سرکاری اشتہارات (لفافے) نہ ملنے پر ڈان اخبارعدالت چلا گیا

جاسم محمد

محفلین
ڈان نے وفاقی حکومت کی جانب سے اشتہارات روکنے پر عدالت سے رجوع کرلیا
ویب ڈیسکاپ ڈیٹ 27 فروری 2020
5e57eaf55323c.jpg


پاکستان ہیرالڈ پبلیکیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ نے وفاقی حکومت کی جانب سے روزنامہ ڈان اخبار کے اشتہارات روکنے کا اقدام سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔

پی ایچ پی ایل اور اس کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) حمید ہارون کی جانب سے ایڈووکیٹ منیر اے ملک نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں سیکریٹری اطلاعات و نشریات کے ذریعے وفاق اور وزارت اطلاعات کے پرنسپل انفارمیشن افسر کے ذریعے پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جنوری 2020 سے وفاقی حکومت نے اچانک ڈان کو اشتہارات دینا بند کر دیے اور پبلیکیشن کو اس کی کوئی وجہ سے آگاہ نہیں کیا گیا، حالانکہ دہائیوں سے ڈان کو اشتہارات دیے جارہے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ڈان کو سرکاری اشتہارات دینے پر پابندی کا اقدام بدنیتی پر مبنی ہے، درحقیقت ڈان کو اپنے مختلف ایڈیشنز میں ان آرا اور رپورٹس شائع کرنے پر سزا دی جارہی ہے جو وفاقی حکومت کے اعلیٰ حکام کی آرا اور رپورٹس کے موافق نہیں تھیں۔'

درخواست گزار نے کہا کہ 'ڈان کے اشتہارات روکنا اور پابندی عائد کرنا اخبار کے آزادی صحافت کے بنیادی حق پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔'

درخواست میں کہا گیا کہ رپورٹرز کو حالیہ بریفنگ کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ڈان پر نومبر 2018 میں ان کے چین کے پہلے دورے کے دوران 'جعلی خبریں' شائع کرنے کا الزام لگایا، حالانکہ الزام کے برعکس ایسا کچھ نہیں ہوا۔

درخواست کے مطابق 'اسی طرح کی خبریں اور تبصرے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوئے جنہیں سرکاری اشتہارات دیے جارہے ہیں بلکہ حقیقتاً ڈان کے اشتہارات روکنے کی وجہ سے ان کے اشتہارات میں اضافہ ہوا ہے۔'

اس میں مزید کہا گیا کہ ڈان 'میٹروپولیٹن اے' کٹیگری کا اخبار ہے اور سب سے زیادہ شائع ہونے والے اخبارات میں شمار ہوتا ہے، اخبار کی سرکولیشن کے اعداد و شمار حکومت کے آڈٹ بیورو آف سرکولیشن سے بھی تصدیق شدہ ہیں۔'

درخواست میں کہا گیا کہ 'ڈان اخبار کو اس کی نیوز کوریج، تبصروں اور فیچرز کے معیار اور معروضیت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پڑھا جاتا ہے، اخبار کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہے جو ایک وجہ ہے کہ عوام غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور تجزیوں کے باعث اسے پسند کرتے ہیں۔'

درخواست کے مطابق اخبار کی ادارتی ٹیم آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دیتی ہے جس کے امور میں انتظامیہ اور مالکان کا کوئی عمل دخل نہیں، تاہم اخبار اس کی چھپائی کی لاگت سے کم قیمت میں فروخت کیا جاتا ہے اور اشتہارات کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے اس کی قیمت فروخت کو 'سبسیڈائزڈ' کیا جاتا ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ 'وفاقی حکومت اشتہارات کا بڑا ذریعہ ہے اور وفاقی حکومت کے ماتحت وزارتیں، ڈویژنز اور اداروں کی جانب سے عوامی سطح کے نوٹسز اور آگاہی مہم جاری کیے جاتے ہیں۔'

