محسن وقار علی
محفلین
یہ کام تو آپ لوگ کیا کرتے ہیںیہ کوزہ کہین وہ والا تو نہیں کہ سمندر یا دریا کورے میں بند کر دیا ؟
یہ کام تو آپ لوگ کیا کرتے ہیںیہ کوزہ کہین وہ والا تو نہیں کہ سمندر یا دریا کورے میں بند کر دیا ؟
شکریہ استانی جی
زبدست شعر ہے بچےاس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کیا خوب فن ہے --
زبردست شیئرنگ محسن بھیا
شکریہ شمشاد بھائیخوب دھاگا ہے۔
لیکن بہت سے چاک تو بجلی سے چلنے والے نظر آ رہے ہیں جبکہ بجلی پاکستان میں عنقریب بالکل ہی مفقود ہو جائے گی۔
درست کہا آنی جیبہت زبردست ہنر ہے
واقعی اگر کسی کے اندر غرور کے ذرا سے بھی جراثیم پائے جاتے ہوں تو وہ یہ فن سیکھ لے پھر انشاءاللہ طبیعت میں غرور نہیں آسکتا
اتنے اچھے فن کی خوبصورت تصاویر کا شکریہ محسن وقار علی بیٹا
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کیا خوب فن ہے --
زبردست شیئرنگ محسن بھیا
جی بھیا ضرورزبردست شعر ہے بچے
یہ پوری غزل مل سکے گی
زبردستجی بھیا ضرور
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے
زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے
( عباس تابش )
جی بھیا ضرور
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے
زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے
( عباس تابش )
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے
اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
( عباس تابش )
اسی لیے تو میں اس دھاگے کو تبصرہ کرکے "اوپر" لے آیا تھاسر میں نے چیک کیا تو علم میں آیا کہ یہ کلام کوئی صاحب محفل پر پہلے ہی شیئر کر چکے ہیں 2007ء میں