جاسم محمد
محفلین
سرچ انجن 192 کے مطابق وزیر اعظم کی برطانیہ میں 6 جائیدادیں ہیں: جسٹس فائز عیسی
جسٹس فائز عیسی کی جانب سے ایک تازہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جس سرچ انجن سے ان کے خاندان کی جائیداد چیک کی گئیں اس کے مطابق وزیر اعظم سمیت کئی حکومتی اراکین کی بھی بیرون ممالک جائیدادیں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو
بدھ 17 جون 2020 0:00
اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کے الزام پر مبنی ریفرنس کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک اور درخواست عدالت میں جمع کرا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم سمیت کئی حکومتی ارکان کی بیرون ممالک جائیدادیں ہیں۔
جسٹس فائز عیسی نے اس تازہ درخواست میں دس رکنی بنچ سے درخواست کی ہے کہ اس تازہ درخواست کو بھی مرکزی کیس کا حصہ بنایا جائے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کی اور ان کے خاندان کے بارے معلومات غیرقانونی طریقے سے اکٹھی کی گئیں ہیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جس سرچ انجن سے ان کے خاندان کی جائیداد چیک کی گئیں اس کے مطابق وزیر اعظم سمیت کئی حکومتی ارکان کی بھی بیرون ممالک جائیدادیں ہیں۔ ’سرچ انجن 192.com کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی برطانیہ میں چھ جائیدادیں ہیں۔ اس کے علاوہ شہزاد اکبر کی پانچ، زلفی بخاری کی سات، عثمان ڈار کی تین اور فردوس عاشق اعوان کی ایک جائیداد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین کی ایک اور پرویز مشرف کی بھی دو جائیدادیں ہیں۔‘
192 برطانیہ میں کاروبار اور جائیداوں کی ایک کھلی ڈائریکٹری ہے جسے ہر کوئی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
جسٹس فائز عیسی کے مطابق ایسٹ ریکوری یونٹ اور اس کا چیئرمین دونوں غیر قانونی طریقے سے بنائے گئے لہذا درخواست میں کہا گیا ہے کہ یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر اور قانونی ماہر ضیا المطفی کے خلاف بینکنگ آرڈیننس اور متعلقہ قوانین کے مطابق کاروائی کی جائے اور ان سے نتخواہ سمیت تمام مراعات واپس لی جائیں۔
انہوں نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے خاتمے کی بھی استدعا کی ہے۔
وزیر اعظم اور دیگر سرکاری اہلکاروں پر الزامات پر ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پرعدالت عظمیٰ کا فل کورٹ آج کل سماعت کررہا ہے۔
جسٹس فائز عیسی کی جانب سے ایک تازہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جس سرچ انجن سے ان کے خاندان کی جائیداد چیک کی گئیں اس کے مطابق وزیر اعظم سمیت کئی حکومتی اراکین کی بھی بیرون ممالک جائیدادیں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو
بدھ 17 جون 2020 0:00
اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر نہ کرنے کے الزام پر مبنی ریفرنس کا سامنا کرنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک اور درخواست عدالت میں جمع کرا دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم سمیت کئی حکومتی ارکان کی بیرون ممالک جائیدادیں ہیں۔
جسٹس فائز عیسی نے اس تازہ درخواست میں دس رکنی بنچ سے درخواست کی ہے کہ اس تازہ درخواست کو بھی مرکزی کیس کا حصہ بنایا جائے۔ ان کا موقف تھا کہ ان کی اور ان کے خاندان کے بارے معلومات غیرقانونی طریقے سے اکٹھی کی گئیں ہیں۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جس سرچ انجن سے ان کے خاندان کی جائیداد چیک کی گئیں اس کے مطابق وزیر اعظم سمیت کئی حکومتی ارکان کی بھی بیرون ممالک جائیدادیں ہیں۔ ’سرچ انجن 192.com کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی برطانیہ میں چھ جائیدادیں ہیں۔ اس کے علاوہ شہزاد اکبر کی پانچ، زلفی بخاری کی سات، عثمان ڈار کی تین اور فردوس عاشق اعوان کی ایک جائیداد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین کی ایک اور پرویز مشرف کی بھی دو جائیدادیں ہیں۔‘
192 برطانیہ میں کاروبار اور جائیداوں کی ایک کھلی ڈائریکٹری ہے جسے ہر کوئی رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
جسٹس فائز عیسی کے مطابق ایسٹ ریکوری یونٹ اور اس کا چیئرمین دونوں غیر قانونی طریقے سے بنائے گئے لہذا درخواست میں کہا گیا ہے کہ یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر اور قانونی ماہر ضیا المطفی کے خلاف بینکنگ آرڈیننس اور متعلقہ قوانین کے مطابق کاروائی کی جائے اور ان سے نتخواہ سمیت تمام مراعات واپس لی جائیں۔
انہوں نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے خاتمے کی بھی استدعا کی ہے۔
وزیر اعظم اور دیگر سرکاری اہلکاروں پر الزامات پر ردعمل ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پرعدالت عظمیٰ کا فل کورٹ آج کل سماعت کررہا ہے۔