اس میں کہا گیا کہ 'پی آئی ڈی کو چاہیے کہ وہ پرنٹ میڈیا کو سرکاری اشتہارات جاری کرنے میں انصاف سے کام لے اور اپنی من مانی اور تعصب کا مظاہرہ نہ کرے۔'

درخواست میں کہا گیا کہ 'پرنٹ میڈیا کو اشتہار جاری کرنا اور مختلف اخبارات کے لیے اس کی تقسیم کوئی مہربانی نہیں ہے جو حکومت جس پر بھی اور جس بھی وجہ سے کرے، جبکہ حکومت کا یہ اقدام آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز 4، 9، 18، 19 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔'

درخواست گزار کے مطابق سرکاری اشتہارات نہ ملنے سے اخبار کو مجبوراً اس کی قیمت فروخت بڑھانے پڑی گی جس کی وجہ سے اس کی سرکولیشن بُری طرح اثر پڑے گا۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ حکومت کا یہ اقدام غیر آئینی قرار دے اور اسے اخبارات کو اسی طرح اشتہارات جاری کرنے کا حکم دے جس طرح دسمبر 2019 اور اس سے قبل جاری کیے جارہے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
درخواست میں کہا گیا کہ رپورٹرز کو حالیہ بریفنگ کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے ڈان پر نومبر 2018 میں ان کے چین کے پہلے دورے کے دوران 'جعلی خبریں' شائع کرنے کا الزام لگایا، حالانکہ الزام کے برعکس ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ڈان اخبار 2020 میں بھی حکومت سے متعلق جھوٹی خبریں شائع کرنے سے باز نہیں آیا۔ اور پھر کس ڈھٹائی سے سارا الزام حکومت پر لگا رہا ہے کہ اس نے بدنیتی سے ڈان اخبار کے سرکاری اشتہارات (لفافے) روکے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ڈان فی زمانہ پاکستان میں انگریزی زبان کا مقبول ترین اخبار ہے۔ سرکاری اشتہارات دیگر اخبارات کو مل رہے ہیں تو اس مقبول ترین اخبار کے لیے ان اشتہارات کی بندش کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔ عدالت کا فیصلہ شاید ڈان اخبار کے حق میں ہی جائے گا وگرنہ شاید دیگر اخبارات کے لیے بھی سرکاری اشتہارات بند کرنے پڑیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈان فی زمانہ پاکستان میں انگریزی زبان کا مقبول ترین اخبار ہے۔ سرکاری اشتہارات دیگر اخبارات کو مل رہے ہیں تو اس مقبول ترین اخبار کے لیے ان اشتہارات کی بندش کی کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔ عدالت کا فیصلہ شاید ڈان اخبار کے حق میں ہی جائے گا وگرنہ شاید دیگر اخبارات کے لیے بھی سرکاری اشتہارات بند کرنے پڑیں گے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ حکومت کا یہ اقدام غیر آئینی قرار دے اور اسے اخبارات کو اسی طرح اشتہارات جاری کرنے کا حکم دے جس طرح دسمبر 2019 اور اس سے قبل جاری کیے جارہے تھے۔
تبدیلی تبدیلی کا شور مچانے والوں کے خلاف جونہی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہ عدالت چلے جاتے ہیں۔ اور یوں جب عدالتی مداخلت سے تبدیلی رک جاتی ہے تو اعتراض کرتے ہیں کہ حکومت تبدیلی نہ لا سکی۔ اسٹیٹس کو کی محافظ عدالتوں کے ہوتے ہوئے کونسی تبدیلی واقع ہوگی؟
 

