، مئے انگور شیشوں میں، ہر کمرا سجا ہوا، ایک سے ایک اچھا سامان عیش ہر جگہ مہیا۔ صحن کا طول نہایت معقول، بیچ میں مختصر سا خانہ باغ، روش پٹری نازک، نہر جاری، فوارے سبک، کیاریاں قطع دار، ان میں موتیا، چنبیلی، سوسن، کیتکی، موگرا، مدن، بان، نرگس، لالہ، نافرمان، گل صد برگ کی بہار۔ ہر چمن کے گرد چنبے کے نرگس دانوں میں میوه دار درخت سراسر، بلندی میں قد خوباں کے برابر جن کا پھل تصور سے منہ میں آئے، جانور قصد سے لب تک آ کر کباب ہو جائے۔ سر شاخ ہر غنچہ و گل بلبل ہزار داستان کا جھوم جھوم کر چہکنا، پھولوں کی خوش بو سے تمام جہاز کا مہكنا، لب جو سرو
337
اور شمشاد کے نئے نئے پودوں پر قمری کی صدا، فاخته کی کوکو، چھوٹے چھوٹے پیوندی آم کے درختوں پر مور کا شور کوئل کی توتو۔ زمین میں سیپ کا فرش، اس کے ہر وصل میں سبزۂ نو خیز، نرگس دانوں اور کیاریوں کی مٹی عنبر بیز۔ پری زاد مرد سيم بر، زریں کمر زمردیں بال، جہاز کے موکل سرگرم کار۔ شہزاده آرام دل جب یہاں سے روانہ ہوا فلک تفرقہ انداز کو جہاز کی سواری دریا کی سیر کا بہانہ ہوا، یعنی اس نافرجام شہزادہ سياه فام کو یہ خبر پہنچی کہ آرام دل مع پری و شان حور شمائل تری کی راہ اسی طرف سے بہ سواری جہاز اپنے وطن کو جاتا ہے۔ جہاز شیشے کا ہے، پانی کے اندر چلتا ہے، نہایت سریع السیر ہے، کل دبانے سے اوپر نكلتا ہے۔ یہ سنتے ہی زیر قلعہ آیا، کمال خوش ہوا۔ پیر گردوں نے فریب دیا، دام مکر پھیلایا۔ شہزادہ سیاہ فام نے اپنے اہتمام سے بہت بڑا جال فولادی دریا میں ڈلوایا اور منتظر وقت رہا۔ شام کو جال ڈالا اس کے دوسرے روز قریب دوپہر طرفہ ماجرا رو بکار ہوا کہ گردوں دام صیاد میں گرفتار ہوا۔ جہاز جو رکا، کار پردازوں نے کل دبائی، جہاز سطح آب پر آیا، مگر فولادی جال میں الجھ گیا، مطلق نہ چل سکا۔ یہ لوگ مستفسر حال ہوئے، جہاز روکنے کا سبب پوچھنے لگے۔ ادھر قلعے پر مورچہ بندی تھی، جب جہاز توپ کی زد پر آیا اس ملعون نے شست باندھ کر نشانک لگایا۔ گولہ آتے ہی چھت پر لگا، اس نے کام تمام کیا، جہاز کو تباہی کے گھاٹ اتارا، بیٹھے بٹھائے دشمن نے میدان مارا، جہاز کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ گئے، پاش پاش ہوگیا۔ کسی کو خبر نہ رہی، کون کدھر گیا، کون جیتا رہا، کون مر گیا: صبا
ہر گھڑی اک طرفہ دکھلاتا ہے رنگ
واہ کیا نیرنگ ہیں افلاک کے
338
ناگاه اس وقت سیم تن پری کا وہاں گزر ہوا؛ اس نے جو یہ کیفیت دیکھی، ملکہ حسن افروز اور قمرالنسا کو کہ یہ دونوں بے ہوش، یک دگر ہم آغوش، قريب الہلاکت، عنقریب غرق ہوا چاہتی ہیں، اٹھا کر اپنے تخت پر سوار کیا اور لے اڑی۔ چند ساعت میں اپنے باپ کے پاس جو کوه قاف کا شہنشاہ معظم تھا، جا اتارا اور جلد جلد عود قاری، عنبر سارا انگیٹھیوں میں سلگا کر ان دونوں کی برودت اور خنکی کو دفع کیا۔ کامل کے بعد ملکہ کو ہوش آیا؟ ایک پیر مرد، باریش سفید، تاج خسروی بر سر، عباے پر زر در بر اور ایک پری نازنین کو اپنے بالیں پر موجود پایا۔ گھبرا کر اٹھ بیٹھی، حیرت سے ایک ایک کا منہ تکنے لگی۔
سيم تن پری نے ملکہ کو بہت ادب سے سلام کیا اور اپنے باپ سے یہ کلام کیا کہ حضور یہ شاه فارس آدم زاد کی صاحب زادی ہیں اور شہزادہ آرام دل پسر شاہ چین کی شہزادی ہیں۔
یہ سن کر شاه قاف نے بڑی تعظیم کی، ہاتھ پر بوسہ ديا، اور کہا کہ صاحب زادی، زہے نصیب ہمارے کے تم نے ہمارے غریب خانے کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے فردوس بریں فرمایا! اور خوشا طالع ہمارے کہ ہم نے تم کو دیکھا! پھر سيم تن سے کہا کہ ان کو گلستان ازم میں لے جاؤ، وہاں کی سیر دکھاؤ۔ ملکہ اس سليمان ثانی کے اخلاق دیکھ کر ششدر تھی، پری کی محبت اور خاطر داری سے متحیر تھی۔ سیم تن پری ملکہ کو گلزار ارم میں لے گئی۔
سبحان الله! عجب باغ تھا کہ اگر اس کے ایک تختے کی
تعریف صد ہزار تختہ کاغذ پر یہ خط ریحان لکھوں تو عقل سے دور ہے، مگر حکماء کا دستور ہے کہ "مالا يدرك كلہ لا يترك كلہ" اس واسطے مشتی نمونہ از خروارے کچھ مختصر لکھنا ضرور ہے
339
کہ روش پٹری بلور کی، نہر سراسر نور کی، درخت جواہرات کے، جڑ مونگے کی، ٹہنیاں پکھراج کی، پتے زمرد کے، پھل یاقوت کے۔ اکثر درختوں میں مثل خوشہ انگور لعلوں کا گچھا اور تاک میں مروارید کلاں بيضہ کبوتر سے دو چنداں، درختوں پر طیور قدرت حق کا ظہور۔ طوطی کے زمرد کے پر، یاقوت کی منقار، گفتگو میں سحر بیان۔ لعل حقيقتا لعل، مگر خوش الحان۔ باره دری عالی شان، چاروں طرف دیواریں، ہیرے کے پتھر، یاقوت کی اینٹیں، اندر پکھراج کی صحنچیاں، زبرجد کے دالان۔ یہ سب کچھ سیر تھی، مگر ملکہ کی حالت غیر تھی۔ جب سیم تن پری نے ملکہ حسن افروز کو دالان میں لے جا کر بٹھایا، ملکہ نے آب ديده ہو کر پوچھا کہ صاحب آپ کا نام کیا ہے اور یہ باغ ارم کس کا ہے؟ سیم تن پری نے دست بستہ عرض کی، "لونڈی کو سیم تن کہتے ہیں اور یہ باغ اسی کنیز کا ہے۔ اس میں والد ماجد رہتے ہیں۔"
ملکہ پری کا نام سنتے ہی آرام دل کے تصور میں زار زار رونے لگی۔ پہلے تو چپکی بیٹھی رویا کی، بے قراری کو ضبط کرتی رہی، مگر جب بہت دم گھبرایا اور ہجوم غم سے کلیجا منہ کو آیا تو ہائے شہزادہ کہه کر پری کے گلے سے چمٹ گئی اور چیخ مار کر رونے لگی۔ ایسی روئی کہ غش آگیا۔ پری نے ہاتھوں پر روکا، سنبھالا۔ اس کی بھی آنکھ سے بے اختیار آنسو جاری تھے، بے خودی کے عالم طاری تھے۔ دیر تک یہی کیفیت رہی، دونوں کو غش کی حالت رہی۔ آخر سیم تن پری نے اپنے حواس درست کر کے ملکہ کو لخلخه سونگھایا، بید مشک چھڑکا؛ کچھ افاقہ ہوا، ذرا ہوش آیا۔ سیم تن نے تسکین کی باتوں سے سمجھایا، خاطر آشفتہ کو ہر چند بہلایا، مگر:
340
رونا آس سے کیوں کر چھوٹے
جس سے ایسا دل بر چھوٹے
پھر پری نے عرض کی کہ ذرا حضور دل کو تسکین دیجیے، تھوڑی دير باغ کی سیر کیجیے۔ دیکھیے میں ایک آن میں گئی اور آئی اور دو گھڑی میں آپ کے پاس شہزادے کو لائی۔ یہ کہہ کر سیم تن تخت پر سوار ہوئی، ملكہ كو وہیں روتے چھوڑا اور آپ آرام دل کی تلاش میں فلک سیار ہوئی۔
اب سنیے کہ جب جہاز تباه ہوا تھا، شہزادہ ایک تختے کے سہارے بہتا زار زار روتا اور یہ کہتا چلا جاتا تھا: صبا
ساحل دکھائی دیتا ہے مجھ کو نہ تھاه ہے
دریائے عشق میں مری کشتی تباه ہے
ملکہ حسن افروز اور صنوبر کے فراق نے شہزادے کو مردے سے بدتر کر دیا، تفرقہ انداز چرخ کج نہاد نے مجموعہ انبساط اور گل دستہ نشاط کو اک آن میں ابتر کر دیا۔ آرام دل نے سوچا کہ دریا ناپیدا کنار ہے، اب اس دریا کے ذخار سے نکلنا دشوار ہے، ہر دم اجل ہم کنار ہے۔ مانا کہ بچے اور کسی طرح نکلے بھی تو کیا! جب اپنے آرام دل اور دل بر اس طرح دنیا سے اٹھ گئے اور انہوں نے ہمارے واسطے زندگی میں کیسی کیسی جفائیں اٹھائیں، آخر اپنی جانیں گنوائیں تو پھر ہم جی کے کیا کریں گے؟ یہ سمجھ کر مرنے پر مستعد ہوا اور یہ شعر پڑھ کر تختہ چھوڑ دیا: رند
ہو اب رنج و غم کا عدم قافلہ
ہماری بھی دنیا سے رحلت ہوئی
ملکہ سیم تن ابھی قریب پہنچنے نہ پائی تھی کہ اس نے دور سے شہزادے کو ڈوبتے دیکھا، گھبرا کر جھپٹی اور آتے ہی جلدی سے باہر نکالا۔ شہزادہ بےہوش ہو گیا تھا، پری شہزادے