فرقان احمد

محفلین
تبدیلی تبدیلی کا شور مچانے والوں کے خلاف جونہی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہ عدالت چلے جاتے ہیں۔ اور یوں جب عدالتی مداخلت سے تبدیلی رک جاتی ہے تو اعتراض کرتے ہیں کہ حکومت تبدیلی نہ لا سکی۔ اسٹیٹس کو کی محافظ عدالتوں کے ہوتے ہوئے کونسی تبدیلی واقع ہوگی؟
یعنی تبدیلی کا مطلب یہ ہوا جو آواز مخالفت میں بلند ہو، اس کو نظر بند کر دیا جائے، اگر وہ جیتا جاگتا فرد ہو، یا اشتہارات بند کر دیے جائیں، اگر وہ نیوز پیپر ہو۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
یعنی تبدیلی کا مطلب یہ ہوا جو آواز مخالفت میں بند ہو، اس کو نظر بند کر دیا جائے، اگر وہ جیتا جاگتا فرد ہو، یا اشتہارات بند کر دیے جائیں، اگر وہ نیوز پیپر ہو۔
پاکستان میں عدالتوں کو دو فریقین کے بیچ انصاف کیلئے نہیں بلکہ جوڈیشل ایکٹویزم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عدالت کا کام تنازعات کا فریق بننا نہیں بلکہ غیرجانبدار رہتے ہوئے ان تنازعات کو دور کرنا ہے۔
مثال کے طور پر یہ حکومت آرمی چیف کو ایکسٹینشن دیتی ہے۔ اس میں عدالت کا کوکچھ لینا دینا نہیں۔ ایک عام شہری اس حکومتی اقدام کے خلاف عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کر دیتا ہے اور اگلے ہی دن وہ ایکسٹینشن معطل کر دیا جاتا ہے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران نہ مدعی پیش ہوا، نہ ہی دفاع میں آرمی چیف پیش ہوئے۔ اس کے باوجود کئی دن تک ایک مضحکہ خیز کینگرو کورٹ لگا کر آرمی چیف کو 6 ماہ کی ایکسٹینشن دے دی گئی۔ نیز فیصلہ میں حکومت و پارلیمان کو پابند کیا گیا کہ وہ اس حوالہ سے قانون سازی کرے۔ ذرا اندازہ کریں کہ پارلیمان جو آئینی طور پر سپریم کورٹ سے اوپر ہے کو سپریم کورٹ حکم دے رہی ہے کہ فلاں فلاں قانون سازی کر لیں۔ یہ سب ڈرامے اور تماشے ایک بانانا رپبلک میں ہی ممکن ہیں۔
 
ایک فاشسٹ حکومت جس نے مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا۔ اس نے مخالف پارٹی کے رہنماؤں کو پکڑ کر بلاجواز جیل میں ڈالا، جس نے پریس کی آزادی کا مکمل طور پر گلا گھونٹ دیا۔ جس نے اپنی مخالفت میں آنے والے عدالتی فیصلوں پر ججوں کو نشانہ بنایا۔ اس فاشسٹ حکومت کا تبدیلی کا نعرہ بھی اس کے یو ٹرنوں کی مانند دھوکہ ہے۔ اس کا ریاست مدینہ کا نعرہ کھلا دھوکہ ہے۔ اس کے وزراء کروڑوں روپے آٹے چینی، ادویات و دیگر اشیائے ضرورت کی خرد برد کرکے بناچکے، پریس اور سوشل میڈیا کی جد وجہد اس کے خلاف ایک جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک فاشسٹ حکومت جس نے مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا۔ اس نے مخالف پارٹی کے رہنماؤں کو پکڑ کر بلاجواز جیل میں ڈالا، جس نے پریس کی آزادی کا مکمل طور پر گلا گھونٹ دیا۔ جس نے اپنی مخالفت میں آنے والے عدالتی فیصلوں پر ججوں کو نشانہ بنایا۔ اس فاشسٹ حکومت کا تبدیلی کا نعرہ بھی اس کے یو ٹرنوں کی مانند دھوکہ ہے۔ اس کا ریاست مدینہ کا نعرہ کھلا دھوکہ ہے۔ اس کے وزراء کروڑوں روپے آٹے چینی، ادویات و دیگر اشیائے ضرورت کی خرد برد کرکے بناچکے، پریس اور سوشل میڈیا کی جد وجہد اس کے خلاف ایک جہاد کی حیثیت رکھتی ہے۔
اتنی فاشسٹ حکومت ہے کہ تمام مخالفین عدالتوں سے ضمانتیں کروا کر باہر آگئے ہیں۔ جہاں ہر ٹی وی چینل پر روزانہ پرائم ٹائم میں مخالف جماعتوں کے نمائندے بلوا کر حکومت ختم کرکے اٹھا جاتا ہے۔ جہاں آٹا چینی بحران کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران مخالف جماعتوں کے گوداموں سے چھپایا گیا مال نکلتا ہے۔ جہاں بیروکریسی آج بھی پرانے مافیاز کی غلام ہے اور حکومتی اقدامات کو اگنور کر رہی ہے۔ جہاں میڈیا روزانہ حکومت کے خلاف جعلی خبریں بھی چھاپتا ہے اور پھر سرکاری اشتہارات نہ ملنے پر حکومتی بدنیتی کا الزام بھی لگاتا ہے۔
کاش اتنی فیشسٹ حکومت ایوب، بھٹو، ضیا، بینظیر، نواز شریف، مشرف، زرداری ادوار میں ہوتی تو ان سب کے سیاسی مخالفین قبروں میں رہنے کی بجائے آج پاکستان سے بھاگ کر لندن میں اپنا علاج کروا رہے ہوتے :)
 
آخری تدوین:
کہ تمام مخالفین عدالتوں سے ضمانتیں کروا کر باہر آگئے ہیں۔

ضمانتیں اس لیے ہورہی ہیں کہ حکومت نے نیب کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگائے اور مقدمہ بنائے بغیر، تحقیقات کیے بغیر محض الزام کی بناء پر سال سال بھر کے لیے جیلوں میں قید تنہائی کاٹنے پر مجبور کردیا۔ سال بھر گزرنے کے باوجود مقدمہ قائم نہ ہوسکا۔
 
جہاں ہر ٹی وی چینل پر روزانہ پرائم ٹائم میں مخالف جماعتوں کے نمائندے بلوا کر حکومت ختم کرکے اٹھا جاتا ہے۔

پہلے اپنے مخالف جرنلسٹوں کو چینلوں سے نکلوایا گیا۔ بعد میں دوسرے جرنلسٹوں نے مخالفت میں بولنا شروع کیا تو ان کی حالت خراب ہوگئی۔ اب اشتہارات کو ذریعہ بنایا جارہا ہے۔
 
تبدیلی تبدیلی کا شور مچانے والوں کے خلاف جونہی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہ عدالت چلے جاتے ہیں۔ اور یوں جب عدالتی مداخلت سے تبدیلی رک جاتی ہے تو اعتراض کرتے ہیں کہ حکومت تبدیلی نہ لا سکی۔ اسٹیٹس کو کی محافظ عدالتوں کے ہوتے ہوئے کونسی تبدیلی واقع ہوگی؟
واقعی! اپوزیشن کو نیب کے ذریعے قابو کرلیا، پریس کو اشتہارات کے ذریعے قابو کرلیا۔ عدالت قابو ہی نہیں آرہی ہے کیا کریں
 

فرقان احمد

محفلین
واقعی! اپوزیشن کو نیب کے ذریعے قابو کرلیا، پریس کو اشتہارات کے ذریعے قابو کرلیا۔ عدالت قابو ہی نہیں آرہی ہے کیا کریں
سر! اصل مسئلہ یہ لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا تبدیلی سرکار کی مخالفت پر کمر بستہ ہے۔ کوئی ادارہ اس وقت ان کی مکمل گرفت میں نہ ہے۔ اگر معاشی صورت حال سنبھل نہ سکی تو اس حکومت کو لڑھکنے سے شاید ہی کوئی روک پائے گا۔ عوامی غیظ و غضب کا سامنا کوئی قوت نہیں کر سکتی۔ بہتر ہو گا کہ گورننس کو درست کیا جائے اور معاشی اصلاحات کی جائیں؛ اس حوالے سے خان صاحب اب کسی حد تک متحرک ہوئے تاہم شاید دیر جیسی دیر ہو چکی۔ اب معاملہ مرغیوں، چوزوں اور گائے بھینسوں پر آ کر رکا ہے۔ ادھر جب اپنے یاروں دوستوں پر نیب کی تلوار چلنے لگی تو خان صاحب کی دوستیاں آڑے آ گئیں۔ یوں، بلا امتیاز احتساب کا نعرہ بھی ہوا میں تحلیل ہوا۔ اب یہ کوئی اور منجن اور چورن بیچیں گے؟ دیکھیے مگر، آخر کب تلک!
 

جاسم محمد

محفلین
ضمانتیں اس لیے ہورہی ہیں کہ حکومت نے نیب کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مخالفین پر جھوٹے الزامات لگائے اور مقدمہ بنائے بغیر، تحقیقات کیے بغیر محض الزام کی بناء پر سال سال بھر کے لیے جیلوں میں قید تنہائی کاٹنے پر مجبور کردیا۔ سال بھر گزرنے کے باوجود مقدمہ قائم نہ ہوسکا۔
یعنی کٹھ جوڑ شریف خاندان اور اسٹیبلشمنٹ کی طرح براہ راست عدلیہ سے کرنا چاہیے تھا۔ نیب سے کرکے بہت بڑی غلطی کر دی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے اپنے مخالف جرنلسٹوں کو چینلوں سے نکلوایا گیا۔ بعد میں دوسرے جرنلسٹوں نے مخالفت میں بولنا شروع کیا تو ان کی حالت خراب ہوگئی۔ اب اشتہارات کو ذریعہ بنایا جارہا ہے۔
کیا حامی کیا مخالف اب تو سارے ہی جرنلسٹ و لفافے یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیاز پر کھل کر حکومت کے خلاف تنقید کرتے ہیں۔ یہ دنیا کی انوکھی ترین فیشزم ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
رپورٹ کہاں گئی؟ بیس فیصد شوگر ملوں کے مالک ترین صاحب کو کلیر کردیا گیا!!!!
مہنگی چینی بحران پر ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ کسی کو کلیئر نہیں کیا گیا۔ شوگر ملیں صرف ترین خاندان کی ہی نہیں ہیں۔ شریف اور زرداری خاندان بھی اس کے بہت بڑے مالک ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بہتر ہو گا کہ گورننس کو درست کیا جائے اور معاشی اصلاحات کی جائیں؛ اس حوالے سے خان صاحب اب کسی حد تک متحرک ہوئے تاہم شاید دیر جیسی دیر ہو چکی۔
معاشی اصلاحات قانون سازی کی طرح کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اصل مسئلہ عمل درآمد کا ہے۔ خالی خزانہ بھرنے کیلئے جب حکومت ٹیکس لگاتی ہے تو عوام کہتی ہے مفرور قومی چوروں سے پیسہ ریکور کریں۔ اشرافیہ اور تاجروں پر جب ٹیکس لگاتی ہے تو وہ ہڑتال پر نکل جاتے ہیں یا حکومت کیخلاف مہنگائی کا بحران کھڑا کر دیتے ہیں۔ آخری حل یہی نکلتا ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک وغیرہ سے ڈھیر سارا قرضہ لے کر اس کی ادائیگی آئندہ آنے والی حکومتوں یعنی عوام پر ڈال کر وقتی ریلیف دے دیا جائے۔ جس سے ہوگا تو کچھ بھی نہیں بس عوام سمجھی گی کہ اب ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ اور جب اگلی حکومت میں ان قرضوں کی واپسی کی ذمہ داری سر پر پڑے گی تو وہی چیخ و پکار ہو گی جو اب ہے۔
 
Top